حضرت مسیح موعودؑ کے زمانے کے بعض ایمان افروز واقعات کا ذکر
جو خدا کا ہے اُسے للکارنا اچھا نہیں
’’اگر میں جھوٹا ہوتا تو بے شک ایسی دعا سے کہ جو نہایت توجہ اور دردِ دل سے کی گئی تھی ضرور ہلاک ہو جاتا۔ اور میاں غلام دستگیر محمد طاہر ثانی سمجھا جاتا۔لیکن چونکہ میں صادق تھا اِس لئے غلام دستگیر خدا تعالیٰ کی وحی اِنِّیْ مُھِیْنٌ مَنْ اَرَادَ اِھَانَتَکَکا شکار ہو گیا اور وہ دائمی ذلّت جو میرے لئے اُس نے چاہی تھی اُسی پر پڑ گئی‘‘(مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام)
اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب کبھی بھی کوئی وجودنبی، رسول یا ہادی بن کر دُنیا میں مبعوث ہوا، تو اُس کا قبول کرنا دُنیا کے لیے دشوارو مشکل رہا۔ حضرت آدمؑ سے لے کر حضرت محمدﷺ تک اور حضرت محمدﷺ سے لے کر آج تک یہی سلسلہ جاری ہے۔ خدا کے برگذیدہ کے خلاف مخالفت کا طوفان کھڑا ہوا۔ انہیں للکارا گیا،انہیں ڈرانے اور مارنے کی دھمکیاں دی گئیں۔ ان کے خلاف بد دعائیں کی گئیں۔ معاندین نے مل کراُن پر کفر کے فتوے لگائے اورہر طرح ان کے مقابلہ میں آکر قسمت آزمائی کی۔لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے مطابق ہمیشہ ان کی مدد کی اور اُن کی دعاؤں کو سنا اوران کے مخالفین کو نیست و نابود کیا۔کوئی سمندر میں ڈوباتوکوئی طوفان کی نظر ہوا۔کسی کو زمین نے اپنے اندرزلزلہ کے ذریعہ دفن کیا اور کسی کو عذاب الٰہی نےآ پکڑا۔ کوئی بےاولاد ہو کر مرا اور کوئی ناکام و نا مراد رہا۔ یہی سلوک اس زمانے کے اما م مہدی اور مسیح موعود علیہ السلام کے مخالفین و معاندین کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے کیا۔مخالفین کی للکارو یلغار کو انہی پر لوٹا دیا۔ان میں سے کوئی تو طاعون کی آفت سے ایڑ ھیاں رگڑ رگڑ کر مرا اور کوئی غضب الٰہی کا نشانہ بنا۔ کوئی اپنی موت کو قریب دیکھ کر حسرت سے یہ کہتا ہوا نظر آیا ’’اب خدا بھی میرا دشمن ہو گیا ہے‘‘ اور کسی کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ پیشگوئی پوری ہوتی ہوئی دُنیا نے دیکھی ’’وہ غضب اللہ کی بیماری سے ہلاک ہوگا اور خدا اُس کو غارت کرے گا‘‘ پھر لَّعۡنَتَ اللّٰہِ عَلَی الۡکٰذِبِیۡنَ کی بددعا کے تحت بھی آپؑ کو للکارنے والےلعنتی موت مرے۔اسی طرح کسی پر وحی الٰہی کے یہ الفاظ پورے ہوئے: ’’ میں فنا کر دوں گا میں غارت کر دوں گا ‘‘ کسی کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نےان الفاظ میں بد دعا کی: ’’ میری زندگی میں اس کو نامرادی اور ذلّت کی موت نصیب ہو‘‘ تو اللہ تعالیٰ نے اس دعا کو من و عن سُنا اور وہ ذلت و نامرادی کے ساتھ اگلے جہان کو رخصت ہوا۔ اورکوئی بد نصیب خدا کی اس وحی کا نشانہ بنا ’’اِنِّیْ مُھِیْنٌ مَنْ اَرَادَ اِھَانَتَکَ ‘‘۔
چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس مضمون کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’خدا تعالیٰ نے ایک عام طور پر مجھے مخاطب کرکے فرمایا تھا کہ اِنِّیْ مُھِیْنٌ مَنْ اَرَادَ اِھَانَتَکَ یعنی میں اُس کو ذلیل کروں گا جو تیری ذلّت کا ارادہ کرے گا۔ صدہا دشمن اِس پیشگوئی کے مصداق ہو گئے ہیں… اُن میں سے اکثر لوگ ایسے ہیں جنہوں نے میری نسبت یہ کہا۔کہ یہ مفتری ہے طاعون سے ہلاک ہوگا۔ خدا کی قدرت کہ وہ خود طاعون سے ہلاک ہو گئے اور اکثر لوگ ایسے ہیں کہ اپنا یہ الہام پیش کرتے تھے۔ کہ ہمیں خدا نے بتلایا ہے کہ یہ شخص جلدمر جائے گا، خدا کی شان کہ وہ اپنے ایسے الہاموں کے بعد خود جلد مر گئے اور بعض نے میرے پر بد دعائیں کی تھیں کہ وہ جلد ہلاک ہو جائے وہ خود جلدہلاک ہو گئے۔ مولوی محی الدین لکھوکے والے کا الہام لوگوں کویاد ہوگا، جنہوں نے مجھے کافر ٹھہرایا اور فرعون سے تشبیہ دی اور میرے پر عذاب نازل ہونے کی نسبت الہام شائع کئے۔آخر آپ ہی ہلاک ہوگئے اور کئی سال ہو گئے کہ وہ اِس دنیا سے گذر گئے۔ایسا ہی مولوی غلام دستگیر قصوری بھی مجھے گالیاں دینے میں حد سے بڑھ گیا تھا،جس نے مکہ سے میرے پر کفر کے فتوے منگوائے تھے، وہ بھی بیٹھے اُٹھتے میرے پر بد دعا کرتا تھا اور لَّعۡنَتَ اللّٰہِ عَلَی الۡکٰذِبِیۡنَ اُس کا وِرد تھا، اور اِسی پر بس نہیں کی بلکہ جیسا کہ میں ابھی لکھ چکا ہوں اُس کو بھی شوق آیا کہ شیخ محمد طاہر صاحب مجمع البحار کی طرح میرے پر بد دعا کرے،تا اس کی بھی کرامت ثابت ہو کیونکہ صاحب مجمع البحار کے زمانہ میں بعض ناپاک طبع لوگوں نے محض افترا کے طور پر مسیح اور مہدی ہونے کا دعویٰ کیا تھا اور چونکہ وہ ناراستی پر تھے اِس لئے خدا تعالیٰ نے محمد طاہر کی دعا منظور کرکے اُن کو محمد طاہر کی زندگی میں ہی ہلاک کر دیا۔پس اِس قصہ کو پڑھ کر غلام دستگیر کو بھی شوق اُٹھا کہ آؤ میں بھی اس جھوٹے مسیح اور جھوٹے مہدی پر دعا کروں تا اس کی موت سے میری کرامت بھی ثابت ہو…اگر میں جھوٹا ہوتا تو بے شک ایسی دعا سے کہ جو نہایت توجہ اور دردِ دل سے کی گئی تھی ضرور ہلاک ہو جاتا۔ اور میاں غلام دستگیر محمد طاہر ثانی سمجھا جاتا۔لیکن چونکہ میں صادق تھا اِس لئے غلام دستگیر خدا تعالیٰ کی وحی اِنِّیْ مُھِیْنٌ مَنْ اَرَادَ اِھَانَتَکَ کا شکار ہو گیا اور وہ دائمی ذلّت جو میرے لئے اُس نے چاہی تھی اُسی پر پڑ گئی۔
اگر کوئی مولوی خدا سے ڈرنے والا ہو تو اِس ایک ہی مقام سے اُس کا پردہ غفلت کا دُور ہو سکتا ہے۔ ہر ایک طالبِ حق پر لازم ہے کہ اِس بات کو سوچے کہ یہ کیا بھید ہے۔کہ محمد طاہر کی دعا سے تو جھوٹا مسیح اور جھوٹا مہدی ہلاک ہو گیا اور جب میاں غلام دستگیر نے اس کی ریس کرکے،بلکہ مشابہت ظاہر کرنے کے لئے اپنی کتاب فتح رحمانی میں اس کا ذکر بھی کرکے میرے پر بد دعا کی اور بد دعا کرنے کے وقت اپنی اسی کتاب میں میری نسبت یہ لفظ لکھا تَبًّا لَہٗ وَلِاَتْبَا عِہٖ جس کے یہ معنی ہیں کہ میں اور میرے پیرو سب ہلاک ہو جائیں۔