جلسہ سالانہ جرمنی ۲۰۲۴ء کے موقع پر قزاقستان سے تشریف لائے ایک وفد سے ملاقات
جماعت احمدیہ جرمنی کا شمار بھی ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں کے جلسہ ہائے سالانہ میں بیرونی ممالک سے احمدی خواتین و حضرات وفود کی شکل میں تشریف لاتے ہیں۔ امسال جلسہ سالانہ جرمنی ۲۰۲۴ء کے موقع پر بیرونی وفود جن میں ایک بڑی تعداد نَومبائعین کی تھی تشریف لائے جن میں سے بعض مہمانوں کے تاثرات الفضل انٹرنیشنل میں شائع ہوچکے ہیں۔ قزاقستان سے بھی ۲۴؍افراد کو اللہ تعالیٰ نے جلسہ سالانہ جرمنی میں شرکت کی توفیق دی۔ اس وفد کے کچھ اراکین جلسہ کے بعد جرمنی میں مزید چند روز ٹھہر گئے تاکہ جرمنی میں سو مساجد سکیم کے تحت تعمیر ہونے والی مساجد میں سے جہاں تک ممکن ہو ان کا مشاہدہ کر سکیں۔ اس دوران ان کی نمائندہ الفضل سے ایک ملاقات میں ہونے والی معلوماتی گفتگو ہدیۂ قارئین ہے۔
تعارف جماعت احمدیہ قزاقستان: عالمی طاقتوں کے درمیان برسوں جاری رہنے والی سرد جنگ جب قریب الاختتام تھی تو روس اور اس کے حمایت یافتہ مشرقی یورپین ممالک نے اپنے شہریوں کو بیرونی سفر کی سختیوں سے آزاد کرنا شروع کر دیا۔ اس آزادی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے قزاقستان کے ایک شہری Mr. Yelemis سیاحت کے ليے ایک کروز کے مسافر بنے۔ ۱۹۹۰ء میں یہ بحری جہاز چند روز کے ليے سویڈن کے شہر گوتھن برگ رکا۔ یہاں موصوف کی ملاقات مکرم سید کمال یوسف صاحب کے ساتھ ہوئی جنہوں نے مہمان سیاح کو اسلام احمدیت سے متعارف کروایا۔ اس جہاز کی اگلی منزل ایڈنبرا تھی۔ مہمان کی دلچسپی دیکھتے ہوئے مکرم سید کمال یوسف صاحب نے گلاسگو مشن کو آگاہ کر دیا۔ چنانچہ بحری جہاز جب ایڈنبرا کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہوا تو جماعت کے نمائندہ وفد نے Mr. Yelemis کا استقبال کیا جس سے وہ بے حد متاثر ہوئے اورجماعت احمدیہ کے ساتھ ان کا یہ تعارف مستقل نوعیت اختیار کر گیا اور اسی کی بدولت انہوں نے جلسہ سالانہ برطانیہ ۱۹۹۱ء میںشرکت کی اور دستی بیعت کرنے کی سعادت حاصل کی۔ Mr. Yelemis ماشاء اللہ حیات ہیں اور جماعت الماتا (سابق دارالحکومت ) میں رہائش رکھتے ہیں۔
مارچ ۱۹۹۴ء میں قزاقستان میں پہلا مشن ہاؤس کھولا گیا۔ چودھری مقصود الرحمان صاحب (حال مقیم فرانس) اولین اعزازی مشنری مقرر ہوئے۔ ۱۹۹۶ء میں مکرم خواجہ مظفر احمد صاحب بطور مبلغ تشریف لائے۔ اس سے قبل ۱۹۹۴ء میں Mr. Rollan نیشنل امیر مقرر ہوچکے تھے۔
اراکین وفد سے گفتگو: Nurym Taibek صاحب لندن میں ۱۹۹۶ء میں جماعت سے دوران تعلیم متعارف ہوئے۔ وہ برطانوی سکالر شپ سکیم کے تحت اکنامکس کی تعلیم حاصل کررہے تھے۔ آپ تعلیم مکمل ہونے پر قزاقستان واپس چلے گئے۔ وہاں بھی آپ جماعت سے رابطہ میں رہے اور بہت جلد اللہ تعالیٰ نے آپ کو احمدیت قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ اب ۲۰۱۳ء سے لندن میں رشین ڈیسک سے وابستہ ہیں۔ ۲۰۰۱ء میں پہلی بار جرمنی کے جلسہ سالانہ میں شریک ہوئے اور اب تک چار بار جلسہ سالانہ جرمنی میں شرکت کر چکے ہیں۔ جلسہ کے دوران ترجمانی کے فرائض بھی سرانجام دیے۔
