ڈائری مکرم عابد خان صاحب سے ایک انتخاب(دورہ امریکہ اور گوئٹے مالا۔ اکتوبر نومبر ۲۰۱۸ء کے چند واقعات۔ حصہ ششم)
اے چھاؤں چھاؤں شخص! تری عمر ہو دراز
ایک جذباتی فیملی
گوئٹے مالاسے واپس ہیوسٹن پہنچنے کے بعد ۲۵؍اکتوبر ۲۰۱۸ء بروز جمعرات درجنوں احمدی خاندانوں نے حضورانور سے ملاقات کی۔ ایک فیملی جو پہلی دفعہ حضور سے ملی، وہ سعید احمد، ان کی اہلیہ ریحان اور ان کے تین بچے تھے۔ وہ حضورِ انور سے ملاقات کے لیے اٹلانٹا سے تیرہ گھنٹے کا سفر طے کر کے پہنچےتھے۔ والدین اور بچے سب ہی خوشی کے جذبات سے سے سرشار تھے اور اپنے خلیفہ سے ملاقات کا موقع ملنے پر جذبات سے مغلوب ہو گئے تھے۔
ملاقات ختم ہونے کے چند لمحوں بعد، ریحان صاحبہ نے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہاکہ ملاقات کے دوران مجھے یہ احساس ہی نہیں رہا کہ میں کہاں ہوں۔ ایسا لگا جیسے ہم کسی اَورہی دنیا میں داخل ہو گئے ہیں۔ ہم دنیا کی سب سے خوش نصیب فیملی ہیں کہ ہمیں حضور سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا اور ہم حضور کے دفتر میں اُن کے اتنے قریب بیٹھے تھے۔ مجھے لگتا تھا کہ کوئی بھی مجھ سے میرے والد سے زیادہ محبت نہیں کر سکتا، لیکن آج مجھے احساس ہوا کہ ان کی محبت بھی اس محبت کے برابر نہیں جو حضور ہم سے کرتے ہیں۔
میں نے دیکھا کہ ان کی بیٹی لبیبہ رو رہی تھیں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آیاوہ ٹھیک ہیں؟ جواب میں انہوں نے کہاکہ جب ۲۰۰۳ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کا وصال ہوا تو میں بہت چھوٹی تھی، لیکن مجھے یاد ہے کہ میں بہت غمگین تھی اور تب سے ہی میری شدید خواہش تھی کہ میں اپنے پانچویں خلیفہ سے ملاقات کروں۔ میں واقفہ نو ہوں اور ہمیشہ یہ سوچ کر اداس رہا کرتی تھی کہ میں اپنے پیارے آقا سے بہت دُور ہوں۔ میں نے بہت دعائیں کیں کہ میں ان سے مل سکوں اور آج اللہ تعالیٰ نے میری ان دعاؤں کو قبول کر لیا ہے۔ اسی لیے میری آنکھوں میں آنسو ہیں۔ اپنی بیٹی کی بات سننے کے بعد سعید صاحب نے مجھے بتایا کہ انہوں نے ۱۹۸۶ء میں پاکستان میں احمدیت قبول کی تھی جس کے بعد ان کے غیر احمدی خاندان کے افراد نے شدید مخالفت کی نیزاحمدیت قبول کرنے کے بعد سے ہی میری دعا تھی کہ میں خلیفۃالمسیح سے ملاقات کر سکوں لیکن میرا یوکے کا ویزا کئی بار مسترد ہوا۔ سعید صاحب نے بتایا کہ آج میں اس بات کا جیتا جاگتا ثبوت ہوں کہ کسی انسان کی دعائیں کبھی بھی ضائع نہیں ہوتیں۔ اللہ سنتا ہے اور وہ یاد رکھتا ہے، اگر وہ آج آپ کی التجائیں پوری نہیں کرتا تو یقیناً وہ کل کرے گا۔ جب سے ہمیں ملاقات کا معلوم ہوا ہےمجھے ان گنت مبارکباد کے پیغامات موصول ہوئے ہیں۔ میرے اپنے خاندان نے احمدیت قبول کرنے پر میرا ساتھ چھوڑ دیا، لیکن میں نے ایک بہت بڑا خاندان پایا ہے جو ہماری خوشیوں میں شریک ہوتا ہے۔
