متفرق مضامین

’اسلامی اصول کی فلاسفی‘ کے حیرت انگیز اثرات

(عبدالسمیع خان)

مجھے خدائے علیم نے الہام سے مطلع فرمایا ہے کہ یہ وہ مضمون ہے جو سب پر غالب آئے گا اور اس میں سچائی اور حکمت اور معرفت کا وہ نور ہے جو دوسری قومیں بشرطیکہ حاضر ہوں اور اس کواول سے آخر تک سنیں شرمندہ ہو جائیں گی اور ہرگز قادر نہیں ہوں گی کہ اپنی کتابوں کے یہ کمال دکھلا سکیں۔خواہ وہ عیسائی ہوں، خواہ آریہ، خواہ سناتن دھرم والے یا کوئی اور کیونکہ خدا تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ اس روز اُس پاک کتاب کا جلوہ ظاہر ہو(حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام)

اسلامی اصول کی فلاسفی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا وہ عظیم الشان مضمون ہے جو جلسہ مذاہب عالم لاہور ۱۸۹۶ء میں پڑھا گیا۔ جس کے متعلق آپ کو بشارت دی گئی تھی کہ مضمون بالا رہا اور جس کے متعلق آپؑ نے فرمایا تھا کہ میں نے اس کی سطر سطر پر دعا کی ہے۔ (ماہنامہ انصاراللہ جون ۱۹۹۶ء صفحہ ۲۴)آپ نے خدائی تائید سے یہ دعویٰ کیا کہ جو شخص اس مضمون کو اوّل سے آخر تک پانچوں سوالوں کے جواب میں سنے گا میں یقین کرتا ہوں کہ ایک نیا ایمان اس میں پیدا ہوگا اور ایک نیا نور اس میں چمک اٹھے گا۔ (مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ۱۷۰ )

حضرت اقدس مسیح موعودؑ کا یہ انقلاب انگیز، روح پرور اور وجد آفریں مضمون جو خدا تعالیٰ کے پاک کلام کی ایک جامع تفسیر اور انیسویں صدی کی ایک زبردست یادگار ہے۔ پہلی بار ۱۸۹۷ء میں ’’رپورٹ جلسہ اعظم مذاہب‘‘(مطبوعہ مطبع صدیقی لاہور) میں شائع ہوا۔ یہی مضمون جولائی ۱۹۰۵ء میں مطبع ضیاء الاسلام قادیان سے ’’اسلامی اصول کی فلاسفی یا اسلام اور اس کی حقیقت‘‘کے نام سے منظر عام پر آیا۔ اس کا انگریزی ترجمہ انگریزی رسالہ ’’ریویو آف ریلیجنز‘‘ قادیان میں مارچ تا اکتوبر ۱۹۰۲ء کی اشاعتوں میں چھپا جس کا عنوان تھا Islam (اسلام)، یہی ترجمہ ۱۹۱۰ء میں The Teachings of Islam کے نام سے لیڈن (Leiden) ہالینڈ میں چھپا اور لندن کے نشریاتی ادارہ Luzac & Coنے شائع کیا۔ اب تک اس شاندار تالیف کے دنیا کی متعدد زبانوں میں تراجم شائع ہو کر قبولیت عامہ کی سند حاصل کرچکے ہیں۔ (الفضل انٹرنیشنل ۲۶ جولائی ۱۹۹۶ء صفحہ۱۴)

اس کتاب کی تصنیف و اشاعت پر۱۲۸؍سال گزر چکے ہیں اور یہ کتاب مسلسل پاک دلوں میں انقلاب پیدا کررہی ہے۔ ایک سعید گروہ تو وہ ہے جو اسے سن کر یا پڑھ کر حضرت مسیح موعودؑ کے غلاموں میں شامل ہوگیا اور دوسرا گروہ وہ ہے جسے باقاعدہ ایمان کی سعادت تو نصیب نہیں ہوئی مگر اس کی عظمت کامعترف ہے اور دوسروں کی ہدایت کا موجب بنتا ہے۔ اس مضمون میں ان دونوں گروہوں کی جھلکیاں دکھانی مقصود ہیں۔ پہلے ایک عینی شاہد کی گواہی ملاحظہ ہو۔

حضرت مستری نظام الدین صاحبؓ

حضرت مستری نظام الدین صاحبؓ آف سیالکوٹ صحابی حضرت مسیح موعودؑ اپنی بیعت کا واقعہ اس طرح بیان کرتے ہیں۔ میں ’’سپورٹس کا کام کرتا ہوں۔ ۱۸۹۵ء میں حضرت مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم و مغفور کا درس قرآن سنا کرتا تھا۔ ان کی صحبت سے متاثر ہو کر ۱۸۹۶ء کے ماہ دسمبر میں جلسہ دھرم مہوتسو میں بہمراہی مولوی صاحب مرحوم لاہور گیا اور وہ جلسہ تمام کا تمام بغور سنتا رہا۔ جلسہ مہوتسو میں میرے پاس بیٹھنے والوں میں سے ایک جج صاحب تھے… وہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی تقریر کے پڑھے جانے کے دوران میں زار زار روتے تھے … جلسہ کا اثر سب پر تھا اور سب پر ایک سناٹا چھایا ہوا تھا۔ اور اللہ کی قدرت و جبروت کا ایک نظارہ تھا۔ جلسہ کے اختتام کے بعد مولوی صاحب کے ہمراہ قادیان پہنچ گئے وہاں حضرت اقدس کی زیارت کی جو نہایت پُرنور شکل تھی۔ دیکھنے والے پر بغیر اثر کیے نہ رہتی تھی۔ … ظہر کی نماز سے پہلے حضرت اقدس تشریف لے آئے۔ اور کسی نے کہہ دیا کہ دو آدمی بیعت کریں گے۔ بندہ اس وقت وضوخانہ میں وضو کررہا تھا تو حضور نے آواز دی کہ آؤ میاں نظام الدین بیعت کرلو۔ بندہ آگے بڑھا اور حضور کے دست مبارک پر ہاتھ رکھ کر بیعت کی۔‘‘ (تاریخ احمدیت جلد۱۹ صفحہ۳۰۹)

حضرت ملک برکت علی صاحب گجراتیؓ

محترم ملک برکت علی صاحبؓ گجرات کے رہنے والے تھے۔ لاہور میں محکمہ نہر میں ملازم تھے۔ پیر جماعت علی شاہ صاحب کے مرید تھے۔ فرمایا کرتے تھے کہ میں نے روحانیت میں ترقی حاصل کرنے کے لیے پیر صاحب سے وظیفہ دریافت کیا تو انہوں نے کہا’’تصور شیخ کرو‘‘مگر مجھے تصور شیخ سے بھی کچھ حاصل نہ ہوا۔ اس کے بعد جب میں نے اسلامی اصول کی فلاسفی پڑھی تو میری آنکھیں کھل گئیں اور میں نے قادیان جا کر بیعت کرلی۔ یہ غالباً ۱۸۹۷ء کا واقعہ ہے۔ (لاہور۔ تاریخ احمدیت صفحہ۳۹۵)

حضرت خدا بخش مومن جی ؓ

حضرت خدا بخش مومن جی رضی اللہ عنہ ایک شیعہ گھرانہ میں پیدا ہوئے جو عملا ًبت پرست تھے بچپن میں ہی انہیں حضرت مسیح موعودؑ کے صحابی رحیم بخش صاحب ؓکی صحبت نصیب ہوئی وہ مسیح موعود علیہ السلام کی کتب انہیں دیتے اور تاکید کرتے کہ اس کو آج رات ہی ختم کرنا ہے ایک دفعہ رات کو انہوں نے اسلامی اصول کی فلاسفی دی اور وہ رات کو دیر تک اس کو پڑھتے رہے احمدیت قبول کرنے میں اس کتاب کا بہت ہاتھ ہے۔ (بدر ۱۹ مارچ۲۰۱۵ء)