تب وہ چند ہفتہ کے اندر آپ ہی ہلاک ہوگیا اور جس ذلّت کو میری موت مانگ کر میرے لئے چاہتا تھا وہ داغ ذلّت ہمیشہ کے لئے اُسی کو نصیب ہو گیا۔کوئی صاحب مجھے جواب دیں کہ کیا یہ اتفاقی امر ہے، یا خدا تعالیٰ کے ارادہ سے ظہور میں آیا۔ مَیں اب تک خدا تعالیٰ کے فضل سے زندہ ہوں،مگر غلام دستگیر کے مَرنے پر گیارہ برس سے زیادہ گذر گئے اب آپ لوگوں کا کیا خیال ہے۔ کیا خدا تعالیٰ کو محمد طاہر کے زمانہ کا جھوٹا مسیح اور جھوٹا مہدی بُرا معلوم ہوتا تھا اور اُس سے خدا دشمنی رکھتا تھا۔مگر غلام دستگیر کے زمانہ میں جو جھوٹا مسیح پیدا ہوا اُس کو خدا تعالیٰ نے محبت کی نظر سے دیکھا اور اُس کو عزت دی کہ غلام دستگیر کو اُس کے سامنے ہلاک کر دیا اور غلام دستگیر کی بد دعا کو اُسی کے منہ پر مار کر اُسی کو موت کا پیالہ پلا دیا اور قیامت تک یہ داغِ ذلّت اس پر رکھا۔ ‘‘
(حقیقۃالوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲، صفحہ۳۵۳تا۳۵۴)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مخالفین و معاندین کے بد انجام کے لاتعدادایمان افروز واقعات میں سے چند ایک یہاں پر تحریر میں لائے جارہے ہیں:
طاعون سے ہلاک ہوگا اور خدا اُس کو غارت کرے گا
’’ایک شخص مسمّٰی چراغ دین ساکن جموں میرے مُریدوں میں داخل ہوا تھا، پھر مُرتد ہو گیا اور رسول ہونے کا دعویٰ کیا اور کہا کہ میں عیسیٰ کا رسول ہوں اور اُس نے میرا نام دجّال رکھا اور کہا کہ حضرت عیسیٰ نے مجھے عصا دیا ہے، تا اس دجّال کو اس عصا کے ساتھ قتل کروں۔ اور میں نے اُس کی نسبت یہ پیشگوئی کی کہ وہ غضب اللہ کی بیماری سے یعنی طاعون سے ہلاک ہوگا اور خدا اُس کو غارت کرے گا۔ چنانچہ وہ ۴؍اپریل ۱۹۰۶ء کو مع اپنے دونوں بیٹوں کے طاعون سے ہلاک ہو گیا۔‘‘
(حقیقۃالوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲، صفحہ۲۳۱،۲۳۰)
حق کون سا ہے جو قائم رہا اور باطل کون سا تھا جو بھاگ گیا
’’مولوی اسمٰعیل باشندۂ خاص علی گڑھ وہ شخص تھا،جو سب سے پہلا عداوت پر کمر بستہ ہوا اور جیسا کہ میں نے اپنے رسالہ فتح اسلام میں لکھا ہے۔ اُس نے لوگوں میں میری نسبت یہ شہرت دی کہ یہ شخص رمل اور نجوم سے پیشگوئیاں بتلاتا ہے اور اُس کے پاس آلات نجوم کے موجود ہیں۔ میں نے اس کی نسبت لَّعۡنَتَ اللّٰہِ عَلَی الۡکٰذِبِیۡنَ کہا اور خدا تعالیٰ کا عذاب اُس کے لئے چاہا۔ جیسا کہ رسالہ فتح اسلام کے لکھنے کے وقت اس کی زندگی میں ہی میں نے یہ شائع کیا تھا اور یہ لکھا تھا: تَعَالَوۡا نَدۡعُ اَبۡنَآءَنَا وَاَبۡنَآءَکُمۡ وَنِسَآءَنَا وَنِسَآءَکُمۡ وَاَنۡفُسَنَا وَاَنۡفُسَکُمۡ ۟ ثُمَّ نَبۡتَہِلۡ فَنَجۡعَلۡ لَّعۡنَتَ اللّٰہِ عَلَی الۡکٰذِبِیۡنَ ۔ چنانچہ قریباً ایک برس اس مباہلہ پر گذرا ہوگا،کہ وہ یک دفعہ کسی ناگہانی بیماری میں مبتلا ہو کر فوت ہو گیا اور اُس نے اپنی کتاب میں جو میرے مقابل پر اور میرے ردّ میں شائع کی تھی یہ لکھا تھا کہ جَآءَ الۡحَقُّ وَزَہَقَ الۡبَاطِلُ۔ پس خدا نے لوگوں پر ظاہر کر دیا کہ حق کون سا ہے جو قائم رہا اور باطل کون سا تھا جو بھاگ گیا۔ قریباً سولہ۱۶ برس ہو گئے کہ وہ اس مباہلہ کے بعد فوت ہوا۔‘‘
