جلسہ سالانہ برطانیہ ۲۰۲۴ء کے (تیسرے دن صبح) چوتھے اجلاس کی مفصل رپورٹ
جلسہ سالانہ کے تیسرے اور آخری روزکا پہلا اور جلسہ سالانہ کا چوتھااجلاس۲۸؍جولائی ٹھیک صبح دس بجے شروع ہوا۔ اس اجلاس کی صدارت صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا مغفور احمد صاحب امیر جماعت احمدیہ امریکہ نے کی۔
کارروائی کا باقاعدہ آغاز تلاوتِ قرآن کریم سے ہوا، مکرم راحیل احمد صاحب نے سورت آل عمران کی آیت ۱۰۳ تا ۱۰۸کی تلاوت کی اور اس کا ترجمہ پیش کیا۔ مکرم حفیظ احمد صاحب نے حضرت مصلح موعودؓ کا منظوم کلام
میں اپنے پیاروں کی نسبت
ہرگز نہ کروں گا پسند کبھی
کےچند اشعار خوش الحانی سے پڑھے۔
چوتھے اجلاس کی پہلی تقریر مولانا مبارک احمد تنویر صاحب استاد جامعہ احمدیہ جرمنی کی تھی جس کا موضوع تھا: ’’خلافت احمدیہ: امت مسلمہ میں وحدت کا ذریعہ‘‘۔ مولانا صاحب نے اپنی تقریر کے آغاز میں وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ (الذّٰریٰت:۵۷) کی تلاوت کی۔ اور کہاکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’ہم نے جن و انس کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے‘‘۔ اب سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عبادت یعنی اپنی صفات کا مظہر بنانے اور اپنے حسن لازوال سے مالا مال کرنے کے لیے کوئی نظام بھی پیش کیا ؟ آئیں اب دیکھتے ہیں کہ وہ نظام کیاہے۔ اللہ تعالیٰ نے عرش پر قرار پکڑنے کے بعد اپنی صفات کی جلوہ گری کے لیے خلافت کا نظام جاری کرتے ہوئے قرآن کریم میں فرمایا:اِنِّىْ جَاعِلٌ فِى الْاَرْضِ خَلِيْفَۃً۔ (البقرہ:۳۱) یعنی میں زمین میں اپنا خلیفہ بنانے والا ہوں۔
مولانا صاحب نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی سورۃ النور میں گذشتہ امم میں اپنی خلافت کے نظام کا ذکر کرتے ہوئے اسی طرز پر امت محمدیہؐ میں خلافت علیٰ منہاج نبوت کا وعدہ کیا۔ جب ظَہَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ۔ (الروم:۴۲) کی ظلمت و تاریکی کا ہولناک منظر اپنے عروج پر پہنچا تو مظہر کامل حضرت محمد مصطفٰیﷺ کو نازل فرمایا۔
معزز سامعین! اللہ تعالیٰ نےحضرت محمد مصطفٰیﷺ کے ذریعہ ایک ایسی امت کی بنا ڈالی جسےكُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّۃٍ۔ (آل عمران: ۱۱۱)۔ کے مقدس الفاظ میں تمام امتوں سے اعلیٰ قرار دیا۔ جس میں وحدت کا ایک بے نظیر نظارہ چشم فلک نے دیکھا۔ آپؐ نے اپنے صحابہ ؓ کو ایسا اللہ تعالیٰ کے نور میں رنگ دیا کہ وہ بھی آپ کی اتباع کی برکت سے خدا نما انسان بن گئے اور اللّٰہ اللّٰہ فی اصحابی کے مصداق ٹھہرے۔
امت محمدیہ خیر امم ہی رہی جب تک آنحضرتﷺ کا وجود باجود ان میں موجود رہا اور اس کے بعد خلافت راشدہ کا بابرکت نظام ان کی راہنمائی کے لیے خدا تعالیٰ نے قائم رکھا۔ لیکن جب امت نے نظام خلافت کی قدر نہ کی اور اللہ تعالیٰ کے واضح حکم وَاعۡتَصِمُوۡا بِحَبۡلِ اللّٰہِ جَمِیۡعًا وَّلَا تَفَرَّقُوۡا۔(آل عمران: ۱۰۴) ’’اور تم سب (کے سب) اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور پراگندہ مت ہو۔‘‘ کی نافرمانی کی تو اللہ تعالیٰ نے اس بابرکت نظام کو اٹھا لیا، جس کے ساتھ ہی امت کی وحدت پارہ پارہ ہو گئی اور وہ برکتیں اٹھ گئیں جو اس خدا تعالیٰ کے قائم کردہ نظام سے وابستہ تھیں۔ خلافت راشدہ کے بعد وہ فتنے موج در موج امت کی صفوں میں داخل ہو گئے جن کے بارے میں پہلے سے مخبر صادقﷺ نے مسلمانوں کو خبردار فرما رکھا تھا۔ امن اور توحید کا دور ختم ہوا اور بلاؤں اور کربلاؤں کے دور کا آغاز ہوا۔ امت مسلمہ میں اس ٹوٹی ہوئی وحدت کو قائم کرنے کے لیے سیاسی اور مذہبی قیادت نے ہر طرح کی تدابیر کیں۔ مسلمان بادشاہوں نے اپنے لیے خلفاء کے القاب بھی اختیار کیے لیکن وہ وحدت جو خدا تعالیٰ نے نبوت اور خلافت راشدہ کے ذریعہ عطا کی تھی اس کا منہ پھر کبھی کسی انسانی منصوبہ سے دیکھنا نصیب نہ ہوا۔ حضرت محمد مصطفیٰﷺنے امت پر آنے والے مختلف ادوار کی پیشگوئی کرتے ہوئے خلافت علی منہاج النبوۃ کے قیام کی بشارت دی۔
مولانا صاحب نے کہا کہ ہمارے آقا مخبر صادقﷺ کی خوشخبری کے مطابق اللہ تعالیٰ نے اپنا یہ فضل اس دور آخرین میں عشق رسولﷺ میں فنا حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعودؑ اور مہدی معہودؑ کے وجود باجود کی شکل میں نازل فرمایا۔
اب یہ نورحضرت مسیح موعودؑ کی وفات کے بعد آپؑ کی پیشگوئی کے مطابق قدرت ثانیہ یعنی خلافت احمدیہ کی شکل میں جاری و ساری ہے جس کے بارے میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے فرمایا:حضرت مسیح موعودؑ کے وصال سے اس روشنی نے جو اللہ تعالیٰ نے نازل کی تھی چمکنا بند نہیں کر دیا… وہ روشنی اپنی جگہ قائم ہے… ان خلفاء کو چھو ڑ کر نہ کہیں روشنی ہے نہ حقیقی راہنمائی۔
