حضرت مصلح موعود ؓ

لَمۡ نَجۡعَلۡ لَّہٗ مِنۡ قَبۡلُ سَمِیًّا کے معنی (خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرموده ۸؍جون۱۹۱۷ء) (قسط دوم۔ آخری)

(گذشتہ سے پیوستہ )بہت سے لوگوں نے اس آیت کے معنی کرنے میں ٹھوکر کھائی ہے اور

اس سے یہ سمجھا ہے کہ

یحییٰ نام پہلے کسی کو نہیں دیا گیا۔

یعنی آپ کا وہ نام رکھا گیا ہے جو آپ سے پہلے کسی نبی یا غیرنبی کا نہیں رکھا گیا حالانکہ یہ بات بِالبداہت تاریخ سے غلط ہے۔ لیکن اگر تسلیم بھی کر لیا جائے کہ آپ سے پہلے اِس نام کا کوئی انسان نہیں ہوا تو یہ کوئی ایسی بات نہیں جسے خداتعالیٰ ایک انعام کے طور پر بیان فرماتا۔پس لَمۡ نَجۡعَلۡ لَّہٗ مِنۡ قَبۡلُ سَمِیًّا کے یہ معنی کہ حضرت یحییٰؑ سے پہلے یحییٰ نام کا کوئی شخص نہیں گزرا غلط ہیں۔ درحقیقت اس کا یہ مطلب ہے کہ حضرت یحییٰؑ ایک بات میں بے مثل ہیں

یعنی اُن کو ایک ایسا کام سپرد کیا گیا ہے جو ان سے پہلے کسی اَور نبی کے سپرد نہیں کیا گیا۔یعنی ان کو ایک نبی کا نام دے کر اور اُس کا قائم مقام بنا کر بھیجا گیا تا کہ وہ کسی آئندہ آنے والے کے لئے رستہ صاف کریں اور دنیا کے لئے نمونہ ہوں۔

اب جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے متعلق ایک عیسائی کے ساتھ بحث ہو اور جب ہم اسے یوحنا کی آمد کی نظیر بتلا کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کی حقیقت بتائیں گے تو ضرور ہی وہ لاجواب ہو جائے گا اور سینکڑوں لوگ اِس بات کے ذریعہ جو حضرت یحییٰ کے ذریعہ مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت میں قائم ہوئی ہدایت پا سکیں گے۔

اِس آیت میں جو میں نے پڑھی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

یحییٰ میں ایک ایسا کمال رکھیں گے جس کے باعث وہ ایک عظیم الشان انسان کے لئے جو سب نبیوں کا موعود ہوگا بطور مثال پیش کیا جائے گا۔

بنی اسرائیل میں اِس سے قبل ایسی کوئی مثال موجود نہیں تھی ان میں یہ نمونہ قائم فرما دیا اور حضرت مسیحؑ نے فیصلہ کیا کہ ایلیاء جو آنے والا تھا وہ یوحنا ہی ہے (متی باب ۱۱ آیت ۱۴) جو اس کے رنگ میں آیا اُسی کو قبول کرو اب حضرت یحییٰ ایک نظیر بن گئے۔

اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ذکر ہوگا تو ضرور ہے کہ حضرت یحییٰ ؑکو دلیل اور مثال کے طو رپر پیش کیا جائے اور اس طرح پر وہ زندہ ہیں اور ان کا نام قائم ہے۔

یہ ایک ایسی فضیلت ہے جو حضرت یحییٰ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئی۔ یہ ایک ایسی مثال ہے جو بہت چھوٹی ہے کیونکہ حضرت یحییٰ کو صرف ایک نبی کا نام دیا گیا مگر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو جن کے لئے حضرت یحییٰ ایک دلیل کے طور پر ہیں تمام گزشتہ انبیاء کے نام دیئے گئے۔ زرتشت کے متعلق بھی ان کے محققین کا یہی فیصلہ ہے کہ یہ زرتشت جو مشہور ہے۔ اس کا اصل میں کچھ اَور نام تھا اور اس سے پہلے ایک شخص زرتشت نام گزرا ہے جس کے نام کے ساتھ ہی دوسرا زرتشت جس کا اصل نام مفقود ہو گیا مشہور ہے اور یہ اس کا مثیل ہے۔

تعجب ہے کہ لوگ حضرت یحییٰ کے متعلق اِدھر توجہ نہیں کرتے بلکہ اس کے نام میں خصوصیت تلاش کرتے ہیں حالانکہ کسی نام میں منفرد ہونا کوئی خصوصیت نہیں۔

