متفرق مضامین

’’اوڑھنی والیوں کے لئے پھول‘‘(حصہ دوم۔آخری)

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آئندہ نسلوں میںبچپن سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان فرمودہ احکامات پر عمل کرنے کااحساس پیدا کرنے اور برائی کے خلاف جہاد کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا: ’’یہ احمدی ماؤں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی نگرانی کریں، انہیں پیار سے سمجھاتی رہیں اور بچپن سے ہی ان میں یہ احساس پیدا کریں کہ تم احمدی بچی یا بچہ ہو جس کا کام اس زمانے میں ہر برائی کے خلاف جہاد کرنا ہے اور احمدی بچیاں بھی جو اپنی ہوش کی عمر کو پہنچ گئی ہیں اس بات کا خیال رکھیں کہ وہ حضرت مسیح موعودؑ کی جماعت سے منسوب ہوتی ہیں جنہوں نے اسلام کی حقیقی تعلیم کو دوبارہ دنیا میں رائج کرنا ہے۔ اگر آپ اللہ اور اس کے رسول کے حکموں پر چل رہی ہیں تو پھر ٹھیک ہے۔ ورنہ حضرت مسیح موعودؑ کی جماعت میں شامل رہنے کا کیا فائدہ۔ آج کی بچیاں کل کی مائیں ہیں۔ اگر ان بچیوں کو اپنی ذمہ داری کا احساس پیدا ہوگیا تو احمدیت کی آئندہ نسلیں بھی محفوظ ہوتی چلی جائیں گی۔‘‘ (خطاب از مستورات جلسہ سالانہ ماریشس۳؍دسمبر۲۰۰۵ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۹؍مئی ۲۰۱۵ء)

ایک موقع پرحضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے ماؤں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:’’اپنی بچیوں کی حفاظت کی خاطر شروع ہی سے اُن کے اوپر دینی ذمہ داریاں ڈالنا شروع کردیں اُن کےسپرد کوئی ایسے اعلیٰ درجہ کے کام کر دیں جن کے نتیجہ میں ان میں ایک احساس پیدا ہو کہ ہم بہت عظیم خواتین ہیں ہم خاص مقصد کے لئے پیدا کی گئیں ہیں ، ہم نے بڑے بڑے کام دنیا میں سر انجام دینے ہیں ۔ یہ احساس ہے جو بہت سی بدیوں سے انسان کو بچاتا ہے۔ اور بچپن ہی میں اس احساس کا پیدا کرنا ضروری ہے۔‘‘(حوا کی بیٹیاں اور جنت نظیر معاشرہ صفحہ۱۴۱، طبع دوم ۲۰۰۱ء)

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: ’’اب دس سال کی عمر ایک ایسی عمر ہے۔ جو اسلام کی تعلیم کے مطابق mature(ایک سمجھ بوجھ رکھنے کی) عمر ہے جس میں نماز ادا کرنا فرض کیا گیا ہے۔ اب نماز ایک ایسی عبادت ہے جو خدا تعالیٰ کے حضور پانچ وقت ادا کرنی ہے اور اس عبادت کو اللہ اور اس کے رسول نے دس سال کی عمر میں فرض کردیا ہے۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس عمر میں تمہارے ہر عمل میں ایک تبدیلی ہوجانی ہے۔ بچیاں کہتی ہیں کہ ہم تو ابھی چھوٹی ہیں۔ گیارہ بارہ سال کی ہیں۔ بڑی ہوں گی تو ہم سکارف پہن لیں گی یا کوٹ پہن لیں گی۔ تو اگر دس سال تک یہ احساس پیدا نہیں ہوا تو پھر بڑے ہوکر بھی یہ احساس کبھی بھی پیدا نہیں ہوگا۔‘‘

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے احمدی بچوں اور بچیوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:’’آج کل کے معاشرے میں جو برائیاں ہمیں نظر آ رہی ہیں یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ایک ایک لفظ کی تصدیق کرتی ہیں۔ پس ہر احمدی لڑکی، لڑکے اور مرد اور عورت کو اپنی حیا کے معیار اونچے کرتے ہوئے معاشرے کے گند سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے نہ کہ یہ سوال یا اس بات پر احساس کمتری کا خیال کہ پردہ کیوں ضروری ہے؟ کیوں ہم ٹائٹ جینز اور بلاؤز نہیں پہن سکتیں ؟ یہ والدین اور خاص طور پر ماؤں کا کام ہے کہ چھوٹی عمر سے ہی بچوں کو اسلامی تعلیم اور معاشرے کی برائیوں کے بارے میں بتائیں تبھی ہماری نسلیں دین پر قائم رہ سکیں گی اور نام نہاد ترقی یافتہ معاشرے کے زہر سے محفوظ رہ سکیں گی۔ ان ممالک میں رہ کر والدین کو بچوں کو دین سے جوڑنے اور حیا کی حفاظت کے لئے بہت زیادہ جہاد کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے اپنے نمونے بھی دکھانے ہوں گے۔‘‘(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۳؍فروری ۲۰۱۷ء)

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ذاتی محاسبہ کی طرف توجہ دلاتے ہوئےفرماتے ہیں: ’’کوئی دوسرا آپ کا جائزہ لے گا تو جھوٹ بولا جاسکتا ہے۔ لیکن جب آپ خود اپنا جائزہ لیں گی تو جھوٹ نہیں بول سکتیں۔ جب اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے جائزہ لیں گی کہ اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ مَیں تم کو دیکھ رہا ہوں تو پھر آپ تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے سچائی کے ساتھ اپنا جائزہ لیں گی۔ کیونکہ نہ اپنے آپ کو دھوکہ دیا جاسکتا ہے اور نہ اللہ تعالیٰ کو دھوکہ دیا جاسکتا ہے۔‘‘(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲؍ دسمبر۲۰۱۱ء)

’’…سونے سے قبل یہ جائزہ بھی لیں کہ ہم نے آج کیا کیا کام کئے ہیں جو…ضروری ہیں۔ جب نمازیں فرض ہیں تو کیا ہم نے ادا کی ہیں۔ قرآن شریف پڑھنے کا حکم ہے تو کیا ہم نے پڑھا ہے۔ اور یہ بھی کہ قرآن شریف کے کسی حکم پر ہم نے غور کیا ہے اور اس میں بیان شدہ تعلیم اور معانی نکالے ہیں… ہر چیز میں، عبادتوں میں آپ کا معیار اچھا ہونا چاہئے۔ دوسرے احکامات میں معیار اچھا ہونا چاہئے…حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ جو سات سو حکم کی پابندی نہیں کرتا، یہاں تک لکھا ہے کہ وہ میری جماعت میں سے نہیں۔ تو یہ تلاش کرنا آپ لوگوں کا کام ہے۔ تاکہ جس جس ماحول میں رہ رہی ہیں مختلف جگہوں پر، اس جگہ پر باقی احمدی لڑکیوں کے لئے بھی، باقی احمدی عورتوں کے لئے بھی آپ کے نمونے قائم ہوں۔ یہ سوچیں اور اگر یہ ہو جائے گا تو انشاء اللہ تعالیٰ آپ لوگ پھر انقلاب لانے والی بنیں گی ۔ (مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۲؍اگست ۲۰۱۱ء)

(مرسلہ:سیدہ منورہ سلطانہ۔جرمنی)

٭…٭…٭

مزید پڑھیں: ایک صدی قبل ۱۹۲۵ء میں تاریخ احمدیت میں رُونما ہونے والے بعض واقعات

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button