والدین کے حقوق اور حُسنِ سلوک
جو شخص اپنے ماں باپ کی عزت نہیں کرتا اور امور معروفہ میں جو خلاف قرآن نہیں ہیں ان کی بات کو نہیں مانتا اور ان کی تعہد خدمت سے لا پروا ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے (مسیح موعودؑ)
اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا، اور حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا سے نسلِ انسانی کا آغاز فرمایا جو قیامت تک جاری رہے گا۔ اس دوران اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو برابری کے حقوق، عزّت، عفّت، پردے، عدل و انصاف، اور والدین کے حقوق سے متعلق واضح راہنمائی دی۔ قرآن کریم میں والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کی بارہا تاکید کی گئی ہے اور ان کی عزّت و اطاعت کو ایک عظیم عبادت قرار دیا گیا ہے۔ والدین، انسانی زندگی میں وہ عظیم ہستیاں ہیں جن کی محبّت، قربانی، اور شفقت بے مثال ہوتی ہے۔ وہ اولاد کی پیدائش سے لے کر اس کی پرورش اور تربیت تک اپنی زندگی کا ہر لمحہ اس پر نچھاور کرتے ہیں۔ ہر مذہب، ہر معاشرتی نظام اور ہر اخلاقی ضابطہ والدین کے حقوق کو تسلیم کرتا ہے اور ان کی عزت و خدمت کو لازمی قرار دیتا ہے۔
والدین کی اطاعت اور خدمت محض ایک جذباتی یا سماجی ضرورت نہیں، بلکہ یہ دینی اور اخلاقی فریضہ بھی ہے۔ تمام بڑے مذاہب، خصوصاً اسلام نے والدین کے احترام، ان کی خدمت، اور ان کی فرمانبرداری کو نہ صرف ایک اخلاقی قدر کے طور پر اپنایا ہے بلکہ اس کو اسلامی تعلیمات کا بنیادی حصہ قرار دیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں والدین کی نافرمانی کو سخت گناہ قرار دیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات میں بھی والدین کی فرمانبرداری کو عبادت کا درجہ دیا گیا ہے بلکہ اسے اللہ کی رضا اور جنّت کے حصُول کا ذریعہ قرار دیا ہے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَقَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّاۤ اِیَّاہُ وَبِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا ؕ اِمَّا یَبۡلُغَنَّ عِنۡدَکَ الۡکِبَرَ اَحَدُہُمَاۤ اَوۡ کِلٰہُمَا فَلَا تَقُلۡ لَّہُمَاۤ اُفٍّ وَّلَا تَنۡہَرۡہُمَا وَقُلۡ لَّہُمَا قَوۡلًا کَرِیۡمًا ۔ (بنی اسرائیل:۲۴)اور تیرے ربّ نے فیصلہ صادر کردیا ہے کہ تم اُس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور والدین سے احسان کا سلوک کرو۔ اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک تیرے پاس بڑھاپے کی عمر کو پہنچے یا وہ دونوں ہی، تو اُنہیں اُف تک نہ کہہ اور انہیں ڈانٹ نہیں اور انہیں نرمی اور عزت کے ساتھ مخاطب کر۔
یہ آیت واضح طور پر والدین کے ساتھ نرمی، محبّت اور ادب سے پیش آنے کی تعلیم دیتی ہے، خاص طور پر جب وہ عمر رسیدہ ہو جائیں۔ والدین کی فرمانبرداری اور عزّت کے ساتھ ساتھ، قرآن ہمیں ان کے لیے دُعا کرنے کی بھی تاکید کرتا ہے۔
