ارشاد حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ
جلسہ سالانہ کے متعلق ہدایات کے دوران حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’دکانداروں کو سال میں یہ موقع ملتا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ سارے سال کی کمائی جلسہ سالانہ کے دوران کر لی جائے اور بعض دکاندار اس میں اخلاقی ضوابط کوملحوظ نہیں رکھتے ۔ یعنی اخلاقی ضوابط سے مراد یہ ہے کہ باہر سے آنے والے بعض مہمان محض اخلاص کی وجہ سے ربوہ میں آکر سودے خریدتے ہیں اور بہت سے ایسے مہمان بھی ہیں جو یہ یقین رکھتے ہیں کہ یہاں کا دکاندار ناجائز منافع خوری کر ہی نہیں سکتا۔ اس لیے ان کا جو بھول پن ہے وہ اس لیے نہیں کہ وہ بیوقوف لوگ ہیں، ان کو خریداری کی چالاکیاں نہیں آتیں بلکہ ان کا بھول پن خالصتاً للہ ہے۔ ان کے ایمان کے نتیجہ میں ہے۔ ایسے لوگوں سے ان کے اعتبار سے ناجائز فائدہ اٹھانا، ایک بہت بڑا گناہ ہے ۔اور بعض دکاندار اس گناہ میں ملوث ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ کئی دفعہ باہر کے مہمانوں نے اطلاع دی کہ انہوں نے خالصتاً اعتماد کرتے ہوئے ایک چیز اس نیت سے یہاں سے خریدی کہ ربوہ کے دکانداروں کو فائدہ پہنچے۔ کیونکہ یہ چندے بھی دیتے ہیں سارا سال مرکز میں بیٹھے رہتے ہیں ۔اس لیے ان کو فائدہ ہونا چاہیے۔ لیکن دکانداروں نے ایسی خوفناک منافع بازی کی کہ اس کا کوئی بھی جو از عقلاً نظر نہیں آتا۔ یعنی بعض صورتوں میں ربوہ ہی کی ایک دوکان پر جو چیز سو روپے میں خریدی گئی، وہ دوسری دکان پر پچاس روپے میں مل گئی۔ اب اس کے لیے کون سا اقتصادی جواز ہے؟ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ دو چار روپے اوپر نیچے ہو جائیں تو سمجھ آنے والی بات ہے۔ لیکن اتنا بڑا فرق تو ہو ہی نہیں سکتا۔ سوائے اس کے کہ بددیانتی کی گئی ہو۔اس لیے دکانداروں کی ذمہ داری ہے کہ آنے والوں کے اخلاص سے ناجائز فائدہ نہ اٹھائیں ۔ ‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۳؍دسمبر ۱۹۸۳ء مطبوعہ خطبات طاہر جلد دوم صفحه ۶۴۳)
(مرسلہ: وکالت صنعت و تجارت)