(حقیقۃالوحی، روحانی خزائن جلد۲۲صفحہ ۳۴۲، ۳۴۳)
عبدالحق بھی لڑکے کے تولد تک زندہ رہا اور لڑکا بھی پیدا ہو گیا
’’میری کتاب انجام آتھم کے صفحہ اٹھاون ۵۸میں ایک یہ پیشگوئی تھی جو مولوؔ ی عبد الحق عزنوی کے مقابل پر لکھی گئی تھی، جس کی عبارت یہ ہے کہ عبد الحق کے مباہلہ کے بعد ہر ایک قسم سے خدا تعالیٰ نے مجھے ترقی دی،ہماری جماعت کو ہزار ہا تک پہنچا دیا۔ہماری علمیت کا لاکھوں کو قائل کر دیا اور الہام کے مطابق مباہلہ کے بعد ایک اور لڑکا ہمیں عطا کیا۔ جس کے پیدا ہونے سے تین لڑکے ہو گئے اور پھر ایک چوتھے لڑکے کے لئے مجھے متواتر الہام کیا اور ہم عبدالحق کو یقین دلاتے ہیں :کہ وہ نہیں مرے گا جب تک اِس الہام کو پوراہوتا نہ سُن لے۔ اب اس کو چاہیئے کہ اگر وہ کچھ چیز ہے تو دعا سے اِس پیشگوئی کو ٹال دے… اِس پیشگوئی سے اڑھائی برس بعد چوتھا لڑکا عبد الحق کی زندگی میں ہی پیدا ہو گیا، جس کا نام مبارک احمد رکھا گیا۔جو اب تک خدا تعالیٰ کے فضل سے زندہ موجود ہے۔ اگر مولوی عبد الحق نے اس لڑکے کا پیدا ہونا اب تک نہیں سُنا تو اب ہم سُنائے دیتے ہیں۔ یہ کس قدر عظیم الشان نشان ہے کہ دونوں پہلوؤں سے سچا نکلا۔ عبدالحق بھی لڑکے کے تولّد تک زندہ رہا اور لڑکا بھی پیدا ہو گیا۔ اور پھر یہ کہ اس بارے میں عبد الحق کی کوئی بد دعا منظور نہ ہوئی اور وہ اپنی بددعا سے میرے اس موعود لڑکے کا پیدا ہونا روک نہ سکا۔ بلکہ بجائے ایک لڑکے کے تین لڑکے پیدا ہوئے اور دوسری طرف عبد الحق کا یہ حال ہوا کہ مباہلہ کے بعد عبد الحق کے گھر میں آج تک باوجود بارہ برس گذرنے کے ایک بچہ بھی پیدا نہ ہوا، اور ظاہر ہے کہ مباہلہ کے بعد قطع نسل ہو جانا اور باوجود بارہ برس گذرنے کے ایک بچہ بھی پیدا نہ ہونا اور بالکل ابتر رہنا یہ بھی قہر الٰہی ہے اور موت کے برابر ہے۔ ‘‘
(حقیقۃالوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲صفحہ۳۶۵،۳۶۴)
خدا تعالیٰ ایسے موذی کو جلد تر دنیا سے اُٹھالےگا
’’اِس ملک پنجاب میں جب دیانند بانی مبانی آریہ مذہب نے اپنے خیالات پھیلائے اور سفلہ طبع ہندوؤں کو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تحقیر،اور ایسے ہی دوسرے انبیاء کی توہین پر چالاک کر دیا اور خود بھی قلم پکڑتے ہی اپنی شیطانی کتابوں میں جا بجا خدا کے تمام پاک اور برگزیدہ نبیوں کی تحقیر اور توہین شروع کی۔ اور خاص اپنی کتاب ستیارتھ پرکاش میں بہت کچھ جھوٹ کی نجاست کو استعمال کیا اور بزرگ پیغمبروں کو گندی گالیاں دیں تب مجھے اُس کی نسبت الہام ہوا کہ خداتعالیٰ ایسے موذی کو جلد تر دنیا سے اُٹھا لے گا۔ اور یہ بھی الہام ہوا سَیُہۡزَمُ الۡجَمۡعُ وَیُوَلُّوۡنَ الدُّبُرَ۔ یعنی آریہ مذہب کا انجام یہ ہوگا کہ خدا اُن کو شکست دے گا اور آخر وہ آریہ مذہب سے بھاگیں گے اور پیٹھ پھیر لیں گے اور آخر کالعدم ہو جائیں گے۔ یہ الہام مدّت دراز کا ہے جس پر قریباً تیس۳۰ برس کا عرصہ گذرا ہے۔جس سے اِس جگہ کے ایک آریہ یعنی لالہ شرمپت کو اطلاع دی گئی تھی اور اُس کو کھلے طور پر کہا گیا تھا،کہ اُن کا بدزبان پنڈت دیانند اب جلد تر فوت ہو جائے گا۔ چنانچہ ابھی ایک سال نہیں گذرا تھا کہ خدا تعالیٰ نے اِس پنڈت بد زبان سے اپنے دین کو نجات دی اور وہ اجمیر میں مر گیا اور شرمپت کے لئے یہ ایک بڑا نشان تھا، لیکن اُس نے نہ صرف اِسی نشان کے فیض سے اپنے آپ کو محروم رکھا، بلکہ اور بھی کئی کھلے کھلے نشان دیکھے مگرپھر بھی بد قسمتی سے اسلام قبول نہ کیا۔‘‘
(حقیقۃالوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲صفحہ ۶۰۷)
بابو الٰہی بخش اکونٹنٹ پنشنر لاہور جھوٹا موسیٰ مرگیا
’’ایک شخص الٰہی بخش نام جو لاہور میں اکونٹنٹ تھا وہ اس زمانہ میں جب کہ میں نے خدا تعالیٰ سے وحی پاکر اس بات کو ظاہر کیا کہ میں مسیح موعود ہوں مجھ سے برگشتہ ہو کر اس بات کا مدعی ہوا کہ میں موسیٰ ہوں۔ اس بات کی تفصیل یہ ہے کہ مدت دراز سے الٰہی بخش مذکور میرے ساتھ تعلق ارادت رکھتا تھا۔اور بارہا قادیان میں آیا کرتا تھا اور مجھ کو ایک سچا ملہم خدا تعالیٰ کی طرف سے جانتا تھا اور خدمت کرتا تھا۔ بعض دفعہ ایسا اتفاق ہوا کہ صبح کے وقت نماز کے بعد بمقام امرتسر میں سوتا تھا اور میرے منہ پر چادر تھی۔ تب ایک شخص آیا اور اُس نے میرے پاؤں دبانے شروع کر دئے۔ جب میں نے چادر اُٹھاکر دیکھا تو وہی الٰہی بخش تھا… جب تک خدا نے چاہا وہ اسی مخلصانہ حالت میں رہا اور مجھ کو بڑی امید تھی کہ وہ اپنے اخلاص میں بہت ترقی کرے گا۔ اور جب میں قادیان سے کسی تقریب سے لدھیانہ یا انبالہ یا کسی اور جگہ جاتا تھا تو بشرط گنجائش اور فرصت نکلنے کے اُسی جگہ پہنچتا تھا اور اکثر اوقات اُس کا رفیق منشی عبد الحق اکونٹنٹ بھی اُس کے ساتھ ہوتا تھا۔ پھر اُس کو کچھ مدت کے بعد یہ خیال پیدا ہوا کہ مجھ کو الہام ہوتاہے اور یہی ایک زہریلہ بیج تھا کہ قضا و قدر نے اس میں بودیا۔ پھر اس کے بعداندرہی اندر اُس کی مخلصانہ حالت میں کچھ تغیر ہوتا گیا اور پھر جس زمانہ میں خدا تعالیٰ نے مجھے لوگوں سے بیعت لینے کے لئے مامور فرمایا اور قریباً چالیس۴۰ آدمی یاکچھ زیادہ بیعت میں داخل ہوئے اور عام طور پر خدا تعالیٰ کے حکم کے موافق ہر ایک کو سنایا کہ: جو شخص ارادت رکھتا ہے وہ بیعت میں داخل ہو۔ تب اس بات کو سنتے ہی الٰہی بخش کا دل بگڑ گیا اور وہ کچھ مدت کے بعد مع اپنے دوست منشی عبد الحق کے قادیان میں میرے پاس آیا اس غرض سے کہ تا اپنے الہام سناوے، اور اب کی دفعہ اُس کی مزاج میں اس قدر سختی ہو گئی تھی، کہ گویا وہ اور ہی تھا الٰہی بخش نہیں تھا۔ اُس نے بے باکی سے اپنے الہام سنانے شروع کئے اور وہ ایک چھوٹی سی بیاض میں لکھے ہوئے تھے جو اُس کی جیب میں تھی۔ منجملہ اُن کے اُس نے یہ سُنایا کہ خواب میں، میں نے دیکھا ہے کہ آپ مجھے کہتے ہیں کہ میری بیعت کرو اور میں نے جواب دیا کہ میں نہیں کرتا بلکہ تم میری بیعت کرو۔ اس خواب کی وجہ سے وہ سر سے پیر تک تکبر اور غرور سے بھر گیا اور یہ سمجھا کہ میں ایسا بزرگ ہوں، کہ مجھے بیعت کی حاجت نہیں۔بلکہ اُن کو میری بیعت کرنی چاہئے۔ مگر دراصل یہ شیطانی وسوسہ تھا،کہ اُس کی ٹھوکر کا باعث ہوا۔ بات یہ ہے کہ جب انسان کے دل میں تکبر اور انکار مخفی ہوتا ہے تو وہی انکار حدیث النفس کی طرح خواب میں آجاتا ہے اور ایک نادان سمجھتا ہے کہ یہ خدا کی طرف سے ہے۔ حالانکہ وہ انکار محض اپنے مخفی خیالات سے پیدا ہوتا ہے خدا سے اُس کو کچھ تعلق نہیں ہوتا…میری نسبت وہ یہ الہام پیش کرتا تھا کہ میری زندگی میں یہ شخص طاعون سے ہلاک ہوگا اور اُس کی تمام جماعت منتشر ہو جائے گی سو اُس نے دیکھ لیا کہ وہ خود طاعون سے ہلاک ہوا اور اس کا دعویٰ تھا کہ وہ نہیں مرے گا جب تک وہ میرا استیصال نہ کر لے مگر اُس نے بچشم خود دیکھ لیا کہ اُس کے جھوٹے الہام کے بعد کئی لاکھ تک میری جماعت پہنچ گئی۔ جب ایسے الہام اُس نے شائع کرنے شروع کئے اُس وقت تو میری جماعت چالیس انسان سے زیادہ نہ تھی اور بعد میں چار لاکھ تک پہنچ گئی اور وہ نہیں مرا جب تک اُس نے اپنی نامُرادی ہر ایک پہلو سے نہ دیکھ لی اور میری کامیابی نہ دیکھ لی۔‘‘
(حقیقۃالوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲صفحہ۵۳۳ تا۵۳۸)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی درد بھری دعائیں
فرمایا:’’اب ہم نشانوں کواسی قدرپر ختم کرکےدعا کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ بہت سی روحیں ایسی پیدا کرے کہ ان نشانوں سے فائدہ اُٹھاویں اور سچائی کی راہ کو اختیار کریں اور بغض اور کینہ کو چھوڑ دیں۔ اے میرے قادر خدا میری عاجزانہ دُعائیں سُن لے اور اس قوم کے کان اور دل کھول دے اور ہمیں وہ وقت دکھا کہ باطل معبودوں کی پرستش دُنیا سے اُٹھ جائے اور زمین پر تیری پرستش اخلاص سے کی جائے اور زمین تیرے راستباز اورموحد بندوں سے ایسی بھر جائے جیسا کہ سمندر پانی سے بھرا ہوا ہے۔ اور تیرے رسول کریم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور سچائی دلوں میں بیٹھ جائے۔ آمین۔ اے میرے قادر خدا مجھے یہ تبدیلی دنیا میں دکھا اور میری دعائیں قبول کر جو ہر یک طاقت اور قوت تجھ کو ہے۔ اے قادر خدا ایسا ہی کر۔ آمین ثم آمین۔‘‘
(حقیقۃالوحی،روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ۶۰۳)
٭…٭…٭