وَاخۡفِضۡ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحۡمَۃِ وَقُلۡ رَّبِّ ارۡحَمۡہُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیۡ صَغِیۡرًا ( بنی اسرائیل :۲۵)اور ان دونوں کے لیے رحم سے عجز کا پَرجُھکا دے اور کہہ کہ اے میرے ربّ! ان دونوں پر رحم کر جس طرح ان دونوں نے بچپن میں میری تربیت کی۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے متعدّدمقامات پر والدین کے حقوق اور ان کی فرمانبرداری کی تاکید فرمائی ہے۔یہ تعلیمات نہ صرف والدین کے ساتھ حُسن سلوک کی اہمیت کو اُجاگر کرتی ہیں بلکہ ایک مثالی اسلامی معاشرے کی بنیاد بھی فراہم کرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں والدین کے ساتھ نیک سلوک کو اپنی عبادت کے بعد لازمی قرار دیا ہے اور اسی طرح، خرچ کے بارے میں بھی واضح ہدایات دی ہیں:یَسۡـَٔلُوۡنَکَ مَاذَا یُنۡفِقُوۡنَ ۬ؕ قُلۡ مَاۤ اَنۡفَقۡتُمۡ مِّنۡ خَیۡرٍ فَلِلۡوَالِدَیۡنِ وَالۡاَقۡرَبِیۡنَ وَالۡیَتٰمٰی وَالۡمَسٰکِیۡنِ وَابۡنِ السَّبِیۡلِ وَمَا تَفۡعَلُوۡا مِنۡ خَیۡرٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیۡمٌ(البقرہ: ۲۱۶)وہ تجھ سے پوچھتے ہیں کہ وہ کیا خرچ کریں۔ تُو کہہ دے کہ تم (اپنے) مال میں سے جو کچھ بھی خرچ کرنا چاہو تو والدین کی خاطر کرو اور اقرباءکی خاطر اور یتیموں کی خاطر اور مسکینوں کی خاطر اور مسافروں کی خاطر۔ اور جو نیکی بھی تم کرو تو اللہ یقیناً اس کا خوب علم رکھتا ہے۔
اس آیت پر ہم غور کریں تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں مال کو بھلائی کی خاطر خرچ کرنے کا حکم دیا ہے اور سب سے پہلے اس حکم میں والدین کا نام لیا ہے۔ اس کے بعد رشتہ دار ،مساکین اور یتیم وغیرہ ہیں۔ یعنی بھلائی کرنے میں بھی سب سے پہلے والدین ہی ٹھہرے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:وَوَصَّیۡنَا الۡاِنۡسَانَ بِوَالِدَیۡہِۚ حَمَلَتۡہُ اُمُّہٗ وَہۡنًا عَلٰی وَہۡنٍ وَّفِصٰلُہٗ فِیۡ عَامَیۡنِ اَنِ اشۡکُرۡ لِیۡ وَلِوَالِدَیۡکَ ؕ اِلَیَّ الۡمَصِیۡرُ۔ (لقمان: ۱۵) اور ہم نے انسان کو اس کے والدین کے حق میں تاکیدی نصیحت کی۔ اُس کی ماں نے اُسے کمزوری پر کمزوری میں اٹھائے رکھا۔ اور اس کا دودھ چھڑانا دو سال میں (مکمل) ہوا۔ (اُسے ہم نے یہ تاکیدی نصیحت کی) کہ میرا شکر ادا کر اور اپنے والدین کا بھی۔ میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔
یہ آیت ایک نہایت حکمت بھری نصیحت پر مشتمل ہے، جس میں اللہ تعالیٰ نے والدین کے حقوق اور خاص طور پر ماں کی قربانیوں کا ذکر کیا ہے۔
