دل نے آخر کیا دیکھاتھا؟
روحانی واقعہ معراج کے ذریعہ آنحضرتﷺکے عظیم الشان مقام ومرتبہ کی حقیقت
دنیا بھر میں دستور ہے کہ خاص مہمانوں کی آمد کے لیے خصوصی انتظامات کیے جاتے ہیں۔ راستے سجائے جاتے ہیں، پھول اور پتیاں نچھاور کی جاتی ہیں، آرائشی گیٹ اور محرابیں بنائی جاتی ہیں اورمعززین اپنے مہمان کےاستقبال کے لیے باہر نکل آتے ہیں اور محبت کے ساتھ اسےخوش آمدید کہتے ہیں۔ بالکل کچھ اسی طرح سے اللہ تعالیٰ نے بھی جب اپنے سب سے خاص مہمان یعنی حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہفت افلاک کی سیر کرانے اور اپنا مہمان بنانے کا انتظام فرمایا تو اس روحانی سیر کے لیے بھی غیر معمولی اہتمام کیا گیا ۔جس کی تفصیل قرآن و حدیث میں بھی ملتی ہے اورسیرت کی کتب میں بھی موجود ہے۔ اور یہ وہ عظیم الشان روحانی سفر ہے جسے ہم واقعہ معراج کے نام سے جانتے ہیں۔ یہاں یہ امر یاد رکھنے کے لائق ہے کہ اللہ تعالیٰ چونکہ کائنات کی وسعتوں پر بھی حاوی ہےاور ہمارے تخیل کی انتہائی پرواز بھی اس کی حقیقت اورکنہ کو سمجھ نہیں سکتی اس لیے اللہ تعالیٰ کو کسی ایک مادی مقام پرمحدود سمجھ لینا درست نہیں ہے۔ پس آنحضور ﷺ سے اللہ تعالیٰ کی یہ ملاقات بھی ایک روحانی ملاقات تھی جسے بہت سی تمثیلوں اور استعارات کے ذریعے سے سمجھایا گیا تاکہ عام انسان اس مضمون کو کسی قدر سمجھنے کے قابل ہوسکے۔ خواب، رؤیا اور کشوف کا سلسلہ ایک ایسا باریک درباریک معاملہ ہے جسے ظاہر پرستوں کے لیے سمجھنا ہمیشہ ہی مشکل رہا ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والے تمام انبیاء مامورین اور پاک وجودوں کی زندگیوں میں ہمیں یہ سلسلہ ہمیشہ ہی نظر آتا ہے اور اس کے بعض نمونے ہم انبیاء کی زندگیوں میں رؤیا،کشوف،الہامات اور دیگر روحانی تجارب کی شکل میں دیکھتے بھی ہیں اور گو یہ روحانی سلسلےہر ایک نبی کی زندگی میں ہی نظر آتے ہیں لیکن اس روحانی تجربہ کی معراج اس پاک نبی کو عطا کی گئی جو سب نبیوں سے افضل و اکرم تھےیعنی ہمارے آقا و مولیٰ حضرت اقدس محمد رسول اللہﷺ۔
سچےخواب،رویا اور کشوف ہمیشہ سے ہی صالحین اور خاص کرانبیاء کی زندگی کا ایک اہم حصہ رہے ہیں، جن کے ذریعے سے وہ اس دنیا میں رہتے ہوئےاللہ تعالیٰ سےروحانی رابطہ قائم کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی ہدایات کے مطابق لوگوں کو اپنے خالق کے قریب لانے کی کوشش کرتے ہیں۔گو بسااوقات کسی قدر سچی خوابیں عام لوگوں کو بھی حاصل ہوجاتی ہیں تاکہ وہ ان روحانی سلسلوں سے آگاہ ہو جائیں مگر جو کشوف اور امور غیبیہ انبیاء کو دکھائے جاتے ہیں ان کا مقام و مرتبہ انتہائی بلند ہوا کرتا ہے ان میں تواتر پایا جاتا ہے اور ایک یا دو خوابوں کی بجائے وہ ایک مستقل سلسلے کے طور پر جاری رہتے ہیں اور حضور اکرم ﷺ کے معاملہ میں تویہ سب کچھ اپنے معراج کو پہنچا ہوا تھا۔ قرآن مجید نے اس مضمون کو بنی نوع انسان کی راہنمائی کے لیے بہت سے مقامات پر بیان فرمایا ہےجیسا کہ حضرت یوسفؑ کے حالات زندگی کو تفصیل کے ساتھ ایک مکمل سورۃ میں بیان کیا ہےجس کا آغاز ایک سچی خواب سے ہوتا ہےجو انہوں نے اپنی ابتدائی زندگی میں دیکھی تھی۔اور جس میں ان کی زندگی میں پیش آنے والےبعض اہم واقعات کو اشارۃً بیان کردیا گیا تھااور بعد میں وقت نے یہ ثابت کیا کہ یہ خواب محض ایک خواب نہیں تھا بلکہ آپؑ کے مستقبل میں پیش آنے والےحالات کا ایک تفصیلی نقشہ تھا۔ حضرت یوسفؑ نے دیکھا تھا کہ گیارہ ستارے، سورج اور چاند آپ کے سامنے سجدہ کر رہے ہیں۔ آپ نے جب یہ خواب اپنے والدحضرت یعقوبؑ کو سنایا تووہ سمجھ گئے کہ یہ ایک غیر معمولی رویا ہےاور انہوں نے آپ کو منع فرمایا کہ وہ یہ خواب اپنے بھائیوں کو نہ سنائیں ورنہ وہ آپ کے خلاف سازش کریں گے۔(یوسف:۶)اب بظاہر ستاروں، سورج اور چاند کا کسی انسان کوسجدہ کرنا ایک عجیب بات معلوم ہوتی ہے مگر یہ حیرت عالم رؤیا میں باقی نہیں رہتی بلکہ اپنے اندر بہت سے مخفی اور گہرے معانی رکھتی ہے۔ پھر بعینہٖ حضرت یعقوبؑ کی تعبیر کے مطابق آپ کے بھائی آپ کی مخالفت پر کمر بستہ ہوگئے جبکہ آپ علم و عرفان اور روحانیت میں ترقی کرتے چلے گئےاور بالآخر مصر کی حکومت میں ایک ایسے بلند منصب پر فائز ہوگئے کہ مخالفت کرنے والے بھائیوں کو بھی آپ کی اطاعت میں آنا پڑااور یہ سچی خواب بڑی شان کے ساتھ پوری ہوگئی۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بھی بہت سے ایسے واقعات رونما ہوئےجن میں آپ کو رویا و کشوف بلکہ ان سے بھی بڑھ کرباریک در باریک روحانی سلسلوں کے ذریعہ سے آئندہ ملنے والی ترقیات کی پیشگوئیاں اور حالات بتائے گئےاور اس طرح سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنا قرب عطا فرمایا کہ آپ گویا اس سلسلہ کی معراج کو پہنچ گئے۔اس حوالے سے دو عظیم الشان واقعات جو آپ ﷺ کی زندگی میں پیش آئے وہ معراج اور اسراء کے نام سے موسوم ہیں۔یہ دو روحانی سفر تھے جو مختلف اوقات میں آپ ﷺ کو رؤیا میں کروائے گئے اوراس عظیم الشان تجربےسے آپ ﷺ کے اعلیٰ مقام و مرتبہ کا اندازہ بھی لگایا جاسکتا ہے۔لیکن وہ لوگ جو اس روحانی دنیا اور اس کی گلیوں سے واقف نہیں ہیں ان کے لیے یہی واقعات حضرت یوسفؑ کے بھائیوں کی طرح آزمائش بن گئے اور وہ جہالت، حسد اور اضطراب میں پہلے سے بھی زیادہ بڑھ گئے جیسا کہ قرآن کریم اس حوالے سے فرماتا ہے:وَمَا جَعَلۡنَا الرُّءۡیَا الَّتِیۡۤ اَرَیۡنٰکَ اِلَّا فِتۡنَۃً لِّلنَّاسِ۔(بنی اسرائیل:۶۱)اور وہ رؤیا جو ہم نے تجھے دکھایا تھااُسے ہم نے لوگوں کے لئے آزمائش کے طور پر بنایا تھا۔
پس معراج کے اس عظیم الشان واقعہ کو قرآن کریم ایک رؤیا قرار دیتا ہے جواپنی تفصیلات کی وجہ سے ہر دَور میں لوگوں کی آزمائش کا باعث بنتا رہا ہے۔
دو الگ واقعات
یاد رکھنا چاہیے کہ ’معراج‘ سے مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ روحانی سفر ہے جس میں رسول کریمﷺ کو مکہ سے آسمان تک کی سیر کروائی گئی تھی اور ’اسراء‘ وہ دوسراسفر ہے جس میں آپ ﷺ کو کشفاً بیت المقدس لے جایا گیا تھا۔ ملتے جلتے رؤیا اور دیگر ملتی جلتی تفصیلات کی وجہ سے ان دونوں واقعات کوبعض مؤرخین اور سیرت نگاروں نے ایک ہی واقعہ سمجھ لیا ہے جبکہ ان دونوں واقعات میں جس کی تفصیل آگے آئے گی تقریباً چھ سے سات سال کا فرق ہے۔قرآن کریم نے ان واقعات کو دو مختلف سورتوں میں بیان فرمایا ہے۔سورۃ النجم میں واقعہ معراج کا ذکر ملتا ہے تو سورۃ بنی اسرائیل میں سفرِ اسراء کا بیان موجود ہے۔ اسی طر ح احادیث کی کتب اور سیرت ابن ہشام اور ابن سعد میں ان واقعات کے علیحدہ باب ثابت کرتے ہیں کہ یہ دونوں سفر ایک دوسرے سے بالکل الگ ہیں۔پس ان واقعات کو الگ الگ مضامین کی صورت میں ہی پیش کیا جانا مناسب ہے تاکہ ان واقعات کی اصل حقیقت کو سمجھا جاسکے۔
حضرت مصلح موعودؓبیان فرماتے ہیں:’’صحابہ میں اسراء کا لفظ دونوں واقعات کی نسبت مستعمل تھا۔پس اس لفظ کے استعمال اور بعض تفصیلات کے اشتراک کی وجہ سے بعض راویوں کویہ دھوکا آسانی سے لگ سکتاتھا کہ یہ دونوں واقعات ایک ہی ہیں اور اس کی وجہ سے انہوں نے دونوں قسم کی روایات کو ملا کر بیان کر دیا اور اس سے بعد میں آنے والے لوگوں کو یہ دھوکا لگ گیا کہ شاید یہ ایک ہی واقعہ کی تفصیل ہیں‘‘۔(تفسیر کبیر جلد ۴ صفحہ ۲۸۷-۲۸۹)
