حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام بسم اللہ جہراً نہیں پڑھتے تھے

نماز میں سورت فاتحہ یا کسی دوسری سورت کو شروع کرنے سے پہلے ہم بسم اللہ پڑھتے ہیں۔ لیکن اسے اونچی آواز سے نہیں پڑھتے بلکہ آہستہ آواز سے پڑھتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ احادیث کی مستند کتب سے ایسا ہی ثابت ہے کہ حضورﷺ نمازوں میں سورت فاتحہ اور دیگر سورتوں کو شروع کرنے سے پہلے بسم اللہ آہستہ آواز میں ہی پڑھتے تھے۔ چنانچہ حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ، حضرت ابو بکراور حضرت عمررضی اللہ عنہما جب بھی نماز شروع کرتے تو الحمد للّٰہ ربّ العالمین سے شروع کرتے۔ (بخاری کتاب الصلوٰۃ باب مایقول بعد التکبیر)…. حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بھی یہی طریق تھا کہ بسم اللہ جہراً نہیں پڑھتے تھے۔خلفائے احمدیت نے بھی اسی طریق کو جاری رکھا اور بسم اللہ جہراً نہیں پڑھی۔اس لیے جماعتی یکجہتی کا تقاضا یہی ہے کہ نماز باجماعت میں امام الصلوٰۃ وہی طریق اختیار کرے جو آنحضرتﷺ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپؑ کے خلفاء سے ثابت ہے۔

لیکن اگر کوئی نماز میں بسم اللہ جہراً پڑھے تو ہم اسے غلط نہیں سمجھتے کیونکہ بعض احادیث میں آتا ہے کہ حضورﷺ نے اسے جہراً بھی پڑھا ہے۔اسی لیے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ فرماتے ہیں:بسم اللہ جہراً اور آہستہ پڑھنا ہر دو طرح جائز ہے۔ ہمارے حضرت مولوی عبد الکریم صاحب (اللّٰھم اغفرہ وارحمہ) جوشیلی طبیعت رکھتے تھے۔ بسم اللہ جہراً پڑھا کرتے تھے۔حضرت مرزا صاحبؑ جہراً نہ پڑھتے تھے۔ ایسا ہی میں بھی آہستہ پڑھتا ہوں۔ صحابہؓ میں ہر دو قسم کے گروہ ہیں۔ میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ کسی طرح کوئی پڑھے اس پر جھگڑا نہ کرو۔ ایسا ہی آمین کا معاملہ ہے ہر دو طرح جائز ہے۔ بعض جگہ یہود اور عیسائیوں کو مسلمانوں کا آمین پڑھنا بُرا لگتا تھاتو صحابہ ؓخوب اونچی پڑھتے تھے۔ مجھے ہر دو طرح مزہ آتا ہے، کوئی اونچا پڑھے یا آہستہ پڑھے۔(بدر نمبر۳۲ جلد۱۱، ۲۳؍مئی ۱۹۱۲ء صفحہ ۳)حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ ایک عمر گزار کر احمدی ہوئے تھے اور احمدیت سے قبل وہ بسم اللہ جہراً ہی پڑھا کرتے تھے اور چونکہ یہ طریق بھی آنحضورﷺ سے ثابت ہے اس لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انہیں اس سے منع نہیں فرمایا۔ لیکن جیسا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کے مذکورہ بالا ارشاد سے نیز بہت سے اور کبار صحابہؓ جن میں حضرت میاں عبداللہ صاحب سنوریؓ، حضرت مفتی محمدصادق صاحبؓ، حضرت قاضی محمد یوسف صاحب پشاوریؓ اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ شامل ہیں، ان کی روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اپنا عمل وہی تھا جسے آپ کے آقا و مولیٰ حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ نے اکثر اختیار فرمایا۔پس اب ہمیں اس معاملہ میں بھی یکجہتی قائم رکھنے کے لیے اسی طریق پر عمل کرنا چاہیے جس پر آنحضور ﷺ،حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام نے اپنے اپنے وقت میں عمل فرمایا۔

(بنیادی مسائل کے جوابات قسط۸۲ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۸؍ ستمبر ۲۰۲۴ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button