اسی طرح حدیث میں ماں کے حقوق کے بارہ میں بیان ہے کہ جَاءَ رَجُلٌ إِلىٰ رَسُولِ اللّٰهِ ﷺ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللّٰهِ مَنْ أَحَقُّ بِحُسْنِ صَحَابَتِي۔قَالَ: أُمُّكَ۔ قَالَ: ثُمَّ مَنْ۔ قَالَ: أُمُّكَ۔ قَالَ: ثُمَّ مَنْ۔ قَالَ: أُمُّكَ۔ قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: أَبُوْكَ(صحیح البخاری۵۹۷۱)ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور پوچھايارسول اللہ ! کون زیادہ حق دار ہے جس سے میں حسنِ معاشرت کے ساتھ پیش آؤں۔آپؐ نے فرمایا: تمہاری ماں۔اُس نے کہا: پھر کون؟ آپ نے فرمایا: تمہاری ماں۔ پوچھا: پھر کون؟ آپ نے فرمایا: تمہاری ماں۔ پوچھا پھر کون؟ آپ نے فرمایا: پھر تمہارا باپ۔
اس حدیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ ماں کی خدمت اور اطاعت کی اہمیت باپ سے بھی زیادہ ہے، کیونکہ وہ حمل، ولادت، پرورش اور تربیت میں بے شمار قربانیاں دیتی ہے۔ ذرا تصوّر کریں، ایک ماں جو راتوں کو جاگ کر آپ کے ننھے ہاتھ تھپکتی رہی، جو بھوک برداشت کر کےآپ کو کھلاتی رہی، جو ہر دُکھ، ہر تکلیف اپنے دل میں سمیٹ کر تمہیں ہنستا دیکھنا چاہتی تھی۔ اور وہ باپ، جو اپنی زندگی کی آسائشیں قربان کر کے تمہارے لیے سکون کا سامان مہیا کرتا رہا، جو اپنے آرام اور خواہشات کو پس پشت ڈال کر تمہارے خوابوں کی تعبیر کے لیے کوشاں رہا، جو اپنی محنت، تجربے، اور وسائل کو بروئےکار لا کر تمہارے روشن مستقبل کی بنیادیں استوار کرتا رہا۔ یہ وہ ہستیاں ہیں جو اپنی خوشیوں کو قربان کر کے تمہارے لیے کامیابی کے دروازے کھولتی رہیں، چاہے وہ کسی بھی میدان میں ہوں، کسی بھی منصب پر فائز ہوں، ان کا ہر لمحہ آپ کی بہتری کے لیے وقف ہوتا رہا ہے۔
والدین کی محبت نہ کسی صلہ کی محتاج ہوتی ہے، نہ کسی شکایت کی۔ وہ آپ سے کچھ نہیں مانگتے، سوائے اس کے کہ آپ ان سے محبّت کریں ، ان کی عزّت کریں، اور ان کی زندگی کے آخری ایام کو سکون بھری مسکراہٹوں سے بھر دیں۔ ان کی آنکھیں وہ خواب دیکھتی ہیں جو آپ کی کامیابی کے رنگوں سے سجے ہوں، ان کے لب وہ دُعائیں کرتے ہیں جو آپ کے حق میں جنّت کی سند بن جائیں، اور ان کے ہاتھ ان دعاؤں کے لیے اٹھتے ہیں جو آپ کی مشکلات کے دروازے ہمیشہ کے لیے بند کر دیں۔
عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰهِ ﷺ يَقُولُ:الْوَالِدُ أَوْسَطُ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ، فَإِنْ شِئْتَ فَأَضِعْ ذٰلِكَ الْبَابَ أَوِ احْفَظْهُ۔ (سنن ترمذی۱۹۰۰)حضرت ابو درداءؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ والد جنّت کے درمیانی دروازوں میں سے ایک ہے، اگر چاہو تو اس دروازے کو ضائع کر دو یا اگر چاہو تو اس کی حفاظت کرو۔
ایک اَور روایت میں آتا ہے کہ نَظَرُ الْوَلَدِ إِلَى وَالِدَیْهِ بِحُبٍّ عِبَادَةٌ یعنی: بیٹے کا اپنے والدین کی طرف محبّت سے دیکھنا عبادت ہے۔(سنن ابن ماجہ ، حدیث ۳۶۵۳)
حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: رِضَا الرَّبِّ فِي رِضَا الْوَالِدِ، وَسَخَطُ الرَّبِّ فِي سَخَطِ الْوَالِدِِ۔ اللہ کی رضا والد کی رضا میں ہے، اور اللہ کی ناراضی والد کی ناراضی میں ہے۔(سنن ترمذی ۱۹۰۰)
عَنْ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: سَأَلْتُ النَّبِيَّ ﷺ أَيُّ الْعَمَلِ أَحَبُّ إِلَى اللّٰهِ؟ قَالَ: الصَّلَاةُ عَلَى وَقْتِهَا۔ قَال: ثُمَّ أَيٌّ؟ قَالَ: ثُمَّ بِرُّ الْوَالِدَيْنِ۔ قُلْتُ: ثُمَّ أَيٌّ؟ قَالَ: الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللّٰهِ(صحیح بخاری، ۵۲۷)عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا: کون سا عمل اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہے؟ آپؐ نے فرمایا: نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنا۔ میں نے کہا: اس کے بعد کون سا عمل؟ فرمایا: والدین کے ساتھ حسن سلوک۔ میں نے پھر پوچھا: اس کے بعد کون سا؟ فرمایا: اللہ کے راستے میں جہاد۔
یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک والدین کے ساتھ حسن سلوک نماز کے بعد سب سے زیادہ پسندیدہ عمل ہے، حتیٰ کہ جہاد سے بھی پہلے اس کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہ احادیث ہمیں والدین کے حقوق کا احساس دلاتی ہیں کہ ان کی خدمت جنت میں جانے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔
حضرت مسیح موعودؑ والدین کے حقوق اور ان کے ساتھ حسن سلوک کے بارے میں فرماتے ہیں: جو شخص اپنے ماں باپ کی عزت نہیں کرتا اور امور معروفہ میں جو خلاف قرآن نہیں ہیں ان کی بات کو نہیں مانتا اور ان کی تعہد خدمت سے لا پروا ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔ (کشتی نوح،روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ۱۹)
آ ج کا اِنسان اپنی مصروفیات میں ایسا گم ہے کہ وہ بھول بیٹھا ہے کہ اس کی ترقی والدین کی دعاؤں اور قربانیوں کا نتیجہ ہے۔ ہم میں سے کتنے لوگ اپنے والدین کے پاس بیٹھ کر محبّت سے بات کرتے ہیں؟ کتنے ان کی چھوٹی چھوٹی خواہشوں کا خیال رکھتے ہیں؟ کہیں جدید دَور کی چمک دمک ہمیں اندھا تو نہیں کررہی؟ وہ چراغ جو والدین نے ہمارے لیے جلائے تھے، کہیں ہم سے نظر انداز تو نہیں ہو رہے؟
ہمیں چاہیے کہ والدین کے لیے محبّت اور خدمت کے چراغ روشن کریں۔ وہی والدین، جن کے دل ہمارے لیے ہر پل دھڑکتے رہے، جن کے خواب ہماری مسکراہٹوں میں سمٹ گئے، اور جن کی زندگیاں ہماری خوشیوں کے گرد گھومتی رہیں۔ کہیں ہم اپنی دنیا میں اتنے مگن تو نہیں ہو گئے کہ ان کی محبّت کو نظر انداز کر بیٹھے؟ کیا ہم یہ بھول گئے ہیں کہ ایک دن ایسا بھی آئے گا جب ان کی کُرسی خالی ہوگی، ان کا کمرہ سُنسان ہوگا، اور ہم ان کی دعائیں سننے کو ترسیں گےمگر تب بہت دیر ہو چکی ہوگی۔
