حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

حضرت عمرؓ کو اپنی شہادت کا خوف نہیں تھا

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ آیت وَلَیُبَدِّلَنَّھُمْ مِّنۡۢ بَعْدِ خَوْفِھِمْ اَمْنًا کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’خلفاء پر کوئی ایسی مصیبت نہیں آئی جس سے انہوں نے خوف کھایا ہو اور اگر آئی تو اللہ تعالیٰ نے اسے امن سے بدل دیا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حضرت عمرؓ  شہید ہو گئے مگر جب واقعات کو دیکھا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمرؓ کو اس شہادت سے کوئی خوف نہیں تھا بلکہ وہ متواتر دعائیں کیا کرتے تھے کہ یا اللہ! مجھے شہادت نصیب کر اور شہید بھی مجھے مدینہ میں کر۔ پس وہ شخص جس نے اپنی ساری عمر یہ دعائیں کرتے ہوئے گزار دی ہو کہ یا اللہ! مجھے مدینہ میں شہادت دے۔ وہ اگر شہید ہو جائے تو ہم یہ کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ اس پر ایک خوفناک وقت آیا مگر وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے امن سے نہ بدلا گیا۔ بیشک اگر حضرت عمرؓ شہادت سے ڈرتے اور پھر وہ شہید ہو جاتے تو کہا جا سکتا تھا کہ ان کے خوف کو خدا تعالیٰ نے امن سے نہ بدلا مگر وہ تو دعائیں کرتے رہتے تھے کہ یا اللہ! مجھے مدینہ میں شہادت دے۔ پس ان کی شہادت سے یہ کیونکر ثابت ہو گیا کہ وہ شہادت سے ڈرتے بھی تھے اور جب وہ شہادت سے نہیں ڈرتے تھے بلکہ اس کے لئے دعائیں کرتے تھے جن کوخدا تعالیٰ نے قبول فرما لیا تو معلوم ہوا کہ اس آیت کے ماتحت ان پر کوئی ایساخوف نہیں آیا جو ان کے دل نے محسوس کیا ہو اور اس آیت میں جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں یہی ذکر ہے کہ خلفاء جس بات سے ڈرتے ہوں گے وہ کبھی وقوع پذیر نہیں ہو سکتی اور اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ ان کے خوف کو امن سے بدل دے گا مگر جب وہ ایک بات سے ڈرتے ہی نہ ہوں بلکہ اپنی عزت اور بلندی درجات کا موجب سمجھتے ہوں تو اسے خوف کہنا اور پھر یہ کہنا کہ اسے امن سے کیوں نہ بدل دیا گیا بے معنی بات ہے۔‘‘یہ نکتہ بھی سمجھنے والا ہے۔

آپؓ فرماتے ہیں کہ ’’میں نے تو جب حضرت عمرؓ کی اس دعا کو پڑھا تو میں نے اپنے دل میں کہا کہ اس کا بظاہر یہ مطلب تھا کہ دشمن مدینہ پر حملہ کرے اور اس کا حملہ اتنی شدت سے ہو کہ تمام مسلمان تباہ ہو جائیں۔ پھر وہ خلیفۂ وقت تک پہنچے اور اسے بھی شہید کر دے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے حضرت عمرؓ  کی دعا بھی قبول کر لی اور ایسے سامان بھی پیدا کر دیئے جن سے اسلام کی عزت قائم رہی۔ چنانچہ بجائے اس کے کہ مدینہ پر کوئی بیرونی لشکر حملہ آور ہوتا اندر سے ہی ایک خبیث اٹھا اور اس نے خنجر سے آپؓ کو شہید کر دیا۔‘‘(تفسیر کبیر جلد ۶ صفحہ ۳۷۸) (خطبہ جمعہ فرمودہ۱۵؍اکتوبر ۲۰۲۱ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۵؍نومبر۲۰۲۱ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button