خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۸؍دسمبر۲۰۲۳ء بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے) یوکے)
سوال نمبر۱: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے خطبہ کے عنوان کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب:فرمایا: گذشتہ خطبہ میں جنگ احد کے بارے میں ذکرہو رہا تھا۔اس بارے میں حضرت مصلح موعود ؓنے جو مختصر طور پر بیان کیا ہے وہ بیان کرتا ہوں۔
سوال نمبر۲:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جنگ احدکی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: (حضرت مصلح موعودؓ) فرماتے ہیں کہ ’’کفار کے لشکر نے میدان سے بھاگتے ہوئے‘‘ یعنی بدر کے میدان سے بھاگتے ہوئے بدر کی جنگ کے بعد ’’یہ اعلان کیا کہ اگلے سال ہم دوبارہ مدینہ پر حملہ کریں گے اوراپنی شکست کا مسلمانوں سے بدلہ لیں گے۔ چنانچہ ایک سال کے بعد وہ پھر پوری تیاری کر کے مدینہ پر حملہ آور ہوئے۔ مکہ والوں کے غصہ کا یہ حال تھا کہ بدر کی جنگ کے بعد انہوں نے یہ اعلان کر دیا تھا کہ کسی شخص کو اپنے مُردوں پر رونے کی اجازت نہیں اور جو تجارتی قافلے آئیں گے ان کی آمد آئندہ جنگ کے لئے محفوظ رکھی جائے گی۔ چنانچہ بڑی تیاری کے بعد تین ہزار سپاہیوں سے زیادہ تعداد کا ایک لشکر ابوسفیان کی قیادت میں مدینہ پر حملہ آور ہوا۔ رسول اللہ ﷺ نے صحابہؓ سے مشورہ لیا کہ آیا ہم کو شہر میں ٹھہر کر مقابلہ کرنا چاہئے یا باہر نکل کر۔آپؐ کا اپنا خیال یہی تھا کہ دشمن کو حملہ کرنے دیا جائے تاکہ جنگ کی ابتداءکا بھی وہی ذمہ دار ہو اور مسلمان اپنے گھروں میں بیٹھ کر اس کا مقابلہ آسانی سے کر سکیں لیکن وہ نوجوان مسلمان جن کو بدر کی جنگ میں شامل ہونے کا موقع نہیں ملا تھا اور جن کے دلوں میں حسرت رہی تھی کہ کاش! ہم کو بھی خدا کی راہ میں شہید ہونے کا موقع ملتا انہوں نے اصرار کیا کہ ہمیں شہادت سے کیوں محروم رکھا جاتا ہے۔ چنانچہ آپؐ نے ان کی بات مان لی۔ مشورہ لیتے وقت آپؐ نے اپنی ایک خواب بھی سنائی۔ فرمایا خواب میں مَیں نے چند گائیں دیکھی ہیں اور میں نے دیکھا ہے کہ میری تلوار کا سرا ٹوٹ گیا ہے اور میں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ وہ گائیں ذبح کی جارہی ہیں اور پھر یہ کہ میں نے اپنا ہاتھ ایک مضبوط اور محفوظ زِرہ کے اندر ڈالا ہے اور میں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ میں ایک مینڈھے کی پیٹھ پر سوار ہوں۔ صحابہؓ نے کہا یارسول اللہ! (ﷺ )آپؐ نے اِن خوابوں کی کیا تعبیر فرمائی؟ آپؐ نے فرمایا گائے کے ذبح ہونے کی تعبیر یہ ہے کہ میرے بعض صحابہؓ شہید ہوں گے اور تلوار کا سرا ٹوٹنے سے مراد یہ معلوم ہوتی ہے کہ میرے عزیزوں میں سے کوئی اہم وجود شہید ہو گا یا شاید مجھے ہی اس مہم میں کوئی تکلیف پہنچے اور زرہ کے اندر ہاتھ ڈالنے کی تعبیر میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہمارا مدینہ میں ٹھہرنا زیادہ مناسب ہے اور مینڈھے پر سوار ہونے والے خواب کی تعبیر یہ معلوم ہوتی ہے کہ کفار کے لشکر کے سردار پر ہم غالب آئیں گے‘‘ یعنی ان کو ہم زیر کر لیں گے ’’یعنی وہ مسلمانوں کے ہاتھ سے مار ا جائے گا۔ گو اس خواب میں مسلمانوں پر یہ واضح کردیا گیا تھا کہ ان کا مدینہ میں رہنا زیادہ اچھا ہے مگر چونکہ خواب کی تعبیر رسول کریم ﷺ کی اپنی تھی، الہامی نہیں تھی آپؐ نے اکثریت کی رائے کو تسلیم کر لیا اور لڑائی کے لئے باہر جانے کا فیصلہ کر دیا۔‘‘
