خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب

خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب (خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۷؍اکتوبر۲۰۲۳ء بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے) یوکے)

سوال نمبر۱: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ کے عنوان کی بابت کیابیان فرمایا؟

جواب:فرمایا:آنحضرتﷺ کی سیرت کا ذکر ہورہا تھا۔

سوال نمبر۲:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آنحضرتﷺکےحضرت علیؓ اورحضرت فاطمہؓ کو نماز تہجد کی طرف توجہ دلانےکی بابت کیابیان فرمایا؟

جواب: فرمایا:حضرت مصلح موعودؓ نے اس واقعہ کی تفصیل اس طرح بیان فرمائی ہے کہ ’’ایک دفعہ آپؐ رات اپنے داماد حضرت علیؓ اور اپنی بیٹی حضرت فاطمہؓ کے گھر گئے اور فرمایا کیا تہجد پڑھا کرتے ہو؟ (یعنی وہ نماز جو آدھی رات کے قریب اٹھ کر پڑھی جاتی ہے) حضرت علیؓ نے عرض کیا یا رسول اللہؐ! پڑھنے کی کوشش تو کرتے ہیں مگر جب خداتعالیٰ کی منشاء کے ماتحت کسی وقت ہماری آنکھ بند رہتی ہے تو پھر تہجد رہ جاتی ہے۔ آپؐ نے فرمایا تہجد پڑھا کرو اور اٹھ کر اپنے گھر کی طرف چل پڑے اور راستہ میں بار بار کہتے جاتے تھے وَكَانَ الْاِنْسَانُ اَكْثَرَ شَیءٍ جَدَلًا (الکہف:۵۵) یہ قرآن کریم کی ایک آیت ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ انسان اکثر اپنی غلطی تسلیم کرنے سے گھبراتا ہے اور مختلف قسم کی دلیلیں دے کر اپنے قصور پر پردہ ڈالتا ہے۔ مطلب یہ تھا کہ بجائے اِس کے کہ حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہؓ یہ کہتے کہ ہم سے کبھی کبھی غلطی بھی ہو جاتی ہے انہوں نے یہ کیوں کہا کہ جب خداتعالیٰ کا منشاء ہوتا ہے کہ ہم نہ جاگیں تو ہم سوئے رہتے ہیں اور اپنی غلطی کو اللہ تعالیٰ کی طرف کیوں منسوب کیا۔‘‘

سوال نمبر۳: حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آنحضرتﷺکےحضرت علیؓ اورحضرت فاطمہؓ کونصیحت کرنےپر حضرت مصلح موعودؓ کاکیاتبصرہ بیان فرمایا؟