ڈاکٹر بشارت احمد صاحب

ڈاکٹر بشارت احمد صاحب (مؤلف مجدد اعظم) نے ۱۹۰۲ء میں بیعت کی مگر افسوس کہ بعد میں اہل لاہور سے جاملے۔ ان کی بیعت میں بھی حضرت مسیح موعودؑ کی کتب خصوصاً اسلامی اصول کی فلاسفی کا بڑا دخل ہے۔آپ نے نومبر ۱۹۳۳ء کے پیغام صلح میں اپنے حالات زندگی خود تحریر کیے تھے۔ جن کا خلاصہ یہ ہے کہ آپ کے بزرگ حنفی المذہب تھے۔ مگر آپ چونکہ ہر وقت سچائی کی جستجو میں لگے رہتے تھے اس لیے جلد ہی آپ اہلحدیث گروہ میں شامل ہوگئے۔ سکاچ مشن ہائی سکول سیالکوٹ میں پڑھتے تھے۔ جہاں پادری ینگ سن سے بحث و مباحثہ رہتا تھا۔ مگر حیات مسیح کے عقیدہ کی وجہ سے سخت زک اٹھانا پڑتی تھی۔ طبیعت کی اس بے چینی کے زمانہ میں آپ کے دادا صاحب نے حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی کتاب ’’فتح اسلام‘‘ دکھائی اور فرمایا کہ دیکھو چودھویں صدی کا کرشمہ کہ ایک شخص مرزا غلام احمد قادیانی نے مثیل مسیح ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور یہ کتاب اس نے شائع کی ہے۔ آپ نے جو اس کتاب کو پڑھنا شروع کیا تو جب تک ختم نہ ہوئی اسے ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ کچھ دنوں بعد حضرت مسیح موعودؑ سیالکوٹ تشریف لے گئے اور حضرت حکیم حسام الدین صاحب کے مکان پر قیام فرمایا۔ حضرت کو دیکھتے ہی دل اس یقین سے بھر گیا کہ یہ منہ جھوٹے کا نہیں ہو سکتا۔ حضور کی اقتدا میں عصر کی نماز بھی پڑھی۔ مختلف مسائل پر گفتگو بھی سنی۔ مگر حضور کے تشریف لے جانے کے بعد مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے صدر سیالکوٹ کی جامع مسجد میں ایسی گمراہ کن تقریر کی کہ آپ کا روحانی سکون برباد ہو گیا۔ اب گو آپ نے مولوی محمد ابراہیم صاحب سیالکوٹی کے پیچھے نمازیں پڑھنا شروع کیں مگر پہلا خطبہ سن کر ہی آپ کی طبیعت منغض ہو گئی۔ ان ایام میں آپ کو ایک چشتیہ صابریہ خاندان کے صوفی منش بزرگ سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ ان سے آپ نے بہت سے اوراد و وظائف سیکھے مگر طبیعت کو سکون نصیب نہ ہوا۔ انہی ایام میں ایک فوجی احمدی حضرت مولوی جلال الدین صاحب مرحوم سے ’’براہین احمدیہ‘‘ مل گئی۔ اسے پڑھ کر ایمان میں تازگی پیدا ہوئی اور یقین ہوگیا کہ حضرت مرزا صاحب کا دعویٰ سمجھ میں آئے یا نہ آئے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دین کی صداقت کے دلائل صرف آپ ہی بیان کرسکتے ہیں۔ لاہور میں ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ والا مضمون سن کر اس خیال کو اور بھی تقویت پہنچی۔ اس کے بعد آپ کچھ عرصہ کے لیے بسلسلہ ملازمت افریقہ چلے گئے۔ وہاں بھی بعض احمدیوں سے ملاقات رہی۔ جب واپس آئے تو پہلے ظفروال ضلع سیالکوٹ میں اور پھر شکرگڑھ ضلع گورداسپور میں پلیگ ڈیوٹی پر متعین ہوئے۔ اہل و عیال امرتسر میں تھے۔ ایک روز جو یہ اطلاع ملی کہ آپ کا لڑکا ممتاز احمد جو اس وقت دو سال کا تھا بعارضہ ٹائیفائیڈ فیور سخت بیمار ہے تو آپ گھبرا گئے۔ ایک ہفتہ کی رخصت لے کر گھر پہنچے۔ مگر رخصت ختم ہوئی اور بچے کے بخار میں ذرہ بھر افاقہ نہ ہوا۔ بیگم صاحبہ نے کہا گورداسپور تو جانا ہی ہے قادیان میں جا کر حضرت مرزا صاحب سے دعا ہی کروالو۔ کیا عجب کہ اللہ تعالیٰ فضل کر دے۔ بیوی کے یہ الفاظ سن کر قادیان کی راہ لی۔ دو بجے رات قادیان پہنچے۔ دیکھا کہ مسجد مبارک تہجد گزار لوگوں سے بھری ہوئی ہے اور حضرت اقدس اندر تہجد پڑھ رہے ہیں۔ یہ کیفیت دیکھ کر بے حد اثر ہوا۔ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب نے آپ کو حضرت اقدسؑ کی خدمت میں پیش کیا۔ حضور کو دیکھتے ہی سارے شکوک و شبہات کافور ہوگئے، علیحدگی میں ملاقات کی۔ وظیفہ پوچھا تو فرمایا ’’یہی نمازیں سنوار سنوار کر پڑھو اور سمجھ سمجھ کر پڑھا کرو‘‘ حضور کی یہ تلقین سن کر دل پر خاص اثر ہوا۔ بچے کی صحت کے لیے دعا کی درخواست کی۔ حضور نے اسی وقت ہاتھ اٹھا کر دعا فرمادی۔ بیعت کرکے ڈیوٹی پر شکرگڑھ پہنچے۔ تیسرے روز خط ملا جس میں لکھا تھا کہ لڑکا بالکل اچھا ہے ہرگز کوئی فکر نہ کریں۔ رخصت لے کر گھر پہنچے۔ پتہ چلا کہ جس روز صبح حضرت اقدس سے دعا کروائی تھی اس روز حالت بہت خراب تھی مگر پچھلی رات اچانک بخار اتر گیا۔ معالج ڈاکٹر کو جب اطلاع ہوئی تو وہ مانتا ہی نہ تھا مگر جب اس نے خود آ کر ٹمپریچر اور نبض دیکھی تو حیران رہ گیا اور کہنے لگا کہ یہ تو کوئی اعجاز مسیحائی ہے کہ مردہ زندہ ہو گیا۔ (تاریخ احمدیت لاہور صفحہ۳۱۵)

سیٹھ عبداللہ الٰہ دین صاحب

حضرت سیٹھ عبداللہ الٰہ دین صاحب۱۸۷۷ء میں بمبئی میں پیدا ہوئےآغا خانی خیالات کے زیر اثر آپ سمجھتے تھے کہ قرآن عربوں کے لیے تھا ہمیں اس کی ضرورت نہیں اس لیے قرآن مجید پڑھنا بھی چھوڑ چکے تھے مگر اس کتاب کے پڑھنے سے آپ کے اندر زبردست تبدیلی واقع ہو گئی اورآپ کمال ذوق اور ولولہ جوش کے ساتھ مطالعہ قرآن میں منہمک ہو گئے۔ پہلے پنجوقتہ نمازوں میں بے قاعدہ تھے اب پورے التزام سے تہجد اور نوافل بھی پڑھنے لگےمکرم ڈاکٹر حافظ صالح محمد الٰہ دین صاحب مرحوم سابق صدر صدر انجمن احمدیہ قادیان لکھتے ہیں:میرے داداجان حضرت سیٹھ عبداللہ الٰہ دین اسی کتاب کے پڑھنے سے احمدیت کی طرف راغب ہوئے تھے۔۱۹۱۳ء میں جب آپ کی عمر ۳۶ سال کی تھی قادیان سے آپ کی Firm کے نام رسالہ ریویو آف ریلیجنز برائے اشتہار موصول ہوا۔ اس سے پیشتر آپ نے قادیان کا نام نہیں سنا تھا اور مذہب سے آپ کو کوئی دلچسپی نہ تھی۔ اس لیے کئی روز وہ رسالہ آپ کے میز پر ہی پڑا رہا اور اس سے آپ نے استفادہ نہیں کیا۔ ایک دن رسالہ کے آخری صفحہ پر The Teachings of Islam کتاب کے متعلق جو اشتہار دیا گیا تھا اس پر نظر پڑی جس میں کتاب کی بہت تعریف کی گئی تھی۔ اس لیے آپ نے کتاب منگوائی، آپ فرماتے ہیں کہ ’’اس کتاب سے مجھ پر ایسا معجزانہ اثر ہوا کہ میرے دل میں ایک نئی روح پھونکی گئی۔‘‘

اس کتاب میں آپ پر اس بات کا خاص اثر ہوا کہ اللہ تعالیٰ نہ صرف دعا سنتا ہے بلکہ اس کا جواب بھی دیتا ہے۔ اس کا تجربہ کرنے کے لیے آپ نے خدا سے یہ دعا مانگی کہ یااللہ! میرے والد صاحب جن کو فوت ہو کر دس سال کا عرصہ ہو گیا ہے ان کی حالت مجھے معلوم کرا۔ دعا کرنے کے ایک یا دو روز بعد آپ نے اپنے والد کو خواب میں دیکھا وہ کہنے لگے کہ میں اب تک خوش ہوں۔ بعد میں آپ نے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کی کہ یا اللہ!میری والدہ کا کیا حال ہے؟ وہ مجھے معلوم کرا۔ آپ جب تین سال کے بچے تھے آپ کی والدہ محترمہ کا انتقال ہوا تھا اس لیے آپ کو ان کا چہرہ بھی یاد نہ تھا۔ اس سوال کا جواب آپ کو جلد نہ ملا اور آپ کئی روز تک دعا مانگتے رہے۔ آخر ایک رات خواب میں دیکھا کہ ایک عورت تخت پر بیٹھی ہوئی ہے اس کے اطراف بہت سے لوگ جمع ہیں جن میں آپ بھی شریک ہیں۔ کسی نے پوچھا کہ یہ عورت جو بڑے درجہ والی معلوم ہوتی ہے یہ کون ہے تو آپ نے جواب دیا کہ میری والدہ ہے۔ میری جنتی والدہ ہے اور جنتی والدہ ہے اور جنتی والدہ کے الفاظ بار بار کہتے ہوئے نیند سے ہوشیار ہوگئے۔ آپ کو اطمینان ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ دعاؤں کو سنتا ہے اور جواب بھی دیتاہے۔

