متفرق مضامین

’’بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے‘‘

(چوہدری نعیم احمد باجوہ۔ نمائندہ الفضل انٹرنیشنل برکینافاسو)

’’خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا اور میری محبت دلوں میں بٹھائے گا اور میرے سلسلہ کو تمام زمین میں پھیلائے گا اور سب فرقوں پر میرے فرقہ کو غالب کرے گا اور میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کے رُو سے سب کا منہ بند کر دیں گے اور ہر ایک قوم اس چشمہ سے پانی پیئے گی اور یہ سلسلہ زور سے بڑھے گا اور پھولے گا یہاں تک کہ زمین پر محیط ہو جاوے گا‘‘

چند دن ہوئے ایک عزیز کا پیغام آیا کہ’’حضرت مسیح موعود ؑ کے الہام بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت پائیں گے پر کوئی مضمون ہو تو بھجوائیں۔‘‘ انہیں بتایا کہ الہام کے الفاظ ’’بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے‘‘ ہیں تاہم اس کے ساتھ ہی ذہن اس طرف منتقل ہواکہ برکت پائیں گے کی بجائے ’’برکت ڈھونڈیں گے‘‘ کے الفاظ میں بڑی حکمت معلوم ہوتی ہے۔ اس حوالے سے چند ایک باتیں اس مضمون میں بیان کی جاتی ہیں۔

لفظ ’’پانا‘‘ میں کسی موقع، چیز، رتبہ، مقام، ہدف،مراد وغیرہ کے حصول کے معنی ہیں۔ تاہم ’’پانے ‘‘ میں ضروری نہیں کہ ہر دفعہ بہت محنت، مشقت، کوشش اور سعی بھی شامل ہو۔ کوئی راہ گیر راستے میں کوئی گری ہوئی چیز یارقم پا لیتا ہے۔کوئی حادثاتی طور پر کسی مقام،مرتبہ یا عہدہ کوپالیتا ہے۔ بہت دفعہ عہدوں اور مراتب پالینے میں ضروری نہیں کہ تلاش، کوشش اور سعی شامل ہو۔ کسی جان لیوا حادثے کی صورت میں عام طورپر سرکاری محکموں میں اس خاندان کی مدد کے لیے مرحوم کے ورثاء میں سے کسی کو ترجیح دی جاتی ہے کہ وہ اس محکمہ میں بھرتی ہو جائے۔ ان حالات میں ضروری نہیں ہوتا کہ تمام شرائط کو مدنظر رکھا جائے۔ ایسا موقع پالینا لازمی طور پر محنت اور مشقت کو نہیں چاہتا۔

لیکن لفظ ’’ڈھونڈنا‘‘ میں تلاش کرنا، جستجو کرنا، حصول کے لیےکوشش کرنا، ضرورت مند ہونا، طلب گارہونا۔ جس چیز،مقام، مرتبہ کی تلاش ہو اس کی قدر معلوم ہونا۔ اہمیت کا علم ہونا، اپنے آپ کو اس مقام مرتبہ کااہل بنانے کی کوشش کرنا سب معنی شامل ہوجاتے ہیں۔جب تک سخت ضرورت نہ ہو ہم کوئی چیز یونہی ڈھونڈتے نہیں پھرتے۔بہت دفعہ ہم ضرورت کی چھوٹی سی چیز ڈھونڈنے میں اپنے وسائل اور وقت صَرف کرتے ہیں۔ اور ایسا اس لیے کرتے ہیں کہ بظاہر چھوٹی سی چیز اس وقت ہمارے لیے بہت اہمیت رکھتی ہے۔

