ایم پوکس(MonkeyPox)
گذشتہ دنوں عالمی ادارہ صحت (WHO) نے ایم پوکس(MonkeyPox) کو عالمی وبا قرار دے کر ایمرجنسی کا اعلان کیا ہے۔ یہ اعلان اس بیماری کے افریقہ سے باہر سویڈن، متحدہ عرب امارات، پاکستان اور دیگر ممالک میں کیسز رپورٹ ہونے پر کیا گیا ہے۔ اس بیماری کی شدت اور اس کے پھیلاؤ کی رفتار نے عالمی ماہرین کو خبردار کیا ہے کہ یہ وبا مزید پھیل سکتی ہے اور اس کے نتائج تباہ کن ہو سکتے ہیں۔اب تک اس سال ایمپوکس کے ۱۶؍ہزار سے زائد کیسز رپورٹ کیے جاچکے ہیں ۔
ایم پوکس کیا ہے؟ منکی پوکس وائرس (MPV, MPXV, یا hMPXV) ڈبل سٹرینڈیڈ ڈی این اے(Double Stranded DNA) وائرس کی ایک قسم ہے جو انسانوں اور دیگر ممالیہ جانوروں میں ایمپوکس بیماری کا سبب بنتا ہے۔ یہ ایک زونوٹک وائرس (Zoonotic Virus)ہے جو آرتھو پوکس (Orthopox) وائرس کے جینس (Genus)سے تعلق رکھتا ہے۔ پہلی مرتبہ اس بیماری کی شناخت ۱۹۵۸ء میں اس وقت ہوئی تھی جب ایک تحقیق کے دوران کچھ سائنس دانوں کو بندروں کے جسم پر ’پاکس‘ یعنی دانے نظر آئے تھے، اسی لیے اس بیماری کا نام ’منکی پاکس‘ رکھ دیا گیا تھا۔انسانوں میں اس وائرس کے پہلے کیس کی شناخت ۱۹۷۰ء میں افریقی ملک کانگو میں ایک ۹؍سالہ بچے میں ہوئی تھی۔
ایمپوکس کی اقسام: کسی بھی وائرس میں جینیاتی تبدیلیاں(Genetic Mutations) ایک قدرتی عمل ہے ۔ یہ تبدیلیاں وائرس میں عام ہوتی ہیں کیونکہ وہ تیزی سے تقسیم ہوتے ہیں اور اپنی کاپیاں بناتے ہیں۔ ہر بار جب وائرس اپنی کاپی بناتا ہے، جینیاتی مادے میں چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں ہو سکتی ہیں۔ بعض اوقات یہ تبدیلیاں وائرس کے لیے فائدہ مند ثابت ہوتی ہیں، جیسے کہ اسے زیادہ متعدی یا بیماری کا زیادہ مؤثر سبب بنانے کے قابل بناتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وائرسز میں جینیاتی تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں اور وہ نئے کلیڈز(Clades) یا ویرینٹس ( Variants)بناتے رہتے ہیں۔
ایمپوکس کے بینادی طور پر دو جینیاتی کلیڈز (clades) ہیں: کلیڈ1(Clade-1) اور کلیڈ2 (Clade-2) ۔ ایک کلیڈ وائرس کے وسیع گروپ کو کہا جاتا ہے جو دہائیوں کے دوران ارتقاء پذیر ہو چکا ہوتا ہے اور جینیاتی اور طبی لحاظ سے ایک منفرد گروپ ہوتا ہے۔ کلیڈ۱- ۲۰۲۲ء میں ہونے والی ایمپوکس کی وبا کا سبب بنا تھا، لیکن اب اس کا ایک اور ویرینٹ کلیڈ-۱بی (Clade-1b)سامنے آیا ہے جو پہلے سے زیادہ خطرناک اور تیزی سے پھیل رہا ہے۔
ایمپوکس کیسے پھیلتا ہے؟: ایمپوکس کی منتقلی متاثرہ جانوروں سے انسانوں تک کاٹنے یا خراشوں کے ذریعے، یا کھیلنے یا ان کا گوشت کھانے جیسی سرگرمیوں کے دوران ہوتی ہے۔
ایمپوکس کی انسان سے انسان میں منتقلی متاثرہ جلد یا دیگر زخموں جیسے کہ منہ یا ہاتھ پر موجود زخموں کے براہ راست رابطے سے ہو سکتی ہے۔ اسی طرح کسی متاثرہ انسان سے قریبی جسمانی رابطے، جیسے جلد سے جلد کا رابطہ، سانس لینے کے دوران قریب ہونے یا جنسی تعلقات کے ذریعےدوسرے انسان میں پھیلتی ہے۔