جواب: فرمایا:حضرت مصلح موعودؓ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ’’… حضرت علیؓ فرماتے ہیں…نبی کریم ﷺ ایک رات میرے اور فاطمة الزہراؓ کے پاس تشریف لائے جو رسول اللہﷺ کی صاحبزادی تھیں اور فرمایا کہ کیا تم تہجد کی نماز نہیں پڑھا کرتے؟ میں نے جواب دیا کہ یا رسول اللہؐ! ہماری جانیں تو اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہیں۔ جب وہ اٹھانا چاہے اٹھا دیتا ہے۔ آپؐ اس بات کو سن کر لوٹ گئے اور مجھے کچھ نہیں کہا۔ پھر میں نے آپؐ سے سنا اور آپؐ پیٹھ پھیر کر کھڑے ہوئے تھے اور آپؐ اپنی ران پر ہاتھ مار کر کہہ رہے ہیں کہ انسان تو اکثر باتوں میں بحث کرنے لگ پڑتا ہے۔اللہ! اللہ!کس لطیف طرز سے حضرت علیؓ کو آپؐ نے سمجھایا کہ آپ کو یہ جواب نہیں دینا چاہئے تھا۔ کوئی اَور ہوتا تو اوّل تو بحث شروع کر دیتا کہ میری پوزیشن اور رتبہ کو دیکھو پھر اپنے جواب کو دیکھو کہ کیا تمہیں یہ حق پہنچتا تھا کہ اس طرح میری بات کو ردّ کر دو۔ یہ نہیں تو کم سے کم بحث شروع کر دیتا کہ یہ تمہارا دعویٰ غلط ہے کہ انسان مجبور ہے اور اس کے تمام افعال اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہیں۔ وہ جس طرح چاہے کرواتا ہے چاہے نماز کی توفیق دے چاہے نہ دے اور کہتا کہ جبر کا مسئلہ قرآن شریف کے خلاف ہے۔‘‘ آنحضرت ﷺ یہ سب کچھ کہہ سکتے تھے ’’لیکن آپؐ نے ان دونوں طریق میں سے کوئی بھی اختیار نہ کیا اور نہ تو ان پر ناراض ہوئے، نہ بحث کر کے حضرت علیؓ کو ان کے قول کی غلطی پر آگاہ کیا بلکہ ایک طرف ہو کر ان کے اس جواب پر اس طرح اظہار حیرت کر دیا کہ انسان بھی عجیب ہے کہ ہر بات میں کوئی نہ کوئی پہلو اپنے موافق نکال ہی لیتا ہے اور بحث شروع کر دیتا ہے۔ حقیقت میں آپؐ کا اتنا کہہ دینا ایسے ایسے منافع اندر رکھتا تھا کہ جس کا عشر عشیر بھی کسی اَور کی سو بحثوں سے نہیں پہنچ سکتا تھا۔ اس حدیث سے ہمیں بہت سی باتیں معلوم ہوتی ہیں۔‘‘آگے تجزیہ کیا ہے آپؓ نے کہ کیا کیا باتیں معلوم ہوتی ہیں ’’جن سے آنحضرتؐ کے اخلاق کے مختلف پہلوؤں پر روشنی پڑتی ہے اور اسی جگہ ان کا ذکر کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ اوّل تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ کو دینداری کا کس قدر خیال تھا کہ رات کے وقت پھر کر اپنے قریبیوں کا خیال رکھتے تھے۔بہت لوگ ہوتے ہیں جو خود تو نیک ہوتے ہیں۔ لوگوں کو بھی نیکی کی تعلیم دیتے ہیں لیکن ان کے گھر کا حال خراب ہوتا ہے اور ان میں یہ مادہ نہیں ہوتا کہ اپنے گھر کے لوگوں کی بھی اصلاح کریں اور انہی لوگوں کی نسبت مثل مشہور ہے کہ چراغ تلے اندھیرا …آنحضرتؐ کو اس بات کا خیال معلوم ہوتا ہے کہ ان کے عزیز بھی اس نور سے منور ہوں جس سے وہ دنیا کو روشن کرنا چاہتے تھے اور اس کا آپؐ تعہد بھی کرتے تھے اور ان کے امتحان و تجربہ میں لگے رہتے تھے اور تربیت اَعِزاء ایک ایسا اعلیٰ درجہ کا جوہر ہے جو اگرآپؐ میں نہ ہوتا تو آپؐ کے اخلاق میں ایک قیمتی چیز کی کمی رہ جاتی‘‘لیکن آپؐ کیونکہ اعلیٰ اخلاق پر قائم تھے اس لیے یہ جوہر بھی آپؐ میں خوب تھا۔’’دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ آپؐ کو اس تعلیم پر کامل یقین تھا جو آپؐ دنیا کے سامنے پیش کرتے تھے اور ایک منٹ کے لئے بھی آپؐ اس پر شک نہیں کرتے تھے… تیسری بات وہی ہے جس کے ثابت کرنے کے لئے مَیں نے یہ واقعہ بیان کیا ہے کہ آنحضرتؐ ہر ایک بات کے سمجھانے کے لئے تحمل سے کام لیا کرتے تھے اور بجائے لڑنے کے محبت اور پیار سے کسی کو اس کی غلطی پر آگاہ فرماتے تھے۔‘‘

