متفرق مضامین

مقدمہ دیوار۔ تائیدو نصرتِ الٰہی کا عظیم نشان

(ظہیر احمد طاہر ابن نذیر احمد خادم۔جرمنی)

چکی پھرے گی اور قضاو قدر نازل ہو گی یعنی مقدمہ کی صورت بدل جائے گی جیسا کہ چکی جب گردش کرتی ہے تو وہ حصہ چکی کا جو سامنے ہوتا ہے بباعث گردش کے پردہ میں آجاتا ہے اور وہ حصہ جو پردہ میں ہوتا ہے وہ سامنے آجاتاہے

اللہ تعالیٰ کے کام بہت پُر حکمت اور نرالے ہوتے ہیں۔ جن کی کنہ کو ایک عام انسان پہنچ نہیں سکتا۔ قدرت کی طرف سے ہر کام کا ایک وقت مقرر ہے۔ جب وہ مقررہ وقت آن پہنچتا ہے تو پھر وہ کام اُس کے ارادہ اور مرضی کے مطابق اپنی تکمیل کے مراحل طے کرنے لگتا ہے اور بالآخروہ ہوکر رہتاہے۔ آسمان پر کسی تبدیلی کا فیصلہ ہوجائے تو زمینی حالات خود بخود سازگار ہوجاتے ہیں اور حاسدین کے منصوبے خاک میں مل جاتے ہیں۔ایسے میں صاحبانِ بصیرت ہواؤں کےرُخ سے موسم کی تبدیلی کا اندازہ لگاکر عافیت کے حصار میں پناہ گزین ہوجاتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی اُسی آسمانی نظام کا حصہ ہیں جو وقتاً فوقتاً ارادۂ الٰہی سے جاری ہوتا رہا ہے۔یہ وہی نظام ہے جو اس سے پہلے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاءکے ذریعہ دنیا میں جاری ہوچکا ہے۔ یہ امن وآشتی، صلح جوئی اوربھائی چارے کا حامل آسمانی نظام ہے جو دلوں کو ملاتا اور انسانوں کوآپس میں بھائی بھائی بنا دیتا ہے۔ اس نظام میں شامل ہونے سے دلوں کے زنگ دُور ہوتے ہیں اور نورِ فراست عطا ہوتاہے۔یہ نظام اس لیے قائم کیا گیا ہے تاکہ دنیا کے تمام انسانوں کو دین واحد پر جمع کرکے اُن کے دلوں میں توحید ِالٰہی کی شمع روشن کی جائے۔حقیقت یہ ہے کہ جب بھی کوئی مامورمن اللہ دنیا کی اصلاح اور اُس کی راہنمائی کے لیے مبعوث ہوا، دنیا والوں نے اُس کی سخت مخالفت کی اور اُس کے سلسلہ کو صفحۂ  ہستی سے مٹادینے کے لیے ایڑھی چوٹی کا زور لگایا۔ لیکن بالآخر خدا تعالیٰ کے بندے ہی کامیاب وکامران ہوتے رہے اور اُن کے مخالفین کو ناکامی و نامرادی کا منہ دیکھنا پڑا۔

اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو ایسا پاک دل عطا کیا تھا جو مخلوقِ خدا کی ہمدردی سے لبریز تھا۔ آپؑ نے تمام عمر اپنوں بیگانوں سے دکھ اور تکلیفیں سہیں مگر کسی کے خلاف قانونی چارہ جوئی نہ کی اور نہ ہی کسی کو قانونی شکنجہ میں لانے اور عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کا خیال آپ کے ذہن میں آیا۔مقدمہ دیوار آپ کی زندگی کا واحدمقدمہ ہے جوآپؑ نے اپنے کسی مخالف پر دائرکیا۔اللہ تعالیٰ نے اس مقدمہ میں خارق عادت رنگ میں آپؑ کی تائید ونصرت فرمائی اور ناموافق حالات کے باوجودمقدمہ کا فیصلہ آپؑ کے حق میں ہوگیا۔

مقدمہ کا پس منظر:حضور علیہ السلام کے والد بزرگوار حضرت مرزا غلام مرتضٰی صاحب کے چار بھائی تھے۔ جن کے نام مرزا غلام مصطفیٰ صاحب، مرزا غلام محمد صاحب ، مرزا محی الدین صاحب اور مرزا غلام حیدر صاحب تھے۔ حضور علیہ السلام کے والد ایک حاذق طبیب، شاہانہ مزاج کے مالک، عالی ہمت،جلالی شان کے حامل اور اعلیٰ اخلاق کے انسان تھے۔ اُنہیں شعروشاعری سےبھی شغف تھا۔ آپؑ کے والد اگرچہ دنیادارانہ مزاج رکھتے تھے لیکن اُنہیں اللہ تعالیٰ کی ذات اور آنحضور ﷺ کے ساتھ خاص لگاؤ تھا۔ اس کے برعکس حضور علیہ السلام کےچچا مرزا غلام محی الدین صاحب کے تین بیٹے مرزا امام الدین صاحب، مرزا نظام الدین صاحب اور مرزا کمال الدین صاحب ملحدانہ خیالات رکھنے والے بےدین تھے۔

وہ لوگ دنیاوی لالچ اور طمع میں اس حدتک ڈوبے ہوئے تھے کہ خدا، رسول ﷺ اور انسانیت سب فراموش کرچکے تھے۔وہ اپنے تایا مرزا غلام مرتضیٰ صاحب اور ان کے بیٹوں مرزا غلام قادر صاحب اور حضرت مرزا غلام احمد صاحب کے شدید دشمن تھے۔ مرزا امام الدین کی اخلاقی حالت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ قادیان میں ان کی مجلس میں بھنگ اور چرس پینے والے جمع ہوتے اور نشہ میں مست شریعتِ اسلام پر لغو اعتراضات کرتے۔انہیں اپنی دشمنی نکالنے کا جوموقع ملتا وہ اُسے ہاتھ سے جانے نہ دیتے۔ مارچ ۱۸۸۵ءمیں حضور علیہ السلام نے مجدد یت کا دعویٰ کیا تو مرزا امام الدین نے آپؑ کے خلاف قانونی ہند پریس اور چشمہ نور امرتسر سے نہایت گندے اشتہارات شائع کیے۔ان حالات میں حضور علیہ السلام نے ۲۰؍فروری ۱۸۸۶ءکو ہوشیار پور سے طویل پیشگوئی شائع کی جو پیشگوئی پسر موعود کے نام سے مشہور ہے۔ اس پیشگوئی کا کچھ حصہ آپ کے چچا زاد بھائیوں کے متعلق بھی تھا۔ جس کے متعلقہ الفاظ یہ ہیں: ’’اور ہر یک شاخ تیرے جدّی بھائیوں کی کاٹی جائے گی اور جلد لَا وَلدرہ کر ختم ہوجائے گی۔ اگر وہ توبہ نہ کریں گے تو خدا اُن پر بلا پر بلا نازل کرے گا یہاں تک کہ وہ نابود ہوجائیں گے۔ اُن کے گھر بیواؤں سے بھر جائیں گے اور اُن کی دیواروں پر غضب نازل ہوگا لیکن اگر وہ رجوع کریں گے تو خدا رحم کے ساتھ رجوع کرے گا۔‘‘(مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ۱۲۵۔۱۲۶،مطبوعہ قادیان مارچ ۲۰۱۹ء)

مئی ۱۸۸۸ء میں مرزا امام الدین اورمرزا نظام الدین اور اُن کے کچھ ساتھیوں مرزا احمد بیگ وغیرہ نے حضور علیہ السلام، اسلام اور رسول کریم ﷺکی سخت مخالفت شروع کردی۔انہوں نے اپنے مراسلات واشتہارات میں آپؑ کو نہ صرف مکار اور فریبی قرار دیا بلکہ یہاں تک کہہ دیا کہ ہم کسی کلام کرنے والے یا قضاوقدر کے مالک اور وحی کرنے والے کو نہیں جانتے۔اُن کے مطابق قرآن محمد (ﷺ) کی تصنیف ہے جو خدا کا کلام نہیں ہوسکتا۔ حضور علیہ السلام کے چچا زاد بھائی آپؑ کی مخالفت اور دشمنی میں اس قدر آگے نکل چکے تھے کہ انہوں نے آپؑ کے مہمانوں کو بھی تکالیف پہنچانے سے دریغ نہ کیا۔قمرالانبیاءحضرت صاحبزادہ مرزابشیر احمد رضی اللہ عنہ نےسیر ت المہدی میں ان ایذا رسانیوں کا ذکر کرتے ہوئےتحریر فر مایا ہے کہ ’’حضرت صاحب کے زمانہ میں خصوصاً ابتدائی ایام میں قادیان کے لوگوں کی طرف سے جماعت کو سخت تکلیف دی جاتی تھی۔مرزا امام الدین ومرزا نظام الدین وغیرہ کی انگیخت سے قادیان کی پبلک خصوصاً سکھ سخت ایذارسانی پر تلے ہوئے تھے اور صرف باتوں تک ایذا رسانی محدود نہ تھی بلکہ دنگا فساد کرنے اور زدو کوب تک نو بت پہنچی ہوئی تھی۔اگرکوئی احمدی مہاجر بھولے سے کسی زمیندار کے کھیت میں رفع حاجت کے واسطے چلا جاتا تھا تو وہ بدبخت اسے مجبور کرتا تھا کہ اپنے ہاتھ سے اپنا پاخانہ وہاں سے اُٹھائے۔کئی دفعہ معزز احمدی ان کے ہاتھ سے پٹ جاتے تھے اگر کوئی احمدی ڈھاب میں سے کچھ مٹی لینے لگتا تو یہ لوگ مزدوروں سے ٹوکریاں اورکدالیں چھین کر لے جاتے اور ان کو وہاں سے نکال دیتے تھے اور کوئی اگر سامنے سے کچھ بولتا تو گندی اور فحش گالیوں کے علاوہ اسے مارنے کے واسطے تیارہو جاتے۔آئے دن یہ شکائتیں حضرت صاحب کے پاس پہنچتیں رہتی تھیں مگر آپ ہمیشہ یہی فرماتے کہ صبر کرو۔بعض جوشیلےاحمدی حضرت صاحب کے پاس آتے اور عرض کرتے کہ حضورؑ ہم کو صرف ا ن کے مقابلہ کی اجازت دے دیں۔اور بس پھر ہم ان کو خود سیدھا کر لیں گے۔حضور فرماتے نہیں صبر کرو۔‘‘(سیرت المہدی جلد ۱ صفحہ ۱۲۹ تا ۱۳۰۔روایت نمبر۱۴۰)