تاریخ کے ماہرین نے معراج اور اسراء کا واقعہ ہجرت سے ایک یا ڈیڑھ سال پہلے کا بیان کیا ہے لیکن جیسا کہ ذکر ہوا کہ ان دونوں واقعات میں تقریباً سات سال کا فرق ضرورموجود ہے۔سیرت النبی از علامہ سید سلمان ندوی میں جہاں معراج کی تاریخ کے حوالے سے بحث کی گئی ہے وہاں مختلف روایات کو بھی نقل کیا گیاہے۔ ان میں سے ایک بیان یہ بھی ہے کہ بعض متاخرین نے امام زہری کا یہ قول بیان کیا ہے کہ معراج بعثت کے پانچ سال بعد واقع ہوا۔لیکن اس بارے میں کوئی ثبوت ان مؤرخین نے درج نہیں کیا۔ (سیرت النبی از علامہ سید سلمان ندوی حصہ سوم اسد نیئر پرنڑز لاہورصفحہ ۲۳۹)
حضرت مصلح موعودؓ نے اس حوالے سے تفسیر کبیر میں اپنی مکمل تحقیق بیان فرمائی ہے۔آپؓ نے یہ بیان فرمایا کہ سورۃالنجم جس میں قطعی طور پر معراج کا ذکر ہے ۵؍نبوی سے پہلے نازل ہوچکی تھی اور دلیل کے طور پر آپ نے ہجرت حبشہ کے بعد پیش آنے والے ایک واقعہ کا ذکر کیا ہے۔وہ واقعہ یوں ہےکہ جب کفار مکہ مہاجرین حبشہ کو واپس مکہ لانے میں ناکام رہے، تو کفار نے مہاجرین کو واپس بلانے کے لیے ایک چال چلی۔وہ رسول کریم ﷺ کے پاس آئے اور آپؐ سے قرآن کی تلاوت سنانے کا مطالبہ کیا۔آنحضرتﷺ نے اس درخواست پر سورۃالنجم کی تلاوت فرمائی۔چنانچہ جب آپﷺ نےتلاوت کے دوران سجدہ کیا تو کفار نے بھی آپ کے ساتھ سجدہ کیا اور یہ خبر عام ہوگئی کہ کفار گویا مسلمان ہوگئے ہیں۔ اس غلط خبر کو سن کر بعض مہاجرین حبشہ شوال ۵؍ نبوی کو واپس مکہ تشریف لے آئے۔پس اس واقعہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سورۃ النجم شوال ۵؍نبوی سے پہلے نازل ہوچکی تھی اورواقعہ معراج اس سے بھی قبل ہوچکا تھا۔
حضرت مصلح موعودؓبیان فرماتے ہیں:’’اور پہلے میں یہ ثابت کر چکا ہوں کہ معراج کا واقعہ پانچویں سال بعد نبوت سے پہلے کا ہے۔ پس جب ان دونوں واقعات کی تاریخوں میں چھ سات سال کا فرق ہے تو انہیں ایک واقعہ کہنا کسی طرح درست نہیں ہو سکتا۔ اور حق یہی ہے کہ معراج کا واقعہ اور ہے اور بیت المقدس کی طرف جانے کا واقعہ بالکل اور ہے‘‘۔(تفسیر کبیر جلد ۶ صفحہ ۲۶۷، ایڈیشن ۲۰۲۳)
دل نے آخرکیا دیکھاتھا؟
دوسری بڑی غلطی اس واقعہ کے حوالے سے جو مسلمانوں میں عام مشہور ہے وہ یہ ہے کہ یہ سفر روحانی نہیں تھا بلکہ آپﷺ کو جسم سمیت آسمانوں کی سیر کروائی گئی تھی۔ اب صاف ظاہر ہے کہ یہ ایک غلط عقیدہ ہے کیونکہ کفار کی طرف سےجب ایک مرتبہ رسول کریم ﷺ سے جسم سمیت آسمان پر چڑھنے کا مطالبہ کیا گیا تھا تو اس موقعہ پر اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو یہ جواب دینے کا ارشاد فرمایا تھا کہ قُلۡ سُبۡحَانَ رَبِّیۡ ھلۡ کُنۡتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوۡلًا (بنی اسرائیل :۹۴)تُو کہہ دے کہ میرا ربّ (ان باتوں سے) پاک ہے (اور) میں تو ایک بشر رسول کے سوا کچھ نہیں۔
گویا قرآن کریم نے یہ فیصلہ کر دیا کہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے مطابق کسی انسان کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ اپنے ظاہری جسم کے ساتھ آسمانوں کی طرف جا سکے اور اس قسم کے تمام امور اگر کہیں بیان بھی کیے جائیں تو وہ استعارات کے رنگ میں ہوا کرتے ہیں جنہیں عقلمند لوگ سمجھ جاتے ہیں۔ اب ہم معراج کے اصل واقعہ کی طرف رجوع کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کیسے یہ رؤیا بعض عظیم الشان معانی اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اور کیسے اس رؤیا سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عظیم الشان مقام اور مرتبہ ظاہر ہوتا ہے۔
