حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

حضرت مسیح موعودؑ وعدۂ الٰہی کے مطابق مبعوث ہوئے

قوموں کا زوال ہمیشہ اس وقت شروع ہوتا ہے جب وہ خود ساختہ معیاروں کو سامنے رکھتے ہیں، جب وہ ہوا و ہوس میں گرفتار ہو جاتے ہیں، جب وہ بنیادی مقصد کو بھول جاتے ہیں۔ قرآنِ کریم نے گزشتہ انبیاء کا ذکر کر کے ہمیں اس طرف توجہ دلائی ہے کہ سابقہ قوموں نے جب اپنی تعلیم کو بھلا دیا، جب اپنے مقصد سے روگردانی کرنی شروع کر دی تو پھر یا تو وہ تباہ ہو گئیں یا اُن میں اتنا بگاڑ پیدا ہو گیا کہ اصل تعلیم کی جگہ بدعات اور لغویات اُن میں رائج ہو گئیں جو روحانی اور اخلاقی تباہی ہے۔ برائیاں ان کی نظر میں اچھائیاں بن گئیں۔ پاکیزگی اور حیا اُن کی نظر میں فرسودہ تعلیم بن گئی۔ مذہب کی خود ساختہ تشریحات ہونے لگیں۔ انہوں نے اپنے انبیاء کی تعلیم کو ہی بدل کر رکھ دیا۔ انبیاء کی تعلیم کے نام پر غلط اور اپنی مرضی کی تعلیم اُن کتب کا حصہ بنا دی گئی جو انبیاء کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے دلوں میں خدا تعالیٰ کا تقدس بھی باقی نہیں رہا اور نہ ہی انبیاء کا اور روحانی لحاظ سے وہ مردہ ہو گئیں۔ یہی حال آپ دیکھیں آج کل مغرب میں بسنے والی قوموں کا ہے۔ اس کے علاوہ اسلام سے پہلے کے اور جتنے بھی مذہب اپنے آپ کو کسی سے منسوب کرتے ہیں اُن کا بھی یہی حال ہے۔ مسلمانوں پرخدا تعالیٰ کا یہ احسان ہے کہ اس نے اپنے وعدے کے مطابق اس آخری شرعی کتاب کی حفاظت فرمائی۔ اور باوجود اس کے کہ مسلمانوں کی اکثریت کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد سے پہلے کسی نے ان الفاظ میں نقشہ کھینچا کہ ؎

رہا دین باقی نہ اسلام باقی

لیکن ایک طبقہ ہر زمانے میں ایسا پیدا ہوتا رہا جو قرآن کی تعلیم پر عمل کرنے کی کوشش کرتا رہا، اُس کی حفاظت کرتا رہا اور پھر آخری زمانے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھیجا، مہدی معہود کو بھیجا۔ اور آج ہم سب احمدی اس مسیح موعود کو ماننے کا دعویٰ کرنے والے ہیں، اُس شخص کا ہاتھ بٹانے کا دعویٰ کرنے والے ہیں جو ایمان کو ثریا سے زمین پر لایا۔ اُس امام سے منسوب ہونے والے ہیں جس نے دینِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اصل حالت میں دنیا کے کونے کونے میں قائم کرنے کا عہد کیا ہے اور جس کی جماعت نے اس عہد کو پورا کرنا ہے۔ ہماری کتنی خوش قسمتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کے کونے کونے میں مسیح محمدی کے ذریعے دینِ اسلام کے پیغام کو پہنچانے کی ذمہ داری خود لی ہے اور ہمیں فرمایا کہ تم بھی اس تقدیرِ الٰہی کا حصہ بن جاؤ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ‘‘مَیں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا۔’’اور تم اس کے حصہ دار بن کے ثواب کماؤ گے۔ ہمیں کس طرح اس الٰہی تقدیر کا حصہ بننا ہے؟ اپنے اندر وہ انقلاب پیدا کر کے جو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والا بنا دے۔ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے لئے خالص کر کے، اپنے اندر سے ہر قسم کی برائیوں کو دور کر کے، اپنے قول و فعل میں یکجہتی وہم آہنگی پیدا کر کے۔

(خطبہ جمعہ ۴؍فروری ۲۰۱۱ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۲۵؍ فروری ۲۰۱۱ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button