جماعت احمدیہ کے بزرگوں نے آپ کو تبلیغ کی اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ۱۹۱۵ء میں میرے دادا جان کو احمدیت کو قبول کرنے کی سعادت حاصل ہوئی اور وہ تہجد گزار خادم دین بزرگ بن گئے۔ آپ نے اسلامی اصول کی فلاسفی کا مختلف زبانوں میں ترجمہ کرایا اور اس کی اشاعت کی۔ نیز اس کتاب کے پڑھنے سے آپ کو قرآن مجید سے محبت پیدا ہوئی اور آپ نے Extracts From The Holy Quran کتاب شائع کی جس کے بارہ ایڈیشن آپ کی زندگی میں شائع ہوئے اور تیرھواں ایڈیشن آپ کی وفات کے بعد شائع ہوا۔(بشارات رحمانیہ مصنفہ محترم عبدالرحمٰن مبشر صاحب۔ماہنامہ خدیجہ جرمنی ۱۹۹۷ء صفحہ۲)

مالابار میں احمدیت کا بیج بویا

مالابار کاعلاقہ ہندوستان کا جنوبی ساحلی علاقہ کہلاتا ہے۔ تاریخ سے ثابت ہے کہ پہلی صدی ہجری میں اس ساحل سمندر پر بعض عرب تاجران نے تجارت کی غرض سے ڈیرے ڈالے۔پھر ایک کے بعد دوسرے عرب تاجروں نے اس علاقہ کو اپنا مسکن بنایا اور یوں ہندوستان کے اس ساحلی علاقہ میں اسلام کی ابتدا ہوئی۔ ان عرب تاجروں کی اولاد آہستہ آہستہ ہندوستان کے کلچر اور تمدن میں ایسی رنگی گئی کہ بہت سی غیراسلامی بدعات اور ہندوانہ رسوم ان میں راہ پاگئیں۔

ہندوستان کا یہ علاقہ جو مالا بار کے نام سے مشہور ہے۔ریاست کے راجہ نے اپنے ایک عزیز محمد دیدی کو کسی وجہ سے ناراض ہو کر اپنی ریاست سے نکال دیا۔ محمد دیدی صاحب ریاست بدری کے عرصہ میں ہندوستان کے مشہور شہروں کی سیر کرتے رہے۔ آخر ۱۸۹۷ء میں کلکتہ میں قیام  پذیر تھے کہ راجہ کا انتقال ہو گیا۔ چنانچہ محمد دیدی صاحب نے اپنے دیس واپس جانے کی ٹھانی اور واپسی کی تیاری شروع کردی۔ محمد دیدی کو خیال آیا کہ جب میں واپس جاؤں گا اور ان کو ہندوستان بھر کے شہروں کی باتیں سناؤں گا تو وہ کیا کہیں گے۔ کیوں نہ ان کے لیے کچھ نہ کچھ تحائف لے جاؤں۔ اس خیال کے آتے ہی انہوں نے اپنے دوستوں کے ذوق کے مطابق چند تحائف خریدے۔ چنانچہ اپنے دوست ای عبدالقادر کٹی صاحب کے لیے جلسہ اعظم مذاہب کی رپورٹ (جس میں حضرت مسیح موعودؑ کا مضمون ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ شائع ہوا تھا) خریدی۔ محمد دیدی صاحب خود بھی یہ کتاب قبل ازیں پڑھ چکے تھے اور اس پر اخبارات نے جو تبصرے کیے تھے ان کی نظر سے گزر چکے تھے۔ اپنے دوست ای عبدالقادر کٹی کے ذوق کو دیکھتے ہوئے اس کے لیے یہ کتاب خریدی۔ … غرض ۱۸۹۸ء میں احمدیت کا بیج اس علاقہ میں بویا گیا۔ (الحکم ۷ دسمبر ۱۹۱۹ء صفحہ۶ اور ۱۴ دسمبر ۱۹۱۹ء صفحہ۴) اس طرح ای عبدالقادر کٹی صاحب کو احمدیت قبول کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ اس کے بعد ایک کے بعد ایک سعید روح احمدیت کی آغوش میں آتی گئی۔ یوں مالابار میں اللہ تعالیٰ نے ایک مضبوط جماعت پیدا کردی۔

رئیس فقیر محمد صاحب

حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں:’’سرحد کے ایک رئیس چودھری فقیر محمد صاحب ایگزیکٹو انجینئر تھے۔ وہ ایک دفعہ دہلی میں مجھے ملے اور انہوں نے مجھ سے ذکر کیا کہ ہم چار بھائی ہیں جن میں سے دو بھائی غیراحمدی ہیں اور دو بھائی احمدی ہیں۔ اپنے متعلق انہوں نے کہا کہ میں ابھی تک آپ کی جماعت میں شامل نہیں ہوا۔ ہم پورا پورا انصاف کرنے کے عادی ہیں روپیہ میں سے اٹھنی ہم نے آپ کو دے دی ہے اور اٹھنی دوسرے مسلمانوں کو دے دی ہے۔ میں نے بھی ان سے مذاقاً کہا کہ خان صاحب! ہم تو اٹھنی پر راضی نہیں ہوتے۔ ہم تو پورا لے کر چھوڑا کرتے ہیں۔ وہ اس وقت معہ اہل و عیال انگلستان کی سیر کو جارہے تھے۔ میری اس بات کو سن کر انہوں نے کہا کہ خان محمد اکرم خان صاحب چارسدہ والے میرے بھائی ہیں انہوں نے آپ کی بعض کتابیں میرے ٹرنک میں رکھ دی ہیں۔… چنانچہ اس کے بعد وہ ولایت چلے گئے۔ ابھی تین مہینے ہی گزرے تھے کہ مجھے ایک چٹھی پہنچی اس کے شروع میں ہی یہ لکھا تھا… کہ میں وہ ہوں جو آج سے تین ماہ پہلے دہلی کے شاہی قلعہ میں آپ سے ملا تھا ۔اور میں نے آپ سے کہا تھا کہ ہم نے پورا پورا انصاف کیا ہے اٹھنی آپ کو دے دی ہے اور اٹھنی غیراحمدیوں کو دے دی ہے جس پر آپ نے کہا تھا کہ ہم تو پورا روپیہ لے کر چھوڑا کرتے ہیں۔ سو آپ کے حکم کے مطابق اب ایک چونی آپ کی خدمت میں پیش کررہا ہوں اور اپنے آپ کو بیعت میں شامل کرتا ہوں… اور لکھا کہ جب میں ولایت میں آیا اور میں نے مختلف مقامات کی سیر کی توگو میں پٹھان ہوں اور مذہبی جوش میرے دل میں موجود ہے مگر کفر کی بڑھتی ہوئی طاقت کو دیکھ کر میرا دل پژمردہ ہوتا چلا گیا۔ …مجھے یقین ہو گیا کہ اب اسلام دنیا پر غالب نہیں آسکتا۔ ایک دن میرے دل پر اس خیال کا بے انتہا اثر ہوا۔ اور حالت مایوسی میں میں نے کہا آؤ ان کتب کو پڑھ کر دیکھو جو میرے بھائی نے میرے ٹرنک میں رکھ دی تھیں۔ چنانچہ پہلے ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ نکلی اور اسے میں نے پڑھا اس کے بعد آپ کی کتاب ’’دعوةالامیر‘‘ نکلی اور اسے میں نے پڑھنا شروع کیا۔ پڑھتے پڑھتے اس کتاب میں وہی ذکر آگیا جس نے میرے دل میں انتہائی طور پر مایوسی پید اکردی تھی۔ … میں نے جب یہ مضمون پڑھا تو میرا دل خوشی سے بھر گیا …اور میں نے فیصلہ کیا کہ اب میں اس وقت تک سونے کے لیے اپنے بستر پر نہیں جاؤں گا جب تک آپ کو اپنی بیعت کا خط نہ لکھ لوں۔ چنانچہ سونے سے پہلے میں یہ خط آپ کو لکھ رہا ہوں میری بیعت کو قبول کیا جائے۔‘‘(تاریخ احمدیت جلد۴ صفحہ۴۹۲)

چودھری غلام محمد صاحب

چودھری عزیز احمد صاحب سابق ناظر مال آمد کے والد چودھری غلام محمد صاحب نے اپنے بیٹے کے احمدی ہونے کے ۱۵؍سال بعد بیعت کی تھی مگر مخالفت کے زمانہ میں بھی وہ اسلامی اصول کی فلاسفی کی عظمت کا برملا اعتراف کرتے تھے۔(الفضل ۱۵؍جنوری ۱۹۹۷ء صفحہ۵)

محمد لبے اسماعیل صاحب سری لنکا

جماعت احمدیہ سری لنکا کے ایک دعاگو بزرگ احمدی محمدلبے اسماعیل صاحب نے ۱۹۷۰ء میں بیعت کی۔ ان کو احمدیت کا پہلا تعارف ۱۹۵۹ء میں ہوا۔ جب آپ کو جماعت کا ایک رسالہ Toothan ملاجس کے معنے پیغام کے ہیں۔ اس کے بعد ایک اخبار میں اسلامی اصول کی فلاسفی چھپنا شروع ہوئی اس کا بھی آپ مطالعہ کرتے رہے۔ پھر جماعت کے مرکز آئے اور ۴،۳ سال کی تحقیق کے بعد بیعت کرلی۔ (الفضل ۴؍اکتوبر۲۰۰۲ء)