نبوت کے پانچویں سال کی ایک رات رسول کریمﷺ مسجد الحرام کے ایک حصہ میں لیٹے ہوئے تھے۔ اس وقت آپؐ نیند اور بیداری کی درمیانی حالت میں تھے۔ ایک اور روایت میں آتا ہے کہ آپ سو رہے تھے یااس وقت آپ کی آنکھیں سورہی تھیں لیکن دل بیدار تھا۔ (صحیح بخاری کتاب المناقب باب كَانَ النَّبِيُّ صلى اللّٰه عليه وسلم تَنَامُ عَيْنُهُ وَلاَ يَنَامُ قَلْبُهُ )
ایسی حالت میں جبرئیل علیہ السلام نازل ہوئے اور آپﷺکولے کر چاہِ زمزم پر پہنچے۔ وہاں آپ ﷺ کاسینہ چاک کرکےآپؐ کے دل کو زمزم کے پانی سے اچھی طرح صاف کیا۔اور پھر سونے کے ایک طشت یا تھالی جو ایمان اور حکمت سے پُر تھی آپ کے سینے میں ڈال کر اسے بند کردیااور وہاں سےحضرت جبرئیلؑ آپ کو اپنے ساتھ لے کر آسمان کی طرف چلے گئے۔
اب صاف ظاہر ہورہا ہے کہ اس روحانی سفر کی شروعات ہی میں کچھ ایسی باتیں رونما ہوئیں جن کو سامنے رکھ کر یہ یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ یہ سفرایک روحانی سفر تھا اور ایک ایسا کشفی تجربہ تھاجو حضور ﷺ کی زندگی میں پہلے بھی پیش آچکا تھا۔پھراس سفرکے لیے رات کا وقت مقرر کیا گیاجو کہ کشف اور خواب کے لیے نہایت مناسب تھا اور یہ بھی کہ رسول کریم ﷺ اس وقت نیند اور بیداری کی درمیانی حالت میں تھے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس حوالے سے فرماتے ہیں:’’معراج کے لئے رات اس لئے مقرر کی گئی کہ معراج کشف کی قسم تھا۔اور کشف اور خواب کے لئے رات موزوں ہے۔اگر یہ بیداری کا معاملہ ہوتا تو دن موزوں ہوتا‘‘۔(تحفۂ گولڑویہ،روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۳۱۰)
اسی طرح شقِ صدر یعنی سینے کو چاک کرکے دل کو دھونے کا واقعہ بھی آپ کے بچپن میں پیش آچکا تھااور تاریخی کتب میں دو سے تین مرتبہ شق صدر کا واقعہ پڑھنے کو ملتا ہے۔اگر یہ واقعہ جسمانی ہوتا تو ضرور سینہ چاک ہونے کی وجہ سے کوئی نشان موجود ہوتا لیکن ایسا نہیں تھا اور نہ ہی کبھی کسی صحابی یا اہل بیت میں سے کسی نے ایسے کسی نشان کے بارے میں ذکر کیا ہے۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہےکہ جس طرح نماز میں اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہونے سے پہلے وضو کرکے ظاہری اعضاء کو دھویا جاتا ہے بالکل اسی طرح اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہونے اور اس عظیم الشان روحانی ملاقات سے پہلےدل کا وضوبھی لازم ہوا کرتا ہےاور یہ روحانی طور پر ہی ممکن ہو سکتا ہے۔ اسی طرح ایمان اور حکمت بھی کوئی ظاہری چیزیں نہیں ہیں جنہیں تھالی میں سجا کر دل میں رکھ دیا جائے بلکہ یہ روحانی دنیا کے امور ہیں اورروحانی طور پر ہی آپؐ کے دل کو حکمت سے پُر کیا گیاتھا اوربالآخر اسی پاک دل کے ذریعہ سے آپ کو اس روحانی سفر میں وہ غیر معمولی نظارے دکھائے گئے جنہیں ظاہری آنکھوں سے دیکھنا ممکن نہیں تھا۔ قرآن کریم کی یہ آیت بھی اس بات کی مکمل طور پر عکاسی کر رہی ہےکہمَا کَذَبَ الۡفُؤَادُ مَا رَاٰی (سورۃ النجم ۱۲)یعنی (محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے) دل نے جو کچھ دیکھا تھا وہی بیان کیاتھا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس بارے میں مزید فرماتے ہیں:’’معراج ہوئی تھی مگر یہ فانی بیداری اور فانی اشیاء کے ساتھ نہ تھی بلکہ وہ اور رنگ تھا۔ جبرائیل بھی تو رسول اللہﷺ کے پاس آتا تھا اور نیچے اترتا تھا۔ جس رنگ میں اس کا اترنا تھا اسی رنگ میں آنحضرتؐ کا چڑھنا ہوا تھا۔ نہ اترنے والا کسی کو اترتا نظر آتا تھا اور نہ چڑھنے والا کوئی چڑھتا ہوا دیکھ سکتا تھا‘‘۔(الحکم جلد ۵ موٴرخہ ۱۰؍اگست ۱۹۰۱ء صفحہ ۳)
