مکتوب جنوبی امریکہ (اکتوبر۲۰۲۴ء) (بر اعظم جنوبی امریکہ تازہ حالات و واقعات کا خلاصہ)
سمندر کی تہ میں موجود انسانی تاریخ کے سب سے بڑے خزانےکی ملکیت کی جنگ
سان ہوزے(San José) نامی ہسپانوی بحری جہاز کو ۳۰۰ برس قبل برطانیہ نے کولمبیا کی ساحلی پٹی پر تباہ کردیا تھا۔ اس جہاز میں سونا، چاندی اور قیمتی ہیرے تھے جن کی مالیت آج کے حساب سے اربوں ڈالرز میں ہے۔ جب اسے سمندر کی تہ میں ڈھونڈ نکالا گیا اس کے بعد سے ہی ایک بحث جاری ہے کہ آخر یہ خزانہ کس کی ملکیت ہے۔ کولمبیا اور سپین دونوں اس خزانے کی ملکیت کے دعوے دار ہیں۔ ان کے علاوہ ایک امریکی کمپنی اور جنوبی امریکہ میں کچھ گروہ کہتے ہیں کہ یہ خزانہ انہیں ملنا چاہیے۔اس خزانے کی ملکیت کے حوالے سے کولمبیا اور امریکہ کی عدالتوں میں قانونی جنگ لڑی جا چکی ہے اور اب یہ مقدمہ ہیگ کی عالمی ثالثی عدالت کے سامنے ہے۔
کولمبیا کی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ سان ہوزے کی باقیات کو سمندر سے نکال کر ایک عجائب گھر میں رکھنا چاہتے ہیں۔ دوسری جانب خزانے کی تلاش میں رہنے والے اس کی قیمت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں جو کہ ۱۸؍ ارب امریکی ڈالرز تک ہو سکتی ہے۔ تاہم ماہرینِ آثار قدیمہ کہتے ہیں کہ سان ہوزے سمیت پوری دنیا کے سمندروں میں جو ہزاروں تباہ شدہ جہاز موجود ہیں انہیں وہیں رہنے دینا چاہیے جہاں وہ موجود ہیں۔سمندری تاریخ دان ہمیں بتاتے ہیں کہ سان ہوزے ایک قبرستان ہے اور اس کا احترام کیا جانا چاہیے۔ اس جہاز پر ۶۰۰؍ افراد سوار تھے جو اسی کے ساتھ ڈوب گئے تھے۔ یہ بحری جہاز ۱۷۰۸ء میں پانامہ سے کولمبیا کے شہر کارتاخینا(Cartagena) کی طرف نکلا تھا۔ وہاں سے اسے بحر اوقیانوس عبور کرکے سپین میں داخل ہونا تھا۔ اس وقت برطانیہ اور سپین میں جنگ جاری تھی۔ ایک برطانوی جنگی جہاز نے سان ہوزے کا پیچھا کیا۔ وہ اس جہاز پر قبضہ کر کے اس میں موجود تمام خزانہ حاصل کرنا چاہتے تھے لیکن غلطی سے اس پر ایک گولہ داغ بیٹھےجس کے نتیجے میں سان ہوزے تباہ ہو گیا اور اس کا ملبہ سمندر کی تہ میں چلا گیا۔ اس جہاز کا ملبہ ۱۹۸۰ء کی دہائی تک سمندر کی تہ میں ہی موجود تھا کہ اچانک گلوکا مورا(Glocca Mora Co) نامی امریکی کمپنی نے دعویٰ کیا کہ اس نے سان ہوزے اور اس میں موجود خزانے کو ڈھونڈ نکالا ہے۔
اس کمپنی نے کولمبیا کی حکومت کو راضی کرنے کی کوشش کی کہ اس جہاز کو سمندر سے باہر نکالا جائے اور خزانے کو آپس میں تقسیم کر لیا جائے لیکن فریقین اس بات پر متفق نہیں ہو سکے کہ کس کا حصہ کتنا ہوگا اور یہ معاملہ عدالتی کارروائیوں کی نذر ہوگیا۔ ۲۰۱۵ءمیں کولمبیا نے کہا کہ انہوں نے امریکیوں کی فراہم کردہ معلومات کے تحت خود ہی سان ہوزے کے ملبے کو ڈھونڈ نکالا ہے۔اس کے بعد سے کولمبیا کی حکومت کا موقف رہا ہے کہ گلوکا مورا کا تباہ شدہ جہاز یا اس کے خزانے پر کوئی حق نہیں۔دوسری جانب سپین کا کہنا ہے کہ سان ہوزے اور اس پر موجود سامان اس کی ریاستی ملکیت ہے، جبکہ بولیویا اور پیرو میں موجود کچھ قدیم گروہوں کا ماننا ہے کہ انہیں بھی اس خزانے میں سے حصہ ملنا چاہیے۔