محمد ابراہیم شاد صاحب

مشہور شاعر اور حضرت مولانا دوست محمد صاحب شاہد کے خسر محترم محمد ابراہیم شاد صاحب کے والد محترم کا نام میاں اللہ دتہ صاحب تھا۔ ۱۹۲۲ء میں جبکہ ابراہیم شاد صاحب مڈل سکول کی پہلی جماعت ہی میں شامل ہوئے تھے، آپ کے والد صاحب حلقہ بگوش احمدیت ہوگئے۔ اس موقع پر شاد صاحب بسلسلہ تعلیم گھر سے باہر تھے اس لیے والد صاحب کی بیعت سے ان پر کوئی خاص اثر مرتب نہیں ہوا۔ آپ نے قرآن کریم دورانِ پرائمری تعلیم ہی پڑھ لیا تھا۔ پرائمری سکول میں آپ کو اپنے احمدی استاد کی وجہ سے نماز کی عادت پڑ گئی۔ بعدازاں شاد صاحب کی خوش نصیبی سے مڈل کلاس میں بھی ایک احمدی استاد قاضی ضیاء اللہ صاحب ساکن حافظ آباد ضلع گوجرانوالہ مل گئے۔ ان سے بھی مذہبی رنگ میں استفادہ کرنے کا موقع میسر آیا۔ مڈل پاس کرنے کے بعد جب آپ گھر واپس آئے (توبقول شاد صاحب) تو گھر کا نقشہ ہی بدل چکا تھا۔ آپ کے والد صاحب نہایت ہی مخلص احمدی تھے اور ناخواندہ ہونے کے باوجود دعوت الی اللہ کا بہت جوش رکھتے تھے۔ انہوں نے شاد صاحب کو حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی کتب ’’کشتی نوح‘‘ اور ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ پڑھنے کے لیے دیں۔ شاد صاحب کے بقول انہوں نے اپنے طور پر بھی اور کئی کتابوں کامطالعہ کیا۔ اس دوران آپ کو ’’الفضل‘‘ اخبار کے مطالعہ کا بھی موقع ملتا رہا یہاں تک کہ اسی سال ۱۹۲۶ء جلسہ سالانہ قادیان میں شرکت کے موقع پر حضرت مصلح موعودؓ کے دست مبارک پر بیعت کرکے حلقہ بگوش احمدیت ہونے کی سعادت نصیب ہوئی۔ (بہار جاوداں صفحہ۵)

بشیر احمد آرچرڈ صاحب

بشیر احمد صاحب آرچرڈ پہلے انگریز واقف زندگی تھے۔ وہ ۱۹۴۴ء میں دوسری جنگ عظیم کے دوران لیفٹیننٹ تھے اور ہندوستان اور برما کی سرحد پر لڑنے والی ۱۴؍آرمی میں متعین تھے۔ انہیں احمدیت کا پیغام ایک احمدی حوالدار کلرک عبدالرحمان صاحب دہلوی کے ذریعہ پہنچا۔ جب آرچرڈ صاحب نے احمدیہ لٹریچر پڑھنے پر آمادگی کا اظہار کیا تو چونکہ فوج میں مذہب کی تبلیغ منع تھی اس لیے عبدالرحمان صاحب نے قادیان میں حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کو لکھا کہ آپ آرچرڈ صاحب کو اسلامی اصول کی فلاسفی اور احمدیت یعنی حقیقی اسلام میرے خرچ پر بھجوا دیں۔ چنانچہ کتابیں ان کو پہنچ گئیں اور انہوں نے مطالعہ شروع کر دیا۔ اس کے بعد دہلوی صاحب نے انہیں چھٹیاں قادیان گزارنے کی ترغیب دی وہ قادیان آئے حضرت مصلح موعود ؓاور دیگر بزرگوں سے ملے اور احمدیت قبول کرلی۔ (تاریخ احمدیت جلد۱۰ صفحہ۵۷۱)

صدیق امیر علی صاحب

ڈاکٹر حافظ صالح محمد الٰہ دین صاحب مرحوم سابق صدر صدر انجمن احمدیہ قادیان لکھتے ہیں:محترم صدیق امیر علی صاحب نہایت ہی مخلص خادم دین بزرگ تھے۔ وہ کیرالہ کے صوبائی امیر رہے۔ ان کے اندر بھی نیا ایمان اسلامی اصول کی فلاسفی کے ذریعہ پیدا ہوا۔ ان کو احمدیت کا تعارف اس کتاب کے ذریعہ ہوا۔ وہ کسی دکان میں کوئی چیز خریدنے کے لیے گئے تو دکاندار نے اس چیز کو باندھنے کے لیے (Wrapping کے لیے) جو کاغذ استعمال کیا وہ کتاب اسلامی اصول کی فلاسفی کے اوراق تھے۔ وہ ان صفحات کو پڑھ کر بہت متاثر ہوئے۔ وہ دوبارہ اس دکان پر گئے اور دکاندار سے کہا کہ تم نے جس کتاب سے یہ اوراق پھاڑے ہیں وہ کتاب مجھے دے دو۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے ایک سعید روح کو یہ کتاب پہنچانے کا انتظام فرمایا۔(الفضل ربوہ ۱۴؍جنوری۲۰۱۱ء)

مظہرالدین صاحب

ڈاکٹر حافظ صالح محمد الٰہ دین صاحب سابق صدر صدرانجمن احمدیہ قادیان لکھتے ہیں:الٰہ آباد کے ایک غیرازجماعت دوست مکرم مظہرالدین صاحب نے کسی اخبار میں خاکسار کا نام پڑھ کر خاکسار کو لکھا کہ مجھے احمدیت کے بارے میں لٹریچر بھیجیں خاکسار نے ان کو اسلامی اصول کی فلاسفی کا انگریزی ترجمہ بھیجا بعد میں جب میری ان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے مجھے کہا کہ میں نے یورپ میں اس کتاب کا کچھ حصہ پڑھا تھا۔ بعد میں جس شخص کی وہ کتاب تھی اس نے اس کتاب کو مجھ سے لے لیا میں چاہتا تھا کہ کتاب کا بقیہ حصہ پڑھوں لیکن میں نہیں جانتا تھا کہ یہ کتاب کہاں مل سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عجیب اتفاق ہے کہ میں نے تم سے لٹریچر طلب کیا تو تم نے مجھے وہی کتاب بھیجی جس کو پڑھنے کے لیے میں تڑپ رہا تھا۔ گو مکرم محمد مظہرالدین صاحب نے بیعت نہیں کی لیکن وہ بیعت کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ ایک جلسہ سالانہ پر وہ قادیان تشریف لائے تھے اور حضرت مسیح موعودؑ سے بہت عشق کا اظہار کرتے تھے روزانہ ہم دونوں حضرت مسیح موعودؑ کے مزار مبارک پر جا کر دعا کرتے تھے۔ ایک روز میں نے کہا کہ مجھے مصروفیت ہے میں آج حضرت مسیح موعودؑ کے مزار مبارک پر نہیں جاسکتا تو انہوں نے کہا میں اکیلا چلا جاتا ہوں میں ناغہ نہیں کرنا چاہتا۔(الفضل۱۴؍جنوری۲۰۱۱ء)

الحاج مغربی الطرابلسی

الحاج مغربی الطرابلسی نے حضرت مسیح موعودؑ کی کتب پڑھ کر ۱۹۰۵ء میں دولت ایمان حاصل کی۔ آپ نے حضورؑ کی عربی کتب کا گہرا مطالعہ کیا تھا اور اسلامی اصول کی فلاسفی کا ترجمہ تو گویا ازبر تھا۔ (الفضل ۱۸؍مارچ ۱۹۹۹ء)