حضور علیہ السلام کے چچازاد بھائیوں کی اذیتوں اور انتہا درجہ تکلیفوں کے باوجود تمام وقت نہایت صبر اور وسیع حوصلگی سے گزررہاتھا کہ ۵؍جنوری ۱۹۰۰ءکو مرزا امام الدین نے آپؑ کے گھر کے سامنے ایسی جگہ دیوار کھینچوا دی جس سے گزرنے کا وہ راستہ بند ہوگیا جو مسجد اور آپؑ کے ساتھ ملاقات کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ مرزا امام الدین کی اس کارروائی سے حضور علیہ السلام اور آپ کی جماعت کو سخت تکلیف پہنچی اور آپؑ عملاً محصور ہوکر رہ گئے۔ آپؑ کے لیے مسجد میں تشریف لے جانا خاصا تکلیف دہ ہوگیا۔ حضور علیہ السلام اپنی کتابوں کے پریس پروف خود پڑھتے تھے اس غرض سے پریس کے کارکن دن میں کئی بار آپ کے پاس آیا کرتے لیکن اب دیوار کے باعث اس کام میں بھی رکاوٹ پیدا ہوگئی۔اس دیوار کی وجہ سے سب نمازیوں اور ملنے والوں کو ایک لمبا، ناہموار اور خراب راستہ اختیار کرنا پڑتا۔ دیوار کی تعمیر سے مختلف ضروریات کے لیے مسجد میں پانی پہنچانے میں بھی خاصی دقت پیدا ہوگئی جبکہ ضعیف اور کمزور نمازیوں کے لیےفجر اور عشاءکی نمازوں میں شامل ہونا ممکن نہ رہا۔ اس بنا پر حضور علیہ السلام کو اُن کے خلاف مقدمہ دائرکرنا پڑناجو مقددمہ دیوار کے نام سے مشہور ہے۔ اس مقدمہ میں حضور علیہ السلام کو خدائی الہامات کے مطابق فتح ہوئی اور مدعاعلیہ پر اخراجات مقدمہ کے علاوہ ایک سو روپیہ حرجانہ بھی ڈالا گیا۔ جنوری ۱۹۰۰ءمیں آپؑ کے وکیل خواجہ کمال الدین صاحب نے یہ مقدمہ منشی خدا بخش صاحب ڈسٹرکٹ جج گورداسپور کی عدالت میں درج کرایا۔ تقریباًڈیڑھ سا ل تک یہ مقد مہ چلتا رہا۔پہلی پیشی ۱۶؍جولائی ۱۹۰۱ءکو ہوئی۔ ۱۰؍اگست۱۹۰۱ءکو مقدمہ ملتوی کیا گیا۔ حضور علیہ السلام اس مقدمہ کا پس منظر بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں: ’’۱۹۰۰ء میں ایسا اتفاق ہوا کہ میرے چچازاد بھائیوں میں سے امام الدین نام ایک سخت مخالف تھا اُس نے یہ ایک فتنہ برپا کیا کہ ہمارے گھر کے آگے ایک دیوار کھینچ دی اور ایسے موقعہ پر دیوار کھینچی کہ مسجد میں آنے جانے کا راستہ رُک گیا اور جو مہمان میری نشست کی جگہ پر میرے پاس آتے تھے یا مسجد میں آتے تھے وہ بھی آنے سے رُک گئے اور مجھے اور میری جماعت کو سخت تکلیف پہنچی گویا ہم محاصرہ میں آگئے۔ناچار دیوانی میں منشی خدا بخش صاحب ڈسٹرکٹ جج کے محکمہ میں نالش کی گئی جب نالش ہو چکی تو بعد میں معلوم ہوا کہ یہ مقدمہ ناقابل فتح ہے اور اس میں یہ مشکلات ہیں کہ جس زمین پر دیوار کھینچی گئی ہے اُس کی نسبت کسی پہلے وقت کی مثل کے رُو سے ثابت ہوتا ہے کہ مدعا علیہ یعنی امام الدین قدیم سے اس کا قابض ہے اور یہ زمین در اصل کسی اور شریک کی تھی جس کا نام غلام جیلانی تھا اور اُس کےقبضہ میں سے نکل گئی تھی تب اُس نےامام الدین کو اس زمین کا قابض خیال کرکے گورداسپور میں بصیغۂ دیوانی نالش کی تھی اور بوجہ ثبوت مخالفانہ قبضہ کے وہ نالش خارج ہو گئی تھی تب سے امام الدین کا اس پر قبضہ چلا آتا ہے اب اسی زمین پر امام الدین نے دیوار کھینچ دی ہے کہ یہ میری زمین ہے۔ غرض نالش کے بعد ایک پُرانی مثل کے ملاحظہ سے یہ ایسا عقدۂ لاینحل ہمارے لئے پیش آگیا تھا جس سے صریح معلوم ہوتا تھا کہ ہمارا دعویٰ خارج کیا جائے گا کیونکہ جیسا کہ میں نے ذکر کیا ہے ایک پرانی مثل سے یہی ثابت ہوتا تھا کہ اس زمین پر قبضہ امام الدین کا ہے اُس سخت مشکل کو دیکھ کر ہمارے وکیل خواجہ کمال الدین نے ہمیں یہ بھی صلاح دی تھی کہ بہتر ہوگا کہ اس مقدمہ میں صلح کی جائے یعنی امام الدین کو بطور خود کچھ روپیہ دے کرراضی کر لیا جائے لہٰذا میں نے مجبورًا اِس تجویز کو پسند کر لیا تھا مگر وہ ایسا انسان نہیں تھا جو راضی ہوتا۔ اُس کو مجھ سے بلکہ دین اسلام سے ایک ذاتی بغض تھا اور اُس کو پتہ لگ گیا تھا کہ مقدمہ چلانے کا ان پر قطعاً دروازہ بند ہے لہٰذا وہ اپنی شوخی میں اور بھی بڑھ گیا آخر ہم نے اِس بات کو خدا تعالیٰ پر چھوڑ دیا مگر جہاں تک ہم نے اور ہمارے وکیل نے سوچا کوئی بھی صورت کامیابی کی نہیں تھی کیونکہ پرانی مثل سے امام الدین کا ہی قبضہ ثابت ہوتا تھا اور امام الدین کی یہاں تک بدنیّت تھی کہ ہمارے گھر کے آگے جو صحن تھا جس میں آکر ہماری جماعت کے یکے ٹھہرتے تھے وہاں ہروقت مزاحمت کرتا اور گالیاں نکالتا تھا اور نہ صرف اِسی قدر بلکہ اُس نے یہ بھی ارادہ کیا تھا کہ ہمارا مقدمہ خارج ہونے کے بعد ایک لمبی دیوار ہمارے گھر کے دروازوں کے آگے کھینچ دے تا ہم قیدیوں کی طرح محاصرہ میں آجائیں اور گھر سے باہر نکل نہ سکیں اور نہ باہر جا سکیں۔ یہ دن بڑی تشویش کے دن تھے یہاں تک کہ ہم ضَاقَتْ عَلَیْھِمُ الْاَرْضُ بِمَارَحُبَتْ کا مصداق ہو گئےاور بیٹھے بیٹھے ایک مصیبت پیش آگئی اِس لئے جناب الٰہی میں دعا کی گئی اور اُس سے مدد مانگی گئی۔ ‘‘(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲صفحہ ۲۷۹،۲۷۸)

