احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
براہین احمدیہ کوئی تجارتی کاروبارنہ تھی اوراس کی قیمت کا مسئلہ
(گذشتہ سے پیوستہ) ان سےتو بہتر وہ مصنف ہی ٹھہراجوکہ مخالف ہونے کے باوجودکم ازکم ان اشتہارات کے مضمون کوسامنے رکھتے ہوئے لکھتاہے اور اقرارکرتاہے کہ ان اشتہارات کے باوجود کوئی حوصلہ افزا اعانت نہیں ہوئی۔ یہ مصنف ہیں سید ابوالحسن ندوی صاحب۔وہ لکھتے ہیں:’’مرزاصاحب نے مسلمانوں کواس عظیم خدمت اسلام میں مالی امداد دینے اور فراخ دلی اورعالی حوصلگی سے حصہ لینے کی دعوت دی۔ ایسامعلوم ہوتاہے کہ ان کی اس دعوت پرمسلمانوں نے اس جوش وخروش سے لبیک نہیں کہی جس کی مرزاصاحب توقع کرتے تھے۔ براہین احمدیہ کی بعدکی جلدوں میں انہوں نے اس کابڑاشکوہ کیاہے اوراس پراپنے بڑے رنج کااظہارکیاہے۔‘‘(قادیانیت مطالعہ وجائزہ،صفحہ٤۱،٤۲)
اب ہم دوبارہ صفی الرحمٰن صاحب کی کتاب میں دیے گئے حوالہ تبلیغ رسالت کودیکھتے ہیںکہ جس کے بارے میں انہوں نے حوالہ دیتے ہوئے لکھاہے :’’یہ تفصیلات براہین احمدیہ سے متعلق اشتہارات مندرجہ تبلیغ رسالت جلداول صفحہ۸تاصفحہ ٤۲ دیکھی جاسکتی ہیں…‘‘(قادیانیت اپنے آئینہ میں، صفحہ ۲٦ حاشیہ)
تبلیغ رسالت کے یہ تمام صفحات پڑھ جائیں کہیں سے بھی یہ ثابت نہیں ہوگا کہ براہین احمدیہ کی بابت اشتہارات شائع ہونے کے بعد اتناروپیہ آیاکہ اصل لاگت سے دس گنازیادہ رقم اکٹھی ہوگئی۔ہراشتہارمیں جہاں اعانت کاتذکرہ ہے وہاں حضرت بانئ سلسلہؑ اسی افسوس اور دکھ کااظہارکرتے نظرآئے کہ’’مگراب تک ایساظہورمیں نہ آیا۔اورہم انتظار کرتے کرتے تھک بھی گئے ۔‘‘(مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ۱۸، مورخہ۲۰؍دسمبر۱۸۷۹ء)
’’ایسی ضروری کتاب کی اعانت میں دلی ارادت سے مدد کریں گے تب جبر اس نقصان کا ہوجائے گا۔پراتفاق ہے کہ اب تک وہ امیدپوری نہیں ہوئی۔‘‘(مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ ۳۱)’’ اس کتاب کے بارے میں بجزچندعالی ہمت مسلمانوں کے جن کی توجہ سے دوحصے اورکچھ تیسراحصہ چھپ گیا۔جوکچھ اور لوگوں نے اعانت کی وہ ایسی ہے کہ اگربجائے تصریح کے صرف اسی پرقناعت کریں کہ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَتومناسب ہے…‘‘(مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ ٦۰)
انہی صفحات میں ایک تفصیلی اشتہاربھی صفحہ ۲٥ تا۳۷ موجودہے۔لیکن نہ جانے اس فاضل مصنف کوکیوں نظرنہیں آیا۔ جس میں حضورنے عام مسلمانوں اور امراء کے بخل وتمسک کے باعث براہین سے بے توجہگی کاذکرکیاہے۔اوریہ بھی کہ براہین کی ۱٥۰؍ کاپیاں دولت مندوں اور رئیسوں کی خدمت میں بھیجیں لیکن’’باستثناء دوتین عالی ہمتوں کے سب کی طرف سے خاموشی رہی نہ خطوط کاجواب آیا نہ کتابیں واپس آئیں۔‘‘(مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ ٥۳)
مصنف موصوف کی طرف سے اس کتاب کے جن صفحات کاحوالہ دیاگیا تھا یہ ان میں سے چندایک فقرات ہیں ورنہ اس وقت کے لوگوں خاص طورپرامراء و رؤسا کی طرف سے عدم توجہگی کاجوبیان ہے وہ حیران کن حدتک بےپرواہانہ رویہ پردلالت کررہاہے۔ وہ صفحات نہ مصنف نے خودپڑھے ہوں گے اوراگرپڑھے ہیں تو سچائی کوچھپاتے ہوئے دوسرے متعصّب مصنفین کاجھوٹا کھانے پراکتفاکرتے ہوئے ان کتب کے حوالے دے دیے ہیں۔