میجر وارڈل کا تبصرہ

حضرت شیخ فضل احمد صاحب بٹالویؓ صحابی حضرت مسیح موعودؑ رقم فرماتے ہیں: دسمبر۱۹۱۴ء میں مجھے جنگ پر اپنی کور کے ہمراہ بنوں اور میراں شاہ وغیرہ جانا پڑا۔ میں نے کمانڈنگ افسر میجر وارڈل کو ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘(انگریزی) دی تو بعد مطالعہ انہوں نے کہا کہ یہ کتاب بہت عمدہ تالیف ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اس کا اردو ترجمہ کردو تاکہ اپنی یونٹ کے عہدہ داروں میں اس کی نقول تقسیم کر دوں۔ مجھ سے یہ معلوم کرکے کہ اصل کتاب اردو کی ہے۔ اس کی ۳۷؍کاپیاں سرکاری خرچ پر وی پی منگوائیں۔ باوجودیکہ میں نے ان سے کہا کہ اس کی تقسیم سے فتنہ پیدا ہوگا اور غیراحمدی شکایت کریں گے کہ یہ احمدی بابو اُن لوگوں کا مذہب تبدیل کرانا چاہتا ہے۔ افسر موصوف نے کہا ہم کچھ پرواہ نہیں کرتا۔ میں نے کہا کہ آپ برطانوی افسر ہیں۔ آپ کو تو کوئی نہیں پوچھے گا لیکن ساری بلا میرے گلے آپڑے گی۔ مگر وہ نہیں مانے اور کہا کہ ہم حکم دیتے ہیں۔ میجر رسالدار راجہ راج ولی اور خاکسار بنوں پہنچے۔ تو وہاں تمام غیراحمدی عہدہ داروں نے شکایت کی کہ بابو فضل احمد کافر ہے۔ ہم اس کے ساتھ کام نہیں کرسکتے۔ یہ ہمارا مذہب خراب کررہا ہے۔ اس کا تبادلہ کردیا جائے۔ رپورٹ پہنچنے پر راجہ موصوف ہنس کرکہنے لگے کہ اگر میں یہ رپورٹ صاحب تک پہنچاؤں تو ڈر ہے مبادا بے عزتی ہو۔ اور وہ اُن لوگوں کو کہنے ہی لگے تھے کہ شکایت نہ کرنا کہ اتنے میں سامنے سے افسر موصوف آگیا اور رسالدار نے فال ان (Fall In) کرادیا اور صاحب نے ہر ایک کو ایک ایک نسخہ دیا اور ہر ایک نے شکریہ ادا کیا اور سلام کیا اور کتاب لے لی۔ اس کے بعد صاحب نے اس کتاب کی تعریف کی اور کہا کہ اسے پڑھا کرو۔ میری میم تو اس کتاب کی عاشق ہے۔

چند روز بعد صاحب موصوف کے تبادلہ پر ہم الوداع کہنے بنوں ریلوے سٹیشن پر گئے تو موصوفہ نے مجھے مخاطب کرکے کہا کہ میں آپ کی اس کتاب کو ساتھ لے جارہی ہوں، میں اس سے علیحدگی پسند نہیں کرتی۔ اور اس کتاب کی بہت تعریف کی۔ اس افسرکا یہ کہنا تھا کہ میرے دل پر اس کتاب کا ایسا اثر ہوتا ہے جیسے دہکتے ہوئے کوئلوں پر پانی گرنے سے ٹھس ٹھس کی آواز آتی ہے۔ ایسا ہی میرے دل کے شعلے اس سے ٹھنڈے ہوتے ہیں۔ (اصحاب احمد جلد۳ صفحہ۱۲۸)

پروفیسر مائیکل انتھونی ڈمٹ کا تبصرہ

پروفیسر سعود احمد خان صاحب (سابق استاد ٹی آئی کالج و جامعہ احمدیہ )لکھتے ہیں: مائیکل انتھونی ڈمٹ آکسفورڈ یونیورسٹی انگلستان کے مشہور استاد فلسفہ ہیں۔ ان کا فلسفہ سے تعلق منطق (Logic) سے ہے اور اس میں ہی وہ Mathematical Philosophy میں ایک خاص مقام کے حامل ہیں اور بین الاقوامی شہرت کے مالک ہیں۔ چنانچہ The Penguin Dictionary of Philosophy میں صفحہ نمبر ۱۵۳ پر ان کا تعارف درج ہے۔

انٹرنیشنل Who’s Who اور برطانیہ کے قومی Who’s Who کے مطابق وہ ۱۹۶۷ء میں برٹش اکیڈمی کے فیلو بنائے گئے اور ۱۹۹۵ء میں Rolf Shock انعام سے نوازا گیا۔ بیرونی ممالک اور خاص طور پر امریکہ میں بھی ان کی علمی فضیلت کا اعتراف کیا گیا جہاں راک فیلر یونیورسٹی نیویارک، ہارورڈ یونیورسٹی اور پرنسٹن یونیورسٹی میں عملی استفادہ کے لیے ان کو مدعو کیا جاتا رہا اور امریکہ کی اکیڈمی آف آرٹس اینڈ سائنس کا ۱۹۸۵ء سے اعزازی رکن بننے کا افتخار بھی حاصل ہے۔

ان سے ۱۹۶۷ء میں عاجز کی واقفیت ہوئی تھی جبکہ ہم دونوں کو گھانا سے لندن جاتے ہوئے ہوائی جہاز میں برابر کی نشستوں پر ہمسفری کا خوشگوار موقع میسر آیا۔۱۹۸۹ء میں میری درخواست پر حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ نے انہیں شرف ملاقات بخشا اور وہ حضور سے بہت متاثر ہوئے۔

جب میں ۱۹۹۷ء میں جلسہ سالانہ برطانیہ میں شرکت کے لیے حاضر ہوا تو پھر پروفیسر ڈمٹ سے ملاقات کے لیے آکسفورڈ گیا اور اسلامی اصول کی فلاسفی کا انگریزی ترجمہ The Philosophy of the Teachings of Islam ان کی خدمت میں پیش کیا۔ کتاب لے کر بہت خوشی کا اظہار کیا اور میری درخواست پر وعدہ کیا کہ اس پر اپنے تاثرات ضرور تحریر فرمائیں گے۔چنانچہ جنوری تا اپریل ۱۹۹۸ء انہوں نے اپنے دو خطوط میں کتاب اور حضرت مسیح موعودؑ کو بڑی تفصیل سے خراج تحسین پیش کیا۔ چنانچہ ۹ جنوری ۱۹۹۸ء کے پہلے خط میں رقمطراز ہیں۔

(ترجمہ) میں کتاب اسلامی اصول کی فلاسفی کو پڑھ کر بے حد متاثر ہوا ہوں۔ یقیناً احمدیہ جماعت کے بانی ایک عظیم عالی دماغ اور بہت فصیح البیان شخصیت کے مالک تھے۔ کتاب میرے اس تاثر کو ثابت کرتی ہے کہ یہ جماعت جو آپ نے قائم فرمائی اسلام کے تمام فرقوں میں سب سے زیادہ معقولیت پسند اور گہری سوچ کی حامل ہے۔ میں کتاب میں بیان فرمودہ مضامین سے بہت متفق ہوں۔ کتاب کے شروع میں نفس امارہ نفس لوامہ اور نفس مطمئنہ کی امتیازی تشریحات میرے لیے بہت دلکش تھیں۔ میرے خیال میں انسانی نفس کی اس تدریجی ترقی پر جو مضمون کتاب میں بیان ہوا وہ بالکل حقیقت پر مبنی ہے اور مجھے یہ بھی تسلیم ہے کہ ہمارے لیے انسانی جبلت کے طبعی میلانات سے اخلاقی اقدار کی طرح دکھائی دینے والے اظہار اور حالات کی مناسبت سے باشعور اخلاقی اظہار میں تمیز کرنا نہایت ضروری ہے۔

روح انسانی اور بعث بعد الموت پر جو مضمون اسلامی اصول کی فلاسفی میں حضرت مسیح موعودؑ نے بیان فرمایا ہے اس کی تائید میں پروفیسر ڈمٹ نے اپنے اسی خط میں تحریر فرمایا۔

میں اس بات سے کلّی متفق ہوں کہ روح انسانی مخلوق ہے اور ماں کے رحم میں نطفہ کے قرار پا جانے کے ساتھ ہی وجود میں آجاتی ہے۔ میں کتاب کے صفحات ۹۵ تا۹۷ کے مضمون سے بھی متاثر ہوا ہوں جس کے مطابق روح انسانی کے لیے بہرحال ایک جسم کا ہونا ناگزیر ہے۔ اس مضمون میں عیسائیت کی روایتی تعلیم میں ایک قباحت ہے کیونکہ روح کا بعث بعدالموت تک کے درمیانی عرصہ میں بغیر جسم کے رہنا ایک امر محال ہے۔ ایسے ہی جس طرح یہ مانا جائے کہ جسم کے مرنے کے ساتھ روح بھی اپنا وجود کھو بیٹھتی ہے۔ مزید برآں اس طرح یہ بات مشتبہ ہو جاتی ہے کہ آیا دوبارہ جی اٹھا ہوا شخص وہی فرد ہے جس کا جسم مرنے کے بعد گل سڑ گیا تھا۔

چونکہ پروفیسر ڈمٹ نے اپنے خط میں بعض استفسارات بھی کیے تھے اس لیے میں نے ان کے خط کے شکریہ میں جو خط لکھا اس میں قرآن مجید کی آیات کریمہ کی روشنی میں ان کے جوابات بھی عرض کر دیے۔ ا س پر انہوں نے ۱۴؍اپریل ۱۹۹۸ء کو جو خط لکھا اس سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ اور آپ کی کتاب اسلامی اصول کی فلاسفی کا ان پر کتنا اثر تھا کہ میرا خط جب پہنچا تو وہ اٹلی میں چار ہفتہ قیام کے لیے مع بیگم کے جاچکے تھے۔واپسی پر جواب میں فرمایا: قرآن سے جو حوالے آپ نے تحریر کئے میرے نزدیک وہ سب صداقت پر مبنی ہیں اور باوجود اس بات کے جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ میں مسلمان نہیں ہوں میں نے قرآن کے بیشتر حصے کو ایسا ہی پایا ہے۔ میں سمجھتا ہوں میں یہ مزید اعتراف بھی کروں کہ تمام اسلامی فرقوں میں احمدیہ موومنٹ (سلسلہ احمدیہ) مجھ کو ہمیشہ سب سے زیادہ روشن خیال اور معقول نظر آئی۔ میری دانست میں ہمارے درمیان ان امور کے متعلق جن پر آپ نے اظہار کیا ہے اب کوئی خاص اختلاف کی گنجائش نہیں رہی۔ (ماخوذ از الفضل انٹرنیشنل ۱۹؍اکتوبر ۲۰۰۱ء)