ان کا کہنا ہے کہ یہ کوئی ہسپانوی خزانہ نہیں ہے کیونکہ سپین نے یہ تمام اشیا نوآبادیاتی دور میں سلسلہ کوہ انڈیز کی کانوں سے لوٹی تھیں۔کولمبیا نے آبدوز کے کیمروں سے بنائی گئی سان ہوزے کی ایک ویڈیو بھی جاری کی ہے۔ اس میں جہاز کا ملبہ، کانسی کے گولےاور سونے کے سکّے دیکھے جا سکتے ہیں۔ہیگ میں قائم عالمی عدالت انصاف نے عدالتی کارروائی کے دوران گلوکا مورا نے سان ہوزے کے حوالے سے ایک تحقیق کروائی تھی جس کے مطابق جہاز میں موجود خزانے کی قیمت سات ارب امریکی ڈالر سے ۱۸؍ارب امریکی ڈالر ہو سکتی ہے۔
۱۹۸۲ء میں اقوامِ متحدہ نے کنوینشن آن دا لا آف دا سی(United Nations Convention on the Law of the Sea) متعارف کروایا تھا جسے’’سمندروں کا آئین‘‘بھی کہا جاتا ہے، لیکن اس میں بھی تباہ شدہ جہازوں یا ان کے ملبے کے حوالے سے زیادہ تفصیل موجود نہیں۔
اسی سبب پھر اقوامِ متحدہ نے (Underwater Cultural Heritage 2001 Convention)یونیسکو انڈرواٹر کلچرل ہیریٹیج ۲۰۰۱ءکنوینشن متعارف کروایا۔ اس میں جہازوں کے ملبے کے حوالے سے کافی تفصیل شامل ہے لیکن متعدد ممالک اس پر عمل کرنے سے گریزاں ہیں کیونکہ انہیں ڈر ہے کہ اس وجہ سے سمندر میں موجود خزانوں پر ان کا دعویٰ کمزور پڑ جائے گا۔امریکہ اور کولمبیا نے بھی اس کنوینشن پر دستخط نہیں کیے تھے۔آثارِقدیمہ کے دیگر ماہرین کا خیال ہے کہ سان ہوزے کے ملبے کو سمندر کی تہ میں ہی پڑا رہنے دینا چاہیے۔وہ کہتے ہیں کہ سان ہوزے کا خزانہ اس جہاز کے ڈوبنے کے سبب مرنے والے ۶۰۰؍ افراد کی باقیات کے ساتھ سمندر کی تہ میں ہی رہنا چاہیے۔اس خزانے کی کوئی کمرشل قیمت نہیں۔ اس کی قیمت صرف سائنسی اعتبار سے ہے۔
توانائی کے بحران کی وجہ سے کیوبا میں بجلی کی طویل بندش
پے در پے سمندری طوفانوں کا سامنا کرنے اور ملک کے سب سے بڑے بجلی گھر کوبروقت ایندھن کی ترسیل میں ناکامی کی وجہ سے کیوبا کئی دن اندھیرے میں ڈوبا رہا۔ مائع گیس کی ترسیل رک جانے سے عوام الناس کو کھانے کی تیاری میں بھی شدید مشکلات کا سامنا رہا اور بڑی تعداد میں لوگ فاقوں پر مجبور ہوگئے۔ لوگوں نے باہر سے لکڑیاں جمع کرکے اپنی ضرورتوں کو پورا کیا۔ کیوبا میں گذشتہ کئی برسوں سے توانائی کا شدید بحران ہے جو اَب عروج پر پہنچ گیا ہے۔
ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ کیوبا کے توانائی کے بنیادی ڈھانچے کو مزید سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ ملک کے توانائی اور کانوں کے وزیر Vicente de la O Levy نے ملک کے بجلی کے بنیادی ڈھانچے کی خرابی کے لیے متعدد مسائل کو ذمہ دار ٹھہرایا جس کی اصل وجہ انہوں نے ’’سفاکانہ‘‘ امریکی اقتصادی پابندیاں قرار دی ہیں۔ کیوبا پر مسلط امریکی پابندیوں کی وجہ سے بجلی کے گرڈ سٹیشن کو اوورہال کرنے کے لیے نئے پرزے درآمد کرنا یا پاور اسٹیشنوں کو چلانے کے لیے کافی مقدار میں ایندھن لانا ممکن نہیں، حتیٰ کہ بین الاقوامی بینکنگ سسٹم میں کریڈٹ تک رسائی حاصل کرنا ناممکن بنا دیا گیاہے۔
