حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

رات کے درمیانی حصے میں نماز پڑھنا اجر عظیم کا موجب ہے

حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ فرماتے ہیں:

ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ مجھے کوئی ایسا کام بتائیے کہ وہ مجھے جنت میں لے جائے اور دوزخ سے دُو ر رکھے، آپؐ نے فرمایا تم نے ایک بہت بڑی اور مشکل بات پوچھی ہے لیکن اگر اللہ تعالیٰ توفیق دے تو یہ آسان بھی ہے۔ فرمایا: تُو اللہ تعالیٰ کی عبادت کر، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرا۔ نماز پڑھ، باقاعدگی سے زکوٰۃ ادا کر، رمضان کے روزے رکھ، اگر زادراہ ہو تو بیت اللہ کا حج کر، اگر اجازت ہو، وسائل بھی ہوں اور امن بھی ہو تو حج کرو۔ پھرآپؐ نے یہ فرمایا:کیا میں بھلائی اور نیکی کے دروازے کے متعلق تجھے نہ بتاؤں۔ سنو روزہ گناہوں سے بچنے کی ڈھال ہے۔ صدقہ گناہ کی آگ کو اس طرح بجھا دیتا ہے جس طرح پانی آگ کو بجھا دیتا ہے۔ رات کے درمیانی حصے میں نماز پڑھنا اجر عظیم کا موجب ہے۔ پھر آپؐ نے یہ آیت پڑھی تَتَجَافٰی جُنْوُبُھْم عَنِ الْمَضَاجِعِ (السجدہ:۱۷) کہ اُن کے پہلو اُن کے بستروں سے تہجد کی نماز پڑھنے کے لئے الگ ہو جاتے ہیں۔ پھرآپؐ نے فرمایا کہ کیا میں تم کو سارے دین کی جڑ بلکہ اس کا ستون اور اس کی چوٹی نہ بتاؤں ؟ میں نے عرض کیا جی ہاں یا رسول اللہؐ! ضرور بتائیے۔ آپؐ نے فرمایا: دین کی جڑ اسلام ہے۔ اس کا ستون نماز ہے اور اس کی چوٹی جہاد ہے۔ پھر آپؐ نے فرمایا: کیا میں تجھے اس سارے دین کا خلاصہ نہ بتاؤں۔ میں نے عرض کیا :جی ہاں یا رسول اللہؐ! ضرور بتائیے۔ آپؐ نے اپنی زبان کو پکڑا اور فرمایا اسے روک کر رکھو۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! کیا ہم جو کچھ بولتے ہیں کیا اس کا بھی ہم سے مؤاخذہ ہو گا۔ آپؐ نے فرمایا: عربی کا محاورہ ہے اس کا ترجمہ یہ ہے کہ ’تیری ماں تجھ کو گم کرے‘۔ یعنی جب کسی کو افسوس سے کچھ کہنا ہو یا تاسف سے اس وقت یہ فقرہ بولا جاتا ہے کہ لوگ اپنی زبانوں کی کاٹی ہوئی کھیتیوں یعنی اپنے برے بول اور بے موقع باتوں کی وجہ سے ہی جہنم میں اوندھے منہ گرتے ہیں۔ (ترمذی ابواب الایمان باب فی حرمۃ الصلوٰۃ)

اس میں پہلی روایت کے علاوہ بھی چندباتوں کا ذکر ہے۔ یعنی رمضان کے روزے اور حج۔ پھر کیونکہ آپؐ میں امت کو سیدھے راستے اختیار کروانے کے لئے نیکیوں پر قائم کرنے کے لئے ایک تڑپ تھی اس لئے اور بہت سی نیکیوں کی باتیں آپؐ نے خود کھول کھول کربیان کر دیں۔ کہ روزہ تمہیں گناہوں سے بچائے گا صدقہ خیرات، مالی قربانی تمہیں آگ سے بچائے گی، تہجد پڑھنا بہت بڑے اجر کا باعث ہو گا، پھر اس کی چوٹی جہاد بتایا اور اس زمانے میں جہاد کیا ہے، کیونکہ تلوار کا جہاد تو حضرت مسیح موعودؑ کی آمد کے بعد اب ختم ہو گیا جنگ اور قتال کو تو آپؑ نے دین کے لئے حرام قرار دے دیا۔ یہاں جہاد سے مراد اپنے نفس کے خلاف جہاد ہے۔ نفس کو برائیوں سے روک کر نیکیو ں پر قائم کرنے کا بلکہ نیکیوں میں ایک دوسرے سے بڑھنے کا جہاد یہاں مرادہے۔

(خطبہ جمعہ ۱۰؍ ستمبر ۲۰۰۴ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۴؍ستمبر ۲۰۰۴ء)

اردو زبان سیکھنے کی اہمیت

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button