تائید الٰہی کی بشارت: اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کی دعاؤں کو سنا اور بذریعہ الہام قبل از وقت اپنی تائیدونصرت کی بشارت عطا فرمائی۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’تب بعد دعا مندرجہ ذیل الہام ہوا اور یہ الہام علیحدہ علیحدہ وقت کے نہیں بلکہ ایک ہی دفعہ ایک ہی وقت میں ہوا۔ مجھے یاد ہے کہ اُس وقت سیّد فضل شاہ صاحب لاہوری برادر سیّد ناصر شاہ صاحب اُوَر سیر متعین بارہ مولہ کشمیر میرے پیر دبا رہا تھا اور دوپہر کا وقت تھا کہ یہ سلسلہ الہام دیوار کے مقدمہ کی نسبت شروع ہوا۔ میں نے سید صاحب کو کہا کہ یہ دیوار کے مقدمہ کی نسبت الہام ہے۔ آپ جیسا جیسا یہ الہام ہوتا جائے لکھتے جائیں چنانچہ انہوں نے قلم دوات اور کاغذ لے لیا۔ پس ایسا ہوا کہ ہر ایک دفعہ غنودگی کی حالت طاری ہو کر ایک ایک فقرہ وحی الٰہی کا جیسا کہ سُنّت اللہ ہے زبان پر نازل ہوتا تھا۔ اور جب ایک فقرہ ختم ہو جاتا تھا اور لکھا جاتا تھا تو پھر غنودگی آتی تھی اور دُوسرا فقرہ وحی الٰہی کا زبان پر جاری ہوتا تھا یہاں تک کہ کل وحی الٰہی نازل ہو کر سید فضل شاہ صاحب لاہوری کی قلم سے لکھی گئی اور اس میں تفہیم ہوئی کہ یہ اس دیوار کے متعلق ہے جو امام الدین نے کھینچی ہے جس کا مقدمہ عدالت میں دائر ہے اور یہ تفہیم ہوئی کہ انجام کار اس مقدمہ میں فتح ہوگی چنانچہ میں نے اپنی ایک کثیر جماعت کو یہ وحی الٰہی سنا دی اور اس کے معنے اور شانِ نزول سے اطلاع دے دی اور اخبار الحکم میں چھپوا دیا اورسب کو کہہ دیا کہ اگرچہ مقدمہ اب خطرناک اور صورت نومیدی کی ہے مگر آخر خدا تعالیٰ کچھ ایسے اسباب پیدا کر دے گا جس میں ہماری فتح ہوگی کیونکہ وحی الٰہی کا خلاصہ مضمون یہی تھا اب ہم اس وحی الٰہی کو معہ ترجمہ ذیل میں لکھتے ہیں اور وہ یہ ہے: …(ترجمہ)چکی پھرے گی اور قضاو قدر نازل ہو گی یعنی مقدمہ کی صورت بدل جائے گی جیسا کہ چکی جب گردش کرتی ہے تو وہ حصہ چکی کا جو سامنے ہوتا ہے بباعث گردش کے پردہ میں آجاتا ہے اور وہ حصہ جو پردہ میں ہوتا ہے وہ سامنے آجاتاہے مطلب یہ کہ مقدمہ کی موجودہ حالت میں جو صورتِ مقدمہ حاکم کی نظر کے سامنے ہے جو ہمارے لئے مضراور نقصان رسان ہے یہ صورت قائم نہیں رہے گی اور ایک دوسری صورت پیدا ہو جائے گی جو ہمارے لئے مفید ہے اور جیسا کہ چکی کو گردش دینے سے جو مُنہ کے سامنے حصہ چکی کا ہوتا ہے وہ پیچھے کو چلا جاتا ہے۔ اور جو پیچھے کا حصہ ہوتا ہے وہ مُنہ کے سامنے آجاتا ہے اسی طرح جو مخفی اور درپردہ باتیں ہیں وہ منہ کے سامنے آجائیں گی اور ظاہر ہو جائیں گی اور جو ظاہر ہیں وہ ناقابلِ التفات اور مخفی ہو جائیں گی اور پھر بعد اس کے فرمایا کہ یہ خدا کا فضل ہے جس کا وعدہ دیا گیا ہے یہ ضرور آئے گا اور کسی کی مجال نہیں جو اُس کو ردّ کر سکے یعنی آسمان پر یہ فیصلہ یافتہ امر ہے کہ یہ صورت موجودہ مقدمہ کی جس سے یاس اور نومیدی ٹپکتی ہے یک دفعہ اُٹھا دی جائے گی اور ایک اور صورت ظاہر ہو جائے گی جو ہماری کامیابی کے لئے مفید ہے جس کا ہنوز کسی کو علم نہیں۔ اور پھر فرمایا کہ کہہ مجھے میرے خدا کی قسم ہے کہ یہی بات سچ ہے اِس امر میں نہ کچھ فرق آئے گا اور نہ یہ امر پوشیدہ رہے گا اور ایک بات پیدا ہوجائے گی جو تجھے تعجب میں ڈالے گی۔ یہ اُس خدا کی وحی ہے جو بلند آسمانوں کا خدا ہے میرا ربّ اس صراط مستقیم کو نہیں چھوڑتا جو اپنے برگزیدہ بندوں سےعادت رکھتا ہے اور وہ اپنے ان بندوں کو بھولتا نہیں جو مدد کرنے کے لائق ہیں۔ سو تمہیں اِس مقدمہ میں کھلی کھلی فتح ہوگی مگر اس فیصلہ میں اُ س وقت تک تاخیر ہے جو خدا نے مقررکر رکھا ہے۔ تُو میرے ساتھ ہے اور میں تیرے ساتھ ہوں۔ تو کہہ ہر ایک امر میرے خدا کے اختیار میں ہے پھر اس مخالف کو اس کی گمراہی اورناز اور تکبر میں چھوڑ دے (یہ فقرہ وحی الٰہی کا ایک تسلی دینے کا فقرہ ہے کیونکہ جب ہماری نالش کے بعد اکثر قانون دان سمجھ گئے تھے کہ یہ دعویٰ بے بنیاد ہے ضرور خارج ہو جائے گا اور امام الدین مدعا علیہ کو ہر ایک پہلو سےیہ خبریں مل گئی تھیں کہ قانون کے رُو سے ہماری کامیابی کی سبیل بند ہے تو اِس وجہ سے اُس کا تکبر بہت بڑھ گیا تھا اوروہ دعوے سے کہتا تھا کہ وہ مقدمہ عنقریب خارج ہو جائیگا بلکہ یہی سمجھو کہ خارج ہو گیا اور شریر لوگوں نے اُس کا ساتھ دیا۔ چنانچہ یہ بات قریباً تمام گاؤں میں مشہور ہو گئی تھی کہ اس مقدمہ کو ہمارے مخالفوں نے ایسا سمجھ لیا ہے کہ گویا مقدمہ اُن کے حق میں فیصلہ ہو گیا ہے سو اِس جگہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیوں اِس قدر ناز اوررعونت دکھلا رہے ہو ہر ایک امر خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے اور وہ ہر ایک چیز پر قادر ہے جو چاہے کر سکتا ہے اور پھر مجھے مخاطب کرکے فرمایا کہ وہ قادر تیرے ساتھ ہے اُس کو پوشیدہ باتوں کا علم ہے بلکہ جو نہایت پوشیدہ باتیں ہیں جو انسان کے فہم سے بھی بر تر ہیں وہ بھی اُس کو معلوم ہیں ماحصل اس فقرہ وحی الٰہی کا یہ ہے کہ اس جگہ بھی ایک پوشیدہ امر ہے کہ جو اب تک نہ تجھے معلوم ہے اور نہ تمہارے وکیل کو اور نہ اُس حاکم کو جس کی عدالت میں یہ مقدمہ ہے اور پھر فرمایا کہ وہی خدا حقیقی معبود ہے اُس کے سوا کوئی معبود نہیں انسان کو نہیں چاہئے کہ کسی دوسرے پر توکل کرے کہ گویا وہ اُس کا معبود ہے ایک خدا ہی ہے جو یہ صفت اپنے اندر رکھتا ہے وہی ہے جس کو ہر ایک چیز کا علم ہے اورجو ہر ایک چیز کو دیکھ رہا ہے اور وہ خدا اُن لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور اُس سے ڈرتے ہیں اور جب کوئی نیکی کرتے ہیں تو نیکی کے تمام باریک لوازم کو ادا کرتے ہیں سطحی طور پر نیکی نہیں کرتے اور نہ ناقص طور پر بلکہ اُس کی عمیق در عمیق شاخوں کو بجا لاتے ہیں اور کمال خوبی سے اُس کا انجام دیتے ہیں سو اُنہیں کی خدا مدد کرتا ہے کیونکہ وہ اس کی پسندیدہ راہوں کے خادم ہوتے ہیں اور اُن پر چلتے ہیں اور چلاتے ہیں۔ اور پھر فرمایا کہ ہم نے احمد کو یعنی اِس عاجز کو اُس کی قوم کی طرف بھیجا۔ پس قوم اُس سے رُو گردان ہو گئی اور انہوں نے کہا کہ یہ تو کذاب ہے دنیا کے لالچ میں پڑا ہوا ہے یعنی ایسے ایسے حیلوں سے دنیا کمانا چاہتا ہے اور انہوں نے عدالتوں میں اُس پر گواہیاں دیں تا اُس کو گرفتار کرا دیں اور وہ ایک تُندسیلاب کی طرح جو اوپر سے نیچے کی طرف آتا ہے اُس پر اپنے حملوں کے ساتھ گر رہے ہیں۔ مگر وہ کہتا ہے کہ میرا پیارا مجھ سے بہت قریب ہے وہ قریب تو ہے مگر مخالفوں کی آنکھوں سے پوشیدہ ہے۔ یہ پیشگوئی ہے جو اُس وقت کی گئی تھی جبکہ مخالف دعویٰ سے کہتے تھے کہ بالیقین مقدمہ خارج ہو جائے گا اور میری نسبت کہتے تھے کہ ہم اُن کے گھر کے تمام دروازوں کے سامنے دیوار کھینچ کر وہ دُکھ دیں گے کہ گویا وہ قید میں پڑ جائیں گے اور جیسا کہ میں ابھی لکھ چکا ہوں خدا نے اس پیشگوئی میں خبر دی کہ میں ایک ایسا امر ظاہر کروں گا جس سے جو مغلوب ہے وہ غالب اور جو غالب ہے وہ مغلوب ہو جائے گا اور یہ پیشگوئی اس قدر شائع کی گئی تھی کہ بعض ہماری جماعت کے لوگوں نے اس کو حفظ کر لیا تھا اور صدہا آدمی اِس سے اطلاع رکھتے تھے اور تعجب کرتے تھے کہ یہ کیونکر ہوگا۔ غرض کوئی اِس سے انکار نہیں کر سکتا کہ یہ پیشگوئی قبل از وقت بلکہ کئی مہینے فیصلہ سے پہلے عام طور پر شائع ہو چکی تھی اور الحکم اخبار میں درج ہو کر دور دراز ملک کے لوگوں تک اس کی خبر پہنچ چکی تھی۔‘‘ (حقیقۃ الو حی،روحا نی خز ائن جلد ۲۲صفحہ۲۷۹تا۲۸۵)

