حضرت مصلح موعود ؓ

تحریک جدید کے تین اہم مطالبات(قسط اوّل)

(انتخاب خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرموده ۲۰؍دسمبر۱۹۳۵ء)

۱۹۳۵ء میں فرمودہ اپنے اس خطبہ جمعہ میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے تحریک جدید کے مطالبات کا ذکر فرمایا ہے۔قارئین کے استفادے کے لیے یہ خطبہ شائع کیا جاتا ہے۔(ادارہ)

تحریک جدید کی ہدایتوں میں سے ایک ہدایت یہ بھی تھی کہ ہماری جماعت کے افراد بیکار نہ رہیں…یاد رکھو جس قوم میں بیکاری کا مرض ہو وہ نہ دنیا میں عزت حاصل کر سکتی ہے اور نہ دین میں عزت حاصل کر سکتی ہے

تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:

تحریک جدید کے بعض حصوں کو میں قبل ازیں بیان کرچکا ہوں اور آج میں اس کے بعض دوسرے حصے بیان کرنا چاہتا ہوں۔ ایک بات تحریک جدید میں مَیں نے یہ بیان کی تھی کہ جو دوست لیکچر دینے کی قابلیت رکھتے ہیں وہ اپنے نام دفتر میں لکھوا دیں تا مختلف جگہوں پر جو جلسے ہوتے ہیں ان پر انہیں بھیجا جائے اور ان سے تقریریں کرائی جائیں۔

