بنیادی مسائل کے جوابات

بنیادی مسائل کے جوابات(قسط۹۲)

(مرتبہ:ظہیر احمد خان۔انچارج شعبہ ریکارڈ دفتر پی ایس لندن)

٭…کیا عورتیں اذان اور اقامت نہیں کہہ سکتیں؟
٭…کیا ۷۲ دوزخی اور ایک جنتی فرقہ والی حدیث سورۃ المعارج کی آیات ۲۳ تا ۳۶ کے مضمون سے ٹکراتی ہے؟
٭… کیا موروثی دین یا یقین خدا کے حضور اصل یقین ہے یا تحقیق لازمی ہے؟
٭… روزہ کے لیے عمر کی کم از کم حد کیا ہے؟
٭… کیا جمعہ کے روز نصف النہار یا Zenith کے وقت نماز پڑھنا جائز ہے؟

سوال: یوکے سے ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے استفسار کیا کہ جماعتی موقف کے مطابق عورتیں اذان اور اقامت نہیں کہہ سکتیں۔ جبکہ سنن البیہقی میں ایک روایت ہے کہ حضرت عائشہؓ خود اذان دیتیں، خود اقامت کہتیں اور خود ہی عورتوں کو نماز باجماعت پڑھاتیں۔ اسی طرح بعض مالکی، شافعی اور حنبلی علماء کے نزدیک عورت کے اذان دینے اور اقامت کہنے میں کوئی حرج نہیں۔اس بارے میں راہنمائی کی درخواست ہے؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ ۳؍جون۲۰۲۳ء میں اس بارے میں درج ذیل راہنمائی عطا فرمائی۔ حضور انور نے فرمایا:

جواب:۔عورتوں کا نماز پڑھانا کوئی نیا معاملہ نہیں بلکہ آنحضور ﷺ کے عہد مبارک میں بھی عورتیں نماز باجماعت ادا کیا کرتی تھیں۔ لیکن کسی جگہ یہ ذکر نہیں کہ وہ اذان یا اقامت کہتی تھیں۔ بلکہ اس کے برعکس صحاح ستہ کی کتاب سنن ابی داؤد میں ایک روایت موجود ہے کہ حضرت ام ورقہ بنت عبداللہ بن نوفل الانصاریہ ؓ کی درخواست پر حضور ﷺ نے انہیں اپنے گھر میں عورتوں کو نماز باجماعت پڑھانے کی اجازت دی اور ان کی درخواست پر حضور ﷺ نے ایک بہت بوڑھے شخص کو ان کے گھر اذان دینے کے لیے مؤذن مقرر فرمایا۔(سنن ابی داؤد کتاب الصلوٰۃ بَاب إِمَامَةِ النِّسَاءِ)

سنن ابی داؤد صحاح ستہ میں سے ایک کتاب ہے اور اس میں مروی حدیث بیہقی جیسی بعد کی کتاب میں مروی روایت سے بہرحال زیادہ مستند ہے۔ اور جہاں تک سنن بیہقی کی روایت کا تعلق ہے تو اسی کتاب میں حضرت اسماء بنت ابی بکر ؓسے یہ حدیث بھی روایت ہوئی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا:۔لیس علی النساء اذان ولا اقامۃ ۔(سنن الکبریٰ للبیہقی کتاب الصلوٰۃ باب لیس علی النساء اذان ولا اقامۃ )یعنی عورتوں پر اذان اور اقامت کہنا فرض نہیں ہے ۔

جہاں تک اس مسئلے پر فقہائے اربعہ کے موقف کا تعلق ہے تو تین اماموں کے نزدیک عورتوں کے لیے اذان دینا مکروہ ہے اور شافعیہ کے نزدیک عورتوں کا اذان دینا باطل ہے اور اگر وہ مردوں کی مشابہت کا ارادہ رکھتی ہوں تو حرام ہے۔ لیکن اگر عورت ذکر الٰہی کے لیے اذان دے تو اس میں کراہت نہیں بشرطیکہ اونچی آواز میں اذان نہ دی جائے۔(کتاب الفقہ علی مذاہب الاربعہ اردو ترجمہ جزء اوّل عبادات صفحہ ۳۹۴ مطبوعہ علماء اکیڈمی محکمہ اوقاف پنجاب ۲۰۱۳ء)