سفر گو رداسپور: اللہ تعالیٰ سے تسلی پانے کے بعد حضور علیہ السلام نے اُس کی خوب تشہیر کی تاکہ یہ پیشگوئی زیادہ سے زیادہ لوگوں کے ازیادِ ایمان کا موجب بنے اوراس کے ذریعہ آپؑ کے مخالفین پر حجت قائم ہو۔ اسی رنگ سےکم وبیش ڈیڑھ سا ل کا عر صہ گزر گیا۔آخرکار ۱۵؍جولا ئی ۱۹۰۱ءکو فریق ثا نی کی درخو است پر حضور علیہ السلام کو گو رداسپو ر کا سفر اختیار کر نا پڑا۔حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی رضی اللہ عنہ اس سفر کی تفصیل بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’۱۵؍جولائی کی صبح کو حضرت اقدس نے دارالامان سے روانہ ہونے کا حکم دیا۔ چنانچہ حضور کے لئے پالکی کی سواری تیار کی گئی اوراحباب کے لئے یکے کئے گئے۔دارالامان سے حضرت اقدس مع زمرہ خدام قریباً ۷بجے روانہ ہوئے اورکوئی پاؤ میل تک پیدل تشریف لے گئے حضور کی روانگی کا یہ نظارہ بھی قابل دید تھا۔ ایک گروہ کثیر خدام کا آپ کو حلقہ میں لئے ہوئے جارہا تھا جس سے اس محبت اور عشق اورارادت کا پتہ ملتا تھا جو آپ کے مریدوں کو آپ سے ہے چونکہ حضرت مولوی نورالدین صاحب کو کچھ دیر لگی اس لئے حضور آپ کے انتظار کے لئے ٹھہرگئے۔ آخر مولوی صاحب کے پہنچنے پر احباب یکوں میں اور حضور پالکی میں سوار ہوکر رخصت ہوئے گورداسپور کو جاتے ہوئے راستہ میں ایک بہت بڑی نہر آتی ہے اورایک مقام پر وہ نہر دوبڑے شعبوں میں منقسم ہو کر بہتی ہے …اس مقام کانام ہم نے اپنے اس سفرنامہ میں مجمع البحرین رکھا ہے۔ جو احباب یکوں پر سوار ہوگئے تھے۔ وہ وہاں پہلے پہنچے۔ اس لئے حضرت اقدسؑ کے انتظار میں ٹھہر گئے۔چنانچہ کوئی آدھ گھنٹہ انتظار کے بعدحضر ت اقدسؑ کی سواری آپہنچی۔ حضرت اقدس نے کھانا کھانے کا حکم دیا دسترخوان بچھایا گیا۔ احباب نے کھانا کھایا۔ کھانا کھاچکنے کے بعد پھر احباب اور حضور اقدسؑ روانہ ہوئے…اور کوئی ڈیڑھ بجے کے قریب گورداسپو ر جاپہنچے۔
اگرچہ حضرت اقدسؑ کی دارالامان سے روانگی محض پرائیویٹ تھی اوراحباب کے طبقہ میں کوئی اطلاع اورخبر نہ تھی مگر کسی طرح جہاں جہاں احباب کو خبر پہنچی وہاں سے حضرت اقدسؑ کے خدام مشتاق زیارت دوڑے آئے۔ چنانچہ کپورتھلہ، امرتسر کے احباب جمع ہوگئے اوروہ دیوانہ وار حضرت اقدسؑ کے استقبال کے لئے کوئی دومیل تک دودفعہ آگے گئے اور آئے اورپھر گئے۔ کپورتھلہ کے احباب کو چونکہ۱۵؍جولائی تاریخ مقدمہ کی غلط اطلاع ملی تھی اس لئے ان کو بصد حسرت و افسوس۱۵ ہی کی شام کو واپس ہونا پڑا۔گورداسپور حضرت اقدسؑ نے مولانا محمد علی صاحب کی تجویز کے موافق ان کے خسر منشی نبی بخش صاحب رئیس گورداسپور کے عالی شان مکان میں قیام فرمایا۔مقدمہ کے متعلق باتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا اورکسی کے یہ کہنے پر کہ فریق مخالف نے بہت بے ہودہ جرح کرنے کا ارادہ کیا ہواہے آپ علیہ السلام نے فرمایا :’’میں اس بات کی کچھ پروانہیں کرتا۔ مومن کا ہاتھ اوپر ہی پڑتا ہے۔یَدُاللّٰہِ فَوْقَ اَیْدِیْھِمْ۔کافروں کی تدبیریں ہمیشہ الٹی ہوکر ان پر ہی پڑاکرتی ہیں۔ مَکَرُوۡا وَمَکَرَ اللّٰہُ ؕ وَاللّٰہُ خَیۡرُ الۡمٰکِرِیۡنَ۔میں یہ اچھی طرح جانتا ہوں کہ ان لوگوں کو میرے ساتھ ذاتی عداوت اوربغض ہے اوراس کی وجہ یہی ہے کہ ملل باطلہ کے ردکرنے کے لئے جس قدرجوش مجھے دیا گیا ہے میرا قلب فتویٰ دیتا ہے کہ اس تردید وابطال ملل باطلہ کے لئے اگر تمام رُوئے زمین کے مسلمان ترازوکے ایک پلہ میں رکھے جاویں اورمیں ا کیلا ایک طرف تومیراپلہ ہی وزن دار ہوگا۔ آریہ عیسائی اوردوسری باطل ملتوں کے ابطال کے لئے جب میرا جوش اس قدرہے پھر اگر ان لوگوں کو میرے ساتھ بغض نہ ہوتو اور کس کے ساتھ ہو۔ ان کا بغض اسی قسم کا ہے جیسے جانوروں کا ہوتا ہے۔ تین دن ہوئے مجھے الہام ہواتھا اِنِّیْ مَعَ الْاَفْوَاجِ اٰتِیْکَ بَغْتَۃً۔میں حیران ہوں یہ الہام مجھے بہت مرتبہ ہوا ہے اورعموماً مقدمات میں ہوا ہے۔ افواج کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ مقابل میں بڑے بڑے منصوبے کئے گئے ہیں اور ایک جماعت ہے۔کیونکہ خداتعالیٰ کا جوش نفسانی نہیں ہوتا اس کے توانتقام کے ساتھ بھی رحمانیت کا جوش ہوتاہے۔ پس جب وہ افواج کے ساتھ آتا ہے تو اس سے صاف پایا جاتا ہے کہ مقابل میں بھی فوجیں ہیں۔ جب تک مقابل کی طرف سے جو ش انتقام کی حدتک نہ ہوجاوے خداتعالیٰ کی انتقامی قوت جوش میں نہیں آتی اس کے بعد مقدمہ کے متعلق کچھ اورباتیں ہوتی رہیں لیکن بیچ میں کچھ نصیحتیں اورتقویٰ کی ترغیب اوراس کے خلاف کی ترہیب بھی ہوتی رہتی تھی۔شام کو حضرت اقدسؑ سیر کو تشریف لے گئے اوروہ رات اسی طرح پر مقدمہ کے متعلق بعض امور دریافت طلب اوربحث طلب میں مع الخیر گزرگئی۔ رات کو خواجہ کمال الدین صاحب پلیڈرپشاور سے تشریف لے آئے۔ ۱۶؍جولائی۱۹۰۱ء کو دس بجے کے بعد حضرت اقدسؑ کو شہادت میں پیش ہونا تھا۔ فجر کی نماز کے بعد کچھ دن چڑھتے پھر احباب کا مجمع ہوگیا اورمقدمہ ہی کے متعلق ذکر شروع ہوا۔‘‘(الحکم ۱؍جولائی
۱۹۰۱ء صفحہ ۹، ۱۰)
حضرت منشی عبدالعزیزؓ کا واقعہ :’’جس روزرات کو گورداسپور پہنچے تھے حضرت اقدسؑ کی طبیعت کسی قدر ناساز تھی۔بایں ہمہ حضرت اقدسؑ نے تمام احباب کو جو ساتھ تھے آرام کرنے اورسوجانے کی ہدایت فرمائی تھی چنانچہ تعمیل ارشاد کے لئے متفرق مقامات پر جاکراحباب سورہے۔برادرم عبدالعزیز صاحب اوردوتین اوردوست اس مکان میں رہے جہاں حضرت اقدسؑ آرام کرتے تھے۔ ساری رات حضرت اقدسؑ ناسازی طبیعت اورشدت حرارت کی وجہ سے سونہ سکے۔چونکہ بار بار رفع حاجت کی ضرورت محسوس ہوتی تھی۔ اس لئے بار باراٹھتے تھے۔ حضرت اقدسؑ ارشاد فرماتے تھے کہ میں حیران ہوں منشی عبدالعزیز صاحب ساری رات یا تو سوئے ہی نہیں اوریا اس قدر ہوشیاری سے پڑے رہے کہ ادھر میں سراٹھاتا تھا ادھر منشی صاحب فوراً اٹھ کر اورلوٹالے کر حاضر ہوجاتے تھے۔ گویا ساری رات یہ بندہ خدا جاگتا ہی رہا اور ایسا ہی دوسری رات بھی…پھر فرمایا کہ درحقیقت آداب مرشد اورخدمت گزاری ایسی شے ہے جو مرید و مرشد میں ایک گہرا رابطہ پیداکرکے وصول الی اللہ اورحصول مرام کا نتیجہ پیدا کرتی ہے۔ اس خلوص اوراخلاص کو جو منشی صاحب کا ہے ہماری جماعت کے ہر فرد کو حاصل کرنا چاہیے۔