جب ایک مریض دوائی تلاش کرتا ہے تو اسے اپنی صحت کےلیے دوائی کی اہمیت معلوم ہوتی ہےا س لیے دوائی کے حصول یا علاج کے لیے وسائل بروئے کار لائے جاتے ہیں۔ کوئی فرد نوکری یا کام ڈھونڈتا ہے تو اسے اس کام کی قدر معلوم ہوتی ہے۔ چنانچہ اس کے حصول کی خاطر ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔ تعلقات استعمال کرتا ہے۔ سفارش میسر ہو جائے تو اسے استعمال میں لاتا ہے۔ کئی جگہ رابطے کرتا ہے۔ اخبارات دیکھتا ہے اور اشتہارات پڑھتا ہے گویا ایک لگن کے ساتھ کام تلاش کرتا ہے، صرف اس لیے کہ ایسا کرنا اس کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک کھلاڑی، ایک طالب علم اپنے ہدف کو حاصل کرنے کے لیےدن رات محنت مشقت اور ریاضت کرتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ ٹارگٹ کا حصول اس کے لیے کتنا اہم ہے۔علیٰ ہذا القیاس۔

حضرت مسیح موعودؑ کےاس الہام میں خدا تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ’’بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے‘‘ بڑا معنی خیز معلوم ہوتا ہے۔ گویا ایک وقت آئے گا کہ کئی بادشاہ ایسے ہوں گے جو حضرت مسیح موعودؑ سے برکات کے حصول کے لیے کوشاں ہوں گے۔ الہام میں جمع کا صیغہ ا س طرف اشارہ کرتا ہے۔ وہ بادشاہ ان برکات کو اپنے لیے ضروری سمجھیں گے۔ان بادشاہوں کو یہ احساس ہوگا کہ ان برکات کی اہمیت کیا ہے۔اوران کا حصول اعزاز سمجھا جائے گا۔وہ برکات کی تلاش میں سرگرداں ہوں گے۔اور کوشش کریں گے کہ کسی طرح یہ انہیں عطا ہو جائیں۔

نبی کریم ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ(المدثر:۵) کا حکم دے کر جہاں اپنے قریبی رشتہ داروں اورصحابہ کی تربیت اور تطہیر کا ارشاد فرمایا، وہاں خدا تعالیٰ کے نبیوں، خلفاء اور اولیاء اللہ کے ظاہری لباس اور کپڑوں سے برکات کا حصول بھی مسلم ہے۔ صحابہ کرامؓ کا آنحضرت ﷺ سے تبرکاً کپڑے لینے اور اس لباس کو اپنا کفن بنانے کی وصیت کرنے کے واقعات ملتے ہیں۔پھر ظاہری لباس سے غیروں کو برکت ملنے کا واقعہ بھی ہے۔

’’حضرت عمرؓ  کی ٹوپی کی برکت اور قیصر روم کے بارے میں ایک ذکر ملتا ہے۔ اس کو حضرت مصلح موعوؓ دنے بیان فرمایا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں ایک دفعہ قیصر کے سر میں شدید درد ہوا اور باوجود ہر قسم کے علاج کے اسے آرام نہ آیا۔ کسی نے اسے کہا کہ حضرت عمرؓ کو اپنے حالات لکھ کر بھجوا دو اور ان سے تبرک کے طور پر کوئی چیز منگواؤ۔ وہ تمہارے لیے دعا بھی کریں گے اور تبرک بھی بھجوا دیں گے۔ ان کی دعا سے تمہیں ضرور شفاحاصل ہو جائے گی۔ اس نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس اپنا سفیربھیجا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سمجھا کہ یہ متکبر لوگ ہیں۔ میرے پاس اس نے کہاں آنا ہے۔ اب یہ دکھ میں مبتلا ہوا ہے تو اس نے اپنا سفیر میرے پاس بھیج دیا ہے۔ اگر میں نے اسے کوئی اور تبرک بھیجا تو ممکن ہے وہ اسے حقیر سمجھ کر استعمال نہ کرے۔ اس لیے مجھے کوئی ایسی چیز بھجوانی چاہیے جو تبرک کا کام بھی دے اور اس کے تکبر کو بھی توڑ دے۔ چنانچہ انہوں نے اپنی ایک پرانی ٹوپی جس پر جگہ جگہ داغ لگے ہوئے تھے اور جو میل کی وجہ سے کالی ہوچکی تھی اسے تبرک کے طور پر بھجوا دی۔ اس نے جب یہ ٹوپی دیکھی تو اسے بہت بُرا لگا تو اس نے ٹوپی نہ پہنی مگر خدا تعالیٰ یہ بتانا چاہتا تھا کہ تمہیں برکت اب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ہی حاصل ہو سکتی ہے۔اسے اتنا شدید درد سر ہوا کہ اس نے اپنے نوکروں سے کہا وہ ٹوپی لاؤ جو عمرؓ نے بھجوائی تھی تاکہ میں اسے اپنے سر پر رکھوں۔ چنانچہ اس نے ٹوپی پہنی اور اس کا درد جاتا رہا۔ چونکہ اسے ہر آٹھویں دسویں دن سردرد ہوجایا کرتا تھا اس لیے پھر تو اس کا یہ معمول ہو گیا کہ وہ دربار میں بیٹھتا تو وہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی میلی کچیلی ٹوپی اس نے اپنے سر پر رکھی ہوئی ہوتی۔‘‘ (خطبہ جمعہ ۱۹؍ نومبر ۲۰۲۱ء، مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۰؍دسمبر۲۰۲۱ء)