شوافع اور مالکیہ مزید کہتے ہیں کہ عورتوں کی جماعت کے لیے اقامت کہنا مسنون ہے لیکن اذان مسنون نہیں جس کی وجہ ان کی آواز سے پھیلنے والے فتنہ کا خدشہ ہے۔ احناف کے نزدیک خواتین کے لیے اذان کی طرح اقامت کہنا بھی مکروہ ہے۔ (الفقہ الاسلامی و ادلتہ مصنفہ ڈاکٹر وھبۃ الزحیلی اردو ترجمہ جلد اوّل صفحہ ۴۵۹مطبوعہ دارالاشاعت کراچی پاکستان۲۰۱۲ء)

ان حوالہ جات کے علاوہ اگر آپ کے پاس اس مسئلے کے بارے میں مستند کتب احادیث کے حوالہ جات ہوں تو بےشک مجھے بھجوائیں تا کہ اس مسئلے پر مزید غور کیا جا سکے۔

سوال:۔ کبابیر سے ایک عرب دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھاکہ ۷۲ دوزخی اور ایک جنتی فرقہ والی حدیث میں بیان مضمون سورۃ المعارج کی آیات ۲۳ تا ۳۶ کے مضامین (جن میں یہ بیان ہوا ہے کہ جو لوگ نمازوں پر دوام اختیار کرنے والے اور ان کی حفاظت کرنے والے ہیں، غریبوں اور سوالیوں کو اپنا مال دینے والے ہیں، جزا سزا کے دن کی تصدیق کرنے والے ہیں، اپنے رب کے عذاب سے ڈرنے والے ہیں، اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں،اپنی امانتوں اور عہدوں کا پاس رکھنے والے اوراپنی گواہیوں پر قائم رہنے والے ہیں، یہ سب لوگ جنت میں اعزاز کے ساتھ رکھے جائیں گے)سے ٹکراتا ہے۔ اسی طرح آیت بَلۡ قَالُوۡۤا اِنَّا وَجَدۡنَاۤ اٰبَآءَنَا عَلٰۤی اُمَّۃٍ وَّاِنَّا عَلٰۤی اٰثٰرِہِمۡ مُّہۡتَدُوۡنَ۔(الزخرف:۲۳) یعنی بلکہ وہ تو کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے آباءواجداد کو ایک مسلک پر پایا اور ہم یقیناً انہی کے نقوشِ قدم پر ہدایت پانے والے ہیں۔ کا مضمون بھی مجھے پریشان کرتا ہے کہ میں احمدی بھی اگر تحقیق نہ کروں اور غیروں کی کتابیں نہ پڑھوں تو ان لوگوں کی طرح ہوں گا جن کا اس آیت میں ذکر ہے۔ تو کیا موروثی دین یا یقین خدا کے حضور اصل یقین ہے۔اور کیا میں اپنے دینی افکار پر تنقید کیے بغیر یقین تک پہنچ سکتا ہوں ؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ ۲۹؍جون ۲۰۲۳ء میں ان سوالات کا حسب ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضور انور نے فرمایا:

جواب:۔ اصل بات یہ ہے کہ تہتر فرقوں والی حدیث اور قرآن کریم کی مذکورہ بالا آیات کے مضامین میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ حقیقی نجات اسی کو ملے گی جس میں یہ خوبیاں پائی جائیں گی جو ان قرآنی آیات میں بیان ہوئی ہیں۔ اور آنحضورؐکی بعثت کی غرض بھی یہی ہے کہ بنی نوع انسان اپنے پیدا کرنے والے کا حقیقی عبد بنے اور اسلام کی نشأۃ ثانیہ میں حضورﷺ کے روحانی فرزند اور غلام صادق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی اللہ تعالیٰ نے اسی مقصد کے لیے مبعوث فرمایا کہ تالوگوں کو حقیقی اسلام کی طرف لایا جائے اور آنحضور ﷺ جس آخری اور دائمی شریعت کے ساتھ مبعوث ہوئے تھے، لوگوں کو اس کا متبع بنایا جائے۔ پس جو لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سچے پیروکار ہیں ان میں لازماً یہ خوبیاں پائی جانی چاہئیں۔