والدین اکثر اپنی ضروریات زبان پر نہیں لاتے، کیونکہ وہ اپنی اولاد پر بوجھ نہیں بننا چاہتے۔ مگر جب ہم بچے تھے، ماں بنا کہے ہماری بھوک اور تکلیف کو سمجھ جاتی تھی۔ آج جب وہ بوڑھے ہو چکے ہیں، تو کیا یہ ہماری ذمہ داری نہیں کہ ہم بھی ان کی ضروریات کو بنا کہے سمجھیں؟ کیا ہمیں اس لمحے کا انتظار کرنا چاہیے جب وہ ہاتھ، جو ہمیں سہارا دیتے تھے، لرزنے لگیں؟ یا وہ آنکھیں، جو ہمیشہ ہمارے لیے اُمید سے بھری رہتی تھیں، بے نور ہو جائیں؟
اولاد کو چاہیے کہ والدین کو کبھی یہ محسوس نہ ہونے دے کہ وہ بوجھ بن چکے ہیں۔ انہیں خاندان اور سماج میں وہی عزّت دیں، جو کبھی انہوں نے ہمیں سکھائی تھی۔ ان کی رائے کو اہمیّت دیں، کیونکہ وہی تو ہمارے راستوں کے چراغ ہیں۔ بڑھاپے میں والدین زیادہ حساس ہو جاتے ہیں، انہیں صرف دوا نہیں بلکہ اپنوں کی مسکراہٹ اور محبّت کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ اُن سے نرمی سے بات کریں، اُن کے ساتھ وقت گزاریں، کیونکہ ایک دن یہی وقت قیمتی لگے گا، مگر وہ ہمارے پاس نہیں ہوگا۔
اگر والدین کمزور ہو چکے ہیں، تو یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کی صحت، ضروریات اور آرام کا مکمل خیال رکھیں۔ وہی والدین، جنہوں نے ہمارے لیے راتوں کی نیندیں قربان کیں، جن کے کندھوں نے ہمارے بچپن کا بوجھ اٹھایا، اور جن کی دعاؤں نے ہمیں کامیابی کی راہیں دکھائیں، آج ہماری محبّت اور توجہ کے سب سے زیادہ حق دار ہیں۔ ان کی دُعائیں دُنیا و آخرت کا سب سے قیمتی سرمایہ ہیں۔
کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم زندگی کی مصروفیات میں اتنے اُلجھ جائیں کہ محبتوں کا قرض چُکانے میں دیر کر دیں۔ یہ محض تلقین نہیں، بلکہ ایک پُکار ہے، جو ہمیں جھنجھوڑنے کے لیے ہے کہ کہیں دیر نہ ہو جائے اور ہم اپنی جنّت کے دروازے کو خود اپنے ہاتھوں سے بند نہ کر دیں۔لہٰذا ربّ العزّت کو راضی کرنے کے بعد ماں باپ کا راضی ہونا لازمی ہے اور یہ یاد رکھیں صرف بسترِ مرگ پر تھوڑی دیر کے لیے تیمارداری کرنا معاشرے میں محض ایک دِکھاوا پن ہے ۔ ماں باپ کا خیال رکھنا یہ صرف ایک اخلاقی ذمہ داری نہیں بلکہ برکتوں، رحمتوں اور کامیابیوں کا دروازہ بھی ہے۔ ان کے چہروں پر مسکراہٹ لانا، ان کے دِل کو سکون دینا، ان کے بڑھاپے کا سہارا بننا، یہی ہماری اصل آزمائش ہے، یہی ہماری جنّت کا راستہ ہے۔ ان کے دِل کی رضا کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیں، کیونکہ ان کی محبّت ہی وہ خزانہ ہے جسے ہم کہیں اور تلاش نہیں کر سکتے اور ان کی دُعائیں ہی وہ روشنی ہیں جو ہمیں دُنیا و آخرت کی تاریکیوں سے بچا سکتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے والدین کی بے لوث محبّت کا حقیقی حق ادا کرنے، ان کی خدمت کرنے اور ان کی رضا کو اپنی زندگی کی سب سے بڑی کامیابی بنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
(ارشد احمد شہباز۔ جرمنی)
٭…٭…٭
مزید پڑھیں: ایک روحانی بادشاہ