آپؐ کا فقید المثال استقبال
روایات کے مطابق جبریلؑ اس جگہ سے آپ ﷺ کو لے کر پہلے آسمان پر پہنچے اور وہاں دربان سے دروازہ کھولنے کو کہا۔دربان نے پوچھا کہ کون ہے؟انہوں نے جواب میں کہا کہ میں جبرئیل ہوں اور اپنے ساتھ محمد ؐکو لایا ہوں۔دربان نے پھر پوچھا کہ کیا محمدؐ بلائے گئے ہیں؟ اس پر جبرئیلؑ کے مثبت جواب دینے پر آخر دروازہ آپؐ کے لیے کھولا گیا۔آپﷺ پہلے آسمان میں داخل ہوئے اور وہاں ایک بزرگ شخص کو پایا۔ وہ جب اپنے دائیں جانب دیکھتے تو خوش ہوتے اور جب بائیں جانب دیکھتے تو اداس ہوجاتے۔نبی کریم ﷺ سے جب وہ ملے تو کہا کہ ’’مرحبا اے صالح نبی اور اے صالح فرزند‘‘۔جبریلؑ نے آپ ﷺ کو بتایا کہ یہ آدم نبی اللہ ہیں اور ان کی دائیں جانب ان کی نسل میں سے جنت کی جانب جانے والی روحیں ہیں جب وہ ان کو دیکھتے ہیں تو خوش ہوجاتے ہیں اور بائیں طرف والے اہل نار ہیں،یہ جب ان کو دیکھتے ہیں تو افسردہ ہوجاتے ہیں۔
وہاں سے پھر جبریلؑ آپ ﷺ کو آگے دوسرے آسمان کی طرف لے گئے۔اندر داخل ہوکر آپ ﷺ نے دو اشخاص کو دیکھا۔انہوں نے بھی حضرت آدم ؑکی طرح آپؐ کااستقبال کیااور کہا ’’مرحبا اے صالح نبی اور صالح بھائی‘‘ آپ ﷺ نے انہیں سلام کیا اور پوچھا کہ یہ کون ہیں؟اس پر جبریلؑ نے آپ ﷺ کو بتایا کہ یہ حضرت عیسیٰؑ اور حضرت یحییٰؑ ہیں۔اسی طرح جبریلؑ آپ کو آگے آسمانوں کی طرف لے جاتے رہے اور ہر آسمان پر کسی نہ کسی پیغمبر سے ملاقات ہوتی رہی۔حضرت یوسفؑ، حضرت ادریسؑ اور حضرت ہارونؑ سے بھی ملاقات ہوئی۔ جب آپ چھٹے آسمان پر پہنچے تو وہاں حضرت موسیٰؑ سے آپ کی ملاقات ہوئی۔حضرت موسیٰؑ نے بھی آپ کو اسی طرح خوش آمدید کہااور آپ ﷺ نے انہیں سلام کیا۔جب رسول کریم ﷺ اگلے آسمان کی طرف بڑھنے لگے توحضرت موسیٰؑ رونے لگے۔اس پر ایک آواز آئی کہ اے موسیٰ تم کیوں روتے ہو؟انہوں نے عرض کیا کہ اے اللہ یہ شخص میرے بعد آیا مگرمیں یہ نہیں جانتا تھا کہ یہ مجھ سے بھی آگے نکل جائے گا۔ساتویں آسمان پر آپ ﷺ نے حضرت ابراہیمؑ کو دیکھا۔ حضرت ابراہیمؑ نےبھی آپ کو دیکھ کر مرحبا کہا اور آپ ﷺ نے بھی انہیں سلام کیا۔(تلخیص از سیرت ابن ہشام جزء ۱مکتبہ مصطفی البابی بمصر طبعہ ثانیہ صفحات ۴۰۳ تا ۴۰۸و سیرت خاتم النبیین از حضرت مرزا بشیر احمدؓ ایم اے ۲۲۰ تا ۲۲۲)
اس دوران جب رسول کریم ﷺ کو یہ روحانی سیر کرائی جارہی تھی،آپ ﷺ کا بدن مبارک خانہ کعبہ میں ہی موجود تھا۔اس حوالے سے حضرت عائشہؓ کی یہ روایت ملتی ہے کہ معراج کے دوران’’ مَا فُقِدَ جَسَدُ رَسُولُ اللّٰہِ‘‘ یعنی آپ کا جسم غائب نہیں ہواتھا بلکہ اس دنیا ہی میں موجود تھا۔(سیرت ابن ہشام الجزء ۱مکتبہ مصطفی البابی بمصر طبعہ ثانیہ صفحہ ۳۹۹)اسی طرح رسول اللہ ﷺ کا گذشتہ انبیاء کی روحوں سے ملاقات اور اہل جنت اور جہنم کی روحوں کو دیکھنا بتاتا ہے کہ چونکہ آسمان پراس دنیاوی جسم کے ساتھ جانا ممکن نہیں تھااس لیے روحانی طور پرہی آپ کو آسمان کی طرف لے جایا گیا تھا۔ حضرت موسیٰؑ کا یہ کہنا کہ یہ میرے گمان میں ہی نہ تھا کہ مجھ سے کوئی آگے نکل جائے گا بتا تا ہے کہ انبیاء سے ملاقات اور روحانی آسمان کی بلندیوں پر جانا بھی تعبیر طلب ہے۔ واقعہ معراج میں آپؐ کا تمام انبیاء سے آگے نکل جانا یہ بتاتا ہے کہ آپؐ اپنے مقام اور مرتبہ کے لحاظ سے سب سے اعلیٰ واکمل ہیں۔ایسی خصوصیت آپ کو حاصل ہوئی جو پہلے کسی انسان کو نہیں ملی اور اب آپ ہی کی سچی اتباع کے ذریعہ روحانیت کے اعلیٰ مدارج تک رسائی ممکن ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے اس مضمون کو نقشہ کی صورت میں واضح فرمایا ہے۔آپؓ نے یہ بیان کیا کہ اگر دنیا میں موجود ایک شخص ان سات آسمانوں کی طرف دیکھے تو وہ اس ساری صورتحال کا کیا نقشہ کھینچے گا،آپؓ فرماتے ہیں:’’اب اس نقشہ کو دیکھو تو مخلوق کے مقام پر جو شخص کھڑا ہو کر دیکھے گا اس کی نظر سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام پر پڑے گی اور سب سے آخر اس کی نظر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر پڑے گی۔ گویا سب نبیوں میں سے آخری نبی وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قرار دے گا۔ اس طرح آپ کی یہ حدیث بھی درست ثابت ہو جاتی ہے کہ اَنَا اٰخِرُ الْاَنْبِیَاءِ اور آپ دوسرے انبیاء سے بھی افضل ثابت ہو جاتے ہیں۔ آپ حضرت آدم علیہ السلام سے افضل ہیں کیونکہ آپ ان سے بھی اوپر نکل گئے۔ آپ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے بھی افضل ہیں کیونکہ آپ ان سے بھی اوپر نکل گئے۔ آپ حضرت یوسف علیہ السلام سے بھی افضل ہیں کیونکہ آپ ان سے بھی اوپر نکل گئے۔ آپ حضرت ادریس علیہ السلام سے بھی افضل ہیں کیونکہ آپ ان سے بھی اوپر نکل گئے۔ آپ حضرت ہارون علیہ السلام سے بھی افضل ہیں کیونکہ آپ ان سے بھی اوپر نکل گئے۔ آپ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بھی افضل ہیں کیونکہ آپ ان سے بھی اوپر نکل گئے۔ آپ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے بھی افضل ہیں کیونکہ آپ ان سے بھی اوپر نکل گئے۔ لیکن اگر اوپر کے نقشہ کو اللہ تعالیٰ کے مقام سے دیکھا جائے تو پھر سب سے اول رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام نظر آئے گا… پس آپ آخر الانبیاء بھی ہیں اور آپ اول الانبیاء بھی ہیں‘‘۔(تفسیر کبیر جلد ۱۵ صفحہ ۱۹۹۔ ۲۰۰،ایڈیشن ۲۰۲۳)
حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:’’آنحضرتﷺ نے معراج کے واقعہ میں جہاں انبیاء کو دیکھا، ان سب انبیاء کو جن کو ہر ایک فوت شدہ تسلیم کرتا ہے انہی میں حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی دیکھا اور حضرت ادریسؑ کو بھی دیکھا۔ اور حضرت عیسیٰؑ کو جہاں دوسرے آسمان پر دیکھا وہاں وَرَفَعْنٰہُ مَکَانًا عَلِیًّا کے مطابق ان سے دو درجے اوپر ادریس علیہ الصلوٰۃ والسلام کو چوتھے آسمان پر دیکھا۔ اور یہی حدیثوں سے ملتا ہے۔ اور آپؐ خود (جو تھے وہ) سِدْرَۃُ الْمُنْتَہٰی تک چلے گئے۔ کیونکہ آپ کا مقام سب سے بلند تھا‘‘۔(خطبہ جمعہ ۱۰؍جولائی ۲۰۰۹ء)
سِدْرَۃُ الْمُنْتَہٰی
چنانچہ رسول اللہ ﷺ ساتویں آسمان سے آگے بڑھ کر اُس مقام پر پہنچے جہاں اس سے پہلے کسی بھی بشر کا قدم نہیں پہنچا تھا۔ یہاں پہنچ کر آپ ﷺ کو قلم کے چلنے کی آوازیں سنائی دیں جو قضا وقدر اور فیصلوں کی قلمیں تھیں۔ کچھ آگے گئے تو بیری کا ایک درخت دیکھا جو آسمان کا آخری نقطہ تھاجسے قرآن کریم نے سِدْرَۃُ الْمُنْتَھٰیکے نام سے موسوم کیا ہے۔اس بیری کے نیچے چار دریا بہہ رہے تھے جن کے متعلق جبرئیلؑ نے آپ کو بتایا کہ دو ان میں دنیا کے دریا ئےنیل اور فرات ہیں اور دو دریا ان میں سے جنت کی طرف بہتے ہیں(یہ امر بھی ثابت کرتا ہے کہ یہ سیر روحانی تھی جسمانی نہیں کیونکہ دریائے نیل اور فرات کے بارے میں توعلم جغرافیہ کے ماہر جانتے ہی ہیں کہ وہ کہاں سے شروع ہوتے ہیں اور کہاں پر جاکر ختم ہوتے ہیں)۔ اس کے بعد سید ولد آدم و خاتم النبیینﷺ اللہ تعالیٰ کے دربار میں حاضر ہوئے اوراللہ تعالیٰ نے براہ راست آپ سے کلام فرمایا۔ یہاں پرمختلف روایات کے مطابق نمازوں کے فرض ہونے کا بھی ذکر ملتا ہے۔
