حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

اللہ تعالیٰ کوئی ایسا حکم نہیں دیتا جو انسانی طاقت سے باہر ہو

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا (البقرۃ: 287) یعنی اللہ تعالیٰ کسی پر اس کی طاقت سے بڑھ کر ذمہ داری نہیں ڈالتا۔ پس اللہ تعالیٰ نے واضح فرما دیا کہ وہ کوئی ایسا حکم نہیں دیتا جو انسانی طاقت سے باہر ہو، اس کی استعدادوں سے باہر ہو، اس کی قابلیت سے باہر ہو۔ پس جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسے احکام آتے ہیں جن پر عمل انسانی طاقت سے باہر نہیں تو پھر ان پر عمل کی ذمہ داری انسان پر عائد ہوتی ہے۔ ایک حقیقی مومن یہ عذر نہیں کر سکتا کہ فلاں حکم میری طاقت سے باہر ہے۔ اگر خدا تعالیٰ پر ایمان ہے تو پھر خدا تعالیٰ کی اس بات پر بھی ایمان لازمی ہے کہ اس کے تمام احکام ہماری استعدادوں کے مطابق ہیں اور ہمیں ان پر اپنی تمام تر استعدادوں کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ یہ اسلام کی خوبصورت تعلیم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ یہ حکم ہے تم اس پر عمل کر کے اس کے اعلیٰ ترین معیاروں کو ضرور حاصل کرنا ورنہ اس پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے تم سزا کے مستحق ٹھہرو گے۔ بلکہ یہ فرمایا کہ ہر حکم پر عمل تمہاری استعدادوں کے مطابق ضروری ہے۔ اور جب ہم انسانی فطرت کا، انسان کی حالت کا جائزہ لیتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ ہر انسان کی حالت مختلف ہے۔ اس کی دماغی حالت، اس کی جسمانی ساخت، اس کا علم، ذہانت وغیرہ مختلف ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے انسان کی کمزوریوں، اس کی حالت اور اس کی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے احکامات میں ایسی لچک رکھ دی ہے جس کے کم سے کم معیار بھی ہیں اور زیادہ سے زیادہ معیار بھی مقرر ہیں۔ جب ایسی لچک ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم میرے احکامات پر دیانتداری سے عمل کرو۔ پس یہ اسلام کی خوبصورت تعلیم ہے جو انسانی فطرت کو سامنے رکھتے ہوئے دی گئی ہے۔ کسی کو اس اعتراض کی گنجائش نہیں رہنے دی کہ اے اللہ! تُو نے میری فطرت تو ایسی بنائی ہے، میری حالت تو ایسی بنائی ہے اور احکامات اس سے مطابقت نہ رکھنے والے دئیے ہیں۔ حکم تو تُو مجھے یہ دے رہا ہے کہ اعلیٰ ترین معیار تیرے احکامات پر عمل کر کے قائم کروں اور میری جسمانی حالت یہ ہے کہ میں اس پر عمل اس معیار کے مطابق کر ہی نہیں سکتا یا میری ذہنی حالت نہیں یا میری اور کمزوریاں ہیں جو ان معیاروں کو حاصل کرنے میں روک ہیں، مَیں کس طرح اس پر عمل کر سکتا ہوں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا کہہ کر تمام عذر ختم کر دئیے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بیشک اپنے احکامات، اپنی تعلیم پر عمل کا مکلف ٹھہرایا ہے۔ اس کو کہا ہے کہ تم ضرور کرو مگر اس کا چھوٹے سے چھوٹا معیار رکھ کر اس پر عمل نہ کر کے مؤاخذہ سے بچنے والوں کا عذر نہیں رہنے دیا۔ فرما دیا کہ یہ معیار تمہاری حالت کے مطابق ہیں ان پر تو بہرحال چلنا ہے۔

(خطبہ جمعہ ۳۰؍جنوری ۲۰۱۵ء، مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۰؍فروری ۲۰۱۵ء)

مزید پڑھیں: پاکیزہ اولاد کی خواہش کے لئے دعا بھی ہونی چاہئے

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button