مولانا صاحب نے کہا کہ آج یہ امت مرحومہ اختلاف و تفرقہ کے جس دردناک اورہلاک کر دینے والے مرض میں مبتلا ہے اور جس طرح دجالی قوتیں انہیں اپنے اشاروں پر اپنے آگے سر جھکانے پر مجبور کر رہی ہیں۔ عراق، لیبیا، شام کی تباہی کے بعد اب فلسطین کی حالت زار اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس مرض کے علاج کا واحد حل بھی خلافت ہی کو قرار دینے کی آوازیں مشرق و مغرب سے بلند ہونا کسی بھی صاحب علم پر مخفی نہیں۔ لیکن اس شعور سے محروم ہیں کہ ہر زمانہ میں انسانوں کو وحدت کی لڑی میں پرونے والی خلافت صرف اور صرف خدائے واحد ہی قائم کیا کرتا ہے نہ کہ انسان۔ اسی سنت اللہ کو واشگاف الفاظ میں خلفائے احمدیت دنیا کے سامنے کئی بار چیلنج کے طور پر پیش کر چکے ہیں۔ ہمارے پیارے امام حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا اے دشمنان احمدیت! میں تمہیں دو ٹوک الفاظ میں کہتا ہوں کہ اگر تم خلافت کے قیام میں نیک نیت ہو تو آؤ اور مسیح محمدی کی غلامی قبول کرتے ہوئے اس کی خلافت کے جاری و دائمی نظام کا حصہ بن جاؤورنہ تم کوششیں کرتے کرتے مر جاؤ گے اور خلافت قائم نہیں کر سکو گے۔ تمہاری نسلیں بھی اگر اسی ڈگر پر چلتی رہیں تو وہ بھی کسی خلافت کو قائم نہیں کر سکیں گی۔ قیامت تک تمہاری نسل در نسل یہ کوشش جاری رکھے تب بھی کامیاب نہیں ہو سکے گی۔ خدا کا خوف کرو اور خدا سے ٹکر نہ لو اور اپنی اور اپنی نسلوں کی بقا کے سامان کرنے کی کوشش کرو۔
مولانا صاحب نے کہا کہ امت مسلمہ میں یہ انتشار خلافت علیٰ منہاج نبوت کی نا قدری سے پیدا ہوا۔ تو اب لازماً یہ وحدت خدائی سنت کے مطابق خلافت علیٰ منہاج نبوت کے ذریعہ ہی قائم ہو گی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی زبان مبارک سے اس کے حقیقی اور فطری علاج کے لیے خوشخبری بھی دی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلمان فارسیؓ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ اگر ایمان ثریّا کے پاس بھی پہنچ گیا تو ان لوگوں میں سے کچھ لوگ اسے واپس لے کر آئیں گے۔
اب اللہ تعالیٰ خود نیک فطرتوں کو رؤیا و کشوف کے ذریعے خلافت احمدیہ کے ذریعہ وحدت کی لڑی میں پرو رہا ہے جس کے ایمان افروز واقعات ہم اپنے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی زبان مبارک سے مسلسل سن کر اپنے دل وجان کو خدائی نصرت کی تازہ خوشبوؤں سے معطر کرتے ہیں۔
مولانا صاحب نے کہا کہ آنحضرتﷺ نے امت کے ۷۳؍فرقوں میں بٹ جانے کی خبر دی اورفرمایا ان میں سے ایک فرقہ جنتی ہوگا۔ پھر آپﷺ نے دو علامتیں بیان فرمائیں۔ 1۔ هي الجماعة۔ وہ ایک منظم جماعت ہوگی۔2۔ ما انا علیہ و اصحابی۔ وہ میرے اور میرے صحابہؓ کے نقش قدم پر چلنے والی ہو گی۔
اس حدیث میں رسول کریمﷺ نے واضح طور پر و آخرین منھم کی وضاحت فرما دی ہے یعنی وہ ایک منظم جماعت ہو گی اور اس جماعت کی تنظیم کا سلسلہ وہی ہو گا جس پر اس وقت میں اور میرے صحابہ ہیں۔ اس زمانہ میں خلافت علیٰ منہاج نبوت کے ذریعے امت مسلمہ میں وحدت قائم کرنے کا فیصلہ خدائی فیصلہ ہے جو ہر صورت پورا ہو گا۔
مولانا صاحب نے خلافتِ احمدیہ کی صورت میں جاری فیضان کے ثمرات وحدت کا یوں ذکر کیا کہ اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں لٹریچر کی اشاعت کے سامان۔ ذرائع آمدو رفت، ذرائع مواصلات ٹی وی، انٹرنیٹ اور نت نئی ایجادات کے ذریعے دنیا کو ایک گلوبل ولیج بنا دیا ہے اور پھر خلافت احمدیہ کی براہ راست راہنمائی میں نظام جماعت ان تمام ذرائع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جس احسن رنگ میں خدا تعالیٰ کی منشا کے مطابق امت مسلمہ کو وحدت کی لڑی میں پرو رہا ہے وہ خود اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
خدا تعالیٰ کے فضل سےخلافت احمدیہ کے زیر سایہ دنیا کے۲۱۴؍ ممالک میں کروڑوں مسلمان خلافت کے ہاتھ پر بیعت کر کے اس امت واحدہ کی لڑی میں شامل ہوکر اسلام کی شان و شوکت کے نور کو پھیلا رہے ہیں۔ ایک آواز پر بیٹھتے اور ایک ہی آواز پر کھڑے ہوتے ہیں۔ جس کا نظارہ ایم ٹی اے کے ذریعے خلافت خامسہ کے قیام کے وقت ایک ہی آواز پر پوری دنیا کے احمدیوں کا بیٹھ جانا اور پھر خلافت احمدیہ کے سوسالہ جشن تشکرکے وقت عہد دہرانے کے لیے دنیا کے تمام احمدیوں کاایک ہی آواز پر کھڑا ہونا خدا تعالیٰ کی فعلی شہادت ہے۔ پھر گذشتہ جلسہ سالانہ غانا کا منظر کیسےآنکھیں فراموش کر پائیں گی کہ خدا تعالیٰ نے کس طرف اس حبل اللہ سے دلوں کو الفت کی لڑی میں پرو دیا ہے۔
قرآن کریم میں امۃ کا لفظ ایسے فرد واحد کے لیے بھی استعمال ہوا ہے جس نے اپنے تمام وجود کو خدا تعالیٰ کے سپرد کر دیا ہو۔اِنَّ اِبۡرٰہِیۡمَ کَانَ اُمَّۃً قَانِتًا لِّلّٰہِ حَنِیۡفًا۔ (النحل: ۱۲۱) یقیناً ابراہیم (فی ذاتہ) ایک امت تھا جو ہمیشہ اللہ کا فرمانبردار، اسی کی طرف جھکا رہنے والا تھا۔ اس لحاظ سے اگر فردی وحدت کا سوال ہو یا قومی وحدت کا سوال، امت مسلمہ سے مراد اصطلاحی امت مسلمہ ہو یا ہر وہ قوم یا گروہ جو امن کا طالب ہے۔ اب اس کے لیے اس وحدت کو حاصل کرنے کا صرف اور صرف ایک ذریعہ خدا تعالیٰ نے مقرر کیا اور وہ ہے خلافت احمدیہ۔