خیراب ہم نفس مضمون کی طرف واپس آتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ جب براہین احمدیہ کامسودہ تیارہوگیا اور اس کی طباعت کے لیے پریس وغیرہ کے معاملات طے پانے لگے تو ان مصارف کے لیے آپؑ نے سرمایہ اکٹھاکرنے کے لیے براہین احمدیہ کی خریداری اور اعانت کے لیے کچھ اشتہارات اخبارات میں دیے جن میں براہین احمدیہ جیسی کتاب کی افادیت واہمیت کاذکرتھااور ساتھ ہی اس کی قیمت کی تفصیلات تھیں۔اور اس میں اصول حضورؑ نے یہ بیان فرمایاکہ کتاب کی قیمت کوعوام الناس چھوڑیں کہ جواصل قیمت کتاب کی ہے وہ بہت زیادہ ہے۔ اس لیے اصل قیمت کامطالبہ خریدارسے نہیں کیاجاتا۔ برائے نام سی قیمت ٥؍ روپےمقررکی جاتی ہے۔ ہاں ظاہرہے کہ کتاب کاخسارہ کہاں سے پوراہوگا۔توآپؑ نے اس کاطریق یہ تجویزفرمایاکہ کتاب کاجبرنقصان ان دولت مند مسلمان نوابوں اور رئیسوں کی اعانت سے ہوجائے گا کہ جو لاکھوں اور کروڑوں روپے کے مالک ہیں وہ تواگراپنے ایک دن کے کھانے کاخرچ ہی کتاب کی اعانت میں دے دیں تو کتاب کی تمام قیمت وصول ہوجائے گی۔لیکن افسوس کہ اس تجویزکاکوئی حوصلہ افزانتیجہ سامنے نہ آیا۔ ہم ذیل کے صفحات میں براہین احمدیہ کے پہلے اشتہارسے لے کربراہین کے حصہ چہارم تک جتنے بھی اشتہارات اور تحریرات ہیں ان کے آئینہ میں اپنے قارئین کو اُس عہدکے لوگوں کارویہ اور ردّعمل دکھاتے ہیں کہ براہین کےلیے کتناسرمایہ جمع ہوااور کس کس نے کتنا کتنا روپیہ دیا۔ اوریہ کوئی جادوکاکھیل نہیں۔اورنہ ہی کوئی الجبراجیومیٹری کاحساب ہے کہ بہت مشکل اور لمبی چوڑی ضربوں تقسیموں کوچاہتاہوگا۔ لطف کی بات تویہ ہے کہ یہ ساری تفصیل حضرت بانئ سلسلہ احمدیہؑ نے اپنی تحریرات واشتہارات اورمکتوبات میں اسی وقت پبلک کے سامنے بیان کی ہوئی ہے۔اورایک ایک پائی کاحساب سب کے سامنے رکھاہواہےبس ہمیں اس حساب کے لیے آج سے ٹھیک ایک سو پینتالیس سال پیچھے جاناہوگا یعنی سنہ ۱۸۷۹ء جب یہ کتاب تیارہوئی اور آپؑ نے ایک پریس جو کہ امرتسر میں سفیر ہندپریس کے نام سے قائم تھا اوراس کے مالک تھے پادری رجب علی صاحب ان کے سامنے جب یہ مسودہ پیش کیا اورکتاب کی عمدہ اورنفیس طباعت کے ساتھ اندازہ خرچ لگوایا تو وہ کچھ یوں تھا۔یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ آپؑ نے براہین احمدیہ کی آمد وخرچ جو بھی تھا وہ کسی بھی کھاتے میں ایسا چھپاکے نہیں رکھا تھا کہ کوئی دیکھ نہ سکے اورنہ ہی کچھ ایساگنجلک تھا کہ کوئی خواندہ ہی اس کوسمجھ اورپڑھ سکےبلکہ آپؑ تو اس جمع خرچ کو عام مشتہر بھی کررہے تھے۔چنانچہ سب سے پہلا اشتہار جو براہین احمدیہ کے بارے میں آپؑ نے دیا اس میں اس کے اندازہ خرچ کی بابت فرماتے ہیں :’’ پہلے ہم نے اس کتاب کا ایک حصہ پندرہ جزو میں تصنیف کیا۔بغرض ِتکمیل تمام ضروری امروں کے نوحصے اورزیادہ کردیے جن کے سبب سے تعداد کتاب ڈیڑھ سو جزء ہوگئی۔ہرایک حصہ اس کا ایک ایک ہزار نسخہ چھپے تو چورانوے روپیہ صرف ہوتے ہیں۔