ان کی اہلیہ ریحان صاحبہ نے مزید کہا کہ جب میرے شوہر نے بیعت کی تو ہمیں ربوہ منتقل ہونا پڑا اور اس وقت میرے شوہر کی تنخواہ تین ہزار روپے ماہانہ تھی۔ یہ دیکھ کر میرے شوہر کے خاندان والے ہمیں طعنے دیتے تھے اور کہتے تھے کہ وہ اتنی رقم ایک دن میں کماتے ہیں۔ بڑے غرور سے انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تم نے ہمیں صرف اس کے لیے چھوڑاہے؟ ایک بار میرے سسرال والے مجھ سے ملنے آئے اور کہا کہ اگر ہم احمدیت چھوڑ دیں تو وہ ہمیں ایک خوبصورت گھر اور بہت ساری دولت دیں گے۔ یہاں تک کہ اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیےانہوں نے کاغذات بھی تیار کروالیے۔ اس پر میں نے وہ کاغذات لیے اور ان پر لکھ دیا کہ نہ مجھے اورنہ ہی میرے بچوں کو خاندان کی وراثت میں اپنے جائز حصے سے بھی کوئی دلچسپی ہے۔ ہماری واحد دلچسپی یہ ہے کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلافتِ احمدیہ سے اپنی وفا کو بڑھائیں۔
ریحان صاحبہ نے مزید کہا:کہ ہم نے صبر کیا اور اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے امریکہ آنے کا راستہ بنایا اور اب ہم ایک آرام دہ زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ سب دیکھنے کے بعدمیرے دیور نے مجھ سے کہا کہ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ہمیں ایسی برکتیں ملی ہیں جن کا وہ صرف خواب میں ہی تصورکر سکتے ہیں۔
اپنی ملاقات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے، ریحان صاحبہ نے اپنی آنکھوں کے آنسو پونچھتے ہوئے کہاکہ میری والدہ ۱۹۹۳ء میں وفات پا گئیں اور وفات سے پہلے انہوں نے اپنے بچوں سے کہا تھا کہ اگر ہم میں سے کسی کو کبھی خلیفۃ المسیح سے ملاقات کا شرف حاصل ہو تو ان کا سلام حضور کو ضرورپہنچائیں۔ لیکن ملاقات کے ان لمحات میں، مَیں اس قدر جذباتی ہو گئی کہ میں یہ فریضہ ادا نہ کر سکی۔ لہٰذا، عابد صاحب! اگر آپ برائے کرم میری والدہ کا سلام حضورِ انور تک پہنچا سکیں تو بہت مہربانی ہوگی۔
مایوسی کی گہرائیوں سے
ایک اَور شخص جنہوں نے حضورِ انور سے ملاقات کی، وہ عرفان احمد (بعمر۴۱؍سال) تھے، جو اپنے خاندان کے ساتھ ہیوسٹن میں مقیم ہیں۔وہ پاکستان سے امریکہ منتقل ہوئے۔یہاں آنے سے پہلے ایک سال انہوں نے سری لنکا میں بھی گزارا۔ عرفان احمد ۲۸؍مئی ۲۰۱۰ء کے لاہور حملوں میں شدید زخمی ہوئے تھے جس کی تکلیف انہیں آج بھی برداشت کرنی پڑتی ہے۔اپنے تجربات بیان کرتے ہوئے عرفان صاحب نے کہا کہ میں ان خدام میں شامل تھا جو ۲۰۱۰ء میں لاہور میں گڑھی شاہو مسجد (دارالذکر) پر ڈیوٹی دے رہے تھے۔ دہشت گردوں میں سے ایک نے مجھے گولی مار دی۔ میرا ٹخنا مکمل طور پر چکناچور ہوگیا تھا، لیکن بعد میں تین بڑی سرجریوں کے ذریعے کسی حد تک ریکوری ہوئی ہے۔ مجھے وہ لمحہ یاد ہے جب مجھے گولی لگی۔ اس وقت میرے ذہن میں صرف میری بیوی اور بچوں کا خیال تھا، اور یہی سوچ مجھے اٹھنے کی ہمت دلاتی رہی۔ لیکن جب بھی میں اٹھنے کی کوشش کرتا، فوراً گر جاتا۔ میں نے سمجھا کہ میری موت یقینی ہے، اس لیے میں مسلسل کلمہ طیبہ پڑھتا رہا۔ عرفان احمد نے مزید کہاکہ کسی نہ کسی طرح میں ایک محفوظ جگہ پر پہنچ گیا اور پھر ایک دوسرے احمدی نے میری مدد کی کہ میں تہ خانے تک پہنچ سکوں، جہاں ہم مزید چار یا پانچ گھنٹے رہے۔ اس پورے عرصے میں ہم مسلسل درود شریف کا ورد کرتے رہے۔ ہم دل شکستہ تھےاور یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے پوری دنیا ہمارے سامنے ڈھیر ہو رہی ہو۔یہ میرے لیے کبھی ممکن نہیں ہو سکے گا کہ اس وقت کے جذبات کو الفاظ میں بیان کر سکوں۔ صرف ایک چیز نے شدید غم اور خوف کے اُس وقت سے گزرنے کے قابل بنایا کہ ہمیں یقین تھا کہ خلیفۂ وقت کی دعائیں ضرور ہمارے ساتھ ہوں گی۔
عرفان احمد نے اس دن کے دل دہلا دینے والے حالات بیان کرنے کے بعد، ایک تصویر دکھائی جو انہیں گولی لگنے کے بعد لی گئی تھی۔تصویر دیکھنا ایک ہولناک تجربہ تھا اور میرے ذہن میں ان بابرکت روحوں کا خیال آ گیا جو اُس دن شہید ہو گئی تھیں۔ مایوسی اور ناامیدی کی گہرائیوں سے نکل کرعرفان احمد کو اللہ تعالیٰ نے ان کے خوابوں سے کہیں زیادہ نوازا کیونکہ وہ اور اُن کی فیملی ابھی اپنے محبوب امام سے ملے تھے۔
عرفان احمد نے کہاکہ ہاں میں نے تکلیف سہی اور آج بھی میرے ٹخنے میں درد رہتا ہے لیکن آج اللہ تعالیٰ نے مجھے ایسے نوازا ہے کہ یہ کسی بھی دکھ اور تکلیف سے کئی گنا بڑھ کر ہے۔ جیسے ہی میں حضورِ انور کے دفتر میں داخل ہوا میں حضور کے حسن اور ان کے وجود کی چمک سے بالکل دنگ رہ گیا۔میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں احمدیت کی خاطر ہزار بار گولی کھانے کے لیے تیار ہوں۔ مخالفین مجھے اذیت دے سکتے ہیں یا قتل کر سکتے ہیں لیکن وہ کبھی بھی میرے ایمان کو احمدیت سے ذرہ برابر بھی کمزور نہیں کرسکتے۔احمدیت حق ہے اور اس دَور میں نجات کا ذریعہ یہی ہے کہ ہم اس زمانے کے نبی علیہ السلام کے اسوے پر چلیں لہٰذامیں کبھی بھی مسیح موعودؑ کے حفاظتی حصار سے باہر نہیں جاؤں گا۔
ایک حفاظتی چھتری
