خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۵؍دسمبر۲۰۲۳ء بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے) یوکے)
سوال نمبر۱: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے خطبہ کے عنوان کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب:فرمایا: آنحضرت ﷺ کی سیرت کے حوالے سے غزوۂ اُحد کا ذکرہو رہا تھا۔
سوال نمبر۲:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے جنگ احدمیں آنحضرتﷺکی طرف سےدرّہ پر مقرر تیرانداز صحابہ کودی جانے والی ہدایات کی بابت کیا بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: ان تیر اندازوں کو آنحضرت ﷺ نے جو ہدایات دی تھیں اس حوالے سے بخاری میں یہ الفاظ ملتے ہیں : إِنْ رَأَیْتُمُوْنَا تَخْطَفُنَا الطَّیْرُ فَلَا تَبْرَحُوْا مَكَانَكُمْ هٰذَا حَتّٰى أُرْسِلَ إِلَیْكُمْ، وَإِنْ رَأَیْتُمُوْنَا هَزَمْنَا الْقَوْمَ وَأَوْطَأْنَاهُمْ، فَلَاتَبْرَحُوْا حَتّٰى أُرْسِلَ إِلَیْكُمْ۔فرمایا کہ اگر تم ہمیں دیکھو کہ ہمیں پرندے اُچک رہے ہیں تو ہرگز اپنی اس جگہ سے نہ ہٹنا یہاں تک کہ میں تمہاری طرف پیغام بھیجوں اور اگر تم ہمیں دیکھو کہ ہم نے دشمن قوم کو شکست دے دی اور ہم نے ان کو پامال کر دیا ہے تو بھی نہ ہٹنا یہاں تک کہ میں تمہاری طرف پیغام بھیجوں ۔بخاری کی ہی ایک اَور روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ تم نہ ہٹنا اگر تم ہمیں دیکھو کہ ہم ان پر غالب آ گئے ہیں اور تم نہ ہٹنا اگر تم ہمیں دیکھو کہ وہ ہم پر غالب آ گئے ہیں ۔تم ہماری مدد نہ کرنا۔کسی بھی صورت میں تم نے چھوڑنا نہیں ۔ ایک سیرت نگار لکھتا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا۔ تم دشمن کے گھڑسوار دستوں کو ہم سے دُور رکھنا تاکہ وہ ہمارے پیچھے سے حملہ آور نہ ہو سکیں اگر ہمیں فتح ہو تو تم اپنی جگہ ٹھہرے رہنا تا کہ وہ ہمارے پیچھے سے نہ آ جائیں تم اپنی جگہ کو لازم پکڑنا ، وہاں سے نہ ہٹنا۔ اور جب تم ہمیں دیکھو کہ ہم نے ان کو شکست دے دی ہے اور ہم ان کے لشکر میں داخل ہو گئے ہیں تو تم اپنی جگہ سے نہ ہٹنا۔ اور اگر تم دیکھو کہ ہم قتل کیے جا رہے ہیں تو ہماری مدد نہ کرنا اور نہ ہمارا دفاع کرنا اور ان کو تیر مارنا کیونکہ گھوڑے تیروں کی وجہ سے آگے نہیں بڑھتے۔ بےشک ہم تب تک غالب رہیں گے جب تک تم اپنی جگہ قائم رہو گے۔ اور پھر فرمایا اے اللہ! میں تجھے ان پر گواہ بناتا ہوں ۔
سوال نمبر۳:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آنحضرتﷺکی جنگی حکمت عملی کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: اس بارے میں سیرت خاتم النبیینؐ میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے بھی لکھا ہے، کہتے ہیں کہ ’’آنحضرت ﷺ خدا کی مدد پر بھروسہ کرتے ہوئے آگے بڑھے اور احد کے دامن میں ڈیرہ ڈال دیا۔ ایسے طریق پرکہ احد کی پہاڑی مسلمانوں کے پیچھے کی طرف آگئی اور مدینہ گویا سامنے رہا۔اور اس طرح آپؐ نے لشکر کا عقب محفوظ کر لیا۔ عقب کی پہاڑی میں ایک درہ تھا جہاں سے حملہ ہوسکتا تھا۔ اس کی حفاظت کا آپؐ نے یہ انتظام فرمایا کہ عبداللہ بن جبیرؓ کی سرداری میں پچاس تیرانداز صحابی وہاں متعین فرمادیئے اوران کو تاکید فرمائی کہ خواہ کچھ ہوجاوے وہ اس جگہ کونہ چھوڑیں اور دشمن پرتیر برساتے جائیں ۔ آپؐ کو اس درہ کی حفاظت کا اس قدر خیال تھا کہ آپؐ نے عبداللہ بن جبیر سے بہ تکرار فرمایا کہ دیکھو یہ درہ کسی صورت میں خالی نہ رہے۔ حتیٰ کہ اگر تم دیکھو کہ ہمیں فتح ہوگئی ہے اوردشمن پسپا ہوکر بھاگ نکلا ہے تو پھر بھی تم اس جگہ کو نہ چھوڑنا اوراگر تم دیکھو کہ مسلمانوں کوشکست ہوگئی ہے اوردشمن ہم پر غالب آگیا ہے توپھر بھی تم اس جگہ سے نہ ہٹنا۔ حتیٰ کہ ایک روایت میں یہ الفاظ آتے ہیں کہ ’’اگر تم دیکھو کہ پرندے ہمارا گوشت نوچ رہے ہیں تو پھر بھی تم یہاں سے نہ ہٹنا حتی ٰکہ تمہیں یہاں سے ہٹ آنے کاحکم جاوے۔‘‘حضرت مصلح موعودؓ اس بارے میں بیان فرماتے ہیں کہ ’’آخر آپؐ احد پر پہنچے۔ وہاں پہنچ کر آپؐ نے ایک پہاڑی درہ کی حفاظت کے لئے پچاس سپاہی مقررکئے اور سپاہیوں کے افسر کو تاکید کی کہ وہ درّہ اتنا ضروری ہے کہ خواہ ہم مارے جائیں یا جیت جائیں تم اِس جگہ سے نہ ہلنا۔ اِس کے بعد آپؐ بقیہ ساڑھے چھ سو آدمی لے کر دشمن کے مقابلہ کے لئے نکلے جو اَب دشمن کی تعداد سے قریباً پانچواں حصہ تھے۔‘‘تیر اندازوں کے دستے کو پہاڑی پر مقرر کرنے کے بعد رسول اللہ ﷺ مطمئن ہو گئے اور صفوں کو تیار کرنے لگے اور سالاروں کی ذمہ داریاں تقسیم کرنے لگے۔بظاہر نظر مسلمانوں کی کفار کی نسبت سے پوزیشن بہت کمزور تھی۔ تعداد کے لحاظ سے بھی کمزور، سازوسامان کے لحاظ سے بھی کمزور، ہتھیاروں کی عمدگی کے لحاظ سے بھی فریقین میں بہت تفاوت تھا۔ عددی نسبت کے لحاظ سے ایک مسلمان کم از کم چار مشرکین کے مقابلے میں تھا۔ اس طرح مشرکین کی فوج سواروں کے دستے کے ہتھیار سے بھی ممتاز تھی۔ اس پر مستزاد یہ کہ اسلامی فوج کے اکثر جوان بے زرہ تھے اور ان میں صرف ایک سو زرہ پوش تھے جبکہ مکی فوج یعنی کافروں کی فوج میں سات سو زرہ پوش تھے اور یہ تعداد ساری مدنی فوج کے برابر تھی۔
سوال نمبر۴: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے جنگ احدمیں اسلامی لشکرکی صف بندی کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ اس کی تفصیل سیرت خاتم النبیینؐ میں لکھتے ہیں کہ ’’اپنے عقب کو پوری طرح مضبوط کرکے آپؐ نے لشکر اسلامی کی صف بندی کی اورمختلف دستوں کے جداجدا امیر مقرر فرمائے۔ اس موقعہ پر آپؐ کو یہ اطلاع دی گئی کہ لشکرقریش کاجھنڈا طلحہ کے ہاتھ میں ہے۔ طلحہ اس خاندان سے تعلق رکھتا تھاجوقریش کے مورث اعلیٰ قُصَی بن کلاب کے قائم کردہ انتظام کے ماتحت جنگوں میں قریش کی علمبرداری کا حق رکھتا تھا۔ یہ معلوم کرکے‘‘ جب آپؐ کو یہ پتہ لگا تو ’’آپؐ نے فرمایا۔ ’’ہم قومی وفاداری دکھانے کے زیادہ حق دار ہیں چنانچہ آپؐ نے حضرت علیؓ سے مہاجرین کاجھنڈا لے کر مصعب بن عمیرؓ کے سپرد فرما دیا جو اسی خاندان کا ایک فرد تھا جس سے طلحہ تعلق رکھتا تھا۔