حضرت مصلح موعودؓ نے اس حوالے سے ذکر کیا ہے کہ نمازیں تونبوت کے معاً بعد ہی فرض ہوچکی تھیں اور عام مسلمانوں کا بھی اس بات پر اتفاق ہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ کی زندگی میں واقعہ معراج ایک سے زائد مرتبہ ہوا ہے۔آپؓ فرماتے ہیں کہ’’جیسا کہ سورہ نجم کی آیات سے ظاہر ہے معراج دو ہیں۔ اور احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک معراج نبوت کے ابتدائی ایام میں ہوا ہے۔ بلکہ کہہ سکتے ہیں اسی معراج میں شرعی نبوت کی بنیاد پڑی ہے۔ اور نمازیں فرض کی گئی ہیں۔ اور دوسرا معراج ۵سال بعد نبوت میں ہوا ہے۔ یا یہ کہ وہ بھی اس سے پہلے ہو چکا تھا صرف اس کا ذکر سورہ نجم میں کیا گیا ہے۔ اور اسراء کا واقعہ بالکل جدا ہے‘‘۔(تفسیر کبیر جلد ۶ صفحہ ۲۶۸، ایڈیشن ۲۰۲۳ء)
ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰی فَکَانَ قَابَ قَوۡسَیۡنِ اَوۡ اَدۡنٰی فَاَوۡحٰۤی اِلٰی عَبۡدِہٖ مَاۤ اَوۡحٰی مَا کَذَبَ الۡفُؤَادُ مَا رَاٰی اَفَتُمٰرُوۡنَہٗ عَلٰی مَا یَرٰی وَلَقَدۡ رَاٰہُ نَزۡلَۃً اُخۡرٰی عِنۡدَ سِدۡرَۃِ الۡمُنۡتَہٰی عِنۡدَہَا جَنَّۃُ الۡمَاۡوٰی اِذۡ یَغۡشَی السِّدۡرَۃَ مَا یَغۡشٰی مَا زَاغَ الۡبَصَرُ وَمَا طَغٰی لَقَدۡ رَاٰی مِنۡ اٰیٰتِ رَبِّہِ الۡکُبۡرٰی (سورۃ النجم ۹ تا۱۹)
حضرت مصلح موعودؓ نے ان آیات کا یوں ترجمہ کیا ہے:اور وہ (یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بندوں کے اس اضطراب کو دیکھ کر اور ان پر رحم کرکے خدا سے ملنے کے لئے) اس کے قریب ہوئے اور وہ (خدا) بھی (محمد رسول اللہ صلعم کی ملاقات کے شوق میں) اوپر سے نیچے آگیا۔ اور وہ دونوں دو کمانوں کے متحدہ و ترکی شکل میں تبدیل ہو گئے۔ اور ہوتے ہوتے اس سے بھی زیادہ قرب کی صورت اختیار کر لی۔ پس اس نے اپنے بندے کی طرف وہی وحی نازل کی جس کا وہ فیصلہ کر چکا تھا۔ (محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے) دل نے جو کچھ دیکھا تھا وہی بیان کیا۔ کیا تم اس سے اس (نظارہ) کے بارے میں جھگڑتے ہو جو اس (یعنی محمد رسول اللہ) نے (آسمان پر) دیکھا تھا۔ حالانکہ اس نے یہ (نظارہ) ایک دفعہ نہیں دیکھا بلکہ دو دفعہ دیکھا ہے (یعنی ایک اس وقت جب آپ خدا کے قریب ہونے کی کوشش کر رہے تھے اور دوسرے اس وقت جب خدا نے آپ کی طرف نزول فرمایا)۔ (یعنی) ایک ایسی بیری کے پاس جو انتہائی مقام پر ہے۔ اسی کے پاس جنت الماویٰ ہے۔ اور یہ نظارہ دیکھا بھی اس وقت تھا جب بیری کو اس چیز نے ڈھانک لیا تھا جو ایسے وقت میں ڈھانکا کرتی ہے (یعنی تجلی الٰہی نے)۔ نہ تو اس کی آنکھ اس وقت کج ہوئی نہ آگے نکل گئی۔ اس وقت اس نے اپنے رب کی بڑی نشانیوں میں سے ایک بڑی نشانی دیکھی۔