حضرت مسیح ناصری کی آمد کے لئے نشان تھا کہ وہ نہیں آ سکتے جب تک کہ ایلیاء آسمان سے نازل نہ ہو لیکن جب حضرت مسیحؑ آئے اور آپ سے سوال کیا گیا کہ ایلیا کہاں ہے جس نے آپ سے پہلے آسمان سے نازل ہونا تھا؟ تو انہوں نے اِس پیشگوئی کی حقیقت اِس طرح بیان کی کہ

یوحنا ہی ایلیا ہے یعنی یہ اُس کے رنگ میں ہو کر آیا ہے اِس کو قبول کرو۔

اِسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق وعدہ تھا کہ مسیح آئے گا۔ لوگوں نے سمجھ لیا کہ مسیح ناصری ہی آئے گا حالانکہ ان کا ایسا سمجھنا غلط تھا۔ کیونکہ اِس پیشگوئی کی حقیقت بھی یہی تھی کہ جس طرح یوحنا کو ایلیا حضرت مسیحؑ نے خود قرار دیا اِسی طرح ان کی پیشگوئی سے بھی کوئی ایسا ہی شخص مراد ہے جس کا نام تو کچھ اَور ہوگا مگر اس کو وہ تمام صفات دے دی جائیں گی۔

لوگوں کو

یہ مثال تو بتا دی گئی تھی مگر افسوس انہوں نے اس سے فائدہ نہیں اُٹھایا اور جس طرح اَور حقائق کو بھلا دیا اُسی طرح اِس بات کو بھی فراموش کر دیا۔

بنی اسرائیل کے پاس اس کی کوئی مثال نہیں تھی مگر مسیحی لوگوں اور مسلمانوں کے پاس تو یوحنا کی ذات میں ایلیا کی دوبارہ آمد کی مثال موجود ہے مگر افسوس جب اِس مثال سے فائدہ اُٹھانے کا وقت آیا تو انہوں نے اِس کو فراموش کر دیا۔ بنی اسرائیل تو معذور بھی قرار دیئے جا سکتے ہیں کیونکہ

ملاکی نبی کی کتاب میں صاف طور پر پیشگوئی ہے کہ ایلیا آسمان پر گیا ہے اور آسمان سے ہی آئے گا اور اس کے بعد مسیح مبعوث کیا جائے گا

مگر جب ان کو اس کے خلاف ایک ایسے شخص کو جو ان میں ہی پیدا ہوا اور اُنہی میں پرورش پائی اور جس کا نام یوحنا تھا ایلیا کے نام سے موسوم کیا گیا تو وہ حیران رہ گئے۔ لیکن مسلمانوں اور عیسائیوں کے لئے اِس وقت یہ دقت باقی نہیں ہے۔

عیسائیوں کے لئے تو صرف یہ کافی ہے کہ جس طرح یوحنا ایلیا ہے۔ اُسی طرح حضرت مرزا صاحبؑ مسیح ہیں۔

باقی رہے مسلمان سو اِن کے لئے بھی حضرت یحییٰ کی مثال نہایت کارآمد ہے کیونکہ حضرت مسیحؑ کے لئے یہ نہیں آیا کہ وہ آسمان پر گیا ہے اور جب آسمان پر گیا ہی نہیں تو آسمان سے آنا کیسا؟

یہاں صرف نزول کا لفظ ہے اور اِس کے یہ معنی ہرگز نہیں کہ آسمان سے اُترے گا بلکہ یہ عربی کا محاورہ ہے کہ ادنیٰ کے آنے پر خروج کا لفظ اور اعلیٰ کے لئے نزول کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔

چنانچہ دجال کے لئے خروج کا لفظ آیا ہے اور مسیح کے لئے نزول کا۔

پس اگر لوگ اِس مثال سے فائدہ اُٹھاتے تو اُن کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام جیسی نعمت کے قبول کرنے سے محروم نہ رہنا پڑتا۔پس

اِس آیت کے یہی معنی ہیں کہ اس بات میں یحییٰ کا کوئی مثیل نہیں کہ اُن کو ایک ایسا کام سپرد کیا گیا جو کسی اَور کو آپ سے پہلے نہیں سپرد کیا گیا تھا۔

اگر مسلمان اِس حقیقت پر غور کرتے تو ضرور اِن کو ہدایت ہوتی مگر وہ ضد میں آکر حقائق کا انکار کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو قبول نہیں کر سکے سمجھ دے اور ہدایت کی راہیں بتائے۔

(الفضل ۱۶؍ جون ۱۹۱۷ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button