دل سے ایک جوش کی صورت میں استغفار نکلنی چاہئے
دوسری آیت(ھود:۴) جو میں نے تلاوت کی ہے اس میں استغفار کا طریق سکھایا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ استغفار کس طرح کرنی ہے۔ اس کا ترجمہ یہ ہے کہ نیز یہ کہ تم اپنے رب سے استغفار کرو پھر اس کی طرف توبہ کرتے ہوئے جھکو تو تمہیں وہ ایک مقررہ مدت تک بہترین سامانِ معیشت عطا کرے گا اور وہ ہر صاحبِ فضیلت کو اُس کے شایانِ شان فضل عطا کرے گا۔ اور اگر تم پِھر جاؤ تو یقیناً مَیں تمہارے بارے میں ایک بہت بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔ پس جیسا کہ میں نے کہا کہ حقیقی استغفار کرنے والے کی اللہ تعالیٰ رہنمائی فرماتاہے۔ اس آیت کے شروع میں اس حقیقت کو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے بخشش مانگو۔ اُس سے اُس کی مدد کے طالب ہو، اُس سے دعائیں کرو کہ وہ تمہارے دلوں کے زَنگ دھو کر خالص بندہ بنا دے۔ تو اللہ تعالیٰ پھر اپنے وعدے کے مطابق مدد فرماتا ہے۔ لیکن اگر ایک شخص آج ایک راستہ اختیار کرتا ہے، کل دوسرا راستہ اختیار کرتا ہے، استغفار میں مستقل مزاجی نہیں ہے تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ استغفار نہیں ہے۔
پس حقیقی استغفار یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے اُن جذبات و خیالات سے بچنے کی دعا مانگی جائے جو خدا تعالیٰ کو ناپسند ہیں اور خدا تعالیٰ تک پہنچنے میں روک ہیں اور جب یہ معیار حاصل ہو جائے گا، یہ جذبات دبانے کی صلاحیت پیدا ہو جائے گی تو پھر تُوْبُوْا اِلَیْہ کی حالت پیدا ہو گی۔ وہ حالت پیدا ہو گی جب انسان پھر مستقل مزاجی سے اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور پھر جب یہ حالت ہو تو بندہ اللہ تعالیٰ کا مقرب بن جاتا ہے۔
پس ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ حقیقی استغفار اور توبہ صرف الفاظ دہرا لینا یا منہ سے اَسْتَغْفِرُاللّٰہ اَسْتَغْفِرُاللّٰہ کہہ دینا کافی نہیں ہے بلکہ ساتھ ہی اپنی حالت کی تبدیلی کی کوشش کرنا بھی ضروری ہے اور یہی اللہ تعالیٰ کا قرب دلاتی ہے۔ جب انسان اپنی حالت میں تبدیلی پیدا کرتا ہے تو پھر انسان کے لئے جیسا کہ پہلے بھی بیان ہوا ہے دینی اور دنیاوی فائدے ملتے ہیں۔ دنیا و آخرت کے فائدے اسی میں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا مورد انسان بنتا ہے۔… حقیقی استغفار کیا ہے؟ ایسی استغفار جس سے روح گداز ہو کر بہہ نکلے۔ اور یہ روح گداز ہونا زبانی منہ سے استغفار کرنا نہیں ہے بلکہ وہ استغفار ہے کہ دل سے ایک جوش کی صورت میں استغفار نکلنی چاہئے۔ اور جب یہ نکلتی ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے آنکھ کے پانی کی صورت میں بہتی ہے تو پھر یہ ایک انسان میں انقلاب پیدا کرتی ہے اور تبدیلی لاتی ہے۔
فرمایا:یعنی یہ کہ اس قوت کو پا کر زہریلے مواد پر غالب آجاوے۔ (جیسا کہ پہلے بیان ہوا ہے کہ استغفار سے طاقت آتی ہے۔ اور وہ طاقت اُس استغفار سے آتی ہے جو دلی جوش سے نکل رہا ہو جیسا کہ بیان ہواہے اور آنکھ کے پانی کی صورت میں اُس کا اظہار ہو رہا ہو۔ وہ استغفار حقیقی استغفار ہے جو انسان میں ایک تبدیلی پیدا کرتا ہے)۔
(خطبہ جمعہ ۱۳؍جنوری ۲۰۱۲ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۳؍فروری ۲۰۱۲ء)