حضرت مسیح موعودؑ نے مقربین کی علامات کا ذکر کرتے ہوئے ان چنیدہ و منتخب لوگوں کی ایک علامت یہ بھی بیان فرمائی ہے۔

’’ان کی ایک علامت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے گھروں، کپڑوں، قمیصوں، چادروں، ہونٹوں، ہاتھوں اور پیٹھوں میں اور اسی طرح ان کے جملہ اعضاء بدنی میں، ان کے بچے کھچے ٹکڑوں اور اس پانی میں جو ان کے پینے کے بعد بچ جاتا ہےبرکت رکھ دیتا ہے۔‘‘(روحانی خزائن جلد نمبر ۲۰علامات المقربین اردو ترجمہ صفحہ ۷۰)

خوش نصیب ہیں وہ جنہیں حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت میں آکر روحانی برکات کے حصول کے ساتھ ساتھ ظاہری کپڑوں سے بھی برکتیں حاصل کرنے کا موقع عطا ہوا۔ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ظاہر ی لباس کی رسائی ہمیشہ کے لیے اور ہر ایک کے لیے ممکن نہیں ہو سکتی۔ اور ہمیشہ رہنے والی برکات آپ علیہ السلام کی تعلیمات پر عمل کرکے انفرادی و اجتماعی اصلاح کرنا، آپؑ کےذریعہ آنے والے انقلاب سے فائدہ اٹھانا اور اس عالمی مہم کا حصہ بننا ہے جس کے لیے آپؑ تشریف لائے۔

اس حوالے سے سیدنا حضرت خلیفۃا لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہام ہوا کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے تو اس کا مطلب ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہر کام میں، ہر بات میں، ہر چیز میں اور کپڑوں میں برکت ہے۔ اس لیے جو بڑے بڑے بادشاہ ہیں وہ بھی اس بات کو اپنے لیے اعزاز سمجھیں گے اور یہ قابلِ قدر چیز سمجھیں گے کہ ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کپڑوں کا کوئی تحفہ ملے اور برکت ملے۔ اب آج کل وہ برکت تو مل نہیں سکتی۔ ساری دنیا میں ہر احمدی کو تو برکت نہیں پہنچ سکتی اور نہ ہر بادشاہ تک اب وہ برکت کپڑوں کی صورت میں پہنچ سکتی ہے۔ اگر ہم نے برکت عملی صورت میں ڈھونڈنی ہے تو اس کے لیے یہی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جو تعلیم ہے اس کو ہم اپنے اوپر پہلے لاگو کریں جو آپ نے ہمیں بتایا، آپ کا جو مشن ہے اس کو ہم پورا کرنے کی کوشش کریں اور یہی برکت ہے مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کی برکت اور آپ کے ذریعہ سے احیائے نو کی برکت، آپ کے ذریعہ سے اسلام کی نشأۃ ثانیہ کی برکت، آپ کے ذریعہ سے اسلام کا جھنڈا دنیا میں لہرانے کی برکت، آپ کے ذریعہ سے خدائے واحد کی حکومت کو دنیا میں قائم کرنے کی برکت،آپ کے ذریعہ سے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے دنیا کو لانے کی برکت۔ یہ برکات تو آپؑ ہمیں دے گئے ان کو اب ہم نے حاصل کرکے ان سے فائدہ اٹھا کے دنیا میں پھیلانا ہے۔ باقی کپڑوں کی برکت ہے وہ اپنی جگہ ہے، عملی طور پہ اَور اَور چیزوں کی بھی برکت ہے۔ اب یہ مَیں نے انگوٹھی پہنی ہوئی ہے اَلَیْسَ اللّٰہ کی۔ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی انگوٹھی ہے۔ وہی پہلے والی انگوٹھی جب الہام ہوا تھا اور آپ نے بنوائی تھی اور آپ نے پہنی۔ یہ میں نے برکت کی خاطر پہنی ہوئی ہے تو جس کو تو برکت عملی شکل میں کپڑوں سے یا کسی چیز سے ملتی ہے اس کو حاصل کرنی چاہیے لیکن اس کے علاوہ جس طرح کہ میں نے بتایا ان برکات کو پھیلانا، آپ کی تعلیم کو پھیلانا اور آپ کے مقصد کو پورا کرنا، آپ کے مشن کو پورا کرنا یہ بھی برکات ہیں۔ (آن لائن ملاقات طلبہ جامعہ احمدیہ بنگلہ دیش ۱۳؍فروری۲۰۲۱ء، مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۵؍نومبر۲۰۲۱ء)

