خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب (خطبہ جمعہ فرمودہ یکم ستمبر ۲۰۲۳ء بمقام Messe Stuttgart، جرمنی)
سوال نمبر۱:حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے یہ خطبہ کہاں ارشاد فرمایا؟
جواب:حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے یہ خطبہ جلسہ گاہ (Messe Stuttgart)جرمنی میں ارشاد فرمایا۔
سوال نمبر۲: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ کے موضوع کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب:فرمایا:الحمد للہ آج جماعت احمدیہ جرمنی کا جلسہ سالانہ چار سال کی پابندیوں کے بعد وسیع پیمانے پر منعقد ہو رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ سب شاملین جلسہ کو جلسہ کے مقاصد کو حاصل کرنے والا بنائے اور وہ اس بات پر خوش نہ ہو جائیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں دوبارہ اکٹھا ہونے کا موقع دیا ہے تو ایک دوسرے کو مل لیں گے، کچھ مجلسیں لگا لیں گے اور بس۔ نہیں! بلکہ ایک بہت بڑا مقصد ہے جلسےکے انعقاد کا جو حضرت مسیح موعود ؑ نے ہمیں بتایا ہے اور بڑے درد سے اس کا اظہار بھی کیا ہے وہ یہ ہے کہ آپؑ کی بیعت میں شامل ہونےو الے دینی علم سیکھیں، روحانیت میں ترقی کریں۔ اللہ تعالیٰ سے تعلق اور محبت میں بڑھیں۔ رسول کریم ﷺ کی مکمل پیروی کرنے والے ہوں۔آپﷺ سے محبت کا تعلق ہو۔ دنیا کی محبت ٹھنڈی ہو اور دین مقدم ہو…حضرت مسیح موعود ؑ نے متعدد جگہ اپنی بیعت میں آنے والوں کو اپنے اندر پاک اور انقلابی تبدیلیاں پیدا کرنے کے لیے لائحہ عمل دیا ہے۔ انہیں نصائح فرمائی ہیں۔ پس اگر ہم حقیقی طور پر ان مخلصین میں شامل ہیں جو آپؑ کی بیعت میں آئے تو ہمیں پھر ہر وقت ان کی جگالی کرتے رہنا چاہیے اور پھر اپنے قول و فعل کا اس کے ساتھ موازنہ بھی کرتے رہنا چاہیے کہ کس حد تک ہم اس مقصد کو پورا کر رہے ہیں جو حضرت مسیح موعود ؑ کی بیعت میں آنے کا مقصد ہے…اس وقت میں حضرت مسیح موعود ؑ کے بعض ارشادات آپ کے سامنے رکھوں گا جو ہمیں ہمارے مقصد کی طرف راہنمائی کرنے والے ہیں۔
سوال نمبر۳:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بیعت کاحق اداکرنے کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:آپؑ فرماتے ہیں:یہ مت خیال کرو کہ صرف بیعت کر لینے سے ہی خدا راضی ہو جاتا ہے یہ تو صرف پوست ہےباہر کی کھال ہےمغز تو اس کے اندر ہے۔ اکثر قانونِ قدرت یہی ہے کہ ایک چھلکا ہوتا ہے اور مغز اس کے اندر ہوتا ہے۔ چھلکا کوئی کام کی چیز نہیں ہے مغز ہی لیا جاتا ہے۔ بعض ایسے ہوتے ہیں کہ ان میں مغز رہتا ہی نہیں اور مرغی کے ہوائی انڈوں کی طرح جن میں نہ زردی ہوتی ہے نہ سفیدی جو کسی کام نہیں آ سکتے اور ردّی کی طرح پھینک دئیے جاتے ہیں۔ ہاں ایک دو منٹ تک کسی بچے کے کھیل کا ذریعہ ہو تو ہو۔ اسی طرح پر وہ انسان جو بیعت اور ایمان کا دعویٰ کرتا ہے اگر وہ ان دونوں باتوں کا مغز اپنے اندر نہیں رکھتا تو اسے ڈرنا چاہیے کہ ایک وقت آتا ہے کہ وہ اس ہوائی انڈے کی طرح ذرا سی چوٹ سے چکنا چور ہو کر پھینک دیا جائے گا۔جو پیچھے ہٹتے ہیں جماعت سے ان کا یہی حال ہے۔