متفرق

موت کے بعد ایک اور اعلیٰ حیات

حضرت مصلح موعودؓ آیت کَیۡفَ تَکۡفُرُوۡنَ بِاللّٰہِ وَکُنۡتُمۡ اَمۡوَاتًا فَاَحۡیَاکُمۡ ۚ ثُمَّ یُمِیۡتُکُمۡ ثُمَّ یُحۡیِیۡکُمۡ ثُمَّ اِلَیۡہِ تُرۡجَعُوۡنَ (البقرہ:۲۹) کی تفسیر میں فرماتے ہیں:’’اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ جس خدا نے تم کو بےجان سے جاندار بنایا۔ اور پھر جان دینے کے بعد موت دیتا ہے۔ اس کی نسبت یہ خیال کرنا کہ اس موت کے بعد دوسری زندگی نہ دے گا خلاف عقل ہے۔ اور اگر دوسری زندگی ملنی ہے۔ تو پھر کوئی ہدایت بھی اس کی طرف سے ضرور آنی چاہیے تاکہ وہ انسان کو دوسری زندگی کے لئے تیار کرے۔

کیا سادہ اور لطیف استدلال ہے کہ ایک بے جان کو جاندار بنانے کی اللہ تعالیٰ کو کیا ضرورت تھی؟ اگر کوئی خاص مقصد اس کے سپرد نہ تھا پھر فرض کرو کہ کوئی مقصد نہ تھا تو ایک صاحب فہم و فراست وجود کو پیدا کرکے مارا کیوں؟ اگر اسی دنیا کی خوشی اور چین انسان کے لئے مقدر تھا تو پھر اس قدر لمبے عمل کے بعد بےجان سے جاندار بنا کر اِسے موت کا مزہ کیوں چکھایا جب تک کہ اس موت کے بعد ایک اور اعلیٰ حیات دینی مد نظر نہ تھی؟

اس آیت میں اُن لوگوں کا بھی رد ہے جو یہ خیال کرتے ہیں کہ مرنے کے بعد عذاب قبر کوئی نہیں بلکہ جنت ، دوزخ سے ہی جب واسطہ پڑے گا پڑے گا کیونکہ اس میں پانچ زمانوں کا ذکر ہے۔ ایک بےجان ہونے کا زمانہ۔ دوسرا دنیوی زندگی کا زمانہ۔ تیسرا جسمانی موت کا زمانہ۔ چوتھا پھر ایک نئی زندگی کا زمانہ اور اس کے بعد وہ زمانہ جب انسان خدا تعالیٰ کے حضور میں پیش ہو گا۔‘‘(تفسیر کبیر جلد اول صفحہ ۳۸۵-۳۸۶)

مزید پڑھیں: بطورواقفِ زندگی ہماری ذمہ داریاں

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button