سوئس لڑکی پر اثر

مبلغ سوئٹزر لینڈ لکھتے ہیں:ایک سوئس لڑکی جو دین کی تعلیم کا مطالعہ کررہی ہے اسے یہ کتاب پڑھنے کے لیے دی گئی۔ وہ کتاب پڑھ کر مشن ہاؤس آئی تو کتاب سے اتنا متاثر تھی کہ بار بار کتاب چومتی تھی۔ (الفضل ۱۵ مارچ ۱۹۸۳ء صفحہ۸)

وزیر صحت نائیجیریا کا تبصرہ

جنوری ۱۹۶۲ء میں فیڈریشن آف نائیجیریا کی تمام حکومتوں کے وزرائے صحت اور بعض دیگر نمائندوں کی ایک کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس دوران شمالی نائیجیریا کے وزیرصحت جناب الحاج امین گلیڈیمان سے ملاقات اور گفتگو کا موقع ملا۔ چنانچہ انگریزی قرآن مجید، اسلامی اصول کی فلاسفی اور کچھ اور کتب انہیں بھجوائی گئیں۔ کتب ملنے پر آپ نے مکرم مولانا نسیم سیفی صاحب کے نام ایک خط میں بڑی مسرت کا اظہار کیا۔ آپ نے شکریہ ادا کرتے ہوئے فرمایا:مجھے ہمیشہ قرآن مجید پڑھ کر مسرت حاصل ہوتی ہے اور اسلامی اصول کی فلاسفی تو ایک ایسی کتاب ہے جو نہ صرف اسلام کے لیے بلکہ ہر اس مسلمان کے لیے بھی جو غوروفکر سے کام لے ایک بیش قیمت خزانہ ثابت ہوچکی ہے۔(الفضل ۱۷؍جون ۱۹۶۲ء)

سروجنی نائیڈو۔انڈیا کی اہم سیاسی شخصیت

حضرت چودھری فتح محمد صاحب سیالؓ بیان فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں دلی میں مسز سروجنی نائیڈو سے ملنے گیا۔ موصوفہ سے میں نے کہا کہ آپ کرشن اول کو تو مانتی ہیں۔کرشن ثانی کو کیوں نہیں مانتی؟ مسز نائیڈو نے اپنے نوکر کو آواز دے کر کہا میرے سرہانہ کے نیچے جو کتاب ہے وہ اٹھالاؤ۔ نوکر کتاب لے آیا اور مسز نائیڈو کی طرف کتاب بڑھائی۔ اس نے کہا یہ کتاب مجھے نہ دو۔ چودھری صاحب کو دو۔ چودھری صاحب نے کہا میں نے وہ کتاب لے لی اور اسے کھولا تو معلوم ہوا کہ اسلامی اصول کی فلاسفی کا انگریزی ترجمہ ہے۔ میرے چہرے پر حیرت اور خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ جسے دیکھ کر مسز نائیڈو نے کہا کیا آپ اب بھی کہتے ہیں میں کرشن ثانی کو نہیں مانتی؟ (الفضل ۱۵؍جنوری ۱۹۹۷ء صفحہ۵)

سنہالی ترجمہ

حضرت مصلح موعودؓ کو ۱۹۵۲ء میں بذریعہ خواب بتایا گیا کہ ہمارے سلسلہ کا لٹریچر سنہالی زبان میں بھی شائع ہونا شروع ہو گیا ہے اور اس کے نتائج اچھے نکلیں گے۔ اس رؤیا کا پہلا شاندار ظہور اس سال ۳؍اکتوبر ۱۹۵۶ء کو ہوا جبکہ جماعت احمدیہ سیلون کی طرف سے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ مسیح موعودؑ کی کتاب اسلامی اصول کی فلاسفی کا سنہالی ترجمہ پانچ ہزار کی تعداد میں شائع ہوا۔ اس موقع پر جماعت احمدیہ سیلون نے ایک خصوصی تقریب منعقد کی۔

اگرچہ سیلون ریڈیو نے چند ماہ پہلے جماعت احمدیہ کی شدید مخالفت کی تھی مگر اس تقریب سے چاردن قبل اس نے متواتر اپنی خبروں میں اس کے انعقاد کا اعلان کیا اور کتاب کی اہمیت بیان کی اور جماعت احمدیہ کی دینی خدمت کی تعریف کی، یہی نہیں تقریب کے ختم ہونے کے بعد رات نو بجے کی خبروں میں انگریزی، تامل، سنہالی سب زبانوں میں اس واقعہ کی نمایاں خبر تھی۔ ریڈیو کے علاوہ سیلون پریس نے بھی اس تقریب کی غیرمعمولی اشاعت کی۔ سیلون کے بدھسٹ وزیراعظم نے اس کتاب کے بارے میں پیغام دیا کہ بدھسٹ اور سنہلی ہونے کے لحاظ سے میں اس کتاب Islam Dharma کے لیے مختصر سا پیغام بھیجنے میں فخر محسوس کرتا ہوں۔ اس ملک کی تاریخ کے اس اہم دور میں سنہلی زبان میں اسلامی کتاب کا شائع ہونا باعث اطمینان ہے کیونکہ اس کے ذریعہ سے ایک دوسرے سے تعلقات بڑھیں گے یہ کتاب جو عام فہم زبان میں تیار کی گئی ہے۔ یقیناً سنہالی زبان میں دینی لٹریچر کی ضرورت کو پورا کرنے والی ہوگی اور مجھے امید ہے کہ یہ بہت سے لوگوں تک پہنچے گی۔ (تاریخ احمدیت جلد۱۹ صفحہ۴۰۷)

سپینش ترجمہ

سپین میں مولوی کرم الٰہی صاحب ظفر نے حضرت مصلح موعودؓ کی کتاب اسلام کا اقتصادی نظام شائع کی۔ یہ سپینش میں پہلی احمدی کتاب تھی اور اس کے بعد انہوں نے اسلامی اصول کی فلاسفی شائع کرنے کا پروگرام بنایا۔ یہ ایک نہایت ایمان افروز داستان ہے۔

اس کتاب کی اشاعت ایک زبردست معرکہ تھا۔ سب سے دشوار اور حل طلب مسئلہ اجازت کا تھا۔ محکمہ سنسر شپ کے انچارج پروفیسر Deneyto نے جو اسلام کا اقتصادی نظام کی اجازت میں ممدومعاون تھے اپنی ذاتی ذمہ داری پر اس کتاب کی بھی اجازت دے دی اور ساتھ ہی تاکید کردی کہ جلد طبع کرکے شائع کردو تاکہ روک نہ پڑ جائے۔ چنانچہ مولوی صاحب نے ۱۹۵۰ء میں یہ کتاب بھی اسی مطبع (Afro Dicio Aguado) کو دے دی جہاں پہلی کتاب طبع ہوئی تھی۔ کتاب پانچ ہزار کی تعداد میں چھپ کر تیار ہوچکی تھی اور سرورق لگ رہا تھا کہ سپین حکومت کے وزیرتعلیم نے ایک خاص آرڈر کے ذریعہ مطبع والوں کو حکم جاری کر دیا کہ کتاب کی اشاعت روک دی جائے اور اس کی تقسیم شدہ کاپیاں ضبط کرلی جائیں۔ اس پر مولوی صاحب نے وزیرتعلیم سے ملنے کی کوشش کی، خطوط پر خطوط لکھے، تار دیے، مختلف شخصیتوں سے بار بار ملاقاتیں کیں۔ چودھری محمد ظفراللہ خاں صاحب نے بھی (جو ان دنوں حکومت پاکستان کے وزیرخارجہ تھے) ہسپانوی سفراء پر کتاب پر سے پابندی اٹھالینے کے لیے زور دیا لیکن وزارت تعلیم نے جواب تک دینا گوارا نہ کیا۔

آخر سپین کی وزارت خارجہ نے ایک روز مولوی صاحب موصوف کو بلا کر کہا کہ اگر آپ اس کتاب میں سے بعض عبارتیں حذف کرنے کو تیار ہوں تو ہم اسے شائع کرنے کی اجازت دے دیں گے۔ مولوی صاحب نے کہا کہ یہ خالص ایک مذہبی کتاب ہے اور اس کے مصنف ہمارے نزدیک اللہ تعالیٰ کے فرستادہ تھے۔ ان کی کتاب میں تبدیلی کا کسی کو حق نہیں پہنچتا۔