درحقیقت انسانی دماغ مختلف قسم کے ہوتے ہیں۔بعض انسان علمی باتوں کو زیادہ پسند کرتے ہیں اور بعض لوگ بات کی نسبت بولنے والے کی پوزیشن کو زیادہ دیکھتے ہیں۔جو لوگ علمی باتیں سننے اور انہیں سمجھنے کے عادی ہوتے ہیں اُن کے لئے ہمارے سلسلہ کے علماء کافی ہیں لیکن بعض لوگوں کے دلوں میں یہ احساس ہوتا ہے کہ دیکھیں کہنے والا کِس حیثیت کا آدمی ہے اور وہ ہمیں اپنی باتیں سنانے کے لئے کن مقاصد کے ماتحت آیا ہے۔دنیا میں عام طور پر اِس وقت لالچ اور حرص کا دَور دَورہ ہے۔اس لئے لوگ یہ سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں کہ ہمارے سلسلہ کے مبلغ صرف معمولی گزارہ لیتے ہیں اور درحقیقت سلسلہ کے لئے ان کا کارکن بننا کوئی ملازمت نہیں بلکہ زندگی کو وقف کرنا ہے مگر چونکہ وہ ایسے ماحول میں رہتے ہیں جس میں عربی علوم اور دین کی کوئی قدر نہیں اس لئے وہ مبلغ کو قدرو منزلت کی نگاہ سے نہیں دیکھتے۔لوگ ہر پیشہ کی قدر سمجھتے ہیں وہ ایک لوہار کو عزت کی نگاہ سے دیکھیں گے اور جب وہ ان کا کوئی کام کرے تو وہ اُس کی مزدوری دینے کے لئے تیار رہیں گے وہ ایک بڑھئی کو عزت کی نگاہ سے دیکھیں گے اور اِس بڑھئی کی مزدوری کے پیسوں کو اُس کا جائزحق سمجھیں گے۔انہیں اس بات کا احساس ہو گا کہ لوہار کے بیوی بچے ہیں اور وہ بھی کپڑے پہنتے اور روٹی کھاتے ہیں اس لئے اُس کی مزدوری ضرور دینی چاہئے۔انہیں اِس بات کا احساس ہو گا کہ بڑھئی کے بیوی بچے ہیں اور وہ بھی کپڑے پہنتے اورروٹی کھاتے ہیں اس لئے اُس کی مزدوری کو نہیں روکنا چاہئے۔اسی طرح وہ ایک ڈاکٹر، ایک انجینئر، ایک وکیل، ایک معمار،ایک درزی، ایک نائی اور دنیا کے دوسرے پیشہ وروں کے متعلق یہ سمجھتے ہیں کہ وہ جائز اور مفید کام کرتے ہیں اور ان کی خدمت کرنی چاہئے خواہ ماہوار تنخواہ کی صورت میں یا روزانہ ادا کرنے کی صورت میں۔مگر جب دین کا معاملہ آتا ہے تو وہ مبلّغین کے متعلق یہ سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ وہ نہ کھاتے ہیں نہ پیتے۔نہ ان کی بیویاں ہیں نہ بچے۔گویا وہ انسان نہیں بلکہ ملائکہ کی قسم کے لوگ ہیں۔یا کم سے کم وہ ان کے متعلق یہ سمجھتے ہیں کہ اُن کا حق نہیں کہ کھائیں اور پئیں۔ اور اگر وہ کھاتے ہیں تو دوسروں کا حق چھین کے جیسے کُتّے کو بعض دفعہ انسان اپنی روٹی ڈال دیتا ہے اُن کو بھی کچھ دے دیا جاتا ہے۔ اِس کا نتیجہ یہ ہے کہ جب کبھی بھی علمِ دین کی کوئی بات سنانے والا ان کے پاس جائے چاہے وہ اُس کی باتوں کی قدر کریں مگر وہ اُسے ذلیل ترین وجود سمجھتے ہیں حالانکہ جس کام کو اُنہوں نے اختیار کیا ہوا ہوتا ہے اگر اُسے دیانتدار ی سے کریں تو وہ دنیا کا معزز ترین کام ہے۔عام طور پر ہمارے ملک میں جن لوگوں کو شریف اور معزز سمجھا جاتا ہے اُن سے اگرکوئی کہے کہ اپنی لڑکی ایسے شخص کو دے دو تو وہ حیران ہو کر کہیں گے کہ یہ تو مُلاّ ہے۔حالانکہ مُلاّکیا چیز ہے مُلاّ ہمارے ملک کا مذہبی راہنما ہے مگر کچھ ان کے اخلاق بگڑ جانے کی وجہ ہے اور کچھ اُس گزارہ کی رقم کی وجہ سے جو وہ لیتے ہیں غلط فہمی میں مبتلاء ہو کر لوگ اُنہیں ذلیل ترین وجود سمجھنے لگ گئے۔مگر یہ احساس اُن کو ڈاکٹر کے متعلق نہیں ہو تا اور نہ اُن کو یہ احساس ایک وکیل کے متعلق ہو تا ہے وہ بڑے ادب اور احترام سے ایک ڈاکٹر یا وکیل کو فیس دیں گے،اس کی خاطر تواضع کریں گے، نام بھی عزت سے لیں گے اور بات کرتے ہوئے کہیں گے کہ بڑے آدمی جو ہوئے ہم ان کے مقابلہ میں کیا ہیں،پس ایک ڈاکٹر کی ڈاکٹری اور ایک وکیل کی وکالت کی ان کی نگاہوں میں وُقعت ہے لیکن دین اور اِس کی اشاعت کرنے والے کی ان کی نگاہ میںکوئی وُقعت نہیں اور چونکہ ایک خرابی اَور خرابیاں پیدا کر دیا کرتی ہے اس لئے اِس تحقیر کا نتیجہ یہ ہؤا کہ مسلمان اِس لعنت میں گرفتار ہو گئے کہ ان میں سے جتنی قومیں اپنے آپ کو شریف سمجھتی تھیں انہوں نے اِس دینی کام کی طرف سے اپنی توجہ ہٹالی۔ کچھ شرفاء جنہوں نے یہ کام اختیار کیا ذلیل ہو گئے اور کچھ ذلیل اس لئے اس کام کی طرف متوجہ ہو گئے کہ جب ہم آگے ہی ذلیل ہیں تو ایک ذلّت یہ بھی سہی۔آخر جس کا سر پھر جائے گا اُس کا باقی دھڑ اُسے کیا کام دے سکتا ہے۔ جب وہ لوگ جو دین کا سر تھے ذلیل ہو گئے تو مسلمان بھی بحیثیت قوم گر گئے اور سب دنیا کی نگاہوں میں ذلیل ہو گئے۔ یہ عادت جو مسلمانوں میں ایک عرصہ سے قائم ہے ابھی تک گئی نہیں۔ اور اب بھی وہ اس کام میں بُرائی محسوس کرتے ہیں اگرچہ پہلے جتنی نہیں لیکن ابھی تک یہ بات ان میں قائم ہے کہ وہ کسی شخص کے دینی خدمت کرنے کے معنے یہ سمجھتے ہیں کہ اب یہ شخص تمام دُنیوی عزتوں سے محروم کر دیا گیا۔ حالانکہ اسلام نے یہ بتایا ہے کہ جو دین کی خدمت کرتا ہے حقیقت میں وہی معزز ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَاللّٰہِ اَتْقَاکُمْ (الحجرات:۱۴)یعنی جو شخص اللہ تعالیٰ کے کام میں لگ جائے اس کے متقی ہونے میں کوئی شبہ ہی نہیں ہو سکتا بشرطیکہ وہ دوسرے اعمال میں بھی تقویٰ اور طہارت ملحوظ رکھے۔اس خیال کے ماتحت ہمارے علماء خواہ کتنی بڑی قربانی کرکے لوگوں کے پاس جائیں وہ سمجھتے ہیں کہ یہ بھی دوسرے مُلّائوں جیسے مُلاّ ہیں چھوٹے نہ سہی بڑے مُلاّ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان لوگوں پر جو باتوں پر غور کرنے کی بجائے کہنے والے کی شخصیت دیکھنے کے عادی ہوتے ہیں، ہمارے علماء کی باتوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا وہ سمجھتے ہیں کہ ان کا کیا ہے یہ تنخواہ لیتے اور کام کرتے ہیں جس طرح اور لوگ روپوں پراپنا دین بیچ دیتے ہیں اِسی طرح انہوں نے بھی اپنا دین بیچ رکھا ہے چونکہ وہ خود روپوںپیسوں پر اپنا دین فروخت کرنے کے عادی ہیں اس لئے وہ ہمارے مبلّغوں کے متعلق بھی یہ سمجھ لیتے ہیں کہ انہیں چونکہ مرکز کی طرف سے گزارہ ملتا ہے،اِس لئے انہوں نے اپنا دین بیچ دیا ہے۔مگر یورپین لوگوں میں یہ بات نہیں،اُن میں پادری کی عزت قوم کے دوسرے معززین سے کم نہیں بلکہ زیادہ ہوتی ہے۔ہاؤس آف لارڈ ز(HOUSE OF LORDS)جو نوابوں کا مقام ہے اس میں بھی بڑے بڑے پادری شامل ہوتے ہیں اور اس کے علاوہ کوئی موقع یا مجلس ہو اُس میں پادری کو شامل کیا جاتا اور اُس کا اعزازکیا جاتاہے اِس کی وجہ سے باوجود یورپ میں دہریت پھیلنے کے مذہب کی عزت اور اس کا احترام وہاں پایا جاتا ہے۔وہ دہریہ ہیں اور خدا تعالیٰ کے وجود کے منکر مگر سمجھتے ہیں کہ ہماری مذہبی رَوش اِس قابل ہے کہ اسے قائم رکھا جائے کیونکہ ملک کی ترقی کے لئے اِس روح کا قائم رہنا ضروری ہے پس وہ پادریوں کا اعزاز کرتے اور اُنہیں اِس قابل سمجھتے ہیں کہ اپنی آنکھوں پر بٹھائیں اور جو کچھ وہ اُنہیں دیتے ہیں بجائے اِس کے کہ اُس کی وجہ سے ان پر احسان رکھیں وہ اسے اُن کی خدمات کا ادنیٰ معاوضہ سمجھتے ہیں لیکن ہمارے ملک میں یہ بات نہیں۔