فرمایا اسی طرح جو بیعت اور ایمان کا دعویٰ کرتا ہے اس کو ٹٹولنا چاہیے کہ کیا میں چھلکا ہی ہوں یا مغز؟جب تک مغز پیدا نہ ہو ایمان، محبت، اطاعت، بیعت، اعتقاد، مریدی اسلام کا مدعی سچا مدعی نہیں ہے۔ یاد رکھو کہ یہ سچی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور مغز کے سوا چھلکے کی کچھ بھی قیمت نہیں۔خوب یاد رکھو کہ معلوم نہیں موت کس وقت آ جاوے؟ لیکن یہ یقینی امر ہے کہ موت ضرور ہے۔ پس نرے دعویٰ پر ہرگز کفایت نہ کرو اور خوش نہ ہو جاؤ وہ ہرگز ہرگز فائدہ رساں چیز نہیں۔ جب تک انسان اپنے آپ پر بہت موتیں وارد نہ کرے اور بہت سی تبدیلیوں اور انقلابات میں سے ہو کر نہ نکلے وہ انسانیت کے اصل مقصد کو نہیں پا سکتا۔پس بیعت کا حق ادا کرنا کوئی معمولی بات نہیں۔ یہ تبھی ادا ہو سکتا ہے جب ہم ہر وقت اللہ تعالیٰ کے احکامات کے تابع چلنے کی کوشش کریں۔ دنیاوی لذات کو دُور کر کے ہی انسان ایسا مقام حاصل کر سکتا ہے۔ دنیا میں رہ کر پھر دین کو مقدم رکھنا یہی اصل جہاد ہے جس کی ہمیں کوشش کرنی چاہیے۔
سوال نمبر۴: حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دین کودنیاپرمقدم کرنےکی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:آپؑ فرماتے ہیں: میرا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ مسلمان سست ہو جاویں۔ اسلام کسی کو سست نہیں بناتا۔ اپنی تجارتوں اور ملازمتوں میں بھی مصروف ہوں مگر میں یہ نہیں پسند کرتا کہ خدا کے لیے ان کا کوئی وقت بھی خالی نہ ہو۔ ہاں تجارت کے وقت پر تجارت کریں اور اللہ تعالیٰ کے خوف و خشیت کو اس وقت بھی مد نظر رکھیں تاکہ وہ تجارت بھی ان کی عبادت کا رنگ اختیار کر لے۔ نمازوں کے وقت پر نمازوں کو نہ چھوڑیں۔ہر معاملہ میں کوئی ہو دین کو مقدم کریں۔ دنیا مقصود بالذات نہ ہو۔ اصل مقصود دین ہو۔ پھر دنیا کے کام بھی دین ہی کے ہوں گے۔صحابہ کرامؓ کو دیکھو کہ انہوں نے مشکل سے مشکل وقت میں بھی خدا کو نہیں چھوڑا۔ لڑائی اور تلوار کا وقت ایسا خطر ناک ہوتا ہے کہ محض اس کے تصور سے ہی انسان گھبرا اٹھتا ہے۔ وہ وقت جبکہ جوش اور غضب کا وقت ہوتا ہے ایسی حالت میں بھی وہ خدا سے غافل نہیں ہوئے۔ نمازوں کو نہیں چھوڑا۔ دعاؤں سے کام لیا۔ اب یہ بدقسمتی ہے کہ یوں تو ہر طرح سے زور لگاتے ہیں۔ بڑی بڑی تقریریں کرتے ہیں۔ جلسے کرتے ہیں کہ مسلمان ترقی کریں مگر خدا سے ایسے غافل ہوتے ہیں کہ بھول کر بھی اس کی طرف توجہ نہیں کرتےیہ عام مسلمانوں کا حال ہےپھر ایسی حالت میں کیا امید ہو سکتی ہے کہ ان کی کوششیں نتیجہ خیز ہوں جبکہ وہ سب کی سب دنیا ہی کے لیے ہیں۔ یاد رکھو جب تک لَا اِلٰہَ اِلَّااللّٰہ دل و جگر میں سرایت نہ کرے اور وجود کے ذرے ذرے پر اسلام کی روشنی اور حکومت نہ ہو کبھی ترقی نہ ہو گی یہ لکھی ہوئی بات ہے۔اگر تم مغربی قوموں کا نمونہ پیش کرو کہ وہ ترقیاں کر رہے ہیں۔ ان کے لیے اَور معاملہ ہے۔ تم کو کتاب دی گئی ہے۔ تم پر حجّت پوری ہو چکی ہے۔ ان کے لیے الگ معاملہ اور مواخذہ کا دن ہےان کا مواخذہ کیا ہو گا کب ہو گا وہ اللہ تعالیٰ کو جوابدہ ہوں گے اور ہو گا یقیناً لیکن ہو سکتا ہے مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کرے،اس دنیا میں نہ کرے۔ لیکن ہم جو دعویٰ کرتے ہیں ایمان کا پھر اگر عمل نہیں کرتے تو ہمارا مواخذہ اس دنیا سے بھی شروع ہو سکتا ہے۔ پس بڑے فکر کی بات ہے۔