پس کُل حصص کتاب نوسوچالیس روپے سے کم میں چھپ نہیں سکتے۔ازانجا کہ ایسی بڑی کتاب کاچھپ کرشایع ہونا بجزمعاونت مسلمان بھائیوں کے بڑا مشکل امرہے اورایسے اہم کام میں اعانت کرنے میں جس قدر ثواب ہے وہ ادنیٰ اہل اسلام پر بھی مخفی نہیں۔لہٰذا اخوان مؤمنین سے درخواست ہے کہ اس کارِ خیر میں شریک ہوں اوراس کے مصارف طبع میں معاونت کریں۔اغنیاء لوگ اگراپنے مطبخ کے ایک دن کا خرچ بھی عنایت فرمائیں گے تویہ کتاب بسہولت چھپ جائے گی ورنہ یہ مہرِ درخشاں چُھپا رہے گا۔یایوں کریں کہ ہرایک اہلِ وسعت بہ نیت خریداری کتاب پانچ پانچ روپیہ معہ اپنی درخواستوں کے راقم کے پاس بھیج دیں۔جیسی جیسی کتاب چھپتی جائے گی ان کی خدمت میں ارسال ہوتی رہے گی۔غرض انصار اللہ بن کر اس نہایت ضروری کام کو جلد تر بسرانجام پہونچاویں …‘‘(اشتہار بعنوان ’’اشتہار بغرض استعانت واستظہار ازانصاردین محمدؐ مختار صلے اللہ علیہ وعلےٰ آلہ الابرار‘‘ منقول از ضمیمہ اشاعة السنة نمبر٤ جلد ۲ صفحہ۳-٤؍اپریل ۱۸۷۹ء مطبوعہ مئی ۱۸۷۹ء بحوالہ مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ۱٦،۱۷)
جو اندازہ خرچ لگایا گیا تھا اس کے مطابق فی کتاب پچیس روپے خرچ جو کہ اصل لاگت تھی وہ آتاتھا۔اورحضرت اقدسؑ نے اس کی عام قیمت پانچ روپے فی کتاب کا اعلان فرمایا تاکہ یہ کتاب زیادہ سے زیادہ عام لوگوں تک پہنچ کر اس زہرناک ہواکا جو ہزاروں لاکھوں کی روحانی موت کا باعث ہورہی تھی تریاق ثابت ہوسکے۔اورامراء اوررؤسائے ہندوستان کو خط لکھ کر اعانت کتاب کی طرف توجہ دلائے جانے کی تجویز تھی کہ تا ان کی اعانت سے کتاب پرہونے والے اخراجات پورے ہوسکیں گے۔یہ ساری تفصیل بھی حضرت اقدسؑ کے اس اشتہار میں موجودہے جو آپؑ نے ۳؍دسمبر ۱۸۷۹ء کو لکھااور وہ ۲۰؍دسمبرکو شائع ہوا۔آپؑ اس میں فرماتے ہیں:’’ واضح ہو کہ جو اصل قیمت اس کتاب کی بلحاظ ضخامت اورحُسن اورلطافت ذاتی اس کے اورنیز بنظر اس پاکیزگی خط اورتحریر اورعمدگی کاغذ وغیرہ لوازم اور مراتب کے کہ جن کے التزام سے یہ کتاب چھاپی جائے گی۔بیس روپیہ سے کم نہ تھی۔مگر ہم نے محض اس امید اورنظر سے جو بعض امراء اسلام جو ذی ہمت اوراولوالعزم ہیں اس کتاب کی اعانت میں توجہ کامل فرماویں گے اوراس طور سے جبر اس نقصان کا ہوجاوے گا جو کمی قیمت کے باعث سے عاید حال ہوگا۔صرف پانچ روپیہ قیمت مقرر کی تھی مگر اب تک ایسا ظہور میں نہ آیا اورہم انتظار کرتے کرتے تھک بھی گئے…لیکن بباعث اس کے جو قیمت کتاب کی نہایت ہی کم تھی اورجب نقصان اس کے کا بہت سی اعانتوں پر موقوف تھا جو محض فی سبیل اللہ ہر طرف سے کی جاتیں،طبع کتاب میں بڑی توقف ظہور میں آئی۔مگر اب کہاں تک توقف کی جائے ناچاربصد اضطرار یہ تجویز سوچی گئی جو قیمت کتاب کی جو بنظر حیثیت کتاب کے بغایت درجہ قلیل اورناچیز ہے دوچند کی جائے۔لہٰذا بذریعہ اعلان ہذا کے ظاہر کیا جاتاہے جو من بعد جملہ صاحبین باستثناء ان صاحبوں کے جو قیمت اداکرچکے ہیں یا اداکرنے کا وعدہ ہوچکاہے قیمت اس کتاب کی بجائے پانچ روپیہ کے دس روپیہ تصور فرماویں۔مگر واضح رہے کہ اگر بعد معلوم کرنے قدرومنزلت کتاب کے کوئی امیر عالی ہمت محض فی سبیل اللہ اس قدراعانت فرماویں گے کہ جو کسر کمی قیمت کی ہے اس سے پوری ہوجائے گی توپھر بہ تجدید اعلان وہی پہلی قیمت کہ جس میں عام مسلمانوں کا فائدہ ہے قرارپاجائے گی اورثواب اس محسن کو ملتارہے گا…‘‘(مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ ۱۸،۱۹)