مولانا صاحب نے حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ کے حوالہ سے وحدت کے ثمرات کا یوں خلاصہ بیان کیا کہ الحمدللہ ثم الحمدللہ! خلافت خامسہ پرچڑھنے والا ہر نیا دن ہر رنگ میں امت واحدہ بنانے کے مقصد کوقریب سے قریب تر لا رہا ہے۔ پس اس مبارک دور میں جس کثرت اور وسعت سے ایم ٹی اے کے ۸ چینلز پر مختلف زبانوں میں روحانی مائدہ تقسیم ہو رہا ہے اور دوسرے ذرائع ابلاغ پر نت نئے زاویوں سے پروگرامز کے ذریعے اسلام کی اشاعت اکنافِ عالم میں ہورہی ہے وہ ہر لحاظ سے بے مثل اور یکتا ہے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا خطبہ جمعہ زمین کے کناروں تک مسلمانوں کو خدا ئی منشا کے مطابق وحدت کے رنگ میں ایک وجود کی طرح بنا رہا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ایم ٹی اے ۳ العر بیہ پر عربی زبان میں خطاب فرما کرامت مسلمہ کو وحدت کی لڑی میں پروئے جانے کے ایک نئے دور کا آغاز کروا دیا۔
مولانا صاحب نے سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ان بابرکت الفاظ پر تقریر ختم کی۔ آپ ایدہ اللہ فرماتے ہیں: ہر احمدی کا فرض ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشن کو قدرت ثانیہ سے چمٹ کر اپنی تمام استعدادوں کے ساتھ پورا کرنے کی کوشش کرے۔ … آج اس مسیح محمدی کے مشن کو دنیا میں قائم کرنے اور وحدت کی لڑی میں پروئے جانےکا حل صرف اور صرف خلافتِ احمدیہ سے جڑے رہنے سے وابستہ ہے اور اسی سے خدا والوں نے دنیا میں ایک انقلاب لانا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
اس اجلاس کی دوسری تقریر انگریزی میں ڈاکٹر زاہد صاحب، صدر قضاء بورڈ یوکے کی تھی جس کا عنوان تھا: خاندانی تنازعات میں اصلاحِ احوال۔ ڈاکٹر صاحب نے سورة النساء آیت ۲ کی تلاوت کرکے اس کا ترجمہ پیش کیا اور کہا کہ یہ ان آیات میں سے ایک ہے جو رسول اللہؐ نکاح کے موقع پر پڑھتے تھے۔ راستبازی کے ساتھ ساتھ رشتہ داری، اچھے خاندانی تعلقات کے احترام پر بھی زور دیا جاتا ہے۔ اہم لفظ رحم ہے، جس کا مطلب womb ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ رحم نے اللہ سے اس کی دیکھ بھال کی درخواست کی کیونکہ اس کا مادہ رحمان اور رحیم جیسا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یقین دلایا کہ وہ خاص طور پر اس کی دیکھ بھال کرے گا، یہاں تک کہ جو کوئی بھی اس کے ساتھ تعلقات یعنی خاندانی تعلقات منقطع کرے گا، میں ان کے ساتھ تعلقات منقطع کر دوں گا۔ اس بات کی یاد دلانے کا کتنا موقع ہے، ایک جوڑے کا ایک نیا خاندانی یونٹ تشکیل دینا اچھے خاندانی تعلقات کو برقرار رکھنے کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔حضور انور صلہ رحمی کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ قریبی خاندانی رشتوں کے لیے صلہ رحمی ایک بہت وسیع اصطلاح ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بیوی کے رشتہ داروں کو وہی حق حاصل ہے جو مرد کے رشتہ داروں کو حاصل ہے۔ ان کے لیے صلہ رحمی اتنی ہی اہم ہے جتنی اپنے تعلقات کے لیے۔
مقرر نے کہا کہ مجموعی طور پر بین الاقوامی سطح سے انفرادی سطح تک بنی نوع انسان انسانی تاریخ کے سب سے مشکل دور سے گزر رہا ہے۔ یہ ایک ایسا زمانہ ہے جسے قرآن کریم نے یوں بیان کیا کہ زمین اور سمندر میں فساد ظاہر ہوگیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ایک ایسا نور عطا کیا جو معاشرے میں اور فرد اور ہر خاندان میں ہر سطح پر چیلنجوں کے حل کا باعث بنا۔ یہی وہ ہدایت ہے جو ہمیں خاندان کے جھگڑوں کو بھی حل کرنے کی توجہ دلائی ہے۔انسان نے جو زبردست ترقی کی ہے چاہے وہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں ہو یا دوسرے شعبوں میں، اس کے باوجود بہت بے چینی ہے۔ لہذا چاہے آپ بین الاقوامی سطح پر کسی تنازعہ کو حل کرنا چاہتے ہیں یا جو آپ کے خاندان سے متعلق ہے ہمیں اس راہنمائی کی طرف رجوع کرنا چاہیے جو ہمیں بہت عزیز ہے۔
مقرر نے کہا کہ خاندان کے افراد کے درمیان جھگڑے اور اختلافات انسانی کمزوری کی وجہ سے، خود غرض رویوں کی وجہ سے، بے قابو غصہ، شکوک ہونے، جھوٹ، راستبازی کی کمی، غیر حقیقی توقعات پر سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہ ہونے کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ یہ ایک طویل فہرست ہے۔ ثالثی میں طویل عرصے تک خدمات انجام دینے اور مختلف خاندانی تعلقات سے متعلق خاندانی تنازعات کا براہ راست تجربہ رکھنے کے باوجود میں خود کو اس تقریر کے قابل نہیں سمجھتا۔ میں تقریباً چوتھائی صدی کے عرصے میں خود حضور کی طرف سے دی گئی راہنمائی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس موضوع پر بات کروں گا۔
