منظوم کلام

پاک محمدؐ مصطفیٰ نبیوں کا سردار

کلام حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم ؓ

(1)

جب وقت مصائب کی صورت اک بندے کو دکھلاتا ہے

جب تاریکی چھا جاتی ہے غم کا بادل گِھر آتا ہے

ہر گام پہ پاؤں پھسلتے ہیں آفات کے جھکڑ چلتے ہیں

جب صبر کا دامن ہاتھوں سے رہ رہ کر چھوٹا جاتا ہے

جب آنکھیں بھر بھر آتی ہیں اُمیدیں ڈوبی جاتی ہیں

جب یاس کا دریا چڑھتا ہے دل اس میں غوطے کھاتا ہے

جب ناؤ بھنْور میں گھرتی ہے جب موت نظر میں پھرتی ہے

جب حیلے سب ہو چکتے ہیں انساں بے بس ہو جاتا ہے

جب دم سینے میں گُھٹتا ہے جب دل میں ہوکیں اٹھتی ہیں

جب ’’جینا‘‘ کڑوا لگتا ہےجب ’’مرنا‘‘ دل سے بھاتا ہے

جب بڑے بڑے جی چھوڑتے ہیں جاں دینے کوسرپھوڑتے ہیں

اس وقت بس ایک ’’مسلماں‘‘ ہے جو صبر کی شان دکھاتاہے

یہ برکت سب ’’اسلام‘‘ کی ہے تعلیم اس رحمتِ عام کی ہے

جو ’’نسخۂ تسکین‘‘ وہ لایا دل مسلم کا ٹھیراتا ہے

بے آس کی آس بندھاتا ہے

بھیج درود اس محسن پر تو دن میں سو سو بار

’’پاک محمدؐ مصطفیٰ نبیوں کا سردار‘‘

(2)

سب دنیا میں بیداری والے دین سے غافل سوتے ہیں

جب اس کے پیچھے پڑتے ہیں تو اُس کو بالکل کھوتے ہیں

پر شاہِ دوعالم کے پیرو کونین کے وارث بنتے ہیں

موجود ہے جو ’’مقصود‘‘ ہے جو دونوں ہی حاصل ہوتے ہیں

جاری سب کاروبارِ جہاں، پر دل میں خیالِ یار نہاں

دن کاموں میں کٹ جاتا ہے راتوں کو اُٹھ کر روتے ہیں

دنیا سے الگ دنیا کے مکیں ملتے ہیں مگر گھلتے یہ نہیں

دنیا تو ان کی ہوتی ہے یہ آپ خدا کے ہوتے ہیں

سامانِ معیشت بھی کرنا پھر جیتے جی اس پر مرنا

حق نفس کا بھی کرتے ہیں ادا ، بیج الفت کے بھی بوتے ہیں

خالق مٹی سے گھڑتا ہے، مٹی میں رہنا پڑتا ہے

یہ خاک ہی کرتی پاک بھی ہے مل مل کے یہیں دل دھوتے ہیں

لاثانی اُسوہ احمد کا یہ سیدھی راہ دکھاتا ہے

بے دنیا چھوڑے مسلم کو دنیا میں خدا مل جاتا ہے

ہر طرح کرم فرماتا ہے

بھیج درود اس محسن پر تو دن میں سو سو بار

’’پاک محمدؐ مصطفیٰ نبیوں کا سردار‘‘

(3)

رکھ پیش نظر وہ وقت بہن، جب زندہ گاڑی جاتی تھی

گھر کی دیواریں روتی تھیں ، جب دنیا میں تُو آتی تھی

جب باپ کی جھوٹی غیرت کا خوں جوش میں آنے لگتا تھا

جس طرح جنا ہے سانپ کوئی، یوں ماں تیری گھبراتی تھی

یہ خونِ جگر سے پالنے والے تیرا خون بہاتے تھے

جو نفرت تیری ذات سے تھی فطرت پر غالب آتی تھی

کیا تیری قدروقیمت تھی؟ کچھ سوچ! تری کیا عزت تھی؟

تھا موت سے بد تر وہ جینا قسمت سے اگر بچ جاتی تھی

عورت ہونا تھی سخت خطا، تھے تجھ پر سارے جبر روا

یہ جرم نہ بخشا جاتا تھا، تا مرگ سزائیں پاتی تھی

گویا تو کنکر پتھر تھی، احساس نہ تھا جذبات نہ تھے

توہین وہ اپنی یاد تو کر! ترکہ میں بانٹی جاتی تھی

وہ رحمت عالم آتا ہے تیرا حامی ہو جاتا ہے

تو بھی انساں کہلاتی ہے سب حق تیرے دلواتا ہے

ان ظلموں سے چھڑواتا ہے

بھیج درود اس مُحسن پر تو دن میں سو سو بار

’’پاک محمدؐ مصطفیٰ نبیوں کا سردار‘‘

صلِّ علٰی محمَّدٍ

(الفضل خاتم النبیینؐ نمبر مورخہ۱۲؍جون ۱۹۲۸ء صفحہ ۷۱-۷۲)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button