باقی اگر کسی شخص میں کوئی بھی خوبی پائی جاتی ہو تو اللہ تعالیٰ اسے رائیگاں نہیں جانے دیتا اور اسے اس دنیا میں یا آخرت میں اس نیکی کا اجر ضرور عطا فرماتا ہے۔ چنانچہ حضرت حکیم بن حزامؓ جو حضور ﷺ کے شدید مخالفین میں شامل تھے اورجنگ بدر میں کفار مکہ کی طرف سے شامل ہوئے تھے۔ فتح مکہ کے موقع پر انہیں قبولیت اسلام کی توفیق ملی۔ ان کے سوال کرنے پر حضور ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں زمانہ جاہلیت میں کی گئی نیکیوں کی بدولت اسلام قبول کرنے کی توفیق دی ہے۔(صحیح بخاری کتاب الزکوٰۃ بَاب مَنْ تَصَدَّقَ فِي الشِّرْكِ ثُمَّ أَسْلَمَ)

لیکن اس کے ساتھ یہ بات بھی یاد رکھنی ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ کے مرسل پر ایمان لائے بغیر حقیقی نجات ممکن نہیں۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام قرآنی آیت اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَالَّذِیۡنَ ہَادُوۡا وَالنَّصٰرٰی وَالصّٰبِئِیۡنَ مَنۡ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَہُمۡ اَجۡرُہُمۡ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ ۪ۚ وَلَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَلَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ۔( البقرہ:۶۳)کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:یہ آیت ہے جس سے بباعث نادانی اور کج فہمی یہ نتیجہ نکالا گیا ہے کہ آنحضرتﷺ پر ایمان لانے کی کچھ ضرورت نہیں۔ …نجات حاصل کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کی ہستی پر کامل یقین پیدا کرے اور نہ صرف یقین بلکہ اطاعت کے لیے بھی کمربستہ ہو جائے اور اس کی رضامندی کی راہوں کو شناخت کرے۔ اور جب سے کہ دنیا پیدا ہوئی ہے یہ دونوں باتیں محض خدا تعالیٰ کے رسولوں کے ذریعہ سے ہی حاصل ہوتی آئی ہیں پھر کس قدر یہ لغو خیال ہے کہ ایک شخص توحید تو رکھتا ہو مگر خدا تعالیٰ کے رسول پر ایمان نہیں لاتا وہ بھی نجات پائے گا۔ اے عقل کے اندھے اور نادان! توحید بجز ذریعہ رسول کے کب حاصل ہو سکتی ہے۔ اس کی تو ایسی ہی مثال ہے کہ جیسے ایک شخص روز روشن سے تو نفرت کرے اور اس سے بھاگے اور پھر کہے کہ میرے لیے آفتاب ہی کافی ہے دن کی کیا حاجت ہے۔ وہ نادان نہیں جانتا کہ کیا آفتاب کبھی دن سے علیحدہ بھی ہوتا ہے۔(حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ۱۴۵، ۱۴۷)

پس عارضی اور دنیوی اچھائیوں کے ذریعے انسان اللہ تعالیٰ سے معمولی اجر اور ثواب کا متمنی تو ہو سکتا ہے لیکن اخروی زندگی میں لا متناہی انعامات حاصل کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی توحید کے اقرار کے ساتھ ساتھ اس کے بھیجے گئے رسولوں پر ایمان لانا اور ان کے احکامات کی حتی الوسع پیروی کرنا بھی لازمی ہے۔ اس کے بغیر حقیقی نجات حاصل ہونا ممکن نہیں۔