کچہری کی طرف روانگی: جب دس بجے توحضرت اقدسؑ نے کچہری کو چلنے کا حکم دیا۔ چنانچہ ارشاد عالی سنتے ہی خدام اٹھ کھڑے ہوئے اور اس طرح پر کوئی چالیس آدمیوں کے حلقہ میں خداکا برگزیدہ ادائے شہادت کے لئے چلا۔ راستہ میں لوگ دوڑدوڑ کرزیارت کرتے تھے۔ آخر ضلع کی کچہری آگئی اور کچہری کے سامنے جو پختہ تالاب ہے اس کے جنوب اورشرقی گوشہ پردری بچھائی گئی اور حضرت اقدسؑ تشریف فرما ہوئے۔حضورؑ کا تشریف رکھنا ہی تھا کہ ساری کچہری امڈ آئی اور اس دری کے گرد ایک دیواربن گئی۔ زائرین کا ہجوم بڑھتا جاتاتھا چونکہ تیسری یا چوتھی دفعہ تھی جو حضورؑ گورداسپور کی کچہری میں رونق بخش ہوئے پہلے اورطرف بیٹھا کرتے تھے۔ اس طرف بیٹھنے کے لئے یہ پہلی مرتبہ تھی۔آپؑ نے فرمایا یہ جگہ باقی رہ گئی تھی۔ اس عرصہ میں ایک شخص معزز حضورؑ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بڑے تپاک اورخندہ پیشانی سے حضرت سے مصافحہ کیا اور کچھ باتیں کرتے رہے اور اپنے لڑکے کے لئے جو بیمار تھا دعا کے لئے عرض کی۔ آپؑ نے دعا کا وعدہ فرمایا۔ پھر اس نے عرض کیا کہ جناب ہمارے لئے ہی یہاں تشریف لائے ہیں اوراللہ تعالیٰ نے ہمارے واسطے ہی آپ کی تشریف آوری کی سبیل پیدا کی ہے کہ ہم مشتاقوں کوبھی آپ کی زیارت سعادت مندوبہرہ ورفرمائے۔حضرت نے جو اباً ارشاد فرمایا۔ہاں ایسا ہوتا ہے کہ خداتعالیٰ ان لوگوں کو بھی جوقادیان میں کسی وجہ سے نہیں آسکتے اوراپنے اندر اخلاص رکھتے ہیں ہماری ملاقات سے محروم نہ رکھے۔‘‘(الحکم۲۴؍جو لائی۱۹۰۱ءصفحہ۱۱ ،۱۲)

عدالت میں حضور علیہ السلام کا بیان :حضور علیہ السلام کے بیان سےپہلے مدعاعلیہ کے دو گواہ پیش ہوئے اس کے بعد حضر ت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان دیا۔ حضور علیہ السلام کابیان اخبا ر الحکم قادیان دارالامان سے درج کیا جاتا ہے:’’اللہ تعالیٰ حاضر ہے میں سچ کہوں گا۔میری عمر ساٹھ سال کے قریب ہے۔مرزا غلام جیلانی ہمارے جدیوں میں سے تھا۔اب تو اس کا کوئی گھر نہیں۔دوران مقدمہ ہذا میں مجھے معلوم ہواکہ غلام جیلانی نے امام الدین اور میرے والد صاحب پر مقدمہ کیا تھا۔پہلے صرف امام الدین کانام تھا پھر مرمت سوال سے میرے والد صاحب کا نام بھی لکھا گیایہ بات ہمارے مختاروں نے جنہوں نے اب مثل دیکھی ہے بتائی ہے۔میں نے سنا ہے کہ اس مثل میں کوئی نقشہ بھی ہے۔ایک چاہ پرانا ہے جو سلطان احمد پسرم کے مکان کے دروازہ کے آگے ہے چھ سات سال سے میں نے ایک چاہ اپنے زنان خانہ میں سہولت زنان خانہ کے لئے بنایا ہے۔سقہ بہت سا پانی نہیں دے سکتا۔اس وقت بھی اندر زنان خانہ میں پچاس یاساٹھ عورتیں ہیں۔جو چاہ متصل دروازہ مکان سلطان احمد کے ہے عرصہ سے ہمارے مصرف میں نہیں آتا۔ہمارے آدمی پانی لینے جاویں تو سلطان احمد کے آدمی روکتے ہیں۔سلطان احمدکا خاص کوئی آدمی نہیں ہےاس کی پہلی بیوی مر گئی ہے اب امام الدین مدعاعلیہ کی بیٹی اس کی بیوی ہےاور امام الدین کی بہن سلطان احمد کی تائی ہےجو میرے بھائی مرزا غلام قادرمرحوم کی بیوی ہے روکنے والی وہی امام الدین کی بہن سلطان احمد کی تائی ہےوہ بسازش امام الدین روکتی ہے۔میں نے اپنے کانوں سے ممانعت سنی ہے میں نے خود امام الدین کی ہمشیرہ کی زبانی سنا ہے کہ یہ لوگ میرے بھائی امام الدین و نظام الدین کے دشمن ہیں اور میرا رشتہ بھائیوں سے ہے میں نہیں چاہتی کہ یہ اس چاہ سے پانی بھریں ان کو روک دو۔میں نے اس کو بہت دفعہ کہتے سنا ہے۔سلطان احمد مجھ سے مخالفت رکھتاہے ایک وجہ مخالفت کی یہ ہے کہ وہ مرزا غلام قادر کا متبنی بنایا گیا تھا اور میری نصف جائیداد کا شریک کیا گیا تھا۔اب وہ اسی میں اپنی مصلحت دیکھتاہے کہ تائی کے ساتھ موافقت رکھے یہ اشتہار جومدعا علیہ دکھاتاہے۔ مطبوعہ۲؍مئی ۱۸۹۱ءمیرا ہے۔ زنان خانہ کا چاہ مردانہ کی ضرورتوں کے لئے ہرگز کافی نہیں ہے وہ صرف زنان خانہ کی سہولت کے لئے بنایا گیاہے۔امام الدین کے چاہ سے ہمارا سقہ بغیر ہمارے علم کے پانی لاتاہوگا۔کھلے طور پر ہم وہاں سے پانی نہیں لے سکتے کیونکہ دشنام دہی ہوتی ہے۔جب سے دیوار بنی ہے تب سے زیادہ روک دیا ہے۔دیوار جدیدبنائے جانے کے بعد تجویز تعمیر چاہ جدید کی ہوئی پانچ چھ ماہ ہوئے کہ چاہ جدید کا پانی استعمال میں آیا ہے۔اس سے پہلے بڑی مسجد میں بھی پانی لینے جاتے تھےجس جگہ چاہ جدید بنا ہے وہ احاطہ ہے۔چھاپہ خانہ اوربورڈنگ ہا ؤس بھی اسی احا طہ میں ہے۔مدرسہ اور بورڈنگ ہا ؤس میں ڈیڑھ سو آدمی ہوتا ہو گا اور دس پندرہ ملازم چھاپہ خانہ کے۔اورکبھی ستّر کبھی اسّی کبھی سو مہمان روزانہ اور مجمع میں جو سال میں تین چار مرتبہ ہوتاہے تین سو یا چار سو یا پانچ سو مہمان بھی آجاتے ہیں۔بورڈنگ ہاؤس تین یا چار سال سے بنا ہے جس کامجھے علم ہے۔لڑکوں اور مسافروں کے لئے پانی بھر نے کا سامان موجود ہے۔بورڈنگ ہاؤس کا سقہ کوئی خاص نہیں۔بورڈنگ ہاؤس کے کئی ملازم ہیں وہ گھڑاصراحی وغیرہ برتن بھر لیتے ہیں۔میں یقیناً نہیں کہہ سکتا اگر دور سے پانی لانا پڑے تو خرچ زیادہ پڑے۔گول کمرہ میں نے بنایا ہے میرے بھائی نے نہیں بنایا۔میں نے خود بحیات برادر خود بنایا ہے جب کہ وہ سخت بیمار تھےاور اُس مرض میں کہ اُس سے جاں بر نہ ہو سکتے تھے۔گول کمرہ کے سامنے چار دیواری چار برس سے بنائی گئی تھی۔تخمیناً ڈیڑھ سال ہوا چھوٹے بوہڑ والا مکان بنایا تھا۔چھ سات ماہ پہلے وہی بوہڑ والامکان بنانا چاہا تھا امام الدین بلوہ کرنے کے لئے آگیاچونکہ ہم احتیاط کیا کرتے ہیں ہم نے چھوڑ دیا دوسری مرتبہ پھر ہم نے ارادہ تعمیر کا کیا کہ پھر مدعا علیہ بلوہ کر نے آگیاپھر چھوڑدیا۔پھر تیسری مرتبہ ہم کو معلوم ہوا کہ مدعا علیہم کا منشا صرف شرارت کا تھادراصل مکان میں ان کا کوئی حق نہ تھا۔عورتوں نے کہا میں نے سناہے انہوں نے چھوڑ دیا فساد سے باز آگئے اور کہیں چلے گئے اس واسطے ہم نے مکان بنا لیا۔پولیس والا آدمی آیا تھاہم نے کہا کہ ہمارا ارادہ بلوہ کرنے کا نہیں اگر زیادہ روکا جاوے گا تو دیوانی سے فیصلہ کرالیں گے چونکہ انہوں نے دست برداری کی ہم نے مکان بنا لیا۔یہ جگہ جہاں دیوار بنائی گئی ہے تخمیناً ۲۶سال یا دو تین سال کم و بیش سے شارع عام ہےگول کمرہ میں سے ایک دروازہ ہے جہاں سے میں بڑی مسجد کو جا سکتاہوں۔چھوٹی مسجد تو ہمارے گھر کا ایک حصہ ہے۔زنان خانہ میں جو دروازہ ہے اس میں سے گذر کر اگر بڑی مسجد کو جاناچاہوں تو پہلے کوٹھی پر چڑھنا پڑتا ہےپھر دوسری طرف سے اُترکر بڑی مسجد کو جا سکتاہوں اگر میں اوپر نہ چڑھوں توکوئی راستہ نہیں ہےدیوار حائل ہے۔