مقرر نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ صلح اختلاف سے بہتر ہے اور رشتہ داری کے رشتوں کو برقرار رکھنا ان کو توڑنے سے بہتر ہے۔تنازعات کو حل کرنا ایک فرض اور قابل ستائش عمل ہے جس کے لیے بڑے اجر کا وعدہ کیا جاتا ہے۔قرآن مجید میں ہے کہ صلح ہی بہتر ہے۔ اور کہا کہ بے شک سب مومن بھائی بھائی ہیں پس بھائیوں کے درمیان صلح کرو اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ آنحضرتؐ کی زندگی ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جن میں مسلمانوں پر زور دیا گیا ہے کہ جب کوئی تنازعہ پیدا ہو جائے تو وہ صلح کر لیں۔ یہاں تک کہ نبوت کا اعلان کرنے سے پہلے بھی آپ اختلاف رائے رکھنے والوں کے درمیان مصالحت میں مشغول تھے۔حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ فرماتے ہیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا: صدقہ کا بہترین عمل لوگوں کے درمیان صلح کرانا ہے۔
ہمیں عام طور پر تنازعات کو حل کرنے کی اہمیت کو پیش نظر رکھنا ہے اور خاندانی تنازعات کو حل کرنے سے زیادہ اہم کیا ہوسکتا ہے۔لڑائی جھگڑے یا تنازعات امن کے ٹوٹنے کا باعث بنتے ہیں اور فریقین کو شدید تکلیف پہنچاتے ہیں۔ عائلی زندگی جنت نظیر ہونے کے بجائے جہنم بن جاتی ہے اور فریقین کے لیے ناقابل برداشت صورت حال بن جاتی ہے۔ ایک خاندان کے اندر امن کا یہ فقدان چار دیواری تک محدود نہیں رہتا بلکہ پھر پورے خاندان کو لپیٹ میں لے لیتا ہے اور کئی دوسرے گھرانوں کا امن تباہ کر دیتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ خاندان کے اندر امن معاشرے کے امن کی بنیاد ہے۔ حضرت مسیح مو عودؑ نے فرمایا ہے کہ اسلام اللہ اور بنی نوع کے حقوق کی ادائیگی کا نام ہے۔ یہ بنی نوع کون ہیں؟یہ ہمارے خاندان کے افراد ہیں، یہ ہمارے والدین، ہمارے بھائی اور بہنیں، ہمارے شریک حیات، ہمارے بچے، اور ہمارے سسرال والوں کے خاندان کے ارکان ہیں۔ یہ قریبی خاندانی رشتے ہیں اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا ایک ذمہ داری ہے۔
مقرر نے کہا کہ سورہ نساء کی آیت ۳۶ میں قرآن مجید ہماری راہنمائی کرتا ہے کہ تنازعات میں فریقین کی کس طرح مصالحت کی جائے۔ فرمایا کہ اگر تمہیں ان کے درمیان اختلاف کا خوف ہو تو اس کے گھر والوں میں سے ایک ایک ثالث مقرر کرو۔ اگر وہ صلح چاہتے ہیں تو اللہ ان کے درمیان صلح کر دے گا۔ اس آیت کی حکمت کو سمجھنا ضروری ہے، یہ اس وقت ہوتا ہے جب کسی کو کسی تنازعہ کا احساس ہوتا ہے۔ جتنی جلدی صلح کی کوشش ہوگی کامیابی کے امکانات اتنے ہی زیادہ ہوں گے۔ یہ ضروری ہے کہ ثالث خدا سے ڈرنے والے، ایماندار اور قابل اعتماد ہوں اور چونکہ وہ خاندان کے اندر سے ہوتے ہیں لہٰذا وہ رازداری اور احترام کو یقینی بنا سکتے ہیں۔ یہ وہ امانت ہے جو اللہ نے ان پر رکھی ہے تاکہ وہ انصاف کے ساتھ عمل کریں۔ اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ ثالثوں کی کوشش یہ ہونی چاہیے کہ معاملات کو مزید بھڑکانے کے بجائے صلح کی جائے۔ فقہاء کا کہنا ہے کہ تنازعات میں فریقین کے درمیان صلح کرانے کے لیے ثالثوں کا تقرر صرف ازدواجی تنازعات تک محدود نہیں ہے بلکہ دیگر تنازعات میں بھی استعمال کیا جانا چاہیے جہاں فریقین رشتہ دار ہیں۔ اس کا ثبوت حضرت عمرؓ کے ایک فیصلے سے ملتا ہے جنہوں نے اپنے قاضیوں کو حکم دیا کہ وہ رشتہ داروں کے درمیان جھگڑوں کو ان کے پاس واپس بھیج دیں تاکہ وہ ایک دوسرے کی مدد سے صلح کریں۔جب فریقین کو ثالثی کے لیے اکٹھا کیا جاتا ہے تو یہ ضروری ہے کہ نرمی اختیار کی جائے اور معاملات کو ہاتھ سے باہر نہ ہونے دیا جائے۔ تمام فریقین کو چاہیے کہ وہ راستبازی کا مظاہرہ کریں۔ سب سے زیادہ خاندانی تنازعات کا سامنا شوہر اور بیوی کے درمیان ہوتا ہے۔ یہ جھگڑے ایسے ہیں کہ اس کا اثر صرف شادی شدہ جوڑے تک ہی محدود نہیں ہے، بلکہ یہ وسیع تر خاندان سمیت تمام خاندانی رشتوں تک پھیل جاتا ہے۔ اس سے نہ صرف ایک خاندان کا امن تباہ ہوتا ہے بلکہ اس سے کئی گھرانے متاثر ہوتے ہیں۔ اسلام میں دونوں پر ذمہ داریاں عائد کی گئی ہیں اور جب ان کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے تو مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔حضور نے اس کا خلاصہ بہت خوبصورتی سے پیش کیا ہے کہ میاں بیوی کے درمیان تعلقات خاندانی نظام کا مرکز ہیں۔ اگر دونوں فریق ایک دوسرے کے لیے محبت، باہمی احترام، تعریف اور خامیوں پر پردہ نہیں پڑے گا تو خاندان کا امن تباہ ہوجائے گا۔
مقرر نے کہا کہ بعض اوقات بہو اور ساس کے درمیان اختلافات اور جھگڑے ہوتے ہیں، جب دونوں ایک دوسرے کے حقوق غصب کر رہے ہوتے ہیں۔ مقرر نے بہو اور ساس کا ایک واقعہ بیان کر کے بتایا کہ زبان کو کنٹرول کرنا معاملات کو حل کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ غصہ ایک ایسا جذبہ ہے جو قابو سے باہر ہو جاتا ہے اور معاملات کو بھڑکا سکتا ہے کہ فریقین کو مصالحت کے لیے اکٹھا کرنا مشکل ہوجاتا ہے اور پھر یہ تنازعات بڑھ جاتے ہیں۔ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’مضبوط شخص وہ نہیں ہے جو دوسرے کے ساتھ مقابلہ کر سکے اور اسے شکست دے سکے، بلکہ ایک مضبوط شخص وہ ہے جوشدید غصے میں اپنے غصے پر قابو رکھ سکے۔حضور نے راہنمائی کرتے ہوئے فرمایا کہ مردوں اور عورتوں کو بھی حدیث میں مذکور اصول کو یاد رکھنا چاہیے جس میں کہا گیا ہے کہ اگر آپ بیٹھ جائیں یا وضو کریں تو غصہ ٹھنڈا ہوجاتا ہے۔ حضور نے مزید کہا کہ جب مجھے کچھ شکایات ملتی ہیں تو میں مردوں سے کہتا ہوں کہ اس ملک میں پانی کی کوئی کمی نہیں ہے۔ اپنے شاور کو آن کریں اور اپنے سر کو اس کے نیچے رکھیں آپ کا غصہ ٹھنڈا ہوجائے گا۔حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا ہے کہ باہمی نفسانیت چھوڑدو۔ مقرر نے کہا کہ عظیم تر بھلائی کے لیے کسی چیز کو قربان کرنا معجزانہ طور پر لوگوں میں مصالحت کرسکتا ہے۔ اس کی مثال میں مقرر نے حضرت سلیمانؑ اور دو عورتوں والا واقعہ بیان فرمایا۔ صلح کے لیے قربانی کے لیے تیار رہنا ضروری ہے۔ خاندان کے ممبروں کے مابین بہت سے تنازعات میں بعض اوقات فریقین انتہائی معمولی چیزوں کو قربان کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے ہیں۔ لہٰذا تنازعات کا تصفیہ کچھ مذاکرات کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔ دونوں فریقوں کی بات سننے اور ان کے ساتھ بات چیت کرنے سے کوئی درمیانی راستہ تلاش کرنے کے بعد دونوں فریقوں کو ایک معاہدے پر آمادہ کیا جاسکتا ہے۔
مقرر نے کہا کہ بعض اوقات تنازعات مالی معاملات یا بہن بھائیوں کی دشمنی یا والدین کی طرف سے مبینہ غیر مساوی سلوک پر ہوسکتے ہیں، بعض اوقات بہن بھائیوں کے بچوں کی وجہ سے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ مسائل کی جڑ اکثر اسلامی تعلیمات کو نظر انداز کرنا ہے۔ جیسا کہ مالی معاملات میں لین دین کو دستاویزی شکل دینے کے لیے قرآنی حکم پر عمل نہ کرنا۔ بہرحال قرآن کے اس حکم پر عمل کرنا چاہیے کہ صلح ہی بہتر ہے۔
مقرر نےکہا کہ جہاں تک والدین کی طرف سے غیرمساوی سلوک کی بات ہے تو یہ بھی تنازعات کا سبب بن سکتا ہے۔ ہمیں یاد دلایا جاتا ہے کہ والدین اپنے بچوں کے ساتھ یکساں سلوک کرتے ہیں، مندرجہ ذیل حدیث سے پتا چلتا ہے کہ اپنے بچوں کے ساتھ سلوک کرتے وقت جانبداری سے بچنا کتنا ضروری ہے۔حضرت نعمان بن بشیرؓ سے روایت ہے کہ ان کے والد انہیں رسول اللہﷺ کے پاس لے گئے اور کہا کہ میں نے اپنا ایک غلام اپنے اس بیٹے کو تحفے میں دیا ہے۔ رسول اللہﷺ نے پوچھا کہ کیا تم نے اپنے ہر بچے کو ایسا ہی تحفہ دیا ہے؟ اس نے کہا نہیں۔ اس پر رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ یہ تحفہ واپس لے لو۔
ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمارے پاس ایک ایسا امام ہے جو نہ صرف ہماری راہنمائی کرتا ہے بلکہ جس سے ہم اپنے تنازعات کو حل کرنے کے لیے رجوع کرتے ہیں۔
ہمارے پیارے حضور ایدہ اللہ پیارے نبی ﷺ کے اسوہ میں ہمارے لیے رہنمائی تلاش فرماتے ہیں۔ یقیناً آپ عائلی تنازعات سے پریشان ہوتے ہیں اور کئی بار ذاتی طور پر فریقین میں صلح کرانے میں کردار ادا کرتے ہیں۔ آج حضور انور کے بے شمار خطبات، تقاریر، اجلاسات میں بیان فرمودہ ہمارے لیے کئی رہنما اصول موجود ہیں۔ اگر ہم اس نعمت کی طرف رجوع نہ کریں تو ہم کتنے ناشکرے ہوں گے۔ ہمیں چاہیئے کہ ہم اپنے جائزے لیں۔ جب ہم واپس اپنے گھروں میں جائیں تو ہم اللہ اور اس کی مخلوق کے حق ادا کرنے والے ہوں۔ اللہ ہمیں اپنے خاندانوں میں امن اور ہم آہنگی والی زندگی پیدا کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
بعد ازاں مکرم رانا محمود الحسن صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے منظوم کلام
اَے شاہِ مکّی و مَدَنی، سید الوَریٰؐ
تجھ سا مجھے عزیز نہیں کوئی دوسرا
سے چند منتخب اشعار خوش الحانی سے پیش کیے۔
اگلی تقریر مولانا عبد السمیع خان صاحب استاد جامعہ احمدیہ کینیڈا کی تھی جس کا موضوع تھا ’’رسول اللہؐ۔ صفات الٰہیہ کے بہترین مظہر‘‘۔
مولانا صاحب نے آغاز میں کہا کہ ۲۰؍رمضان المبارک ۸ھ۔ وہ تاریخی دن تھا جب ہمارے آقا و مولیٰ حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ دس ہزار قدوسیوں کےجلو میں فاتحانہ شان کے ساتھ مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے۔ آپؐ خانہ کعبہ میں رکھے بتوں کو گراتے جاتے تھے اور یہ آیت پڑھ رہے تھے۔ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا۔ (بنی اسرائیل:۸۲)حق آگیا اور باطل بھاگ گیا۔ یقیناً باطل بھاگ جانے والا ہی ہے۔ (تفسیر طبری )حضرت مسیح موعوؑد فرماتے ہیں کہ یہاں حق سے مراد اللہ بھی ہے اور رسول کریمؐ بھی اور قرآن بھی اور خدا نے اپنے نام میں محمد رسول اللہؐ کو شامل کر لیا کیونکہ آپ اللہ تعالیٰ کی صفات کے کامل مظہر تھے۔ یہ اعزاز اتنی شان کے ساتھ کسی اور نبی کو نصیب نہیں ہوا۔
امر واقعہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک مخفی خزانہ تھا اس نے چاہا کہ وہ پہچانا جائے سو اس نے انسان کو اس لیے پیدا کیا کہ وہ اس کی صفات کا مظہر بنے۔ پہلے بھی نبیوں نے خدا کی صفات کے جلوے دکھائے مگر محدود استعدادوں کے ساتھ۔ محدود زمانے کے لیے اور محدود قوموں کے لیے۔سب کے بعد خدا نے کامل انسان اور عالمی نبی اور خدانما رسول کو بھیجا جو صفات الٰہیہ کا مظہر اتم تھا وہ سب نبیوں کی شانیں اور برکتیں ہزاروں گنا بڑھا کر لایا۔