انسان خود کسی صداقت کو اختیار کرے یا اپنے آباءو اجداد کے ذریعے اسے پائے، اس پر غور و خوض کرنے اور اس بارے میں تحقیق کرنے میں کوئی ممانعت نہیں۔بلکہ قرآن کریم نے تو غور و فکر کی عادت کو صاحب عقل لوگوں کی نشانی قرار دیا ہے جیسا کہ فرمایا وَيَتَفَكَّرُوْنَ فِي خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِ۔(آل عمران:۱۹۲)یعنی وہ آسمانوں اور زمین کی پیدائش کے بارے میں غور و فکر سے کام لیتے ہیں۔

اسی غور و فکر کی عادت کے نتیجے میں ایک دانا کبھی اپنے گرد و پیش پر غور کر کے اور اپنے نفس میں ڈوب کر معارف اور حقائق کے نئے نئے پہلو تلاش کرتا ہے اور کبھی ان باتوں اور ان عقائد پر جو اسے اپنے آباءو اجداد سے ورثہ میں ملے ہوتے ہیں غور وفکر کرتا ہے اور جب تک وہ عقائد اس کی عقل کو قائل نہ کر لیں اور اس کے دل میں جاگزیں نہ ہو جائیں، انہیں آنکھیں بند کر کے صرف موروثی عقائد کے طور پر قبول نہیں کرتا۔ چنانچہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اس بارے میں اپنے بچپن کی ایک بات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔

میں علمی طور پر بتلاتا ہوں کہ میں نے حضرت صاحبؑ کو والد ہونے کی وجہ سے نہیں مانا تھا۔ بلکہ جب میں گیارہ سال کے قریب کا تھا تو میں نے مصمم ارادہ کیا تھا کہ اگر میری تحقیقات میں وہ نعوذ باللہ جھوٹے نکلے تو میں گھر سے نکل جاؤں گا۔ مگر میں نے ان کی صداقت کو سمجھا۔ اور میرا ایمان بڑھتا گیا۔ حتیٰ کہ جب آپ فوت ہوئے تو میرا یقین اور بھی بڑھ گیا۔(الفضل قادیان دارالامان نمبر۹۵، جلد۱۱، مورخہ ۶؍جون ۱۹۲۴ء صفحہ ۸)

پس کسی مذہب کے بارہ میں تحقیق کرنے اور اس پر غور وفکر کرنے میں تو کوئی حرج نہیں لیکن چونکہ شیطان ہر وقت انسان کو راہ حق سے ہٹانے کی کوشش میں لگا رہتا ہے، اس لیے انسان کو پہلے اپنے علمی اور روحانی معیار کو بلند کرنے کی ضرورت ہے۔ تا کہ جس امر میں وہ غورو فکر کرنا چاہتا ہے، اس میں انصاف سے کام لے سکے۔ لہٰذا اگر کوئی شخص احمدیت مخالف لٹریچر اور کتب کا مطالعہ کر کے احمدیت کے بارے میں تحقیق کرنا چاہتا ہے تو اسے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب اور جماعتی لٹریچر کا اچھی طرح مطالعہ کر لینا چاہیے۔ تاکہ مخالفین کی طرف سے پھیلائے جانے والے غلط پراپیگنڈا کی وجہ سے اگر کہیں کوئی شک و شبہ پیدا ہو تو اس کے جواب سے وہ واقف ہو اور شیطان کے حملہ سے بچ سکے۔