میں اپنی جماعت میں بھی دیکھتا ہوں کہ مسلمانوں کے پُرانے رسم و رواج کے ماتحت جب کوئی ہم میں سے بھی دنیا وی لحاظ سے کچھ عزت حاصل کرلیتا ہے تو وہ سلسلہ کے مبلّغین کو ادنیٰ سمجھنے لگ جاتا ہے حالانکہ جو شخص دین کے لئے اپنی زندگی وقف کرتا ہے وہ ادنیٰ نہیں بلکہ اعلیٰ ہے بشرطیکہ مبلغ ہر قسم کی کوتاہی سے اپنے آپ کو بچائے۔

….میں نے تحریک کی تھی کہ وہ لوگ جنہیں خدا تعالیٰ نے کسی قسم کی فوقیت دی ہے،خواہ علم کے لحاظ سے خواہ پیشہ کے لحاظ سے خواہ ملازمت کے لحاظ سے،وہ اپنے نام لکھائیں تا اُنہیں وعظوں اور لیکچروں کے لئے مختلف مقامات کے جلسوں پر بھیجا جا سکے۔ مجھے افسوس ہے کہ میری اِس تحریک پر بہت کم لوگوں نے اپنے آپ کو پیش کیا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ لوگوں نے اپنے آپ کو پیش نہیں کیا،پیش کیا مگر بہت کم۔ اور پھر افسوس ہے کہ جن لوگوں نے اپنے آپ کو پیش کیا ہم اُن سے صحیح رنگ میں فائدہ نہ اُٹھا سکے۔وجہ یہ ہوئی کہ یہ تمام نام دفتر تحریک جدید میں درج کئے گئے اورچونکہ دفتر تحریک جدیدکا کام جلسے کرانا اور لیکچروں کے لئے لوگوں کو بھیجنا نہیں بلکہ یہ کام دعوۃ و تبلیغ کا ہے، اِس لئے یہ کام نہ ہو سکا۔اب میں ایک تو دفتر تحریک جدید کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ ایسی تمام فہرستیں دعوۃ و تبلیغ کے دفتر بھجوا دے اور دوسرے میں دعوت وتبلیغ والوں کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ ان لوگوں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھانے کی کوشش کریں لیکن چونکہ یہ کام ایک عرصہ سے ہماری جماعت کے ذہن سے اُترا ہؤا تھا اِس لئے مَیں دعوۃ وتبلیغ والوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ لوگوں سے تدریجاً کام لیں۔ اگر انہوں نے پہلے ہی یکدم لوگوںپر بوجھ ڈال دیا تو جنہوں نے اپنے آپ کو پیش کیا ہے وہ اِس کی برداشت نہ کر سکیں گے اورکام کرنا چھوڑ دیں گے۔ چونکہ ہماری جماعت کے افراد کے لئے یہ نیا کام ہو گا اس لئے آہستہ آہستہ اس کی انہیں عادت ڈالی جائے۔پہلے کسی ایک جلسہ پر انہیں بھیجا جائے کچھ مدت کے بعددو جلسوںپر ان سے لیکچر دلائے جائیں۔اسی طرح تدریج کے ساتھ ترقی کی جائے اور یکدم بار نہ ڈالا جائے۔اگر اس طرح کام لیا گیا تو تھوڑے ہی عرصہ کے بعد لوگ کام کرنے کے عادی ہو جائیں گے اور پھر اِس قدرانہیںشوق پیدا ہو جائے گا کہ وہ خود کہیں گے ہمیں کسی جلسہ پر لیکچر کے لئے بھیجا جائے۔