مولانا صاحب نے کہا کہ آ ئیےان کے کچھ نظارے دیکھیں۔بات اللہ تعالیٰ کی چار بنیادی صفات سے شروع کرتے ہیں جو سورت فاتحہ میں درج ہیں۔ پہلی صفت رب العالمین ہے یعنی اللہ تعالیٰ آہستہ آہستہ ترقی دے کر کمال تک پہنچاتا ہے۔ رسول اللہؐ کے زمانہ میں انسانیت اور خاص طور عرب روحانیت اور اخلاق سے بالکل بے بہرہ تھے رسول کریمؐ نے انہیں ماں کی طرح روحانیت کا دودھ پلایا وحشیوں کو انسان بنایا انسانوں کو با اخلاق اور پھر انہیں خدا نما بنا دیا۔ اسی لیے رب العالمین خدا نے آپ کو رحمۃ للعالمین کے ابدی لقب سے نوازا۔
رحمان کے معنی ہیں بن مانگے دینے والا۔رسول اللہؐ نے انسان کو بغیر مانگے قرآن جیسی شریعت اور سنت جیسی نعمت عطا کی۔فرمایا الرَّحْمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ۔
رحیم کا مطلب ہے محنت کا اجر دینے والا۔ رسول اللہؐ نے صحابہ کی چھوٹی چھوٹی خدمات کا لاثانی اجر دیا عرب کے غیر معروف لوگوں کو آسمان کے ستارے بنادیا اور سینکڑوں صحابہ کو جنت کی بشارتیں دیں حضرت ابوبکرؓ خلیفہ بنے۔ حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ آج محمد رسول اللہؐ کے طفیل میرے پسینے کی جگہ ہزاروں لوگ خون بہانے کے لیے تیار ہیں۔ عثمان کو ذوالنورین اور علیؓ کو خاتم الاولیاء بنا دیا۔
آپؐ کے ذریعہ خدا کی صفت مالک یوم الدین اور مالک الملک بھی ظاہر ہوئی آپ دین کے بادشاہ بھی بنے اور دنیا کے بھی۔اسی لیے حضرت یسعیا ہ نے آپ کا نام خدائے قادر اور ابدیت کا باپ رکھا۔
آپؐ نے خدا کی صفات عفو اور غفور کے ایسے نظارے دکھائے جن کی تاریخ انبیاء اور تاریخ انسانیت میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ حضرت یوسفؑ نے لا تثریب علیکم کہہ کر اپنے سگے بھائیوں کو معاف کیا تھا مگر رسول اللہؐ نے مکہ کے جانی دشمنوں کو معاف کر دیا اپنی بیٹی اور چچا کے قاتلوں کو معاف کر دیا۔ زہر دینے والی یہودیہ کو معاف کیا۔ ایسے عفو کی نبیوں میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
صفت سلام کے تحت آپ نے دنیا کو اسلام جیسا مذہب دیا اورفرمایا ہر شخص کو سلامتی پہنچاؤ خواہ تم اسے جانتے ہو یا نہیں جانتے۔ ایک صحابی کا پاؤں آپ کے پاؤں پر آ گیا آپ نے چھڑی کے ذریعہ اسے ہٹایا۔ مگر اگلے دن صبح اسے رسول اللہؐ نے بلایا اوراسے اسّی بکریاں دیتے ہوئے فرمایا یہ اس تکلیف کا بدلہ ہے جو میں نے تمہیں پہنچائی تھی۔
صفت مومن کے معنی ہیں امن دینے والا۔ اس کے مطابق آپؐ نے مکہ اور مدینہ کو امن کے شہر قرار دیا۔ فرمایا جو دشمن اپنے گھر میں بیٹھ جائے وہ بھی امن میں ہے۔سراقہ جو گرفتار کرنے آیا تھا اس کو بھی امان دی۔ آپؐ ہی کی تجلی سے قادیان دارالامان کہلایا اور جماعت احمدیہ ساری دنیا میں امن کے قیام کے لیے سرگرم عمل ہے۔اور اس کا سربراہ امن کا سفیر کہلاتا ہے۔
آپؐ رؤوف ورحیم بھی تھے کچھ چادریں آئیں تو آپ نے صحابہ میں تقسیم کر دیں ایک نابینا صحابی کو دیر سے معلوم ہوا تو وہ ناراضگی کے عالم میں آئے تو رسول اللہؐ ان کے لیے ایک چادر لے کر باہر آئے اور فرمایا میں نے تمہارے لیے یہ چادر چھپا کر رکھ لی تھی۔
آپؐ کیسے شاکر اور شکورتھےکہ حضرت ابو بکرؓ اور حضرت خدیجہؓ کی خدمات اور قربانیوں کو ہمیشہ یاد رکھتے تھے۔ انسانوں کے شکر کو بھی انتہا تک پہنچادیا اور اللہ کے شکر کو بھی۔ فرمایا کیا میں اپنے رب کا شکر گزار بندہ نہ بنوں
آپؐ اول بھی تھے آپؐ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے جو چیز پیدا کی وہ میرا نور تھا۔ فرمایا میں اس وقت بھی خاتم النبیین تھا جب آدم ابھی تخلیق کے مراحل طے کر رہا تھا۔
آپؐ آخر بھی تھے کیونکہ آپ وہ آخری شریعت لائے جس کے بعد کوئی شریعت اور کوئی قانون نہیں۔ انی آخر الانبیاء و مسجدی آخرالمساجد۔میں نبیوں میں سے سب سے آخری ہوںاور میری مسجد تمام مساجد میں سے آ خری مسجد ہے۔
اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے اور اللہ نے اپنے نور کی مثال رسول اللہؐ کے پاک سینے اور مطہر دل سے دی ہے۔ آپ نے اپنے نور سے عربوں کو کیسے بدلا وہ جو پانچ وقت شراب کے اندھیروں میں بھٹکتے تھے تھے وہ پانچ وقت خدا ئے واحد کی عبادت سے منور ہونے لگے۔وہ جو ناچ گانے کے رسیا تھے وہ قرآن کی تلاوت سے لذت اٹھانے لگے۔
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ
نور لائے آسماں سے خود بھی وہ اک نور تھے
قوم وحشی میں اگر پیدا ہوئے کیا جائے عار
آپ اللہ کی صفت حمید اور مجید کے بھی مظہر کامل تھے اللہ نے عرش سے آپ کی حمد کی اور آپ محمد کہلائے۔ اس زمین پر ۲۴؍گھنٹوں میں کوئی ایسا لمحہ نہیں آتا جب رسول اللہؐ پر درود نہ پڑھا جا تا ہو۔ اللھم صل علی محمد وعلیٰ آل محمد۔ یہ وہ مقام محمود ہے جو صرف اور صرف آپ کو عطا کیا گیا ہے
آپ ؐغنی بھی تھے خدا نے آپ کو غربت کے دور سے بھی گزارا مگر آپ نے کبھی کسی سے کچھ نہیں مانگا۔آپ کو خدا نے بے پناہ دولت بھی دی مگر آپ نے سب راہ خدا میں لٹا دی۔
آپؐ اللہ کی صفت عزیز اور غالب کے بھی مظہر تھے شدید کمزوری اور بے کسی کے عالم میں اللہ نے آپ سے فتوحات کے وعدے فرمائے اور بڑی شان سے ان کو پورا کیا۔ اور مدینہ کی ریاست جو چند مربع میل پر مشتمل تھی رسول اللہؐ کی زندگی میں 10 لاکھ مربع میل پر پھیل گئی۔