سوال: مراکش سے ایک دوست نے حدیث رسولﷺ کہ ‘‘تین قسم کے لوگوں پر کوئی گناہ نہیں ہے، ایک سویا ہوا تا آنکہ جاگ جائے، دوسرا بچہ تا آنکہ بالغ ہو جائےاور تیسرا مجنون تا آنکہ عاقل بن جائے’’کے تحت روزہ رکھوانے کی عمر کے متعلق حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے ایک ارشاد کا حوالہ دے کر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے استفسار کیا کہ حضرت مصلح موعود ؓنے روزہ کے لیے جو ۱۸ سال کی عمر مقرر فرمائی ہے وہ کوئی مستقل قاعدہ نہیں ہے بلکہ یہ معیار ملکی موسم اور حالات، معاشرے کے عرف عام کے مطابق بدل سکتا ہے۔ اور اس کی دلیل حضرت عائشہ ؓ کی ۱۳ سال کی عمر میں شادی ہے، جس کے بعد آپ اپنے میاں کی اطاعت میں روزہ کی مکلف ہو گئی تھیں۔ اُس دور میں لڑکی جسمانی صحت کے اعتبار سے حیض آنے پر عاقل شمار ہوتی تھی۔ لیکن اب عرف بدل گیا ہے اور قانون کے مطابق عاقل وہ ہے جو ۱۸ سال کا ہو۔ کیا میرا یہ اجتہاد درست ہے؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ ۶؍جولائی۲۰۲۳ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضور انور نے فرمایا:

جواب:۔ آپ نے اپنے سوال میں دو مختلف امور کو بیان کر کے ان سے روزہ رکھنے کی عمر کے بارے میں جو استدلال کیا ہے وہ قیاس مع الفارق ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ حضرت عائشہؓ کی حضور ﷺ سے جب شادی ہوئی تو حضرت عائشہ ؓ یقیناً بلوغت اور جوانی کی عمر کو پہنچ چکی تھیں۔ لیکن حضورﷺ کا کوئی ایسا ارشاد تو نہیں ہے جس میں حضورﷺ نے حضرت عائشہ ؓکو فرمایا ہو کہ چونکہ تمہاری شادی ہو گئی ہے اس لیے اب تم روزے رکھا کرو۔ اگرآپ کے پاس کوئی ایسا حوالہ ہے تو مجھے بھجوائیں تاکہ اس بارے میں تحقیق کروائی جا سکے۔

باقی اسلامی احکامات کے مکلف ہونے کے لیے مختلف معیار اور مختلف ہدایات ہیں۔ اس لیے ضروری نہیں کہ کسی ایک حکم کے مکلف ہونے کے لیے دوسرے احکامات کے معیار اور ہدایات اس حکم پر بھی ضرور لاگو ہوتے ہوں۔ اسلام نے شادی کے لیے اور معیار مقرر فرمایا ہے اور اسلامی عبادات کے فرض ہونے کے لیے اس نے مختلف معیار اور احکامات بیان فرمائے ہیں۔چنانچہ روزہ کی فرضیت کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:ہر ایک فرض اور حکم کے لیے الگ الگ حدیں اور الگ الگ وقت ہوتا ہے۔ میرے نزدیک بعض احکام کا زمانہ چار سال کی عمر سے شروع ہو جاتا ہے۔ اور بعض ایسے ہیں جن کا زمانہ سات سال سے بارہ سال تک ہے۔ اور بعض ایسے ہیں جن کا زمانہ پندرہ یا اٹھارہ سال سے شروع ہوتا ہے۔ میرے نزدیک روزوں کا حکم پندرہ سال سے اٹھارہ سال تک کی عمر کے بچے پر عائد ہوتا ہےاور یہی بلوغت کی حد ہے۔(خطبہ جمعہ ارشاد فرمودہ مورخہ ۳؍اپریل ۱۹۲۵ء، خطبات محمود جلد ۹ صفحہ ۸۸)