ایمپوکس کی علامات اور نشانیاں:ایمپوکس کی علامات عموماً ایک ہفتے کے اندر ظاہر ہوتی ہیں، یا ایک سے اکیس دن کے بعد بھی شروع ہو سکتی ہیں۔ علامات عام طور پر دو سے چار ہفتوں تک جاری رہتی ہیں، لیکن کمزور مدافعتی نظام والے افراد میں یہ مدت زیادہ ہو سکتی ہے۔اس کی عام علامات میں خارش، بخار، گلے کی سوزش، سر درد، پٹھوں میں درد، کمر درد، کمزوری اور غدود کی سوجن شامل ہیں۔ کچھ لوگوں میں خارش سب سے پہلے ظاہر ہوتی ہے، جبکہ دیگر میں دیگر علامات پہلے ہو سکتی ہیں۔ خارش ایک زخم کے طور پر شروع ہوتی ہے جو بعد میں گندسے بھرے چھالے میں تبدیل ہو جاتی ہے، جو خارش یا درد کا باعث بن سکتی ہے۔ جیسے جیسے خارش ٹھیک ہوتی ہے، زخم سوکھ کر گر جاتے ہیں۔کچھ لوگوں میں ایک یا چند جلدی زخم ہوتے ہیں، جبکہ دیگر میں سینکڑوں یا اس سے زیادہ ہو سکتے ہیں۔ یہ جسم کے کسی بھی حصے پر ظاہر ہو سکتے ہیں، جیسے:ہاتھوں کی ہتھیلیاں اور پاؤں کے تلوے، چہرہ، منہ اور گلا اور جنسی اعضاوغیرہ
کچھ افراد میں اس کی علامات شدید بھی ہوسکتی ہیں مثلاً، جلد میں بیکٹیریا سے انفیکشن ہو سکتا ہے جو پھوڑے یا سنگین جلدی نقصان کا باعث بن جاتا ہے۔ دیگر پیچیدگیوں میں نمونیا، آنکھوں کا انفیکشن جس سے بینائی کا نقصان، نگلنے میں مشکل یا درد، الٹی اور اسہال سے شدید پانی کی کمی یا غذائیت کی کمی، خون کا انفیکشن (سیپسس)، دماغ کی سوزش (اینسیفلائٹس)، دل کی سوزش (مایوکارڈائٹس)، مقعد کی سوزش (پروکٹائٹس)، جنسی اعضاء کی سوزش (بالانائٹس) یا پیشاب کی نالی کی سوزش (یوریتھریٹس) شامل ہیں۔ مدافعتی نظام کی کمزوری والے افراد کے لیے ایمپوکس سنگین بیماری اور موت کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔
کورونا وائرس سے مشابہت: ایمپوکس جینیاتی طور پر کورونا وائرس سے مشابہت نہیں رکھتا ا ور نہ ہی کورونا وائرس کی طرح آسانی سے منتقل ہوتا ہے تاہم اگر کسی کو جسم میں دھبوں اور بخار جیسی علامات ظاہر ہوتی ہیں، تو انہیں دوسروں کے ساتھ قریبی رابطے سے گریز کرنا چاہیے۔امید کی جاسکتی ہے کہ یہ وبا کورونا کی طرح نہیں پھیلے گی اور نہ ہی لاک ڈائون کی صورتحال پیدا ہوگی۔
ممکنہ علاج: ایمپوکس کا کوئی مکمل علاج موجودنہیں ہے اور زیادہ تر کیسز خود ہی ٹھیک ہو جاتے ہیں۔تاہم ایک اچھی خبر یہ ہے کہ ہمارے پاس پہلے ہی ایسی ویکسین موجود ہیں جو اس انفیکشن سے بچانے میں مؤثر نظر آتی ہیں۔ چیچک(Small Pox) کی ویکسین کو اس کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے اور یہ ایم پوکس کو روکنے میں پچاسی فیصدتک مؤثر ہے۔
عالمی ادارہ صحت کی جانب سے ایمپوکس کی ہنگامی حالت کے اعلان کا مقصد اس وبا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے تحقیق، فنڈنگ اور بین الاقوامی صحت کے دیگر اقدامات کو تیز کرنا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اقدام بروقت اور اہم ہے، لیکن اس نئے ویرینٹ کے ابھرنے سے بہت سے نامعلوم عوامل سامنے آئے ہیں جن پر تحقیق کی ضرورت ہے۔
(حافظ محمد طلحہ ملک ۔ یوکے)
٭…٭…٭