ادبیات

ملفوظات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور فارسی ادب (قسط نمبر۱۸۲)

(محمود احمد طلحہ ۔ استاد جامعہ احمدیہ یو کے)

فرمایا:پس یاد رکھو کہ انسان جو اس مسافر خانہ میں آتا ہے اس کی اصل غرض کیا ہے؟ اصل غرض انسان کی خلقت کی یہ ہے کہ وہ اپنے رب کو پہچانے۔اور اس کی فرمانبرداری کرے جیساکہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا۔ وَمَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَالۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ۔(الذاریات : ۵۷)

میں نے جن اور انس کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔مگر افسوس کی بات ہے کہ اکثر لوگ جو دنیا میں آتے ہیں بالغ ہونے کے بعد بجائے اس کے کہ اپنے فرض کوسمجھیں اور اپنی زندگی کی غرض اور غایت کو مد نظر رکھیں وہ خدا تعالیٰ کو چھوڑ کر دنیا کی طرف مائل ہو جاتے ہیں اور دنیا کا مال اور اس کی عزتوں کے ایسے دلدادہ ہوتے ہیں کہ خداکا حصہ بہت ہی تھوڑا ہوتا ہے اور بہت لوگوں کے دل میں تو ہوتا ہی نہیں۔وہ دنیا ہی میں منہمک اور فنا ہو جاتے ہیں انہیں خبر بھی نہیں ہوتی کہ خدا بھی کوئی ہے ہاں اس وقت پتہ لگتا ہے جب قابض ارواح آکر جان نکال لیتاہے۔پس اس دھوکا سے خبردار رہو۔ایسانہ ہو کہ مرنے کا وقت آجاوے اور تم خالی کے خالی ہی رہو۔یہ شعر اچھا کہا ہے ؎

مکن تکیہ بر عمر ناپائدار
مباش ایمن از بازیٔ روزگار

ایک دفعہ ہی پیام موت آجاتا ہے اور پتہ نہیں لگتا۔انسانی ہستی بہت ہی ناپائدار ہے۔ہزار ہا مرضیں لگی ہوئی ہیں۔بعض ایسی ہیں کہ جب دامنگیر ہو جاتی ہیں تو اس جہان سے رخصت کر کے ہی رخصت ہوتی ہیں۔

جبکہ حالت ایسی نازک اور خطرناک ہے تو ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ اپنے خالق اور مالک خدا سے صلح کرلے۔اسلام نے جو خدا پیش کیا ہے اور مسلمانوں نے جس خد اکو مانا ہے وہ رحیم،کریم،حلیم،تواب اور غفار ہے۔جو شخص سچی توبہ کرتا ہے اﷲ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرتا ہے اور اس کے گناہ بخش دیتا ہے۔لیکن دنیا میں خواہ حقیقی بھائی بھی ہو یا کوئی اور قریبی عزیز اور رشتہ دار ہو وہ جب ایک مرتبہ قصوردیکھ لیتاہے۔پھر وہ اس سے خواہ باز بھی آجاوے مگر اُسے عیبی سمجھتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کیسا کریم ہےکہ انسان ہزاروں عیب کر کے بھی رجوع کرتاہے تو بخش دیتا ہے۔دنیا میں کوئی انسان ایسا نہیں ہے بجز پیغمبروں کے (جو خدا تعالیٰ کے رنگ میں رنگے جاتے ہیں) جو چشم پوشی سے اس قدر کام لے بلکہ عام طور پر تویہ حالت ہے جو سعدی نے کہا ہے ؎

خدا داند و بپوشد و ہمسایہ نداند و بخروشد

پس غور کرو کہ اس کے کرم اور رحم کی کیسی عظیم الشان صفت ہے۔یہ بالکل سچ ہےکہ اگر وہ مؤاخذہ پر آئے تو سب کو تباہ کردے،لیکن اس کا کرم اور رحم بہت ہی وسیع ہے اور اس کے غضب پر سبقت رکھتا ہے۔(ملفوظات جلد ہفتم صفحہ ۱۷۷-۱۷۹، ایڈیشن۱۹۸۴ء)

تفصیل :اس حصہ ملفوظات میں سعدی کا ایک شعر اور ایک ضرب المثل آئی ہےجس کی تفصیل کچھ یوں ہے۔

مَکُنْ تَکْیِہْ بَرْ عُمْرِ نَاپَائیدَارْ
مَبَاشْ اَیْمَنْ اَزْ بَازِیِ رُوْزگَارْ

ترجمہ:۔ بے ثبات زندگی پر بھروسا نہ رکھو۔زمانہ کی چالوں سے بے فکر مت رہو۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آپ کے وصال کی خبر دینے کے لیے اللہ تعالیٰ نے سعدی کے اس شعر کا پہلا مصرع وفات سے چند روز قبل یعنی۱۷؍مئی ۱۹۰۸ءکو الہام کیا،جوکہ تذکرہ ایڈیشن ششم ۲۰۰۶ء کےصفحہ نمبر ۶۴۰ پرہے۔اسی طرح دوسرا مصرع بھی ۲۶اپریل ۱۹۰۸ء کو الہام ہوا۔جو تذکرہ کے صفحہ نمبر۶۳۸ پر ہے۔

۲۔خُدَا دَانَد بِپُوْشَدْ
ہَمْسَایِہْ نَدَانَدْ و خُرُوْشَدْ

ترجمہ: خدا جانتے ہوئے بھی پردہ پوشی کرتا ہے ہمسایہ نہیں جانتا اور غل مچاتا ہے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button