الٰہی نوشتہ کے مطابق وہ دن یقیناً آئیں گے کہ ایک نہیں کئی کئی بادشاہ اور سربراہان مملکت،حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے بابرکت وجود کے ساتھ منسلک برکات کی قدروقیمت سے واقف ہو ں گے اور کوشش کریں گے کہ وہ ان برکات کو حاصل کرنے والے بنیں۔ ایسے مواقع تلاش کریں گے کہ ان برکات کو زیادہ سے زیادہ اپنے لیے اور اپنی رعایا کے لیے سمیٹ سکیں۔

یہ بات بھی غور طلب ہے کہ اس الہام میں اسم فاعل ’’بادشاہ ‘‘ ہیں یعنی جستجو ا ور لگن ان بادشاہوں کی طرف سے کی جائے گی۔ یقیناً ہمارا کام ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعو دؑ کے کلام کو ہر کس و ناکس تک پہنچانے میں ایڑی چوٹی کا زور لگادیں اور دنیا کے ہر طبقہ کو آپؑ کے مشن سے آگاہی کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دیں۔ تاہم وہ وقت ضرور آئے گا جب آپ علیہ السلام کی تعلیمات اور پیغام اس قدر اہمیت اختیار کر جائے گا کہ بادشاہوں کو اس کی جستجو ہو گی اوروہ از خود بھی کشاں کشاں چلے آئیں گے۔ یہ خدا کا کلام ہے جو ایک دن ضرور پورا ہوگا۔

حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:’’خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا اور میری محبت دلوں میں بٹھائے گا اور میرے سلسلہ کو تمام زمین میں پھیلائے گا اور سب فرقوں پر میرے فرقہ کو غالب کرے گا اور میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کے رُو سے سب کا منہ بند کر دیں گے اور ہر ایک قوم اس چشمہ سے پانی پیئے گی اور یہ سلسلہ زور سے بڑھے گا اور پھولے گا یہاں تک کہ زمین پر محیط ہو جاوے گا۔ بہت سی روکیں پیدا ہوں گی اور ابتلا آئیں گے مگر خدا سب کو درمیان سے اٹھا دے گا اور اپنے وعدہ کو پورا کرے گا۔ اور خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں تجھے برکت پر برکت دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔

سواے سننے والو! ان باتوں کو یا درکھو۔ اور ان پیش خبریوں کو اپنے صندوقوں میں محفوظ رکھ لو کہ یہ خدا کا کلام ہے جو ایک دن پورا ہوگا۔‘‘ (تجلیات الٰہیہ، روحانی خزائن، جلد ۲۰، صفحہ۴۰۹-۴۱۰)

٭…٭…٭

مزید پڑھیں: حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا دورۂ فرانس ۱۹۲۴ء

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button