اسی طرح ایک اور جگہ آپؓ فرماتے ہیں:روزہ کا بچپن اور ہے اور نماز کے لیے اور۔ یہ بات میں نے گذشتہ سال بہت تفصیل سے بیان کی تھی۔ نماز کے لیے تو دس، گیارہ سال کی عمر تک بچپن ختم ہو جاتا ہے۔ لیکن روزہ کے لیے بچپن اس وقت تک ہوتا ہے جب تک بچہ پوری طاقت حاصل نہیں کر لیتا۔ اس وجہ سے مختلف بچوں کے لیے یہ بچپن مختلف ہوتا ہے۔ جو پندرہ سے بیس سال کا ہوتا ہے۔ ہاں اگر بچپن کی عمر میں بچے تھوڑے تھوڑے روزے ہر سال رکھیں تو اچھا ہے۔ اس طرح انہیں عادت ہو جائے گی۔ مگر بہت چھوٹی عمر میں اس طرح بھی روزہ نہیں رکھوانا چاہیے۔ یہ شریعت پر عمل کرانا نہیں بلکہ بچہ کو بیمار کر کے ہمیشہ کے لیے ناقابل بنانا ہے۔ یہ غلط خیال پھیلا ہوا ہے کہ بچہ کا روزہ ماں باپ کو مل جاتا ہے۔ حالانکہ ایسے بچہ سے روزہ رکھوانا جو کمزور ہو اور اپنی جسمانی صحت کے لحاظ سے استوار نہ ہو چکا ہو، ثواب نہیں بلکہ گناہ کا ارتکاب کرنا ہے۔ ہاں جب بچہ کی ضروری قوتیں نشوونما پاچکی ہوں تو ہر سال کچھ نہ کچھ روزے رکھوانے چاہئیں۔ تاکہ عادت ہوجائے مثلاً پہلے پہل ایک دن روزہ رکھوایا۔ پھر دوتین چھوڑ دئیے۔ پھر دوسری دفعہ رکھوایا ایک چھڑوادیا۔ میرے نزدیک بعض بچے تو پندرہ سال کی عمر میں اس حد کو پہنچ جاتے ہیں کہ روزہ ان کے لیے فرض ہوجاتا ہے۔ بعض سولہ، سترہ، اٹھارہ، انیس اور حد بیس سال تک اس حالت کو پہنچتے ہیں۔ اس وقت روزہ رکھنا ضروری ہے۔(خطبہ جمعہ ارشاد فرمودہ مورخہ ۲۶؍مارچ ۱۹۲۶ء، خطبات محمود جلد ۱۰ صفحہ ۱۱۹)

پس شادی کی عمر کو پہنچنے کو نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کی فرضیت کے ساتھ جوڑنا درست نہیں ۔ شادی کے سلسلے میں مردوعورت پر عائد ہونے والی ذمہ داریوں کے لحاظ سے اس کا معیار اور اس کے لیے ہدایات مختلف ہیں اور نماز کی فرضیت کی عمر اور معیار اور ہے، روزہ کی فرضیت کی عمر اور معیار اور ہے اور زکوٰۃ اور حج کی فرضیت کے معیار اور احکامات اور ہیں۔ لہٰذا ان سب امور کو ایک معیار اور ایک حکم کے تحت لانا درست نہیں۔

سوال: انڈیا سے ایک خاتون نےحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ یوٹیوب پر ایک مربی صاحب فرما رہے تھے کہ جمعہ کے روز Zenith کے وقت نوافل ادا کرنا جائز ہے۔ کیا یہ درست ہے؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ ۱۱؍جولائی۲۰۲۳ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضور انور نے فرمایا:

جواب:۔ حضور ﷺ نے جمعہ کے روز نصف النہار یا Zenith کے وقت نماز پڑھنے کی اجازت دی ہے اور اس کی وجہ یہ بیان فرمائی ہے کہ جمعہ کے دن جہنم کی آگ کو بھڑکایا نہیں جاتا۔ چنانچہ حضرت ابو قتادہ ؓ کی روایت ہے کہ حضورﷺ نصف النہار کے وقت نماز پڑھنا ناپسند فرماتے تھے، سوائے جمعہ کے دن کے اور فرمایا کہ جہنم کو خوب بھڑکایا جاتا ہے، سوائے جمعہ کے دن کے۔ (سنن ابی داؤد کتاب الصلوٰۃ بَاب الصَّلوٰةِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ قَبْلَ الزَّوَالِ)

پس مربی صاحب کی بات ٹھیک ہے کہ جمعہ کے روز Zenith کے وقت نماز پڑھنے میں کوئی حرج کی بات نہیں۔

٭…٭…٭

مزید پڑھیں: بنیادی مسائل کے جوابات(قسط ۹۱)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button