قرآن کریم کی رُو سے سِدْرَۃُ الْمُنْتَھٰی وہ مقام ہے جہاں پر اللہ تعالیٰ رسول کریمﷺ سے ہم کلام ہوا۔لیکن یہ بھی ایک روحانی نظارہ تھا کیونکہ جسمانی طور پر ظاہری آنکھوں سے تو خدا تعالیٰ کو دیکھنا ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ خدا تو وہ نور ہے جو ہر مقام پر موجود رہتا ہے جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:فَاَیۡنَمَا تُوَلُّوۡا فَثَمَّ وَجۡہُ اللّٰہِ(البقرۃ:۱۱۶)حضرت عائشہؓ کی اس حوالہ سے روایت ملتی ہے،آپ نے فرمایا کہ جو کہتا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے جسمانی آنکھوں سے خدا تعالیٰ کو دیکھا تھا وہ جھوٹ بولتا ہے۔(صحیح بخاری کتاب التفسیر باب تفسیر سورۃ النجم حدیث ۴۸۵۵)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ اس بارے میں فرماتے ہیں: ’’بیری حد فاصل کے لیے استعمال ہوتی تھی اب بھی ہوتی ہے۔عربوں میں بھی رواج تھا،ہمارے پاکستان ہندوستان میں بھی رواج ہےکہ کھیتوں کے کنارے پردوسرے لوگوں کو دخل اندازی سے روکنے کے لیےبیریوں کی باڑ لگائی جاتی ہے۔ اور چونکہ اس میں کانٹے ہوتے ہیں اور گھنی ہوتی ہے اس لیےاس سے گزرنا بہت مشکل کام ہے۔ تو وہ صرف علامت تھی حدفاصل کی کہ یہاں مخلوق کی حد ختم اور خدا کی تنزیہی صفات جن میں کوئی دوسرا شریک نہیں ہوسکتا، وہ شروع ہوتی ہیں۔اور (اے محمدؐ )تو تخلیق کے آخری مرتبہ تک پہنچا ہے جس سے آگے مخلوق کو بڑھنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے۔کتنے عظیم الشان مضامین ہیں جن کو کھیل تماشا بنادیا گیا ہے۔‘‘ (مجلس عرفان حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ ۸؍دسمبر۱۹۹۶ء)
دو قوسوں میں وتر
اس کے بعد رسول کریم ﷺ آسمانوں سے ہوتے ہوئے واپس لوٹے اور اسی دوران یہ حالتِ کشف بھی آپؐ سے جاتی رہی اور بالآخر آپ کی آنکھ کھل گئی۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’سید الانبیاء و خیر الوریٰ مولانا وسید نا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ایک عظیم الشان روحانی حسن لے کر آئے جس کی تعریف میں یہی آیت کریمہ کافی ہے دَنَافَتَدَلّٰى فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنٰى یعنی وہ نبی جناب الٰہی سے بہت نزد یک چلا گیا۔ اور پھر مخلوق کی طرف جھکا اور اس طرح پر دونوں حقوں کو جو حق اللہ اور حق العباد ہے ادا کر دیا۔ اور دونوں قسم کا حسن روحانی ظاہر کیا۔ اور دونوں قوسوں میں وتر کی طرح ہو گیا‘‘۔ (براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد ۲۱صفحہ۲۲۰۔۲۲۱)
پس واقعہ معراج میں دراصل رسول کریم ﷺ کےعظیم الشان مقام اور مرتبہ کو واضح کیا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہےکہ آپؐ روحانی اعتبار سےایک ایسے عظیم الشان مقام پر فائز ہیں جس تک کوئی بھی انسان نہیں پہنچ سکا اور اس معاملہ میں آپؐ دیگر انبیاء سے بھی ممتاز دکھائی دیتے ہیں۔لیکن بد قسمتی سے اس واقعہ میں بیان کردہ تفصیلات کو ظاہری واقعہ سمجھنے کی وجہ سے اس میں بیان کردہ غیر معمولی باتوں کو محض قصے کہانیاں سمجھ لیا گیاجس کی وجہ سے غیر تو غیر اپنوں کے لئے بھی یہ واقعہ سمجھنا مشکل ہوگیا۔ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپؑ کے خلفاء نے اس واقعہ کی تفصیلات ایسے رنگ میں سمجھائی ہیں جن سے ہمیں نہ صرف یہ واقعہ مکمل طور پر سمجھ میں آجاتا ہے بلکہ اس میں بیان کردہ رسول کریمﷺ کا عظیم الشان مقام و مرتبہ بھی معلوم ہوجاتا ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اپنے آقا ؐکی سنت پر بھرپور عمل کرنےاور آپ پر بے حد درود اور سلام بھیجنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وَّ عَلى آلِ مُحَمَّدٍ
وَّ بَارِكْ وَسَلِّمْ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