سوال نمبر۴: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے غزوہ بنوقینقاع کےپس منظرکی بابت کیابیان فرمایا؟

جواب: فرمایا: بنو قینقاع کے غزوے کا ذکر سیرت خاتم النبیینؐ میں یوں ہے:’’جس وقت آنحضرت ﷺ مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ میں تشریف لائے تھے اس وقت مدینہ میں یہود کے تین قبائل آباد تھے۔ ان کے نام بنوقینقاع، بنونضیر اور بنوقریظہ تھے۔ آنحضرت ﷺ نے مدینہ میں آتے ہی ان قبائل کے ساتھ امن وامان کے معاہدے کر لئے اورآپس میں صلح اورامن کے ساتھ رہنے کی بنیاد ڈالی۔ معاہدہ کی رُو سے فریقین اس بات کے ذمہ دار تھے کہ مدینہ میں امن وامان قائم رکھیں اوراگر کوئی بیرونی دشمن مدینہ پر حملہ آور ہوتو سب مل کر اس کا مقابلہ کریں۔ شروع شروع میں تو یہود اس معاہدہ کے پابند رہے اورکم ازکم ظاہری طورپرانہوں نے مسلمانوں کے ساتھ کوئی جھگڑا پیدا نہیں کیا لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ مسلمان مدینہ میں زیادہ اقتدار حاصل کرتے جاتے ہیں توان کے تیور بدلنے شروع ہو گئے اور انہوں نے مسلمانوں کی اس بڑھتی ہوئی طاقت کوروکنے کا تہیہ کر لیا اوراس غرض کے لئے انہوں نے ہرقسم کی جائز وناجائز تدابیر اختیار کرنا شروع کیں۔ حتی ٰکہ انہوں نے اس بات کی کوشش سے بھی دریغ نہیں کیا کہ مسلمانوں کے اندر پھوٹ پیدا کر کے خانہ جنگی شروع کرا دیں۔ چنانچہ روایت آتی ہے کہ ایک موقع پر قبیلہ اوس اورخزرج کے بہت سے لوگ اکٹھے بیٹھے ہوئے باہم محبت واتفاق سے باتیں کررہے تھے کہ بعض فتنہ پرداز یہود نے اس مجلس میں پہنچ کر جنگِ بُعاث کا تذکرہ شروع کر دیا۔ یہ وہ خطرناک جنگ تھی جوان دوقبائل کے درمیان ہجرت سے چند سال قبل ہوئی تھی اورجس میں اوس اور خزرج کے بہت سے لوگ ایک دوسرے کے ہاتھ سے مارے گئے تھے۔‘‘ …اس جنگ کا ذکر آتے ہی بعض جوشیلے لوگوں کے دلوں میں پرانی یاد تازہ ہو گئی اور گزشتہ عداوت کے منظر آنکھوں کے سامنے پھر گئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ باہم نوک جھونک اورطعن وتشنیع سے گزر کر نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ اسی مجلس میں مسلمانوں کے اندر تلوار کھچ گئی مگر خیر گزری کہ آنحضرت ﷺ کوبروقت اس کی اطلاع مل گئی اور آپؐ مہاجرین کی ایک جماعت کے ساتھ فوراً موقع پر تشریف لے آئے اورفریقین کو سمجھا بجھا کر ٹھنڈا کیا اور پھر ملامت بھی فرمائی کہ تم میرے ہوتے ہوئے جاہلیت کاطریق اختیار کرتے ہو اورخدا کی اس نعمت کی قدر نہیں کرتے کہ اس نے اسلام کے ذریعہ تمہیں بھائی بھائی بنا دیا ہے۔ انصار پر آپؐ کی نصیحت کاایسا اثر ہوا کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اوروہ اپنی اس حرکت سے تائب ہوکر ایک دوسرے سے بغلگیر ہو گئے۔ جب جنگِ بدر ہو چکی اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے مسلمانوں کو باوجود ان کی قلت اور بےسروسامانی کے قریش کے ایک بڑے جرّار لشکر پر نمایاں فتح دی اور مکہ کے بڑے بڑے عمائد خاک میں مل گئے تومدینہ کے یہودیوں کی آتشِ حسد بھڑک اٹھی اورانہوں نے مسلمانوں کے ساتھ کھلم کھلا نوک جھونک شروع کردی اور مجلسوں میں برملا طور پر کہنا شروع کیا کہ قریش کے لشکر کو شکست دینا کون سی بڑی بات تھی ہمارے ساتھ محمد (ﷺ) کامقابلہ ہو تو ہم بتادیں کہ کس طرح لڑا کرتے ہیں۔ حتی ٰکہ ایک مجلس میں انہوں نے خود آنحضرت ﷺ کے منہ پر اسی قسم کے الفاظ کہے۔ چنانچہ روایت آتی ہے کہ جنگِ بدر کے بعد جب آنحضرتﷺمدینہ میں تشریف لائے تو آپؐ نے ایک دن یہودیوں کو جمع کرکے ان کو نصیحت فرمائی اور اپنا دعویٰ پیش کرکے اسلام کی طرف دعوت دی۔آپؐ کی اس پُرامن اورہمدردانہ تقریر کا رؤسائے یہود نے ان الفاظ میں جواب دیا کہ ’’اے محمد! (ﷺ) تم شاید چند قریش کوقتل کرکے مغرور ہوگئے ہو۔ وہ لوگ لڑائی کے فن سے ناواقف تھے۔ اگر ہمارے ساتھ تمہارا مقابلہ ہو تو تمہیں پتہ لگ جاوے کہ لڑنے والے ایسے ہوتے ہیں۔‘‘ یہود نے صرف عام دھمکی پرہی اکتفاء نہیں کی بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے آنحضرت ﷺ کے قتل کے بھی منصوبے شروع کر دیئے تھے کیونکہ روایت آتی ہے کہ جب ان دنوں میں طَلْحَہ بن بَرَاء جوایک مخلص صحابی تھے فوت ہونے لگے تو انہوں نے وصیت کی کہ اگر میں رات کو مروں تونماز جنازہ کے لئے آنحضرتﷺ کواطلاع نہ دی جاوے تا ایسا نہ ہو کہ میری وجہ سے آپؐ پر یہود کی طرف سے کوئی حادثہ گزرجاوے۔ الغرض جنگِ بدر کے بعد یہود نے کھلم کھلا شرارت شروع کردی اورچونکہ مدینہ کے یہود میں بنوقینقاع سب میں زیادہ طاقتور اوربہادر تھے اس لئے سب سے پہلے انہی کی طرف سے عہد شکنی شروع ہوئی۔ چنانچہ مؤرخین لکھتے ہیں کہ … مدینہ کے یہودیوں میں سے سب سے پہلے بنو قینقاع نے اس معاہدہ کو توڑا جواُن کے اورآنحضرت ﷺ کے درمیان ہوا تھا اوربدر کے بعد انہوں نے بہت سرکشی شروع کردی اور برملا طور پر بغض وحسد کا اظہار کیا اور عہدوپیمان کو توڑ دیا۔مگرباوجود اس قسم کی باتوں کے مسلمانوں نے اپنے آقا کی ہدایت کے ماتحت ہر طرح سے صبر سے کام لیا اور اپنی طرف سے کوئی پیش دستی نہیں ہونے دی مگر حدیث میں آتا ہے کہ اس معاہدہ کے بعد جویہود کے ساتھ ہوا تھا ۔آنحضرتﷺ خاص طورپر یہود کی دلداری کا خیال رکھتے تھے۔‘‘

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button