دوسروں کی تکلیف کا احساس اور اُسے دُور کرنا
ارسلان اور نعمان ہمیشہ کلاس میں اکٹھے بیٹھا کرتے تھے۔ نعمان ایک خاموش طبع لڑکا تھا اس لیے ان کی آپس میں زیادہ بات چیت نہ ہوتی۔ صرف ضرورت کے تحت کبھی کبھی بات ہو جاتی۔ شروع شروع میں جب نعمان اس سکول میں آیا تو ارسلان نے بہت کوشش کی کہ نعمان سے دوستی کرے مگر باوجود کوشش کے بات نہ بنی۔ کیونکہ جب بھی وہ نعمان سے کچھ پوچھتا توآگے سے نعمان انتہائی مختصر الفاظ میں جواب دے کر گفتگو کو وہیں ختم کر دیتا اور نہ ہی کبھی نعمان نے از خود ارسلان سے اس کے متعلق کچھ پوچھا۔ ارسلان کو نعمان کا یہ رویّہ کبھی برا نہیں لگا۔ وہ تو خود نعمان کےمفاد کے لیے اس سے دوستی کرنا چاہتا تھاکیونکہ وہ اسکول میں نیا تھا ورنہ ارسلان کے تو پہلے سے ہی بہت دوست تھے۔ بس دونوں کا یہی معمول تھا کہ کلاس میں مجبوری کے تحت ساتھ بیٹھنا اور وقفہ میں اپنے اپنےراستے چلے جانا۔ارسلان ہمیشہ اپنے دیگر دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتا۔ تا ہم اس کو یہ نہیں پتا تھا کہ نعمان کا کلاس میں دوست کون ہےاور وہ وقفہ میں کس کے ساتھ کھانا کھاتا ہے؟ کیونکہ اس نے وقفہ کے دوران کبھی اس کو کسی کے ساتھ دیکھا نہیں تھا۔
ایک دن کلا س میں جبکہ ابھی وقفہ میں کافی وقت تھا ، ارسلان کو شدید بھوک لگی۔ وہ نعمان سے کہنے لگاکہ’’ مجھے تو شدید بھوک لگ رہی ہے اور ابھی وقفہ میں کافی دیر ہے میں اتنی دیرانتظار کیسے کروں گا؟‘‘ نعمان نے اس کے جواب میں صرف سر ہلایا۔ ارسلان نے مزید تھوڑی دیر اپنی بھوک برداشت کی مگر پھر پیٹ سے آوازیں آنے لگیں۔ ارسلان پھر بولا:’’بہت بھوک لگ رہی ہے۔ میں بیگ میں دیکھتا ہوں کہ آج امی نے کھانے میں کیا بھیجا ہے۔‘‘ساتھ ہی ارسلان اپنے بیگ کی طرف جھکا اور ٹفن کی تلاش میں لگ گیا۔ مگر اس کو ٹفن نہ ملا۔ کافی دیر ڈھونڈتا رہا لیکن پھر احساس ہوا کہ اس روز وہ ٹفن لانا ہی بھول گیا ہے۔ اس کو شدید تشویش ہوئی۔’’آج ہی کے دن یہ ہونا تھا جب میری بھوک سے بری حالت ہے‘‘۔ اس نے مایوس ہو کر نعمان کی طرف دیکھا اور کہنے لگا:’’اگر صرف آج کے دن تم مجھے اپنے کھانے میں سے کچھ حصہ دے دو تو میں تمہارا بہت شکر گزار ہوں گا، کل تم میرا آدھا کھانا لے لینا۔‘‘ نعمان نے اس کی طرف دیکھا اور صرف اتنا کہا کہ ’’نہیں یہ ممکن نہیں‘‘ارسلان حیران رہ گیا۔وہ آگے سے کچھ نہیں بولا مگر دل ہی دل میں نعما ن کو بہت کوسنے لگا۔
ارسلان سوچ رہا تھا کہ ’’مانا ہماری دوستی نہیں مگر مجبوری میں تودشمن بھی کام آجاتے ہیں جبکہ ہم دونوں تو اتنے عرصہ سے ساتھ بیٹھ رہے ہیں‘‘۔ نعمان کےاس رویہ نے ارسلان کو بہت تکلیف پہنچائی مگر خاموش رہنے کے سواچارہ بھی کیا تھا۔لیکن اندر ہی اندر اس کا غصہ بڑھتا جارہا تھا۔ اس نے سوچا کہ جب وقفہ ہوگاتو میں نعمان کے پیچھے چلوں گا اور اس کے سب دوستوں کواس کی اصلیّت بتادوں گا کہ یہ کیسا لڑکا ہے جوضرورت کے وقت بھی کام نہ آئے۔ وقفہ ہوا تو ارسلان حسب معمول اپنے دوستوں کے ساتھ جانے کی بجائے خاموشی سے نعمان کا پیچھا کرنے لگا۔ نعمان کھیل کے گراؤنڈ کی طرف نہ گیا جہاں اکثر لڑکے جایا کرتے تھے،نہ ہی وہ کینٹین کی طرف گیا بلکہ دوسری جانب لائبریری کے قریب جا کر ایک بینچ پر اکیلا بیٹھ گیا۔ارسلان اس کو فاصلے سے دیکھتا رہا اور انتظارکرنے لگا کہ کب اس کے دوست وہاں آئیں؟ اور وہ پہنچ کر نعمان کی شکایت کرے۔