اس دیوار کے بننے سے مجھے بڑی ذاتی تکلیف ہوئی ہے ذاتی تکلیف سے یہ مراد ہے کہ مالی تکلیف ہوئی ہے کہ کنواں بنانا پڑا اور چھاپہ خانہ کا بہت بڑا حرج ہوا۔مسافر اور میرے ملاقاتی جو بڑے معزز اور شریف آدمی ہوتے ہیں وہ ملاقات کے لئے ترستے رہتے ہیں میں اوپر ہوتا ہوں اور وہ نیچے۔ میں الفاظ میں نہیں بیان کر سکتا کہ مجھے اس سے کس قدر درد پہنچتاہے۔آٹھ نو ماہ ہوئے ایک شریف عرب مجھے ملنے آیا اس کو چوٹیں لگیں کیونکہ راستہ چکر دار ہے وہ بہت خراب ہے اور پتھریلا ہے برسات میں خصوصاً چلنے کے قابل نہیں ہوتا۔دیوار متنازعہ کے نیچے کوئی فرش نہیں لگادیکھا۔بازار میں پکا فرش ہے ہماری گلیوں میں پکا فرش نہیں ہے مجھے خبر نہیں کہ اور گلیوں میں ہے یا نہیں۔‘‘(الحکم قادیان دارالامان۳۱؍جولائی ۱۹۰۱ءصفحہ۷ ،۸)

الحکم قادیان دارالامان نے ۱۰؍اگست۱۹۰۱ء کی اشاعت میں اس مقدمہ کی مزید تفصیل بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مدعی کے سوال پر بیان کیا۔چکر دار راستہ پتھریلا ہے جہاں انسان مشکل سے گذرتا ہے۔اگر مدعاعلیہ کے مکان کے چاہ سے ہمارے ہاں چھوٹی مسجد میں پانی سقہ لاوے تو دیوار متنازعہ کے راستہ آوے گا۔ہمارا اور مدعا علیہ کا سقہ جدّی سقہ ہے اپنے تعلق سے اس چاہ سے پانی لاتاہے ہمارے مہمانوں کے یکے اس میدان میں کھڑے ہوتے ہیں سال میں تیس ہزار کے قریب مہمان آتے جاتے ہیں۔ان کے یکے اسی جگہ کھڑے ہوتے ہیں اور گرمی کے دنوں میں اس میدان میں سوتے ہیں۔

اگر چاہ جدید سے سقہ چھوٹی مسجد کو آوے گاتب بھی وہ اس دیوار کے راستہ سےآوے گااس دیوارکےبننے سے پیشتر مہمان دونوں وقت میرے ساتھ کھانا کھاتے تھےاور نمازیں پڑھتے تھے اور تعلیمی باتیں سنتے تھے جن کے لئے میں خدا کی طرف سے آیا ہوں اب اگر اوپر آتے ہیں توبڑی تکلیف سے چکر کھا کر آتے ہیں اور صبح اور عشاء کی نماز میں ضعیف اور کمزور آدمی میرے ساتھ شریک نہیں ہوسکتے ان مہمانوں کی غرض جو میرے پاس آتے ہیں دین سیکھنے کی ہوتی ہے لیکن جب اس دیوار کی وجہ سے ان کو تکلیف پہنچتی ہے تو مجھے ان تمام تکالیف کا صدمہ ہوتاہے۔جو کام میں کرناچاہتاہوں اس میں دقت پیدا ہوتی ہے۔میرے پاس الفاظ نہیں ہیں جن میں میں ان تکالیف کو بیان کر سکوں مہمان کہیں ہوتے ہیں اور میں کہیں۔وہ اس بات سے محروم رہتے ہیں جس کے لئے آتے ہیں ا ور میں اپنا کام نہیں کر سکتا جس کے لئے میں بھیجا گیا ہوں برسات میں تو راستہ گذرنے کے قابل ہی نہیں ہوتا۔مطبع کے پروف اور کاپیاں میں خود ہی دیکھتاہوں۔کارپردازوں کو دن میں چار پانچ مرتبہ میرے پاس آنا پڑتا ہےاس دیوار کی وجہ سے پابندی نہیں ہوسکتی جس سے حرج ہوتاہےکام میں توقف ہوتاہے۔میرے لنگر خانہ کا خرچ کبھی ہزار کبھی پندرہ سو اور کبھی دو ہزار روپے ماہوار ہوتاہے۔اور مطبع کا مستقل خرچ اڑھائی سو روپیہ ماہوار ہے۔قبل از تعمیر دیوار میرے باہر جانے کا راستہ اسی طرف سے تھا جہاں دیوار ہے۔میں زنانخانہ سے عموماً نہیں گذرتا ہوں کیونکہ وہاں مہمان عورتیں موجود ہوتی ہیں اس لحاظ سے کہ ممکن ہے عورتیں کسی حال میں ہوں ہمیشہ اوپر سے ہی آتا ہوں۔مدعاعلیہم کو میرے ساتھ قریباً انیس بیس سال سے عداوت ہے عداوت کی ایک وجہ یہ ہے کہ میرزا امام الدین کی ہمشیرہ میرزا اعظم بیگ کے لڑکے مرزا اکبر بیگ سے بیاہی گئی تھی او ر مرزا اعظم بیگ قادیان کی اراضی کا خریدار ہوا تھا اس نے ان لوگوں کے حصے خریدے جو بے دخل تھے۔