سوال نمبر۳:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جنگ احدکےلیےلشکراسلام کی تیاری کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: جب جنگ باہر نکل کر کرنے کا فیصلہ ہو گیا تو آنحضرت ﷺ نے صحابہؓ کو تیاری کرنے کا حکم دیا اور آپؐ خود بھی جنگ کی تیاری کرنے لگے۔ اس کی تفصیل اس طرح ہے جیساکہ بیان ہوا کہ آنحضرت ﷺ کو خواب کی بنا پہ شہر سے باہر جا کر لڑنا پسند نہیں آ رہا تھا مگر لوگ جب مستقل طور پر اصرار کرتے رہے تو آپ ﷺ نے ان کی رائے سے اتفاق فرمایا۔ آپؐ نے جمعہ کی نماز پڑھائی اور لوگوں کے سامنے وعظ فرمایا اور انہیں حکم دیا کہ وہ پوری تندہی اور ہمت کے ساتھ جنگ کریں۔ آپ ﷺ نے ان کو خوشخبری دی کہ اگر لوگوں نے صبر سے کام لیا تو اللہ تعالیٰ ان کو فتح و کامرانی عطا فرمائے گا۔ پھر آپؐ نے لوگوں کو حکم دیا کہ جا کر لڑنے کی تیاری کریں۔ لوگ یہ حکم سن کر خوش ہو گئے۔ اس کے بعد آپؐ نے سب کے ساتھ عصر کی نماز پڑھی۔ اس وقت تک وہ لوگ بھی جمع ہو گئے جو قرب و جوار سے آئے تھے۔ پھر آنحضرت ﷺ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمر ؓکے ساتھ اپنے گھر میں تشریف لے گئے۔ ان دونوں نے آنحضرت ﷺ کو عمامہ باندھا اور آپؐ کو جنگی لباس پہنایا۔ لوگ آپؐ کے انتظار میں صفیں باندھے کھڑے ہوئے تھے۔ اس وقت حضرت سعد بن معاذؓ اور حضرت اسید بن حضیرؓنے لوگوں سے کہا کہ تم لوگوں نے باہر نکل کر لڑنے کے لیے رسول اللہ ﷺ کو آپؐ کی مرضی کے خلاف مجبور کر دیا ہے اس لیے اب بھی اس معاملے کو آپؐ کے اوپر چھوڑ دو۔ آپؐ جو بھی حکم دیں گے اور آپؐ کی جو رائے ہو گی ہمارے لیے اس میں بھلائی ہو گی۔ اس لیے آپؐ کی فرمانبرداری کرو۔ جب آنحضرتﷺ باہر تشریف لائے تو آپؐ نے جنگی لباس پہن رکھا تھا ۔آپؐ نے دوہری زرہ پہن رکھی تھی یعنی ایک کے اوپر دوسری زرہ تھی۔ یہ ذَاتُ الْفُضُول اور فِضَّہ نامی زرہیں تھیں اور ذَاتُ الْفُضُول وہ زرہ تھی جو اس وقت آپؐ کو حضرت سعد بن عُبَادہؓ نے بھیجی تھی جبکہ آپؐ غزوہ بدر کے لیے تشریف لے جا رہے تھے اور یہی وہ زرہ تھی کہ جب آپؐ کا انتقال ہوا تو یہ ایک یہودی کے پاس رہن رکھی ہوئی تھی۔ پھر حضرت ابوبکرؓ نے اس زرہ کو چھڑا لیا تھا۔یعنی وہ پیسے دے کے اس سے واپس لے لی۔ آنحضرت ﷺ نے پہلو میں تلوار لٹکائی ہوئی تھی اور پشت پر ترکش لگا رکھا تھا۔ ایک روایت میں یہ ہے کہ آپؐ سَکْبْ نامی اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے، کمان لٹکائی اور نیزہ ہاتھ میں لیا۔ بہرحال ممکن ہے یہ دونوں باتیں پیش آئی ہوں۔ مختلف لوگوں نے دیکھا ۔ آنحضرت ﷺ جب اپنے گھر سے باہر تشریف لائے آپؐ نے اسلحہ زیب تن فرما رکھا تھا تو آپؐ کو اطلاع دی گئی کہ مالک بن عمرو نجاریؓ فوت ہو گئے ہیں اور ان کی میت جنازے کی جگہ رکھ دی گئی ہے۔ آپؐ نے جانے سے پہلے ان کا جنازہ پڑھایا ۔ لوگوں نے اس وقت آپؐ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ! ہمارا یہ مقصد نہیں تھا کہ ہم آپؐ کی رائے کی مخالفت کریں یا آپؐ کو مجبور کریں، لہٰذا آپؐ جو مناسب سمجھیں اس کے مطابق عمل فرمائیں۔ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ اگر آپؐ شہر سے نکل کر مقابلہ پسند نہیں فرماتے تو یہیں رہتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ نبی کے لیے یہ بات جائز نہیں کہ ہتھیار لگانے کے بعد اس وقت تک انہیں اتارے جب تک اللہ تعالیٰ اس کے اور اس کے دشمنوں کے درمیان فیصلہ نہ فرما دے۔ ایک روایت میں اس کے بجائے یہ الفاظ ہیں کہ جب تک وہ جنگ نہ کرے۔
سوال نمبر۴: حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے احد کے مقام پر لشکر اسلام کی صف بندی اور آنحضرت ﷺ کے خطاب کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: مسلمانوں نے احد کے دامن میں صف بنائی ۔اور ہفتے کے دن نماز فجر کا وقت قریب ہو گیا اور مسلمان مشرکین کو دیکھ رہے تھے۔حضرت بلالؓ نے اذان اور اقامت دی اور رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرامؓ کو صبح کی نماز پڑھائی۔ محمد بن عمر اسْلَمِی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کھڑے ہوئے اور لوگوں کو خطبہ دیا اور فرمایا: اے لوگو! میں تمہیں اس چیز کی وصیت کرتا ہوں جو مجھے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں وصیت کی ہے۔ اس کی فرمانبرداری کرنے اور اس کی حرام کی ہوئی چیزوں سے بچنے کی۔ تم آج کے دن اجر و ثواب کی منزل پر ہو۔جس نے اس کو یاد رکھا ،پھر اس نے اس کے لیے اپنے آپ کو صبر اور یقین اور نشاط پر آمادہ کیا۔ (جس دن کے لیے تم آئے ہو آج تمہیں ان ساری باتوں کے لیے صبر کرنا پڑے گا ۔)کیونکہ دشمن سے جہاد کرنا سخت مشقت کی چیز ہے۔ بہت تھوڑے لوگ ہیں جو اس پر صبر کر سکتے ہیں۔ سوائے ان لوگوں کے جن کو اللہ تعالیٰ ہدایت دے کیونکہ اللہ اپنی اطاعت کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے اور شیطان اللہ کی نافرمانی کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ پس تم جہاد پر صبر کر کے اپنے اعمال کا آغاز کرو اور اس کے ذریعہ اللہ کے وعدے کو تلاش کرو۔اور تم پر لازم ہے وہ کام جن کا میں تمہیں حکم دوں کیونکہ میں تمہاری ہدایت پر حریص ہوں۔اور بیشک اختلاف اور جھگڑا عجز و کمزوری کی نشانیاں ہیں۔اللہ تعالیٰ ان کو پسند نہیں کرتا۔(کوئی اختلاف نہیں ہونا چاہیے) اور اس پر مدد اور کامیابی نہیں عطا کرتا۔ اے لوگو! یہ چیز میرے سینے میں ڈال دی گئی ہے کہ جو حرام کا ارتکاب کرتا ہے اللہ تعالیٰ اپنے اور اس کے درمیان تفریق کر دیتا ہے۔(اللہ تعالیٰ اس کو پسند نہیں کرتا جو حرام کے کام کرتا ہے۔)اور جو اللہ کے لیے اس حرام سے اعراض کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہ بخش دے گا ۔اور جو مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجے گا تو اللہ تعالیٰ اور فرشتے اس پر دس مرتبہ رحمت بھیجیں گے ۔اور جو کسی مسلمان یا کافر سے حسن سلوک کرے گا تو اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے اس کو دنیا میں جلدی ملے گا اور آخرت میں مؤخر کر کے ۔اور جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے تو اس پر جمعہ لازم ہے سوائے بچے یا عورت یا مریض یا مملوک غلام کے اور جو اس سے استغنا کرے گا اللہ تعالیٰ اس سے استغنا کرے گا۔ (گویا کہ آپؐ نے پوری نصائح فرما دیں کہ مسلمانوں کو کس طرح رہنا چاہیے۔ شاید اس خواب کی بنا پر آپؐ کو خیال ہوا۔ )پھر فرمایا: اور اللہ تعالیٰ غنی اور حمید ہے۔اور میں جو اعمال جانتا تھا کہ وہ تمہیں اللہ کے قریب کر دیں گے تو میں نے تمہیں ان کا حکم دے دیا ہے۔ اور میں جو عمل بھی جانتا تھا کہ وہ تمہیں جہنم کے قریب کر دے گا تو میں نے تمہیں اس سے روک دیا ہے۔اورروح الامین نے میرے دل میں یہ الہام کیا ہے کہ کوئی نفس تب تک نہیں مرے گا جب تک وہ اپنا پورا رزق وصول نہ کر لے۔ اس کے رزق میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی اگرچہ وہ رزق اس کو دیر سے ملے۔ (یعنی اللہ تعالیٰ اعمال کا بدلہ دیتا ہے۔ یہاں رزق سے تمام قسم کے رزق مراد ہیں۔) پس تم اپنے ربّ سے ڈرو اور رزق کی تلاش میں اعتدال اختیار کرو۔اور رزق کا تاخیر سے ملنا تمہیں اس بات پر نہ ابھارے کہ تم اس کو اللہ کی معصیت میں تلاش کرو۔ (نیک اعمال، اعلیٰ اخلاق ،پاک رزق کی تلاش میں لگے رہو)کیونکہ اللہ تعالیٰ کے پاس جو چیز ہے اس پر بندہ اس کی اطاعت کے ذریعہ ہی قادر ہو سکتا ہے۔تمہارے لیے اللہ تعالیٰ نے حرام اور حلال کو واضح بیان کر دیا ہے لیکن ان دونوں کے درمیان کئی مشتبہ چیزیں ہیں جن کو بہت سے لوگ نہیں جانتے مگر جس کو اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے وہی جانتا ہے۔ پس جو اس کو چھوڑ دے گا تووہ اپنی عزت و دین کی حفاظت کرے گا اور جو ان میں مبتلا ہو جائے گا (یعنی غلط چیزوں میں جو مبتلا ہو جائے گا )وہ اس چرواہے کی طرح ہو گا جو چراگاہ کے قریب ہو۔ قریب ہے کہ وہ اس میں چلا جائے گا۔ اور ہر بادشاہ کی ممنوعہ چراگاہ ہوتی ہے۔ سن لو! بیشک اللہ تعالیٰ کی ممنوعہ چراگاہ اس کی حرام کی ہوئی چیزیں ہیں۔( ان سے بچو جو واضح طور پر حرام ہیں۔)اورمومن تمام مومنوں میں ایسے ہے جیسے سر جسم میں ہوتا ہے۔ جب سرمیں درد ہوتا ہے تو سارا جسم اس پر تکلیف دہ ہوتا ہے۔
سوال نمبر۵:حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے خطبہ کےآخرپرکن مرحومین کاذکرخیرفرمایا؟
جواب:فرمایا:۱۔ مکرمہ مسعودہ بیگم اکمل صاحبہ (ہالینڈ)۔ یہ مکرم عبدالحکیم اکمل صاحب مرحوم مربی سلسلہ کی اہلیہ تھیں۔ گذشتہ دنوں ان کی وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیہِ رَاجِعُوْن۔ ان کے نانا حضرت میاں عبدالصمد صاحبؓ اور پڑنانا حضرت میاں فتح دین صاحبؓ سیکھواں قادیان کے تھے۔ دونوں حضرت مسیح موعود ؑ کے صحابی تھے۔ مرحومہ طویل عرصہ تک ہالینڈ میں اپنے شوہر کے ساتھ خدمت دین میں مصروف رہیں…ہالینڈ قیام کے دوران ان کی قابل ذکر خدمات میں لجنہ اماء اللہ ہالینڈ کا قیام خاص طور پہ شامل ہے۔
۲۔ماسٹر عبدالمجید صاحب۔ یہ واقف زندگی تھے۔ تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ میں استاد تھے۔ یہ ریٹائرمنٹ کے بعد اب کینیڈا آ گئے تھے۔ وہیں گذشتہ دنوں ان کی وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیہِ رَاجِعُوْن۔ان کے پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ تین بیٹے اور دو بیٹیاں شامل ہیں۔
مزید پڑھیں: خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 3؍ جنوری 2025ء