سوال نمبر۵: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے سب سےعمدہ تجارت کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:مال چونکہ تجارت سے بڑھتا ہے اس لیے خدا تعالیٰ نے بھی طلب دین اور ترقی دین کی خواہش کو ایک تجارت ہی قرار دیا ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے: هَلْ اَدُلُّكُمْ عَلٰى تِجَارَةٍ تُنْجِیْكُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ(الصف: 11) کیا میں تمہیں ایسی تجارت پر مطلع کروں جو تمہیں دردناک عذاب سے نجات دے۔ وہ کیا ہے؟ دین کی تجارت۔ فرمایا سب سے عمدہ تجارت دین کی ہے جو درد ناک عذاب سے نجات دیتی ہے۔ پس میں بھی خدا تعالیٰ کے ان ہی الفاظ میں تمہیں یہ کہتا ہوں کہ هَلْ اَدُلُّكُمْ عَلٰى تِجَارَةٍ تُنْجِیْكُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ میں زیادہ امید ان پر کرتا ہوں جو دینی ترقی اور شوق کو کم نہیں کرتے۔ جو اس شوق کو کم کرتے ہیں مجھے اندیشہ ہوتا ہے کہ شیطان ان پر قابو نہ پا لے۔ اس لیے کبھی سست نہیں ہونا چاہیے۔ ہر امر کو جو سمجھ میں نہ آئے پوچھنا چاہیے تاکہ معرفت میں زیادت ہو۔ پوچھنا حرام نہیں۔ بحیثیت انکار کے بھی پوچھنا چاہیے اور عملی ترقی کے لیے بھی اگر انکار کرنا ہے کسی بات کا تب بھی پوچھو۔ سوال تو کرو۔ جواب تو حاصل کرو اور علمی ترقی کے لیے بھی پوچھنا چاہیے۔جو علمی ترقی چاہتا ہے اس کو چاہیے کہ قرآن شریف کو غور سے پڑھیں۔ جہاں سمجھ میں نہ آئے دریافت کریں۔ اگر بعض معارف سمجھ نہ سکے تو دوسروں سے دریافت کر کے فائدہ پہنچائے۔ قرآن شریف ایک دینی سمندر ہے جس کی تہ میں بڑے بڑے نایاب اور بے بہا گوہر موجود ہیں۔
سوال نمبر۶: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے قرآن کریم کےاحسانات کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:(آپؑ) فرماتے ہیں:پس یاد رکھنا چاہیے کہ قرآن شریف نے پہلی کتابوں اور نبیوں پر احسان کیا ہے جو ان کی تعلیموں کو جو قصہ کے رنگ میں تھیں علمی رنگ دے دیا ہے۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ کوئی شخص ان قصوں اور کہانیوں سے نجات نہیں پا سکتا جب تک وہ قرآن شریف کو نہ پڑھے کیونکہ قرآن شریف ہی کی یہ شان ہے کہ وہ اِنَّهٗ لَقَوْلٌ فَصْلٌ۔ وَّ مَا هُوَ بِالْهَزْلِ (الطارق:14-15)یہ فیصلہ کرنے والا قول ہے کوئی فضول باتیں نہیں ہیں اس میں۔ وہ میزان، مہیمن، نور اور شفا اور رحمت ہے۔ جو لوگ قرآن شریف کو پڑھتے اور اسے قصہ سمجھتے ہیں انہوں نے قرآن شریف نہیں پڑھا بلکہ اس کی بے حرمتی کی ہے۔ ہمارے مخالف کیوں ہماری مخالفت میں اس قدر تیز ہوئے ہیں؟ صرف اسی لیے کہ ہم قرآن شریف کو جیساکہ خداتعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ سراسر نور،حکمت اور معرفت ہے دکھانا چاہتے ہیں اور وہ کوشش کرتے ہیں کہ قرآن شریف کو ایک معمولی قصے سے بڑھ کر وقعت نہ دیں۔ ہم اس کو گوارہ نہیں کر سکتے۔خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہم پر کھول دیا ہے کہ قرآن شریف ایک زندہ اور روشن کتاب ہےاس لیے ہم ان کی مخالفت کی کیوں پروا کریں۔ غرض میں بار بار اس امر کی طرف ان لوگوں کو جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہیں نصیحت کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے اس سلسلہ کو کشفِ حقائق کے لیے قائم کیا ہےحقائق کے ظاہر کرنے کے لیے بتانے کے لیے قائم کیا ہے کیونکہ بدوں اس کے عملی زندگی میں کوئی روشنی اور نور پیدا نہیں ہو سکتا اور میں چاہتا ہوں کہ عملی سچائی کے ذریعہ اسلام کی خوبی دنیا پر ظاہر ہو جیساکہ خدا نے مجھے اس کام کے لیے مامور کیا ہے۔ اس لیے قرآن شریف کو کثرت سے پڑھو مگر نرا قصہ سمجھ کر نہیں بلکہ ایک فلسفہ سمجھ کرپس قرآن کریم کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔
سوال نمبر۷: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے سچےمذہب کی جڑاوراس کی علامات کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:(آپؑ نے) فرمایا: سچے مذہب کی جڑ خدا پر ایمان ہے اور خدا پر ایمان چاہتا ہے کہ سچی پرہیز گاری ہو۔ خدا کا خوف ہو۔تقویٰ والے کو خدا تعالیٰ کبھی ضائع نہیں کرتا۔ وہ آسمان سے اس کی مدد کرتا ہے۔ فرشتے اس کی مدد کو اترتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر کیا ہو گا کہ متقی سے معجزہ ظاہر ہو جاتا ہے۔ اگر انسان خدا تعالیٰ کے ساتھ پوری صفائی کر لے اور ان افعال اور اعمال کو چھوڑ دے جو اس کی نارضامندی کا موجب ہیں تو وہ سمجھ لے کہ ہر ایک کام برکت سے طے پا جائے گا۔ ہمارا ایمان تو آسمانی کارروائیوں ہی پر ہے۔آسمان سے کام ہوں گے تو ہوں گے اَور کوئی ذریعہ نہیں۔یہ سچی بات ہے کہ اگر خدا تعالیٰ کسی کا ہو جائے تو سارا جہان اپنی مخالفت سے کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتا۔ جس کو خدا محفوظ رکھنا چاہے اس کو گزند پہنچانے والا کون ہو سکتا ہے؟ پس خدا پر بھروسہ کرنا ضروری ہےفرمایا پس خدا پر بھروسہ کرنا ضروری ہے اور یہ بھروسہ ایسا ہونا چاہیے کہ ہر ایک شئے سے بکلی یاس ہو۔ اسباب ضروری ہیں مگر خلق اسباب بھی تو خدا تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ وہ ہر ایک سبب کو پیدا کر سکتا ہے اس لیے اسباب پر بھی بھروسہ نہ کرو اور یہ بھروسہ یوں پیدا ہوتا ہے کہ نمازوں کی پابندی کرو اور نمازوں میں دعاؤں کا التزام رکھو۔ ہر ایک قسم کی لغزش سے بچنا چاہیے اور ایک نئی زندگی کی بنیاد ڈالنی چاہیے۔ یہ یاد رکھو! عزیز بھی ایسے دوست نہیں ہوتے جیسے خدا عزیز ہوتا ہے۔ وہ راضی ہو تو کُل جہان راضی ہو جاتا ہے۔اگر وہ کسی پر رضامندی ظاہر کرے تو الٹے اسباب کو سیدھا کر دیتا ہے۔بگڑے کام بھی بن جاتے ہیںمضر کو مفید بنا دیتا ہے۔ یہی تو اس کی خدائی ہے۔ ہاں یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ جس کے لیے دعا کی جاتی ہے اس کو ضروری ہے کہ خود اپنی صلاحیت میں مشغول رہے۔دعا کے لیے کہتے ہیں، دعا کے ساتھ ساتھ اپنی اصلاح کرنے میں خود بھی مشغول ہونا پڑے گااگر وہ کسی اَور پہلو سے خدا کو ناراض کر دیتا ہے تو وہ دعا کے اثر کو روکنے والا ٹھہرتا ہے۔مسنون طریق پر اسباب سے مدد لینا گناہ نہیں ہے مگر مقدم خدا کو رکھے اور ایسے اسباب اختیار نہ کرے جو خدا تعالیٰ کی ناراضی کا موجب ہوں۔