آپؐ اللہ کی صفت وہاب اور معطی اور جواد کے بھی مظہر تھے خدا کی راہ میں اتنا لٹایا کہ لوگ سیر ہو گئے۔
آپؐ اللہ کی صفت خالق اور باری اور فاطر اور مصور کے بھی مظہر تھے آپ نے نئے بے مثال روحانی ارض و سماء تخلیق کیے جس کے آپؐ خود سورج ہیں اور ہزاروں صحابہ، خلفائے راشدین، تیرہ صدیوں کے سینکڑوں مفسرین، محدثین، مجددین اور اولیاء آپ کے چاند ستارے ہیں جو قیامت تک دنیا کو روشن کرتے رہیں گے ان میں وہ چودھویں کا چاند مسیح موعود بھی ہے جس نے رسول اللہؐ کے سارے انوار کو منعکس کیا اور بتا دیا کہ اگر چاند ایسا ہے تو سورج کیسا ہو گا۔
اللہ تعالیٰ کی ایک صفت غیور بھی ہے۔جس طرح خدا اپنے پیاروں کے لیے غیرت رکھتا ہے اسی طرح رسول کریمؐ اپنے خدا اور اس کی توحید کی غیرت رکھتے تھے۔ جنگ احد میں جب ابو سفیان نے توحید پر حملہ کیا اور کہا اعل ھبل۔ھبل بت زندہ باد تو رسول کریمؐ تڑپ اٹھے اور فرمایا جواب کیوں نہیں دیتے کہو اللّٰہ اعلی و اجل اللہ ہی سب سے بالا و برتر ہے۔
اللہ بہت حیا کرنے والا ہے۔صحابہؓ بیان کرتے ہیں کہ آپ کنواری لڑکیوں سے بھی بڑھ کر حیادارتھے۔ جب آپ کسی چیز کو ناپسند کرتے تو صحابہ ؓصرف آپؐ کے چہرے سے محسوس کر لیتے۔
اللہ کی ایک صفت ستار بھی ہے یعنی پردہ پوشی کرنے والا۔ رسول کریمؐ مسلمانوں کو اپنی ستاری کی تعلیم دیتے تھے اور دوسروں کی غلطیوں کی بھی حتی الامکان ستاری کرتے تھے۔
آپ اللہ کی صفت قادر، قدیر اور مقتدر کے بھی مظہر تھے۔ آپ کے ہاتھ پر اللہ نے محیر العقول معجزے دکھائے۔ بدر کے میدان میں ایک ریت کی مٹھی تیز آندھی میں تبدیل ہوگئی۔ جنگ احزاب کےدوران چند آدمیوں کا کھانا ایک ہزار افراد نے سیر ہو کر کھایا ایک پیالے میں چند گھونٹ پانی تھا اس میں ہاتھ رکھا تو انگلیوں سے چشمہ بہ پڑا حضرت علی ؓکی بیمار آنکھ پر ہاتھ پھیرا تو شفا پا گئی ایک صحابی کی ٹانگ فریکچر ہوگئی اس کو مس کیا تو ٹھیک ہو گئی۔ان معجزات کو سمجھنے سے سائنس آج بھی قاصر ہے مگر اہل اللہ آج بھی رسول اللہ ؐکی برکت سے یہ نظارے دکھاتے ہیں
آپؐ خبیر اور بصیر بھی تھے اپنے ہزاروں صحابہ کے تفصیلی حالات سے واقف تھے ان کی مالی اخلاقی اور روحانی کیفیات پر نظر رکھتے تھے اور اس کے مطابق نصائح کرتے تھے کسی کو خدمت والدین کی نصیحت کی کسی کو نماز کی کسی کو جہاد بالسیف کی کسی کو ہمسائے سے حسن سلوک کی۔
آپؐ اللہ کی صفت الجامع کے بھی مظہر تھے آپ نے پہلی دفعہ عالمی رسول ہونے کا اعلان کیا اور آپ کے ذریعہ دنیا کی ساری قومیں اکٹھی ہو گئیں اور کالے اور گورے اور عرب و عجم کا امتیاز مٹ گیا اس صفت کے ظہور کا دوسرا دور یہ ہے جب آج ۲۱۳ ملکوں کے لوگ آپؐ کے ذریعہ مسیح موعودؑ کے خلیفہ کے ہاتھ پر اکٹھے ہو کر توحید کی گواہی دیتے ہیں۔ ہر سال لاکھوں لوگ جماعت احمدیہ میں داخل ہو کر آپ کی صفت جامع کی گواہی دیتے ہیں۔
آپؐ اللہ تعالیٰ کی صفت علیم کے بھی مظہر اتم تھے آپ پر نازل ہونے والا کلام قرآن علم غیب کا سمندر ہے اس کے علاوہ بھی وحی خفی سے رسول اللہؐ نے سینکڑوں پیشگوئیاں بیان کی ہیں جو آج تک پوری ہوتی چلی آ رہی ہیں۔اللہ نے خبر دی کہ یہ قرآن دنیا میں سب سے زیادہ لکھی اور پڑھی جانے والی کتاب ہوگی۔ آپؐ نے اسلام کے عروج کے بعد اس کے تنزل کی خبر دی آپؐ نے دجال یاجوج ماجوج یعنی مغربی اقوام کے مذہبی اور سیاسی فتنوں اور سائنسی ترقیات کی خبر دی۔ آج کے دور کی تمام سہولتوں، تمام ایجادات اور گلوبل ولیج پر محمد مصطفی ٰؐ کی صفت علیم کا سایہ ہے۔ رسول اللہؐ نے ہمیں بتایا کہ آخری زمانہ میں خدا مسیح موعود کے ذریعہ خلافت علی منہاج نبوت دوبارہ قائم کرے گا۔ قرآن میں اشارے تھے اور رسول کریمؐ نے بتایا کہ امام مہدی کے زمانہ میں ایک منادی آسمان سے ندا کرے گا اور امام مہدی کے ظہور کی خبر دے گا۔
مولانا صاحب نے کہا کہ آج ہم وہ خوش نصیب ہیں جو اللہ تعالیٰ کی صفت علیم اور علام الغیوب کے مظہر اتم کی ان ساری پیشگوئیوں کو پورا ہوتے دیکھ رہے ہیں۔
مولانا صاحب نے اپنی تقریر کا اختتام حضرت مسیح موعودؑ کے اس اقتباس پر کیا۔ وہ انسان جوسب سے زیادہ کامل اور انسان کامل تھا اور کامل نبی تھا اور کامل برکتوں کے ساتھ آیا جس سے روحانی بعث اور حشر کی وجہ سے دنیا کی پہلی قیامت ظاہر ہوئی اور ایک عالَم کا عالَم مرا ہوا اس کے آنے سے زندہ ہو گیا۔وہ مبارک نبی حضرت خاتم الانبیاء، امام الاصفیاء، ختم المرسلین، فخرالنبیین جناب محمد مصطفیٰؐ ہیں۔ اے پیارے خدا! اس پیارے نبی پر وہ رحمت اور درود بھیج جو ابتداء دنیا سے تو نے کسی پر نہ بھیجا ہو۔ … اَللّٰھُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ وَبَارِکْ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ اَجْمَعِیْنَ ۔
اس اجلاس کی آخری تقریر مکرم رفیق احمد حیات صاحب امیر جماعت احمدیہ برطانیہ کی تھی جس کا موضوع تھا ’’عصر حاضر کے برے اثرات سے بچاؤ‘‘۔