پھر براہین احمدیہ حصہ اول کے صفحہ ۲ پر آپؑ کو یہ اعلان کرناپڑا:’’کتاب براھین احمدیہ کی قیمت اور دیگر ضروری گزارش
بعالی خدمت تمام معزز اور بزرگ خریداران کتاب براھین احمدیہ کے گزارش کی جاتی ہے کہ کتاب ہذا بڑی مبسوط کتاب ہے یہاں تک کہ جس کی ضخامت سوجز سے کچھ زیادہ ہوگی اور تا اختتام طبع وقتاً فوقتاً حواشی لکھنے سے اور بھی بڑھ جائے گی اور ایسی عمدگی کاغذ اور پاکیزگی خط اور دیگر لوازم حسن اور لطافت اور موزونیت سے چھپ رہی ہے کہ جس کے مصارف کا حساب جو لگایا گیا تو معلوم ہوا کہ اصل قیمت اس کی یعنے جو اپنا خرچ آتا ہے فی جلد پچیس روپیہ ہے۔ مگر ابتدا میں پانچ روپیہ قیمت اس کی اس غرض سے مقرر ہوئی تھی اور یہ تجویز اٹھائی گئی تھی جو کسی طرح سے مسلمانوں میں یہ کتاب عام طور پر پھیل جائے اور اس کا خریدنا کسی مسلمان پر گراں نہ ہو اور یہ امید کی گئی تھی کہ امراء اسلام جو ذی ہمت اور اولی العزم ہیں ایسی ضروری کتاب کی اعانت میں دلی ارادت سے مدد کریں گے تب جبر اس نقصان کا ہوجائے گا۔ پر اتفاق ہے کہ اب تک وہ امید پوری نہیں ہوئی… اب حال یہ ہے کہ اگرچہ ہم نے بموجب اشتہار مشتہرہ سوم دسمبر ۱۸۷۹ء بجائے پانچ روپیہ کے دس روپیہ قیمت کتاب کی مقرر کردی مگر تب بھی وہ قیمت اصل قیمت سے ڈیڑھ حصہ کم ہے۔ علاوہ اس کے اس قیمت ثانی سے وہ سب صاحب مستثنیٰ ہیں جو اس اشتہار سے پہلے قیمت ادا کرچکے لہٰذا بذریعہ اس اعلان کے بخدمت ان عالی مراتب خریداروں کے کہ جن کے نام نامی حاشیہ میں بڑے فخر سے درج ہیں اور دیگر ذی ہمت امراء کے جو حمایت دین اسلام میں مصروف ہورہے ہیں عرض کی جاتی ہےکہ وہ ایسے کار ثواب میں کہ جس سے اعلائے کلمہ اسلام ہوتا ہے اور جس کا نفع صرف اپنے ہی نفس میں محدود نہیں بلکہ ہزارہا بندگان خدا کو ہمیشہ پہنچتا رہے گا اعانت سے دریغ نہ فرماویں کہ بموجب فرمودہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس سے کوئی اور بڑا عمل صالح نہیں کہ انسان اپنی طاقتوں کو ان کاموں میں خرچ کرے کہ جن سے عبادالٰہی کو سعادت اخروی حاصل ہو۔ اگر حضرات ممدوحین اس طرف متوجہ ہوں گے تو یہ کام کہ جس کا انجام بہت روپیہ کو چاہتا ہے اور جس کی حالت موجودہ پر نظر کرکے کئی طرح کی زیر باریاں نظر آتی ہیں نہایت آسانی سے انجام پذیر ہوجائے گا اور امید تو ہے کہ خدا ہمارے اس کام کو جو اشد ضروری ہے ضائع ہونے نہیں دے گا اور جیسا کہ اس دین کے ہمیشہ بطور معجزہ کے کام ہوتے رہے ہیں۔ ایسا ہی کوئی غیب سے مرد کھڑا ہوجائے گا وَتَوَکَّلنَا عَلَی اللّٰہ ِھُوَ نِعۡمَ الۡمَوۡلٰی وَنِعۡمَ النَّصِیۡرُ۔‘‘(براہین احمدیہ،روحانی خزائن جلداول صفحہ۲تا٤)
(باقی آئندہ ہفتہ کو انشاءاللہ)