جری اللہ صاحب: آپ کا پورا نام Yershov Anton Jariullah ہے۔ آپ نے گفتگو کے دوران بتایا کہ میں پہلے Orthodox مسیحی تھا۔ مورخہ ۲۲؍ دسمبر ۲۰۰۷ء کو بیعت کر کے جماعت میں شامل ہوا۔ آج کل قزاقستان کے شہر Astana میں بطور مبلغ خدمت کی توفیق پا رہا ہوں۔ موصوف نے دینی تعلیم جامعہ احمدیہ گھانا سے حاصل کی اور شاہد کا امتحان پاس کیا۔ احمدیت سے رابطہ کے بارے میں آپ نے بتایا کہ میں جیالوجی کالج Semey کا طالب علم تھا۔ وہاں ایک مقامی مسلمان طالب علم عبدالرحمان میرا کلاس فیلو تھا۔ وہ میرے Orthodox نظریات سن کر مجھے اسلام کی تبلیغ کرتا اور مجھے قائل کرنے کے ليے جماعت کے چوتھے خلیفہ حضرت مرزا طاہر احمدؒ کی کتاب کے حوالے دیتا۔ اس طرح میری توجہ حضورؒ کی کتب کی طرف ہوئی۔ چنانچہ ان کتب کے مطالعہ کے نتیجہ میں مَیں نے عبدالرحمان سے پہلے بیعت کرنے کی توفیق پائی۔ بعد میں عبدالرحمان بھی جماعت احمدیہ میں شامل ہو گئے۔
دسمبر ۲۰۱۲ء کے جلسہ سالانہ قادیان میں جو ۱۶؍افراد قزاقستان سے آ کر شامل ہوئے ان میں مَیں بھی شامل تھا۔ جلسہ قادیان کے روحانی ماحول سے میں بے حد متاثر ہوا۔ مجھے اپنے اندر ایک تبدیلی محسوس ہوئی۔
چنانچہ میں نے اپنے آپ کو دین کی خدمت کے ليے پیش کرنے کا فیصلہ کیا۔ ۲۰۱۳ء میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو خط لکھا تو حضور نے ارشاد فرمایا کہ میں جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل گھانا میں داخل ہو جاؤں۔ چنانچہ حضور کے ارشاد پر عمل کرتے ہوئے میں نے ۲۰۱۴ء سے ۲۰۲۱ء تک جامعہ احمدیہ گھانا میں پڑھا اور شاہد کی ڈگری حاصل کی۔
جامعہ سے فراغت کے بعد میری پہلی تعیناتی ایک لاکھ آبادی کے شہر Taldikorgan میں ہوئی۔ جلسہ سالانہ جرمنی میں پہلی بار شرکت کی ہے۔ چالیس ہزار لوگوں کا ایک ساتھ عبادت کرنا مجھے کبھی نہ بھول پائے گا۔ لوگوں کا آپس میں ملنا، ایک دوسرے سے محبت کا اظہار دیکھ کر میں خود بھی سب کے ليے محبت کے جذبات دل میں محسوس کرتا تھا۔ مجھے کام کرنے کا ایک نیا جذبہ عطا ہوا ہے۔ یہ سب جلسہ کے ماحول کی وجہ سے ہے۔ میرے اندر ایک قوت پیدا ہوئی ہے جو مجھے بار بار احساس دلا رہی ہے کہ میں نے قزاقستان کے احمدیوں کو ایسا ہی احمدی بننے کی تلقین کرنی ہے۔
وفد کے دیگر اراکین جو وقت کی کمی کی وجہ سے زیادہ دیر نہ رک سکتے تھے ان میں Mr Tenivtay Turgambayev بھی شامل تھے جن کا آبائی تعلق سیمی شہر سے ہے لیکن آج کل آستانہ میں مقیم ہیں۔ آپ ۴؍اپریل ۲۰۰۵ء کو احمدی ہوئے۔ دوسرے دوست Mr. Aslam Temirkhanov تھے جن کا بھی آبائی تعلق Semey شہر سے ہے لیکن آپ آج کل آستانہ جماعت کے ممبر ہیں۔ آپ کوبھی اللہ تعالیٰ نے ۲۰۰۵ء میں احمدیت قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے ایمان جوش اور جذبہ میں برکت دے اور قزاقستان میں احمدیت کا پودا پھلتا پھولتا رہے آمین
(رپورٹ: عرفان احمد خان۔ نمائندہ الفضل انٹرنیشنل)