ایک وجہ عداوت کی یہ بھی ہے کہ جو بڑی وجہ ہے کہ مرزا امام الدین خدا اور رسول کے خلاف کتابیں لکھتا ہے۔چنانچہ دیدِ حق،قصہ ہر دوکافر جس میں مجھ کو اور محمدحسین بٹالوی دونوں کو کافر قرار دیاہے۔اور گل شگفت وغیرہ کتابیں اس نے لکھی ہیں۔میں نے جو کتاب براہین احمد یہ لکھی ہے اُس میں چھوٹی مسجد کا ذکر ہے اس لئے حا شیہ در حا شیہ نمبر۴ میں اسی مسجد کا ذکر ہے یہ کتا ب۱۸۸۰ءمیں لکھی تھی۔شحنہ حق بھی میری کتاب ہےآریوں کےخلا ف ہے۔ست بچن اور آریہ دھرم میری تصنیف ہے۔یہ اشتہا ر مو رخہ دہم جو لائی ۱۸۸۸ء میرا ہی ہے جو مرزا نظا م الدین کے خلاف ہے۔یہ اشتہا ر ۴؍مئی۱۸۹۸ءامہات المؤمنین کے متعلق میں نے گو رنمنٹ میں بھیجا تھااور شائع کیا تھا۔مکرر سو ال مدعا علیہ پر کہا۔

کبھی سیر کو جا تا ہوں اور کبھی نہیں جاتا۔عموماًصبح کے وقت جا تا ہوں شام کو کبھی شاذ و نا در ہی جا تا ہوںمیر ی بیو ی کو مراق کی بیما ری ہے کبھی کبھی وہ میر ے سا تھ ہو تی ہےکیو نکہ طبعی اصو ل کے مطا بق اس کے لئے چہل قد می مفید ہےان کے سا تھ چند خا دم عو رتیں بھی ہو تی ہیں اور پر دہ کا پو را التزام ہو تا ہے۔خا دم عورتوں سے مراد خدمتگار عو رتیں ہیں۔پندرہ سولہ عو رتیں ہیں چند فارغ خدمتگاروں کو ساتھ لے لیتی ہیں۔یہ بات عام نہیں ہےبلکہ علاج کے طور پر ہےبرس میں دو چار مرتبہ ایسا اتفاق ہو تا ہے۔کبھی کوئی اور ضعیفہ عو رتیں بھی ساتھ چلی جاتی ہیں تو ہم مانع نہیں ہوتے۔(الحکم قادیان دارالامان نمبر ۲۹ جلد۵۔ ۱۰؍اگست۱۹۰۱ءصفحہ۱۴، ۱۵)

مقدمہ کا فیصلہ اور نصرتِ الٰہی کا ظہور: اللہ تعالیٰ کی عجیب شان ہے جسے چاہتا ہے نمایاں اور ممتاز کرکے تخت ِ شاہی پر بٹھا دیتاہے اور جس کو چاہتا ہے ذلیل وخوار کرکے پستی میں گرادیتا ہے :قُلِ اللّٰہُمَّ مٰلِکَ الۡمُلۡکِ تُؤۡتِی الۡمُلۡکَ مَنۡ تَشَآءُ وَتَنۡزِعُ الۡمُلۡکَ مِمَّنۡ تَشَآءُ ۫ وَتُعِزُّ مَنۡ تَشَآءُ وَتُذِلُّ مَنۡ تَشَآءُؕ بِیَدِکَ الۡخَیۡرُ ؕ اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ(آل عمران:۲۷) تُو کہہ دے اے میرے اللہ ! سلطنت کے مالک ! تُو جسے چاہے فرمانروائی عطا کرتا ہے اور جس سے چاہے فرمانروائی چھین لیتا ہے۔ اور تُو جسے چاہے عزت بخشتا ہے اور جسے چاہے ذلیل کر دیتا ہے۔ خیر تیرے ہی ہاتھ میں ہے۔ یقیناً تُو ہر چیز پر جسے تُو چاہے دائمی قدرت رکھتا ہے۔پس تمام قدرت وطاقت اُسی کے ہاتھ میں ہے وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ اِنَّ اللّٰہَ یَفْعَلُ مَا یُرِیْدُ (الحج:۱۵) یقیناً اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔اِنَّ اللّٰہَ یَفْعَلُ مَا یَشَآءُ (الحج:۱۹) یقیناً اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔

بظاہر اس مقدمہ کا فیصلہ حضور علیہ السلام کے حق میں آنا ناممکن لگ رہا تھا لیکن جنابِ الٰہی کے کاموں میں کون دخل دے سکتا ہے؟ وہی مضطر دلوں کی فریادسنتا اوریاس کو آس میں بدلنے کی طاقت وقوت رکھتا ہے۔وہ اپنے پیاروں کی تائیدونصرت فرماتا ہے اوراُن کو مصیبت سے نکال کر راحت عطافرمادیتاہے۔پس اُس نے ناممکن کو ممکن میں بدل دیا۔

غیر ممکن کو یہ ممکن میں بدل دیتی ہے
اے میرے فلسفیو! زورِ دعا دیکھو تو
جس کو چاہے تختِ شاہی پر بٹھا دیتا ہے تُو
جس کو چاہے تخت سے نیچے گرا دے کرکے خوار

۱۶؍جولا ئی کے بعد مقد مہ ۱۰؍اگست تک ملتو ی کردیا گیا۔دوسر ے دن علی الصبح حضرت اقدس علیہ السلام مراجعت برائے قادیان ہوئےاور گیا رہ ساڑھے گیا رہ بجے کے قریب بخیروعافیت دارالامان پہنچ گئے۔۱۰؍اگست کو مدعی علیہ کے دوسرے گو اہ پیش ہوئےاور وُکلا ء کی بحث ختم ہو گئی۔بالآخر ۱۲؍اگست ۱۹۰۱ءکواس مقدمہ کا فیصلہ سنایا گیا۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام عدالت کے فیصلہ کے متعلق فرماتے ہیں کہ ’’پھر فیصلہ کا دن آیا اُس دن ہمارے مخالف بہت خوش تھے کہ آج اخراج مقدمہ کا حکم سنایا جائے گا اور کہتے تھے کہ آج سے ہمارے لئے ہر ایک قسم کی ایذاکا موقع ہاتھ آجائے گا وہی دن تھا جس میں پیشگوئی کے اس بیان کے معنی کھلنے تھے کہ وہ ایک امر مخفی ہے جس سے مقدمہ پلٹا کھائے گا اور آخر میں وہ ظاہر کیا جائے گا۔ سو ایسا اتفاق ہوا کہ اس دن ہمارے وکیل خواجہ کمال الدین کو خیال آیا کہ پُرانی مثل کا انڈیکس دیکھنا چاہئے یعنی ضمیمہ جس میں ضروری احکام کا خلاصہ ہوتا ہے جب وہ دیکھا گیا تو اس میں وہ بات نکلی جس کے نکلنے کی توقع نہ تھی یعنی حاکم کا تصدیق شدہ یہ حکم نکلا کہ اس زمین پر قابض نہ صرف امام الدین ہے بلکہ میرزا غلام مرتضیٰ یعنی میرے والد صاحب بھی قابض ہیں۔ تب یہ دیکھنے سے میرے وکیل نے سمجھ لیا کہ ہمارا مقدمہ فتح ہو گیا۔ حاکم کے پاس یہ بیان کیا گیا اُس نے فی الفور وہ انڈیکس طلب کیا اور چونکہ دیکھتے ہی اُس پر حقیقت کھل گئی اِس لئے اُس نے بلا توقف امام الدین پر ڈگری زمین کی بمعہ خرچہ کردی۔ اگر وہ کاغذ پیش نہ ہوتا تو حاکم مجوز بجز اس کے کیا کر سکتا تھا کہ مقدمہ کو خارج کرتا اور دشمن بد خواہ کے ہاتھ سے ہمیں تکلیفیں اُٹھانی پڑتیں۔ یہ خدا کے کام ہیں وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ اور یہ پیشگوئی درحقیقت ایک پیشگوئی نہیں بلکہ دو پیشگوئیاں ہیں کیونکہ ایک تو اس میں فتح کا وعدہ ہے اور دوسرے ایک امر مخفی کے ظاہر کرنے کا وعدہ ہے جو سب کی نظر سے پوشیدہ تھا اور ہم اس جگہ بہت خوشی اور خدا کے شکر کے ساتھ کہتے ہیں کہ اس پیشگوئی کی سچائی کا گواہ حاکم مجوز مقدمہ بھی خدا کی قضاو قدر نے کر دیا ہے جس شہادت سے وہ اپنے تئیں علیحدہ نہیں کر سکتا گو ہمارا مذہبی مخالف ہے یعنی شیخ خدا بخش ڈسٹرکٹ جج۔ کیونکہ وہ گواہی دے سکتا ہے کہ ہمارے وکیل نے باوجود کئی پیشیوں کے اِس قوی حجت کو پیش نہیں کیا صرف مقدمہ کے آخری مرحلہ پر محض خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ عقدہ کھلا چنانچہ ہر ایک شخص جو شیخ خدا بخش کے فیصلہ کو دیکھے گا اُس پر فی الفور ظاہر ہو جائے گا کہ مُدّت تک ہمارا پلیڈر محض سماعی شہادتوں سے کام لیتا رہا جو ایک جوڈیشل فیصلہ کے مقابل پر ہیچ تھیں کیونکہ امام الدین مدعا علیہ نے جس مثل کو اپنے مخصوص قبضہ ثابت کرنے کے لئے پیش کیا تھا اُس میں تو صرف امام الدین کا نام تھا میرے والد صاحب کا نام نہ تھا اس میں بھیدیہ تھا کہ غلام جیلانی اصل مالک زمین نے امام الدین پر ہی نالش کی تھی اور اُس کی عرضی پر مدعا علیہ صرف امام الدین ہی لکھا گیا تھا اور پھر اطلاع پانے کے بعد میرے والد صاحب نے بذریعہ اپنے مختار کے مدعا علیہم میں اپنا نام بھی لکھوا دیا تھا جس سے مطلب یہ تھا کہ ہم دونوں قابض ہیں۔ اور وہ کاغذات کسی اتفاق سے تلف ہوگئے تھے اور صرف امام الدین کا نام مدعی کے عرضی دعوے پر باقی رہ گیا تھا جس سے یہ سمجھا جاتا تھا کہ قابض زمین صرف امام الدین ہے سو یہی مخفی راز تھا جو ہمیں معلوم نہ تھا اور جب خدا تعالیٰ نے چاہا تو انڈیکس کی مدد سے وہ مخفی حقیقت ظاہر ہو گئی۔ اور جیسا کہ پیشگوئی میں ہے ایک دم میں چکی پھر گئی۔ ظاہر ہے کہ چکی کی روش سے جو حصہ چکی کا آنکھ سے پوشیدہ ہوتا ہے وہ آنکھ کے سامنے آجاتا ہے اور جو سامنے ہوتا ہے وہ پوشیدہ ہوجاتا ہے۔ پس یہی حال اِس مقدمہ کا ہوا یعنی جو وجوہات قبل اِس سے حاکم کی نظر کے سامنے تھے یعنی یہ کہ غلام جیلانی مدعی نے اپنے عرضی دعوے میں صرف امام الدین کو قابض ظاہر کیا ہے انڈکس پیدا ہونے سے یک دفعہ یہ وجوہات ناپید ہوگئے اور چکی کی پوشیدہ طرف کی طرح نئے وجوہات نظر کے سامنے آگئے اور جس پوشیدہ امر کے لئے اِس پیشگوئی میں خدا تعالیٰ نے وعدہ کیا تھا کہ آخر کار میں ظاہر کردوں گا وہ ظاہر ہو گیا۔ بات یہ ہے کہ غلام جیلانی کی نالش کا مقدمہ ایک پُرانے زمانہ کا تھا جس پر قریباً چالیس برس کے گذر گئے تھے اور وہ مقدمہ میرے والد صاحب کے وقت کا تھا مجھ کو اس سے کچھ اطلاع نہ تھی اور چونکہ مدعی کے عرضی دعوے میں صرف امام الدین کا نام مدعا علیہ لکھا گیا تھا اور باقی کاغذات تلف ہو چکے تھے اور تیس۳۰ برس گزر گئے تھے جبکہ میرے والدصاحب اور نیز بعد اُن کے میرے بڑے بھائی بھی فوت ہو چکے تھے اِس لئے اِن پوشیدہ باتوں کی مجھ کو کچھ خبر نہ تھی۔اب سوچنا چاہئے کہ یہ کس قدر عظیم الشان پیشگوئی ہے جو نصرتِ الٰہی سے خمیر کی گئی ہے اب جو شخص ایسی پیشگوئیوں کی بھی تکذیب کرے گا تو ہمیں اُس کے اسلام کی کچھ خیر نظر نہیں آتی افسوس کہ یہ لوگ خدا تعالیٰ کی نصرت کی بھی قدر نہیں کرتے۔‘‘(حقیقۃ الو حی،روحانی خزائن جلد ۲۲صفحہ۲۸۳تا۲۸۵)