برطانوی گلوکار کی ہوٹل کی بالکونی سے گِر کر موت
برطانوی گلوکار اور مشہور بینڈ ’’ون ڈائیریکشن‘‘ (One Direction)کے سابق رکن ۳۱؍سالہLiam Payne کی ارجنٹینا کے دارالحکومت بیونس آئرس کے ایک ہوٹل کی تیسری منزل سے گِر کر موت ہوئی ہے۔
ایک بیان میں پولیس نے بتایا کہ انہیں لیئم کی لاش تب ملی جب ایمرجنسی سروسز کو ہوٹل کے قریب سے ہیلپ لائن پر کال موصول ہوئی۔ لیئم پین کو عالمی شہرت تب ملی جب وہ ۲۰۱۰ء میں برطانوی ٹی وی شو’’دی ایکس فیکٹر‘‘میں شامل ہوئے۔ پھر وہ نوجوانوں کے پسندیدہ بینڈ ’’ون ڈائریکشن‘‘ کا حصہ بنے جس میں ہیری سٹائلز، لوئس ٹاملنسن، نائیل ہورن اور زین ملک بھی شامل تھے۔رواں ماہ کے شروع میں لیئم پین نے ون ڈائریکشن بینڈ کے ایک اور سابق گلوکار نائیل ہورن کے کنسرٹ میں شرکت کی تھی۔ بیونس آئرس کی پولیس کے مطابق انہیں ایک شکایت موصول ہوئی تھی جس کے مطابق ایک جارحانہ شخص شاید منشیات اور شراب کے اثرات کے زیرِ اثر ہوٹل کی املاک کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ تاہم جب اہلکار ہوٹل پہنچے تو انہیں بتایا گیا کہ ہوٹل کے اندرونی صحن میں ایک زوردار آواز سنائی دی گئی ہے۔ کچھ ہی دیر بعد انہیں وہاں لیئم پین کی لاش ملی۔ ایمرجنسی میڈیکل سروسز کے ڈائریکٹر نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ لیئم پین کو سنگین چوٹیں آئی تھیں اور ان کا پوسٹ مارٹم کیا گیا جس کے مطابق ان کے خون میں نشہ آور مواد کو موجد پایا گیا۔ لیئم پین نے اپنی موت سے چند گھنٹے قبل سنیپ چیٹ پر اپنی پارٹنر کے ساتھ ناشتہ کرتے ہوئے ایک ویڈیو پوسٹ کی تھی۔انہوں نے اس پر لکھا تھا کہ ’’ارجنٹینا میں ایک خوبصورت دن ہے۔‘‘
لیئم کی موت کی خبر کے بعد مداح بیونس آئرس کے ہوٹل کے باہر جمع ہوگئے۔ ہوٹل کے گیٹ پر مجمع لگنے کی وجہ سے پولیس نے دروازے کو گھیرے میں لے لیا تھا۔ مرحوم کے والدمیت لینے کے لیے برطانیہ سے ارجنٹینا پہنچے اور ان سینکڑوں سوگواروں کے ساتھ کچھ وقت گزارا جو گلوکار کا سوگ منانے کے لیے وہاں موجود تھے۔
کان کنی کی معروف کمپنیوں کی جانب سے معاوضے کی ادائیگی کا معاہدہ
کان کنی کی عالمی شہرت یافتہ کمپنیوں BHP اور Vale نے برازیل کی حکومت کے ساتھ ۲۰۱۵ء میں ماریانا ڈیم (Mariana dam)کے ٹوٹنے کے معاوضے کے طور پر تیس بلین ڈالرز ادا کرنے کے لیے ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ برازیل کے صدر مسٹر لوئس اناسیو لولا ڈا سلوا نے بذاتِ خود اس معاہدے پر دستخط کرنے کی تقریب میں شرکت کی۔ اس موقع پر صدر لولا نے گفتگو کرتے ہو ئے کہا کہ’’مجھے امید ہے کہ کان کنی کرنے والی کمپنیوں نے اس سانحہ سے سبق سیکھ لیا ہے، اور آئندہ تباہی سے بچنے کے لیے مناسب اقدامات کر لیے ہیں۔‘‘ اس ڈیم کے ٹوٹنے کی وجہ سے ملک کی بدترین ماحولیاتی تباہی ہوئی تھی جس میں سےزہریلا فضلہ اور کیچڑ نکلا جس سے قریبی قصبوں، ندیوں اور جنگلات میں سیلاب آگیا۔ اس سانحہ میں انیس افراد ہلاک اور سینکڑوں لوگ بےگھر ہو گئے۔ اس فضلے کی وجہ سے دریا کا پانی زہرآلود ہو گیا تھا۔ ٹوٹنے والاڈیم Samarco نامی کمپنی کی ملکیت تھا،جو Vale اور BHP کا مشترکہ منصوبہ تھا۔ اس تباہی کے بعد سےکمپنیوں نے لوگوں کو معاوضہ دینے کے لیے ایک فاؤنڈیشن قائم کی تھی جس کے تحت پہلے ہی اربوں ڈالر کی تعمیر ومرمت کا کام ہو چکا ہے۔موجودہ معاہدے میں تباہ ہونے والے ہر ایک قصبے کی جگہ ایک نیا قصبہ تعمیر کرنا شامل تھا۔ تاہم متاثرین ابھی تک اس بحث میں مصروف ہیں کہ انہیں حقیقی انصاف نہیں ملا اور اس سانحہ کو نو سال بیت جانے کے باوجود ان کی زندگیاں دوبارہ ڈگر پر نہیں آسکیں۔ برازیل میں جاری ان کاوشوں کے باوجود چھ لاکھ سے زائد متاثرین نے برطانیہ (جہاں اس کمپنی کا صدر دفتر ہے)کی عدالت میں ’’بی ایچ پی‘‘کے خلاف ہرجانے کا دعویٰ دائر کیا ہوا ہے۔
وینزویلا کی ’’ برکس تنظیم‘‘ میں شرکت کی کوشش ناکام
وینزویلا نے ابھرتی ہوئی معیشتوں کی تنظیم BRICS گروپ میں اپنی شمولیت کی کوشش کو برازیل کی جانب سے ٹھکرائے جانے پر شدید تنقید کی ہے۔ وینزویلا کی وزارتِ خارجہ نے اس اقدام کو’’غیر اخلاقی جارحیت‘‘ قرار دیا ہے۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ ’’وینزویلا کے عوام اس ناقابل فہم اور غیر اخلاقی جارحیت پر غصہ اور شرمندگی محسوس کرتے ہیں۔‘‘ حال ہی میں روس میں ہونے والی سربراہی کانفرنس میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سمیت چھتیس ممالک کے راہنما تین روزہ اجلاس میں شریک تھے جہاں برکس نے باضابطہ طور پر چار نئے اراکین کو خوش آمدید کہا۔ ان میں مصر، ایتھوپیا، ایران اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں۔
وینزویلا میں امسال جولائی میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے بعد سے خطے کے چند ممالک سے اس کے تعلقات مزید خراب ہوگئے ہیں۔ موجودہ صدرNicolás Maduro کا دعویٰ ہے کہ وہ اس انتخاب کے فاتح ہیں جبکہ حقائق یہ ثابت کرتے ہیں کہ حزب اختلاف کےEdmundo Gonzálezنے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی تھی۔ برازیل کے صدرLuiz Inácio Lula da Silva نے ابتدائی طور پر مادورو کی حمایت کی، لیکن آخر میں کہا کہ وہ اس وقت تک سرکاری نتائج کو قبول نہیں کریں گے جب تک کہ ووٹوں کی گنتی کا باضابطہ اعلان نہیں کیا جاتا۔ متعدد غیرملکی حکومتوں نے اعلان کیا تھا کہ وینزویلا میں اپوزیشن نے انتخابات میں کامیابی حاصل کی، لیکن اپوزیشن رہنما گونزالیز کو باقاعدہ صدر کے طور پر تسلیم کرنے سے باز رہے۔ وینزویلا نے برکس میں شامل ہونے کے لیے سفارتی سطح پر سخت محنت کی تھی، اور صدر مادورو نے روس کے شہر کازان (Kazan)میں ہونے والے سربراہی اجلاس میں حیرت انگیز طور پر اس دعویٰ اور اعلان کے ساتھ شرکت کی کہ ان کا ملک ’’برکس خاندان کا حصہ‘‘ ہے۔ مگر تنظیم میں ان کی شمولیت کے خلاف برازیل کی وزارتِ خارجہ نے اس ویٹو کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے جسےبرازیل کے سابق صدرJair Bolsonaro نے وینزویلا کے خلاف برسوں پہلے لاگو کیا تھا۔