دوسری طرف قریش کے لشکر میں بھی صف آرائی ہوچکی تھی۔ابوسفیان امیرالعسکر تھا‘‘ سپہ سالار تھا۔ ’’میمنہ پر خالدبن ولید کمانڈر تھا اور میسرہ پرعکرمہ بن ابوجہل تھا۔ تیر انداز عبداللہ بن ربیعہ کی کمان میں تھے۔عورتیں لشکر کے پیچھے دفیں بجابجا کر اوراشعار گاگاکر مَردوں کوجوش دلاتی تھیں۔‘‘ بہرحال جب دونوں لشکروں کی صف بندی ہو رہی تھی تو ابوسفیان نے پکار کر انصاری مسلمانوں سے کہا کہ اے گروہ اوس و خزرج! تم لوگ ہمارے اور ہمارے خاندان والوں کے درمیان سے ہٹ جاؤ۔ ہمیں تم سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ اس پر انصار نے ابوسفیان کو بہت برا بھلا کہا اور اس کو سخت لعنت ملامت کی۔
سوال نمبر۵: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے جنگ احدمیں مسلمانوں اورلشکرقریش میں مقابلہ کی کیاتفصیل بیان فرمائی؟
جواب: فرمایا: حضرت مرزا بشیراحمد صاحبؓ اس بارے میں لکھتے ہیں کہ ’’سب سے پہلے لشکر قریش سے ابوعامر اوراس کے ساتھی آگے بڑھے … یہ قبیلہ اوس میں سے تھا اورمدینہ کا رہنے والا تھا اورراہب کے نام سے مشہور تھا۔ جب آنحضرت ﷺ مدینہ میں تشریف لائے تو اس کے کچھ عرصہ بعد یہ شخص بغض وحسد سے بھرگیا اوراپنے چند ساتھیوں کے ساتھ مکہ چلا گیا اور قریش مکہ کو آنحضرت ﷺ اور مسلمانوں کے خلاف اکساتا رہا۔ چنانچہ اب جنگِ احد میں وہ قریش کا حمایتی بن کر مسلمانوں کے خلاف شریک جنگ ہوا۔ اور یہ ایک عجیب بات ہے کہ ابوعامر کابیٹا حنظلہ ایک نہایت مخلص مسلمان تھا اوراس جنگ کے موقعہ پراسلامی لشکر میں شامل تھا اورنہایت جانبازی کے ساتھ لڑتا ہوا شہید ہوا۔ ابو عامر چونکہ قبیلہ اوس کے ذی اثر لوگوں میں سے تھا اس لئے اسے یہ پختہ امید تھی کہ اب جو میں اتنے عرصہ کی جدائی کے بعد مدینہ والوں کے سامنے ہوں گا تو وہ میری محبت میں فوراً محمد ﷺ کو چھوڑ کر میرے ساتھ آملیں گے۔ اسی امید میں ابوعامر اپنے ساتھیوں کوہمراہ لے کر سب سے پہلے آگے بڑھا اوربلند آواز سے پکار کرکہنے لگا۔ ’’اے قبیلہ اوس کے لوگو! میں ابوعامرہوں۔‘‘انصار نے یک زبان ہو کر کہا۔ ’’دُور ہو جا اے فاسق! تیری آنکھ ٹھنڈی نہ ہو‘‘اورساتھ ہی پتھروں کی ایک ایسی باڑماری کہ ابو عامر اوراس کے ساتھی بدحواس ہوکر پیچھے کی طرف بھاگ گئے۔ اس نظارہ کو دیکھ کر قریش کاعلمبردار طلحہ بڑے جوش کی حالت میں آگے بڑھا اوربڑے متکبّرانہ لہجہ میں مبارز طلبی کی۔ حضرت علیؓ آگے بڑھے اور دوچار ہاتھ میں طلحہ کوکاٹ کر رکھ دیا۔ اس کے بعد طلحہ کابھائی عثمان آگے آیا اور ادھر سے اس کے مقابل پرحضرت حمزہؓ نکلے اورجاتے ہی اسے مار گرایا۔ کفار نے یہ نظارہ دیکھا تو غضب میں آکر عام دھاوا کر دیا۔ مسلمان بھی تکبیر کے نعرے لگاتے ہوئے آگے بڑھے اور دونوں فوجیں آپس میں گتھم گتھا ہو گئیں … الغرض قریش کے علمبردار کے مارے جانے کے بعد دونوں فوجیں آپس میں گتھم گتھا ہوگئیں اور سخت گھمسان کا رن پڑا اورایک عرصہ تک دونوں طرف سے قتل وخون کا سلسلہ جاری رہا۔ آخر آہستہ آہستہ اسلامی لشکر کے سامنے قریش کی فوج کے پاؤں اکھڑنے شروع ہوئے۔ …غرض لڑائی ہوئی اور بہت سخت ہوئی اورکافی وقت تک غلبہ کاپہلو مشکوک رہا۔ لیکن آخر خدا کے فضل سے قریش کے پاؤں اکھڑنے لگے اوران کے لشکر میں بدنظمی اورابتری کے آثار ظاہر ہونے لگے۔ قریش کے علمبردار ایک ایک کرکے مارے گئے اور ان میں سے تقریباً نو شخصوں نے باری باری اپنے قومی جھنڈے کواپنے ہاتھ میں لیا مگر سارے کے سارے باری باری مسلمانوں کے ہاتھ سے قتل ہوئے۔آخر طلحہ کے ایک حبشی غلام صواب نامی نے دلیری کے ساتھ بڑھ کر عَلم اپنے ہاتھ میں لے لیا مگر اس پر بھی ایک مسلمان نے آگے بڑھ کروار کیا اورایک ہی ضرب میں اس کے دونوں ہاتھ کاٹ کر قریش کاجھنڈا خاک پر گرا دیا لیکن صواب کی بہادری اور جوش کابھی یہ عالم تھا کہ وہ بھی اس کے ساتھ ہی زمین پر گرا اور جھنڈے کواپنی چھاتی کے ساتھ لگاکراسے پھر بلند کرنے کی کوشش کی مگر اس مسلمان نے جوجھنڈے کے سرنگوں ہونے کی قدروقیمت کو جانتاتھا اوپرسے تلوار چلاکر صواب کو وہیں ڈھیر کر دیا۔ اس کے بعد پھرقریش میں سے کسی شخص کو یہ جرأت اورہمت نہیں ہوئی کہ اپنے عَلَم کو اٹھائے۔ ادھر مسلمانوں نے آنحضرت ﷺ کا حکم پاکر تکبیر کانعرہ لگاتے ہوئے پھر زور سے حملہ کیا اوردشمن کی رہی سہی صفوں کوچیرتے اور منتشر کرتے ہوئے لشکر کے دوسرے پار قریش کی عورتوں تک پہنچ گئے اور مکہ کے لشکر میں سخت بھاگڑ پڑ گئی اوردیکھتے ہی دیکھتے میدان قریباً صاف ہو گیا۔ حتی کہ مسلمانوں کے لئے ایسی قابلِ اطمینان صورت حال پیدا ہو گئی کہ وہ مال غنیمت کے جمع کرنے میں مصروف ہو گئے۔‘‘حضرت مصلح موعودؓ نے بیان کیا ہے کہ ’’لڑائی ہوئی اور اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت سے تھوڑی ہی دیر میں ساڑھے چھ سو مسلمانوں کے مقابلہ میں تین ہزار مکہ کا تجربہ کار سپاہی سر پر پاؤں رکھ کر بھاگا۔ مسلمانوں نے ان کا تعاقب شروع کیا تو ان لوگوں نے جو پشت کے درہ کی حفاظت کے لئے کھڑے تھے انہوں نے اپنے افسر سے کہا اب تو دشمن کو شکست ہو چکی ہے اب ہمیں بھی جہاد کاثواب لینے دیا جائے۔ افسر نے ان کواِس بات سے روکا اور رسول اللہ ﷺ کی بات یاد دلائی مگر انہوں نے کہا رسول اللہ ﷺ نے جو کچھ فرمایا تھا صرف تاکید کے لئے فرمایا تھا ورنہ آپؐ کی مراد یہ تو نہیں ہو سکتی تھی کہ دشمن بھاگ بھی جائے تو یہاں کھڑے رہو۔ یہ کہہ کر انہوں نے درہ چھوڑ دیا اور میدانِ جنگ میں کود پڑے۔‘‘
سوال نمبر۶:حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فلسطین کےلیےاحباب جماعت کودعاکی کیاتحریک فرمائی؟
جواب: فرمایا: فلسطینیوں کے لیے بھی دعائیں کرتے رہیں ۔ ظلم کی انتہا دن بدن ہوتی چلی جا رہی ہے، بلکہ بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ اب ظالموں کی پکڑ کے سامان کرے اور مظلوم فلسطینیوں کے لیے بھی آسانیاں پیدا فرمائے۔ مسلمان ممالک کو بھی عقل اور سمجھ دے کہ ان کی آواز ایک ہو اور وہ مسلمان بھائیوں کے لیے ان کا حق ادا کرنے کے لیے کوشش کرنے والے ہوں۔
٭…٭…٭
مزید پڑھیں: سریہ کُرز بن جابراور غزوہ ذی قرد کے تناظر میں سیرت نبوی ﷺ کا بیان۔ خلاصہ خطبہ جمعہ ۲۴؍جنوری ۲۰۲۵ء