اللہ تعالیٰ کے ذکر کی طرف توجہ پیدا ہو
ہم خوش قسمت ہیں کہ آنحضرتﷺ کی بعثت ثانی کو پہچان کر اُس روشنی سے حصہ پا رہے ہیں جو اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے ہماری روحانی ترقی کے لئے بھیجی۔ لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حصّہ پانے اور فیض اٹھانے کے لئے صرف پہچاننا اور مان لینا کافی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا ذکر بہت ضروری ہے، جیسا کہ دوسری آیت میں فرمایا کہ اَلَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قِیٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوْبِھِمْ کہ وہ لوگ جو اللہ کو یاد کرتے ہیں کھڑے ہوئے بھی اور بیٹھے ہوئے بھی اور اپنے پہلوؤں کے بَل بھی۔ وَیَتَفَکَّرُوۡنَ فِیۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش پر غور کرتے ہیں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے زمین اور آسمان کو پیدا کیا۔ رَبَّنَا مَا خَلَقۡتَ ہٰذَا بَاطِلًا ۚ سُبۡحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔ بے ساختہ یہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے ربّ! تو نے ہرگز یہ چیزیں یوں ہی پیدا نہیں کیں۔ بے مقصد پیدا نہیں کیں بلکہ ہر پیدائش کا ایک مقصد ہے اللہ تعالیٰ کی جتنی مخلوق اس زمین پر بھی پائی جاتی ہے چاہے وہ زہریلے جانور ہی ہوں، ان کا بھی ایک مقصد ہے۔ اور پاک ہے تُو۔ پس ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔ ہم کہیں تیری اس بات کا انکار کرکے تیری خدائی کا انکارکرکے آگ کے عذاب میں نہ پڑنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے مبعوث کئے ہوئے کو ماننے کے بعد پھر اور بھی زیادہ ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ذکر کی طرف توجہ پیدا ہو اور ہر وقت ہر سوچ کے ساتھ اور ہر چیز جو اللہ تعالیٰ کی تخلیق ہے اس کو دیکھ کر ایک احسان مندی اور شکر گزاری کے جذبات پیدا ہوں۔ اور جب ذکر ہو گا تو عبادت کی طرف توجہ ہو گی اور جب عبادت کی طرف توجہ پیدا ہو گی تو اللہ تعالیٰ کے جو احکامات ہیں ان کی پابندی کرنے کی طرف بھی توجہ پیدا ہو گی۔ تو یہ ایک ایسا دائرہ ہے جس کے اندر آ کر انسان پھر نیکیوں پر عمل کرتا ہے۔ نیکیوں کو کرنے کی توفیق پاتا ہے اور شکر گزاری کے جذبات سے سرشار رہتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے جو چیز بھی زمین و آسمان میں پیدا کی ہے اس پر غور کرکے اللہ تعالیٰ پرایک بندے کا ایمان مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی پہچان کرنے کی کوشش کرنے والا ہو۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۰؍اپریل ۲۰۰۹ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل یکم مئی ۲۰۰۹ء)