حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

ہمارے دلوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہے

یہ لوگ تو رسمی میلاد مناتے ہیں، رسماً اکٹھے ہوتے ہیں۔ تقریریں کیں اور ان کی جو تقریریں ہیں وہ بھی اکثریت پاکستان میں سوائے احمدیوں کو گالیاں دینے کے اور کچھ نہیں ہوتیں۔ یہ مغلّظات بک کر وقتی طور پر ایک جوش نکال لیتے ہیں۔ اور یہ سمجھتے ہیں کہ اس سے انہوں نے اسلام کی بہت بڑی خدمت کر لی۔ لیکن جماعت احمدیہ نے اصل خدمت کا بیڑا پہلے تو اُس وقت اٹھایا تھا جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دعویٰ کیا اور آپ نے یہی فرمایا کہ میں توحید کو اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کو قائم کرنے کے لئے آیا ہوں۔ اسلام کی نشأۃ ثانیہ میرے ذریعہ سے ہونی ہے۔ اور پھر خلافت ثانیہ میں اُس وقت جب ایک وقت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف غیر مسلمانوں نے اخباروں اور کتابوں میں بیہودہ گوئیاں کیں، انتہائی غلیظ زبان استعمال کرتے ہوئے لکھنا شروع کیا تو اس وقت حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے بڑے پیمانے پر ہندوستان میں سیرت کانفرنسیں منعقد کیں اور احمدیوں اور غیر احمدیوں، سب مسلمانوں کو کہا کہ اب یہ وقت ہے کہ اختلافات چھوڑ کر اکٹھے ہو کر، جمع ہو کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اور اسلام کا دفاع کرو اور وسیع پیمانے پر اس کا آپؓ نے ان کانفرنسوں کا آغاز فرمایا بلکہ جو غیر مسلم شرفاء تھے آپ نے ان غیر مسلموں کو بھی دعوت دی۔ مسلمانوں کے تو ایمان کا حصہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کامل ایمان لائیں اور آپؐ کی عزت و ناموس کی حفاظت کریں لیکن حضرت مصلح موعودؓنے فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے احسانات تو تمام دنیا پر ہیں۔ آپ تو رحمۃللعالمین ہیں اس لئے جو غیرمسلم شرفاء ہیں وہ بھی آپ کی سیرت بیان کریں۔ چنانچہ بہت سے غیر مسلم پڑھے لکھے لوگوں نے جن میں ہندو بھی شامل تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر اپنے مضامین پڑھے۔ 1928ء میں جب قادیان میں پہلا جلسہ ہوا تو اس میں ہندو شعراء کی دو نعتیں بھی پڑھی گئیں۔ (تاریخ احمدیت جلد 5 صفحہ 43)

…بہرحال یہ جماعت احمدیہ کی تاریخ ہے اور جلسے منعقد ہوتے ہیں اور اب تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا کے دو سو سے زائد ممالک میں جہاں جماعت احمدیہ قائم ہو چکی ہے یہ جلسے منعقد کئے جاتے ہیں اور انشاء اللہ احمدی ہی ہیں اور ہمیشہ رہیں گے جو مقام ختم نبوت کا صحیح ادراک رکھتے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحیح مقام سے دنیا کو روشناس کروا رہے ہیں۔ یہ اس لئے کہ ہمیں اس زمانے کے امام مسیح موعود اور مہدی معہود علیہ السلام نے بتایا کہ اگر خدا تعالیٰ تک پہنچنا ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن کو پکڑو کہ آپؐ ہی اب راہِ نجات ہیں۔ کوئی اَور ذریعہ نہیں۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا: ’’وہ ہے مَیں چیز کیا ہوں‘‘۔ (قادیان کے آریہ اور ہم، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 456)… دشمن ہمیں جو چاہے کہتا رہے۔ ہم پر جو بھی الزام لگاتے ہیں لگاتے رہیں۔ ہمارے دلوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہے اور ہمیں سب سے بڑھ کر آپ کے خاتم النبیین ہونے کا اِدراک ہے اور یہ سب ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم دشمن کے ہر حملے اور ہر ظلم کے بعد پہلے سے بڑھ کر اپنے ایمان میں بڑھتے چلے جانے والے ہوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پہلے سے بڑھ کر بھیجنے والے ہوں تا کہ مسلمانوں کو بھی آپ کے اس مقام کا صحیح اِدراک حاصل ہو اور یہ بھٹکے ہوئے مسلمان بھی صحیح رستے پر آ جائیں اور دنیا میں بھی اسلام کی خوبصورت تعلیم پھیلے۔(خطبہ جمعہ ۱۶؍دسمبر ۲۰۱۶ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل یکم جنوری ۲۰۱۷ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button