ان خوش نصیب افراد میں جنہیں پہلی مرتبہ حضور انور سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا، ہیوسٹن سے تعلق رکھنے والے آدم ندیم (بعمر۲۵؍سال) بھی تھے۔ان کے والد پاکستانی جبکہ ان کی والدہ ایک امریکی خاتون تھیں، لیکن افسوس کہ ان کے بچپن میں ہی ان کے والدین کی طلاق ہو گئی جس کے بعد وہ اپنے والد کے زیرِ کفالت ہی رہے۔یہ بات واضح تھی کہ انہوں نے زندگی میں کئی چیلنجز اور مشکلات کا سامنا کیا ہے لیکن مسجد سے ان کی وابستگی نے اس بات کو یقینی بنایا تھا کہ وہ اپنے عقیدے پر قائم رہے۔آدم ندیم نے اپنے مسائل اور پہلی مرتبہ حضور انور سے ملاقات کے احساسات کو بیان کرتے ہوئے کہاکہ میرے زندگی کے ابتدائی سالوں میں، احمدیت ایک ایسی چھتری تھی جس نے زندگی کی مشکلات میں میری ایسی راہنمائی اور حفاظت کی جو دنیا میں کوئی اَور مہیا نہیں کر سکتا تھا۔ ایک احمدی مسلمان کے طور پر پرورش پانے نے مجھے زندگی گزارنے کی ایک سمت اور ایک طریقہ دیا۔اس نے مجھے self -disciplineسکھایا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ میرے چاروں طرف پُر کشش دنیا تھی لیکن مسجد نے مجھے ان سے بچا لیا کیونکہ نماز باجماعت ادا کرنے اور جماعتی کلاسوں میں شمولیت نے مجھے اس معاشرے کی برائیوں سے دُور رکھا۔ میرے والد نے مجھے اکیلے ہی پالا پوسالیکن ان کے لیے یہ آسان نہیں تھا کیونکہ وہ کام بھی کرتے تھے۔ اس لیے جب بھی مجھے موقع ملتا میں مسجد میں آتا اور یہ مجھے گھر جیسا لگتا تھا۔ یہی چیز مجھے سیدھے راستے پر قائم رکھتی تھی۔
آدم نے آنسوؤں سے لبریز آنکھوں کے ساتھ حضور انور سے چند لمحے پہلے ہونے والی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ جب میں چھوٹا تھا تو شاید مجھے صحیح سمجھ نہیں تھی کہ خلافت کیا ہے لیکن جیسے جیسے میں بڑا ہوامجھے احساس ہوا کہ خلافت ہی آج دنیا کے مسائل کا واحد حل ہے۔ ذاتی طور پرجب تک میں حضور انور کے خطبات جمعہ سنتا رہوں گا اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کرتا رہوں گامجھے یقین ہے کہ میری زندگی کامیاب رہے گی۔آدم نے مزید کہاکہ حضور انور سے آج ملنے کا تجربہ ناقابل بیان ہے۔ یہ میری توقعات اور امیدوں سے کہیں بڑھ کر تھا۔ حضور کا مقام اتنا بلند ہےپھر بھی جب انہوں نے مجھ سے ملاقات کی تو وہ بہت مہربان اور پُرسکون تھے۔حتیٰ کہ انہوں نے مجھ سے مزاح بھی فرمایا جس سے میں فوراً پُر سکون ہو گیا۔ میں نے حضور سے کہا کہ میری اردو بہت کمزور اور ٹوٹی پھوٹی ہے۔حضور نے جواباً فرمایا کہ مجھے فکر کرنے کی ضرورت نہیں اور انہوں نے بتایا کہ میری اردو اچھی ہے! میرا ایمان پہلے ہی مضبوط تھالیکن میں جانتا ہوں کہ میری کچھ ذاتی کمزوریاں ہیں اور حضور سے ملاقات نے مجھے ان کو بہتر کرنے پر اُبھارا ہے کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ اُنہیں مجھ پر فخر ہو۔ یہی میری زندگی کا مقصد ہے؛ ایک اچھا مسلمان بننا اور احمدیت کا پیغام دوسروں تک پہنچانا تاکہ میرے خلیفہ مجھ پر فخر کر سکیں۔
(مترجم:طاہر احمد۔ انتخاب:مظفرہ ثروت)
٭…٭…٭