علاوہ ازیں ستمبر ۱۹۵۱ء میں لندن کے پاکستان آفس نے بھی بذریعہ چٹھی اطلاع دی کہ اگر کتاب میں ہسپانوی حکومت کی رائے کے مطابق ترمیم و تصحیح کر دی جائے تو یہ پابندی اٹھالی جائے گی مگر مربی سلسلہ نے اسے بھی اپنے تار اورمفصل مکتوب میں یہی جواب دیا کہ تبدیلی ناممکن ہے۔

مربی سلسلہ نے ڈائریکٹر جنرل آف پراپیگنڈا کو پےدرپے خطوط لکھے۔ ڈائریکٹر جنرل صاحب نے بظاہر بڑی ہمدردی کا خط لکھا کہ آپ کی کوششوں کامعترف ہوں مگر ساتھ ہی یہ دو ٹوک جواب دیا کہ سپین میں کیتھولک کے سوا کسی مذہب کو تبلیغ کی قانوناً اجازت نہیں ہے مولوی کرم الٰہی صاحب ظفر نے مختلف شخصیتوں کے ذریعہ سے بھی اس پابندی کے اٹھائے جانے کی بہت کوششیں کیں مگر کوئی کامیابی نہ ہوئی۔

خدا کی قدرت! ان ایام میں جبکہ سپین گورنمنٹ کی طرف سے کتاب پر نہایت سختی سے پابندی عائد تھی خدائے قادر و توانا نے اہم، ہسپانوی شخصیتوں تک کتاب پہنچانے کا یہ سامان پیدا کردیا کہ لندن کے ایک نئے احمدی دوست محمد یٰسین صاحب نے مولوی صاحب موصوف سے وعدہ کیا کہ اسلامی اصول کی فلاسفی کا ہسپانوی ترجمہ اور ہسپانیہ کے چوٹی کے معزز اشخاص کے پتے ہمیں بھجوادیں ہم لندن سے یہ کتاب ان کو بھجوا دیں گے۔ چنانچہ انہوں نے کتاب پہنچنے پر لندن ہی سے بذریعہ ڈاک ہسپانوی معززین کو پہنچانا شروع کردی۔ اسی دوران میں مولوی صاحب نے اسلامی اصول کی فلاسفی کا ایک نسخہ سپین کے صدر جنرل فرانکو کی خدمت میں بھی بھجوا دیا جنرل موصوف نے ایک خط کے ذریعہ کتاب کا دلی شکریہ ادا کیا اور لکھا کہ کتاب انہیں بے حد پسند آئی۔ اس خط کے بعد مولوی صاحب نے کتاب کی محدود رنگ میں تقسیم شروع کردی۔ پولیس والے اکثر جواب طلبی کے لیے آتے تھے لیکن جب آپ ان کو جنرل فرانکو کا خط دکھاتے تو وہ خط کی نقل لے کر چل دیتے تھے۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سے اہم لوگوں نے کتاب سے متعلق اپنے اعلیٰ تاثرات کا اظہار کیا۔

کارڈینل آرچ بشپ اشبیلیہ

چنانچہ ۱۹۶۴ء میں کارڈینل آرچ بشپ اشبیلیہ نے کتاب ملنے پر حسب ذیل مکتوب لکھا:اسلامی اصول کی فلاسفی کے بھجوانے پر دلی ممنون ہوں اور خوشی کا اظہار کرتا ہوں۔ کتاب میں نے انتہائی دلچسپی سے پڑھی ہےآپ کی کتاب میںبےشمار ایسی عبارتیں موجود ہیں جو ہمیں نیکی کی طرف لے جاتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے نام پر ہمارے درمیان اتحاد، اتفاق اور اخوت پیدا کرنے کا ذریعہ ہیں۔

اس خط کا بھی بہت فائدہ ہوا۔ عوام اور پولیس میں سے جو لوگ مولوی صاحب موصوف کے پاس آتے تو آپ انہیں اس کی فوٹو کاپی دکھا دیتے جس سے ان پر یہ گہرا اثر پڑتا کہ جب ان کے ایک مذہبی راہنما کو کتاب بہت پسند آئی ہے تو کتاب مفید ہی ہوگی۔

ذیل میں بطور نمونہ بعض ہسپانوی مقتدر شخصیتوں کے تاثرات درج کیے جاتے ہیں جن سے اس شاندار کتاب کے وسیع اثرات کا پتا چلتا ہے۔

پریذیڈنٹ رائل اکیڈمی آف قرطبہ D. Rafael Castejon Y Mortioz De Arizala نے درج ذیل مکتوب کی صورت میں خراج تحسین ادا کیا۔

میں نے اس کتاب کو انتہائی دلچسپی اور توجہ سے پڑھا ہے اس میں بیان کردہ تعلیم حقائق و معارف اور علم و عرفان سے پُر ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہام کی گئی ہے جس کے مطالعہ سے میرا دل و دماغ معطر ہو گیا۔میں نے ڈائریکٹر آف انسٹیٹیوٹ (Estudios Califales) جن کا نام D. Vicente Garica Figuera ہے اور جو چیف آف سٹیٹ کے کرنل بھی ہیں کو یہ کتاب پڑھنے کے لیے دی۔ ان کو یہ کتاب اس قدر دلچسپ معلوم ہوئی کہ انہوں نے اس ماہ کی ۲۰ تاریخ کو رائل اکیڈمی میں اس کے متعلق ایک لیکچر دیا۔ ہم ایک رسالہ ’’الملک‘‘ شائع کرتے ہیں جس میں عموماً خلفاء بنو امیہ آف قرطبہ تاریخی اور آثار قدیمہ سے متعلق مضامین شائع کرتے ہیں۔ اگر آپ ہمیں رسالہ ریویو آف ریلیجنز بھجوا دیا کریں تو یہ رسالہ ہم آپ کو بھجوا سکتے ہیں۔

میں نے کتاب بڑے گہرے شوق سے پڑھی۔ اس کتاب کی پُرمعارف تعلیم سے میں بے حد متاثر ہوا ہوں۔ یہ حقیقی طور پر روحانی علم و عرفان کا خزانہ ہے۔ اس کے مطالعہ سے دل و دماغ واقعی معطر ہو گیا۔ (الفضل ۲۳؍جنوری ۱۹۶۱ء)

کلچر ہسپانی (Culture Hispani) کے ڈائریکٹر صاحب نے لکھا:’’روحانی علم و عرفان سے پُر کتاب پڑھ کر بے حد خوشی ہوئی۔‘‘

میڈیکل پروفیسر و ممبر رائل اکیڈمی آف میڈیسن (D. Alfonso Delafuente) نے مولوی کرم الٰہی صاحب ظفر کے نام لکھا کہ کتاب انسان کی روحانی ترقی کے لیے علم و عرفان اور وعظ و نصیحت سے پُر ہے جس کی آجکل شدید ضرورت ہے جبکہ دنیا ضلالت و گمراہی میں مبتلا ہے اور لوگوں کا اللہ تعالیٰ کی ہستی پر یقین نہیں رہا۔ میں خلوص دل سے آپ کو دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں اور آخر میں دوبارہ شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اس کامطالعہ میرے لیے بے حد مفید ثابت ہوا ہے۔

ایک میڈیکل سکول کے پرنسپل اور رائل اکیڈمی کے ممبر سرولانووا Sr Villa Nova نے ۵؍مئی ۱۹۶۹ء کو لکھا۔میں نے بڑی خوشی سے اس کامطالعہ کیا اور اسے بے حد مفید پایا۔ میں اس کتاب کے مطالعہ سے بے حد متاثر ہوا ہوں۔ نہایت اعلیٰ اخلاقی تعلیم احسن رنگ میں بیان کی گئی ہے۔ یہ کتاب عالمگیر خوبیوں کی حامل ہے جس میں دینی تعلیم کا گہرا فلسفہ بیان کیا گیا ہے ہم سب کو اس سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ (تاریخ احمدیت جلد۱۲ صفحہ۳۷ تا ۴۲)

انڈونیشیا میں اثرات

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ فرماتے ہیں: ڈیڈی سناریہ(Dedi Sunarya) صاحب جماعت احمدیہ سیانجوڑ (Cianjur) ویسٹ جاوا کے ممبر ہیں۔ ان تک جماعت کا پیغام ۲۰۰۶ء تک پہنچ چکا تھا۔ انہوں نے جماعتی کتب کا مطالعہ شروع کیا۔ ان کی پسندیدہ کتاب حضرت مسیح موعودؑ کی معرکةالآراء کتاب ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ تھی۔ وہ کہتے ہیں بارہا اس کا مطالعہ کرنے کے بعد بھی انہیں احمدیت قبول کرنے میں ہچکچاہٹ تھی۔ ایک دن انہیں کہا گیا کہ وہ اللہ تعالیٰ سے رہنمائی حاصل کرنے کے لیے استخارہ کریں۔ چنانچہ وہ مسلسل دعا کرتے رہے اور فروری ۲۰۰۸ء میں انہوں نے خواب میں ایک زبان میں ایک جملہ سنا جس کا ترجمہ یہ ہے کہ ’’اگر تم وہاں جانا چاہتے ہو تو پہلے تمہیں مضبوط ہونا ہو گا‘‘اس کے بعد جلد ہی انہیں ایک اور خواب آئی جس میں انہیں کہا گیا کہ وہ چالیس دن روزے رکھیں۔ ان روزوں میں انیسویں اور اکیسویں رات انہیں کشف دکھایا گیا جس میں ایک سفید لباس میں ملبوس شخص تشہد کے بعد یہ کلمات دہرا رہا تھا کہ احمدیت سچی ہے، تمہیں یقیناً لیلةالقدر حاصل ہو گئی ہے اور حضرت مرزا غلام احمد ہی امام مہدی ہیں۔ کہتے ہیں یہ کشف مجھے کئی مرتبہ ہوا۔ بالآخر ۲۰۰۸ء میں انہوں نے اپنی اہلیہ سمیت احمدیت قبول کر لی اور اس کے بعد کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے تمام مشکلات کو انہوں نے بڑے صبر اور حوصلے سے برداشت کیا۔ (الفضل ربوہ ۲۸؍دسمبر ۲۰۱۵ء صفحہ۶۵)