تھوڑی دیر گزر گئی مگر وہاں اور کوئی نہ آیا۔ نعمان وہاں اکیلا بیٹھا رہا۔ نعمان نے اپنے بیگ سے کھانے کے لیے بھی کچھ نہ نکالا۔ ارسلان یہ دیکھ کر بہت حیران تھا مگر فاصلے سے ہی نعمان کو دیکھتا رہا۔کچھ ہی دیر بعد گھنٹی بجی اور سب بچے واپس کلاس روم میں چلے گئے۔ نعمان اور ارسلان بھی واپس اپنی جگہ بیٹھ گئے۔ ارسلان نے نعمان سے کوئی بات نہ کہی مگر دل میں ارادہ کیا کہ میں کل بھی اس کا پیچھا کروں گا اور معلوم کروں گا کہ آخر یہ معاملہ کیا ہے؟ اگلے دن اس نے اسی طرح نعمان کا پیچھا کیا اور یہ دیکھا کہ نعمان وقفہ کے دوران اکیلا بیٹھا رہا اور کچھ نہ کھایا۔ اگلے کئی روز تک ایسا ہی ہوتا رہا۔مگر جب ایک ہفتہ گزرگیاتو ارسلان سے مزید رہا نہ گیا اور وہ نعمان کے پاس پہنچ گیا۔ پہلے تو نعمان اس کو دیکھ کر گھبرا یا مگر ارسلان نے فوراً اس سے پوچھ لیا کہ میں تمہیں کئی دنوں سے دیکھ رہا ہوں تم یہاں اکیلے بیٹھے رہتے ہو اور کچھ کھاتے بھی نہیں۔ آخر بات کیا ہے؟
نعمان نے پہلے تو کافی ٹال مٹول کی مگر بالآخر جب اس کو احساس ہو گیا کہ ارسلان نے جواب لے کر ہی رہنا ہے تو اس وعدے کے ساتھ کہ ارسلان کسی اور کو یہ بات نہیں بتائے گا کہنے لگا کہ دراصل میں ایک بہت غریب گھر سے ہوں۔ بڑی مشکل سے میرے گھر والوں نے پیسے جوڑ کر مجھے اسکول بھیجا ہے تا کہ میں پڑھائی کرلوں اور میرا مستقبل بن جائے مگر ہمارے گھر میں اتنے پیسے نہیں ہوتے کہ ہم دن میں دو کھانے بھی کھا سکیں اس لیے میں اسکول کھانا نہیں لاسکتا۔ یہاں سب امیر گھرانوں کے بچے ہیں ، وہ اس بات کو سمجھ نہیں سکتے اس لیے میں زیادہ گھلتا ملتا بھی نہیں۔بس پورے اسکول میں صرف تم ہی میرے ایک دوست ہو۔ مگر جب وقفہ ہوتا ہے تو تم اپنے دوسرے دوستوں کے ساتھ مصروف ہوتے ہو تو میں یہاں اکیلا آکر بیٹھ جاتا ہوں تا کہ لڑکے زیادہ سوال نہ کریں اور نہ ہی ان کو دیکھ کر میرا کچھ کھانے پینے کا دل کرے۔
ارسلان یہ سب باتیں سن کر بہت ہی شرمندہ ہوا۔ وہ اتنے عرصے سے نعمان کے ساتھ بیٹھ رہا تھا، اس کا فرض تھا کہ وہ اس پر نظر رکھتا اور اس کی ضرورتوں کو پورا کرتا ، اس کی تکلیفوں کو دور کرتا۔مگر اس کومعلوم ہی نہیں تھا کہ نعمان کتنی تکلیف میں ہے۔ اب اس کو احساس ہو گیا تھا، اس نے جواب میں کوئی بات نہیں کی کیونکہ وہ نعمان کومزیدتکلیف نہیں پہنچا نا چاہتا تھا۔ اس نے اپنے بیگ سےاپنا ٹفن نکالا اور نعمان کے سامنے رکھ دیا اور صرف اتنا کہا کہ آؤ دوست مل کر کھائیں۔ اس نے نعمان سے یہ بھی اصرار نہیں کیا کہ چلو جا کر دوسرے لڑکوں کے ساتھ بیٹھیں کیونکہ اس کو اب معلوم ہوگیا تھا کہ نعمان شرمندہ ہو گا اس لیے وہ دونوں وہیں بیٹھ کر کھانا کھانے لگے۔ اس کے بعد روزانہ دونوں کا یہی معمول بن گیا۔ وہ کلاس میں ساتھ بیٹھتے اور وقفہ میں بھی لائبریری کے ساتھ بینچ پر بیٹھ کر ایک ہی ٹفن سے کھانا کھاتے۔
تو پیارے بچو!ہمیں اس طرح دوسروں کی تکلیف میںکام آنا چاہیے۔ (م۔ط۔ بشیر)