قادیان میں فیصلہ کی اطلاع: تاریخ احمدیت میں لکھا ہے کہ ’’۱۲؍اگست ۴بجے شا م کو مقد مہ کی فتحیا بی کی خبر قا دیان میں پہنچی تو جماعت میں خو شی کی لہر دوڑ گئی۔حضر ت مولوی عبد الکریم صا حب،مو لو ی محمد علی صاحب،مرزاخدابخش صاحب،حکیم فضل دین صاحب،قاضی ضیاءالد ین صاحب،پیر سراج الحق صاحب اور بھا ئی عبدالر حیم صاحب مسجد میں بیٹھے تھے کہ حضرت میر ناصر نواب صاحب نے دوڑتے ہو ئے یہ خوشخبر ی سنا ئی کہ دیو ار کو وہی بھنگی ڈھا رہا ہےجو اس شر اور فتنہ کے دن سے اسے کھڑا کر نے کے لئے مقر ر کیا گیا تھا۔حضرت مسیح موعودؑ کی خو شی کااس دن کو ئی ٹھکا نہ نہیں تھا۔چنا نچہ حضورؑ نے فر مایا :’’گو یا ایک سا ل آٹھ ماہ کا رمضا ن تھا جس کی آج عید ہوئی۔‘‘(تاریخ احمد یت جلد ۲صفحہ۸۱۔مطبوعہ قادیان۔ ایڈیشن ۲۰۰۷ء)

حضورؑ کی طرف سے خرچہ کی معافی : ’’عدالتی فیصلے میں مرزا امام دین صاحب پر مقدمہ کا خرچہ ڈالا گیا تھااس لئےحضور کے وکیل نے (حضو رؑ کی اطلاع اور مشورہ کے بغیر)خر چہ کی ڈگری لے کر اس کا اجرا کروادیا۔حضر ت اقدسؑ اس وقت گورداسپو ر میں فر و کش تھے۔اور آپ کی عدم مو جو دگی میں ہی سرکاری آدمی قا دیا ن آیا۔مرزا اما م دین صاحب تو اس دوران میں فو ت ہو چکے تھےاور مر زا نظام دین صا حب ان کے بھائی زند ہ تھے مگر ان کی حالت ان مظالم کی پاداش میں اب اس درجہ ابتر ہو چکی تھی کہ وہ مطلو بہ رقم مبلغ ایک سو چوالیس روپیہ پا نچ آنہ سات پا ئی بھی ادا کر نے سے قا صر تھے اور قرقی کےسوا اور کوئی صورت نہیں تھی اس لئے انہو ں نے حضر ت مسیح مو عود علیہ السلام کی خدمت میں بذریعہ خط درخو است کی کہ انہیں یہ رقم معا ف کر دی جائے۔ادھر… حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کو عشا ء کے وقت اللہ تعالیٰ نے بذریعہ الہام یا خواب اطلاع دی کہ یہ بار ان پر بہت زیا دہ ہے اور اس کی وجہ سے مخالف رشتہ دار بہت تکلیف میں ہیں۔آپؑ نے فرمایا کہ مجھے رات نیند نہیں آئے گی۔اسی وقت آ دمی بھیجا جائے جو کہہ دے کہ ہم نے یہ خر چ تمہیں معا ف کر دیا ہے۔اس کے ساتھ ہی حضورؑ نے معذرت بھی کی کہ’’میر ی لاعلمی میں یہ تکلیف پہنچی ہے ‘‘ اور اس کا رروائی پر جو آپ کی لاعلمی میں ڈگری کے اجراء کے متعلق کی گئی خفگی کا اظہا ر فرمایا۔حضو رؑ نے ۲۱؍اکتوبر کو باقا عد ہ ایک تحریر بھی عدالت کو بھجوائی کہ میں مرزا نظام الدین صاحب کو مقد مہ دیوار کے خر چہ کی رقم معاف کر تا ہوں جس کی ڈگری کا اجراء میرے مختا ر حکیم فضل دین صا حب نے کروایا ہے۔میرا خرچہ کا کوئی مطا لبہ نہیں اس لئےکاغذات داخل دفتر کئے جا ئیں۔‘‘ (تاریخ احمد یت جلد ۲صفحہ۸۱۔مطبوعہ قادیان۔ ایڈیشن ۲۰۰۷ء)

خلاصہ کلام یہ کہ جب تقدیر الٰہی کی مسموم ہوائیں چلتی ہیں توتبدیلی کا پہیہ خودبخودگردش کرنے لگتا ہے۔ ایسے میں تائیدات سماوی کی موسلا دھار بارش کا نزول قدرتی امر ہے۔ پس مقدمہ میں خارق عادت اور حیرت انگیز نشان کا ظاہر ہونا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کاعظیم نشان ہے۔اللہ تعالیٰ کی مرضی اور اُس کی منشاءسے قضاء وقدر کی چکی گردش میں آئی اور یکایک پردہ غیب سے ایسے اسباب پیدا ہوئے جنہوں نے آپ کو فتحیاب کر دیا۔فَاعْتَبِرُوْا یٰٓاُولِی الْاَبْصَارِ (الحشر:۳)پس صاحبِ بصیرت لوگوں کے لیے یہ ایک بہت بڑا نشان ہے اے کاش ! ہمارے مخالفین تقویٰ کی راہوں پر قدم ماریں اور خدائے تعالیٰ کے مامور کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنی دنیا اور آخرت سنوار لیں۔ فَاتَّقُوااللّٰہَ یٰٓاُولِی الْاَلْبَابِ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ (المآئدۃ:۱۰۱)پس اے عقل والو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔

مزید پڑھیں: دعاؤں کی قبولیت-ہستی باری تعالیٰ کا ثبوت

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button