سُرینام کے ساحل سے تیل نکالنے کے لیے دس بلین ڈالرز کی سرمایہ کاری
فرانس کی ٹوٹل انرجی (Total Energies)اور ٹیکساس میں قائم امریکی ہائیڈرو کاربن کمپنیAPA Corp نے سُرینام کے ساحل سے تیل نکالنے کے لیے دس بلین ڈالرز کی سرمایہ کاری کا تاریخی معاہدہ کیا ہے۔ ٹوٹل انرجی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر Patrick Pouyanné خود اس معاہدے کی توثیق کے لیے سُرینام آئے اور اس موقع پر انہوں نے اعلان کیا کہ’’ ۲۰۲۸ء کے وسط تک تیل کی ابتدائی پیداوار متوقع ہے جو دولاکھ بیس ہزار بیرل یومیہ ہوگی۔‘‘ یہ ملکی تاریخ کی سب سے بڑی سرمایہ کاری ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ سُرینام کے زیرِ کنٹرول سمندری علاقے میں تقریباً ۷۰۰؍ ملین بیرل تیل موجود ہے جو ہمسایہ ملک گیانا سے تعلق رکھنے والے پانیوں میں ایک کامیاب(Exxon Mobil)پراجیکٹ سے ملحق ہے۔ معاہدے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صدر مملکتMr. Chandrikapersad Santokhiنے کہا :’’ آج سُرینام کے لیے ایک تاریخی دن ہےایک ایسا دن جو ہمارے مستقبل کا تعین کرے گا۔اس منصوبے سے متوقع آمدنی کا استعمال سرینام میں معیارِ زندگی کو بلند کرنے کے لیے کیا جائے گا۔‘‘ اس معاہدے کے مطابق ٹوٹل انرجی اور ہائیڈرو کاربن کمپنی کے ساتھ ساتھ سُرینام کی مقامی تیل پیدا کرنے والی کمپنی سٹیٹ آئل (Staatsolie) بیس فیصد حصص کی مالک ہوگی۔
ڈومینیکن ریپبلک سے تارکینِ وطن کی ملک بدری
ڈومینیکن ریپبلک کے حکام کا کہنا ہے کہ وہ مہاجرین کو روکنے کے لیے ہر ہفتے ملک میں غیرقانونی طور پر داخل ہونے والے دس ہزار تارکین وطن کو ملک بدر کرے گا۔ اس منصوبے کا اعلان صدر مملکت لوئس ابینادر (Luis Abinader) کے ترجمان ہومیرو فیگیرو (Homero Figueroa)نے کیا۔ ترجمان نے پڑوسی ملک ہیٹی میں کئی مہینوں سے جاری خانہ جنگی اور تشدّد پر بین الاقوامی برادری کے سست ردعمل اور استحکام کی بحالی میں ناکامی کو اس عمل کا ذمہ دار ٹھہرایا۔گذشتہ کئی ماہ سے بڑی تعداد میں ہیٹی کے باشندے ہمسایہ ملک ڈومینیکن ریپبلک میں داخل ہو رہے ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ صدر ابینادر کی حکومت نے ہیٹی کے تارکینِ وطن کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا ہے، جن کی اکثریت دارالحکومت پورٹ او پرنس میں انتہائی کشیدہ حالات اور غربت کے باعث ملک چھوڑنے پر مجبور ہو رہی ہے۔ مسٹر فیگیرو نے کہا کہ ملک بدری کا عمل فوری طور پر شروع ہو جائے گا۔ اور ہم اس حوالے سے ہر اس طریق پر عمل کریں گے جو انسانی حقوق کے احترام کی ضمانت دیتے ہیں۔ مسٹر فیگیرو نے کہا کہ ملک بدر کیے جانے والے افراد کی تعداد دس ہزار فی ہفتہ تک پہنچ سکتی ہے۔ کینیا کی قیادت میں چار سو کے قریب افسران پر مشتمل بین الاقوامی سیکیورٹی فورس ہیٹی میں تعینات کی گئی ہے۔ تاہم مختلف گروہ اب بھی دارالحکومت کے زیادہ تر حصے پر قابض ہیں اور بھوک افلاس، پینے کے صاف پانی کی کمی اور اس تک رسائی، نیز طبی امداد اور ادویات کی کمی کے باعث صورتحال انتہائی سنگین ہو چکی ہے۔