متفرق شعراء
ظالم کو پیس ڈال کہ تُو جانتا تو ہے
دینی پڑی یہ مجھ کو گواہی کہاں کہاں
کس کس نے کی ہے کتنی تباہی کہاں کہاں
لائے گئے ثبوت تو یہ بات کھل گئی
کس کی ہوئی ہے پُشت پناہی کہاں کہاں
لکھا تھا ایک فیصلہ اک بدنصیب نے
پھیلی ہوئی ہے اس کی سیاہی کہاں کہاں
تاکہ اُسی کا ہر جگہ پڑھنا پڑے سبق
کھولا گیا ہے مکتبِ شاہی کہاں کہاں
اس کو غرورِ جبر مگر جانتا نہیں
اہلِ وفا نے بات نباہی کہاں کہاں
میری صفوں میں، جانتا ہوں، اے مرے عدو
موجود ہیں تمہارے سپاہی کہاں کہاں
ظالم کو پیس ڈال کہ تُو جانتا تو ہے
ڈھایا گیا ہے ظلم، الٰہی! کہاں کہاں
آخر تلک تھا منتظر ہر تشنہ لب نجیب
پھرتی رہی ہے لیکن صراحی کہاں کہاں
(نجیب احمد فہیم)