…۲) تحریک جدید کی ہدایتوں میں سے ایک ہدایت یہ بھی تھی کہ ہماری جماعت کے افراد بیکار نہ رہیں میں نہیں کہہ سکتا میری اِس تحریک پر جماعت نے کس حد تک عمل کیا لیکن اپنے طور پر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ جماعت نے اِس پر کوئی عمل نہیں کیا اور اگر کیا ہو تو میرے پاس اُس کی رپورٹ نہیں پہنچی۔یاد رکھو جس قوم میں بیکاری کا مرض ہو وہ نہ دنیا میں عزت حاصل کرسکتی ہے اور نہ دین میں عزت حاصل کر سکتی ہے۔بیکاری ایک وبا کی طرح ہوتی ہے جس طرح ایک طاعون کا مریض سارے گائوں والوں کو طاعون میں مبتلاء کردیتا ہے ، جس طرح ایک ہیضہ کا مریض سارے گائوں والوں کو ہیضہ میں مبتلاء کر دیتا ہے اسی طرح تم ایک بیکار کو کسی گائوں میں چھوڑ دو وہ سارے نو جوانوں کو بیکار بنا نا شروع کر دے گا۔

جو شخص بیکار رہتا ہے وہ کئی قسم کی گندی عادتیں سیکھ جاتا ہے مثلاً تم دیکھو گے کہ بیکار آدمی ضرور اِس قسم کی کھیلیں کھیلے گا جیسے تاش یا شطرنج وغیرہ ہیں۔ اور جب وہ یہ کھیلیں کھیلنے بیٹھے گا تو چونکہ وہ اکیلا کھیل نہیں سکتا ،اِس لئے وہ لازماً دو چار اور لڑکوں کو اپنے ساتھ ملانا چاہے گا اور پھروہ اپنے حلقہ کو اوروسیع کرتا جائے گا…انسان اگر فارغ بیٹھے تو تھوڑے ہی دنوں میں پاگل ہو جائے لیکن چونکہ وہ محنت سے جی چُراتا ہے اِس لئے بجائے کوئی مفید کام کرنے کے ایسے کام کرتا ہے جن میں اُس کا دن بھی گزر جاتا اور جی بھی لگا رہتا ہے۔ کہیں تاش شروع ہو جائیں گے، کہیں شطرنج کھیلی جائے گی ،کہیں گانا شروع ہو جائیگا، کہیں بانسریاں بجنی شروع ہو جائیںگی،کہیں سا رنگیاں اور پھر طبلے بجنے لگ جائیں گے یہاں تک کہ اسے ان چیزوں کی عادت ہو جائے گی اور ان سے پیچھے ہٹنا اس کے لئے نا ممکن ہو جائے گا۔وہ بظاہر ایک آوارہ ہو گا مگر در حقیقت وہ مریض ہو گا طاعون کا ،وہ مریض ہو گا ہیضے کا جو نہ صرف خود ہلاک ہو گا بلکہ ہزاروں اَور قیمتی جانوں کو بھی ہلاک کرے گا۔پھر اُس سے متأثر ہونے والے متعدی امراض کی طرح اَور لوگوں کو متأثر کریں گے اور وہ اَور کو یہاں تک کہ ہوتے ہوتے ملک کا کثیر حصہ اِس لعنت میں گرفتار ہو جائے گا۔ پس بیکاری ایسا مرض ہے کہ جس علاقہ میں یہ ہو اُس کی تباہی کے لئے کسی اور چیز کی ضرورت نہیں۔(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button