شام میں اثرات

شام کے لقمان ابراہیم صاحب لکھتے ہیں میں نے ۲۷؍ سال تک مختلف سکولوں کالجوں اور یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرکے انجینئر نگ میں ڈگری حاصل کی تھی۔ میری تعلیمی زندگی حساب کتاب اور خشک منطق سے عبارت تھی لیکن جب میں نے جماعتی کتب کا مطالعہ شروع کیا تو مجھے محسوس ہوا کہ ان کتب میں پائے جانے والے علوم میری۲۷؍سالہ تعلیم سے زیادہ مؤثر اور مفید ہیں ، بلکہ میرے تمام حاصل کردہ علوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک تصنیف لطیف اسلامی اصول کی فلاسفی کے سامنے صفر تھے۔ میں نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا طرز تحریر، دلائل پیش کرنے کا طریق اوربحث و مباحثہ کا انداز ایسا مضبوط اور مؤثر ہے کہ ایک منصف مزاج شخص کے سامنے آپ کی بات قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں رہتا۔ بلکہ یوں کہنا درست ہوگا کہ آپ کے دلائل کا کوئی ایسا اندھا ہی انکار کر سکتا ہے جسے روشن دن کا سورج بھی نظر نہیں آتا ۔

میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا قائل ہوکر دل سے آپؑ پر ایمان لا چکا تھا اور اس کے نتیجہ میں مجھ پر خدا تعالیٰ کے افضال کا نزول شروع ہو گیا تھا۔ لیکن سیرین فوج میں آفیسر ہونے کی وجہ سے میں بیعت ارسال نہ کر سکاکیونکہ ایسا کرنے پر فوراً جیل کی سز اسنادی جاتی تھی ۔مگریکم جنوری ۲۰۱۳ء کو میں نے بیعت کا خط لکھ دیا (بدر قادیان ۴؍جنوری ۲۰۱۸ء)

افریقہ میں اثرات

سیرالیون کے شہر Port Loko میں ٹیچرز کالج کے ایک احمدی استاد مسٹر عبدل کروما بیان کرتے ہیں کہ کالج کی پرنسپل سیرالیون کے نائب صدر مسٹر ایس آئی کروما کی اہلیہ پر عیسائی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کے سبب عیسائیت کے گہرے نقوش تھے اپنے خاوند کی خواہش پر وہ مسلمان کہلانے لگ گئیں۔ لیکن دین میں انہیں کوئی جاذبیت نظر نہیں آئی اور انہوں نے عیسائی ہونے کا فیصلہ کرلیا۔ اس کشمکش میں انہوں نے اپنے حلقہ کے پادری اور ہمارے احمدی دوست عبدل کروما کو بلا کر دین اور عیسائیت کے بارہ میں معلومات حاصل کیں۔ دونوں نمائندوں نے اپنے اپنے مذہب کی نمائندگی کی لیکن وہ کوئی فیصلہ نہ کر پائیں۔اگلے روز مسٹر کروما نے اس معزز خاتون کو حضرت مسیح موعودؑ کی کتاب اسلامی اصول کی فلاسفی کا انگریزی ترجمہ دیا اور اس کے مطالعہ کرنے کے لیے کہا۔ اگلے روز وہ پرنسپل صاحبہ کو ملنے گئے تو اس نے انہیں دیکھتے ہی کہا کہ میں رات دیر تک یہ کتاب پڑھتی رہی ہوں اور آخرکار میں نے مسلمان رہنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ (الفضل ۱۸؍مئی ۱۹۸۳ء)

مالی شہرکے فیسٹیول میں ایک دوست ہمارے بک سٹال پر آئے اور ہمارے معلم کو دیکھتے ہی گلے لگایا۔اُن کی آنکھوں میں خوشی کے آنسوآگئے۔انہوں نے بتایا کہ سال۲۰۲۲ء میں انہوں نے ہمارے بک سٹال سے ایک کتاب ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ خریدی تھی جس کے مطالعہ کے بعد انہوں نے اپنے آپ سے کہا کہ جس شخص نے یہ کتاب لکھی ہے وہ لازماً ایک عظیم شخص ہےاور ساتھ ہی انہوں نے دعا کرنی شروع کر دی کہ اللہ تعالیٰ انہیں صحیح راستہ دکھائے۔ وہ کہتے ہیں کہ اسی دوران انہوں نے خواب دیکھا کہ کوئی انہیں کہہ رہا ہے کہ اس کتاب کا مصنف ہی آج کے دور میں اسلام کا صحیح راہنما ہے۔ اُن کے پاس جماعت کا کوئی رابطہ نہیں تھا اس لیے مزید تحقیق نہ کر سکے لیکن اس سال میلے پر انہوں نے جماعتی سٹال دیکھا تو ان کی خوشی کی انتہا نہ رہی اور اس لیے آتے ہی انہوں نے ہمارے معلم صاحب کو خوشی سے گلے لگا لیا،جماعت کا ایڈریس لیا اور بیعت کا ارادہ بھی ظاہر کیا۔

سینیگال کےڈوری شہر کے ایک تاجر کو اسلامی اصول کی فلاسفی کتاب پڑھنے کے لیے دی تو کتاب پڑھ کر اس نے کہا کہ اگر مجھے ایک لاکھ سیفا میں بھی یہ کتاب خریدنی پڑے تو میں ضرور خرید لوں ۔(الفضل انٹر نیشنل۲۹؍اگست ۲۰۲۴ء)

چاڈ میں ہمارے لوکل معلم صاحب ہیومینٹی فرسٹ کے کام کے سلسلہ میں عبداللہ محمد موسیٰ جو عرب قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں کے علاقے میں گئے تو ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب اسلامی اصول کی فلاسفی جو عربی ترجمہ میں تھی پڑھنے کے لیے دی۔ کچھ ہفتوں کے بعد عبداللہ صاحب دارالحکومت چاڈ میں آئے اور معلم سے رابطہ کیا اور وفاتِ مسیح کے متعلق سوالات کیے اور کہا کہ میں نے حیاتِ مسیح کے متعلق علماء سے بہت پوچھا ہے لیکن کسی نے تسلی بخش جواب نہیں دیا۔ رات کو قیام معلم صاحب کے پاس کیا۔ رات بھر جماعت احمدیہ اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق سوالات کرتے رہے اور کہا کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ میری راہنمائی فرمائے۔ صبح فجر کی نماز کے بعد تھوڑی دیر کے لیے سوئے اور اچانک بیدار ہو گئے اور معلم صاحب کو کہنے لگے جب میں سو رہا تھا تو خواب میں یہ آواز میں نے سنی۔ یَّاۡتِیۡ مِنۡۢ بَعۡدِی اسۡمُہٗۤ اَحۡمَد (الصف:۷)معلم صاحب نے اس آیت کے متعلق بتایا کہ یہ تو بانی جماعت احمدیہ کی صداقت کی دلیل ہے تو اس پر عبداللہ صاحب کہنے لگے خدا تعالیٰ نے میری راہنمائی کر دی ہے اوروہ احمدی ہو گئے۔(ماخوذ از خطبہ جمعہ ۲۴؍نومبر ۲۰۲۳ء)

حضرت مسیح موعودؑ کا یہ الہام کتنا سچا ہے آپؑ فرماتے ہیں: ’’مجھے خدائے علیم نے الہام سے مطلع فرمایا ہے کہ یہ وہ مضمون ہے جو سب پر غالب آئے گا اور اس میں سچائی اور حکمت اور معرفت کا وہ نور ہے جو دوسری قومیں بشرطیکہ حاضر ہوں اور اس کواوّل سے آخر تک سنیں شرمندہ ہو جائیں گی۔ اور ہرگز قادر نہیں ہوں گی کہ اپنی کتابوں کے یہ کمال دکھلا سکیں۔خواہ وہ عیسائی ہوں خواہ آریہ خواہ سناتن دھرم والے یا کوئی اورکیونکہ خدا تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ اس روز اُس پاک کتاب کا جلوہ ظاہر ہو۔‘‘(مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحہ۱۷۲۔ ایڈیشن۲۰۱۸ء)

٭…٭…٭

مزید پڑھیں: قبولیتِ دعا،ہستی باری تعا لیٰ کا ایک اہم ثبوت

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button