امیر صاحب نے کہا کہ آج مجھے ایک ایسے موضوع پر بات کرنے کا موقع ملا ہے جس پر ہم میں سے بہت سے لوگ فکرمند ہیں۔ دور حاضر میں انسانیت نے تمام سیکولر شعبوں میں بڑی ترقی دیکھی ہے۔ سفر کے جدید ذرائع الیکٹرانک اور ڈیجیٹل مواصلات، جیسے ٹیلی فون، ریڈیو، ٹیلی ویژن، انٹرنیٹ اور اب مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی میں مزید ترقی کے ذریعے ساری دنیا جُڑ گئی ہےلیکن دوسری جانب انسان ایک دوسرے سے اور درحقیقت اپنے خالق سے دُور چلا گیا ہے۔ اس ترقی نے بہت سی معاشرتی برائیوں جیسے سیاسی اور معاشی بدعنوانی، بداخلاقی اور معاشرتی ناانصافیوں میں اضافہ کیا ہے۔ یہ منفی رجحانات نہ صرف ہمارے حال کو متاثر کر رہے ہیں بلکہ ہمارے مستقبل کو بھی خراب کرنے کا امکان ہے۔ آج دنیا کا سب سے اہم مسئلہ امن کا فقدان ہے۔
امیر صاحب نے سورة العصر کے حوالہ سے بتایا کہ بحیثیت مسلمان ہمیں ایسے وقت کے بارے میں خبردار کیا گیا تھا۔ یہاں ہمیں بتایا گیا ہے کہ حقیقی سکون اور خوشی صرف اسی شخص کو ملے گی جو نیک اعمال کی کوشش کرے گا اور اپنے خالق کے ساتھ تعلق قائم رکھے گا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں حقوق اللہ اور حقوق العباد پر بہت زور دیا ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا ہے کہ قرآن مجید کے بنیادی احکامات صرف دو ہیں: (۱) اللہ کی توحید اور اللہ تعالیٰ سے محبت اور فرمانبرداری جو عظیم صفات کا مالک ہے، اور (۲) اپنے بھائیوں اور انسانوں کے ساتھ حسن سلوک ہے۔لیکن جب ہماری زندگی کا مقصد نفع کمانا، لذت حاصل کرنا اور مقام حاصل کرنا ہوتا ہے تو اس سے اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ اہداف پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے بہت کم وقت، توانائی اور صلاحیت تھوڑی رہ جاتی ہے۔
امیر صاحب نے ذاتی برتری کے حوالہ سے کہا کہ ہمارا معاشرہ میں کے کلچر (Me culture) کی لپیٹ میں آ چکا ہے۔ سائیکولوجیکل سائنس میں شائع ہونے والی ایک حالیہ تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ دنیا بھر میں لوگ وقت کے ساتھ ساتھ زیادہ انفرادیت پسند ہوتے جا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا، اگرچہ یہ ہمیں دوسروں سے جوڑتا ہے، لیکن خود کو مرکوز بنا سکتا ہے، کیونکہ لوگ اپنی ’’موجودگی‘‘ کو ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ زیادہ تر سوشل میڈیا ’’میرے بارے میں‘‘ ہے۔ انفرادیت ایک ’’میں سب سے پہلے‘‘ کے رویے کو ہوا دیتی ہے جس کی وجہ سے لوگوں کے لیے کم خوش قسمت لوگوں کی جدوجہد کو پہچاننا یا اجتماعی بھلائی کے لیے خود کو قربان کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ ایک اورخطرناک تشویش تعاون کا فقدان ہے۔ ہم پہلے ہی اپنے پولرائزڈ سیاسی نظام میں یہ دیکھ رہے ہیں، جہاں مخالف نظریات رکھنے والے لوگ اور جماعتیں مسائل کو حل کرنے کے لیے مل کر کام کرنے سے قاصر ہیں۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ یہی وہ چیز ہے جو ممکنہ طور پر ہماری دنیا کو جنگ عظیم سے پہلے کی حالت میں لے جا رہی ہے، کیونکہ ہم تیسری عالمی جنگ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ یہ انفرادیت بہت سے دوسرے عوامل سے متاثر ہوتی ہے۔ آج بدعنوان معاشرے کے سب سے زیادہ رائج رجحانات میں سے ایک مادیت پرستی ہے۔ بہت سے لوگ مادی زیادتی کے نتائج سے ناواقف ہیں۔ یہ فلاح و بہبود کی نچلی سطح سے وابستہ ہے، جیسے معاشرتی تعامل کی کمی، زیادہ ماحولیاتی فضلہ اور تباہی، اور خراب تعلیمی نتائج۔ یہ زیادہ اخراجات کے مسائل اور قرض کے ساتھ بھی منسلک ہے۔
امیر صاحب نے بیلر یونیورسٹی میں ہونے والی ایک حالیہ تحقیق کے بارہ میں بتایا کہ جو افراد زیادہ مادہ پرست ہوتے ہیں ان کی زندگی میں اطمینان کی سطح کم ہوتی ہے اور ان میں ڈپریشن کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ مطالعے سے یہ بھی پتا چلا ہے کہ ٹین ایج بچوں میں افسردگی کی شرح ۲۰۱۲ء سے بڑھنا شروع ہوئی، جب چھوٹے بچوں نے سوشل میڈیا تک زیادہ بار رسائی حاصل کرنا شروع کردی۔ اس کے نتیجے میں اس نے ساتھی تعلقات، خاندانی تعلقات اور روزمرہ کی سرگرمیوں کی نوعیت کو یکسر تبدیل کردیا ہے۔
امیر صاحب نےکہا کہ وجہ یہ ہے کہ مادیت پسندی اب بڑی حد تک اسنیپ چیٹ، انسٹاگرام اور فیس بک جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے حد سے زیادہ استعمال کی وجہ سے بھی ہے جو صارفین کو خوبصورتی اور دولت کے ناقابل حصول معیارات کی خواہش کرنے پر بہت زیادہ متاثر کرتی ہے۔ وہ معیار جو حقیقت میں حقیقی دنیا سے مکمل طور پر الگ ہیں۔بہت سے نوجوان سوشل میڈیا کے مثبت استعمال کے بارے میں بتاتے ہیں۔ ایسی کچھ مثالیں ہیں جہاں مثبت کمیونٹیز کو ایک جیسی فکریں پیش کرنے کے لیے ایک پلیٹ فارم مل سکتا ہے۔ ہم نے حال ہی میں غزہ اور یوکرین کے تنازعات کے ضمن میں دیکھا کہ دنیا نے ان پلیٹ فارمز کو بے گناہ شہریوں کے خلاف ہونے والے مظالم کے خلاف کھڑے ہونے کے لیے استعمال کیا ہے۔ تاہم، چونکہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم اتنے وسیع ہیں کہ بچوں کے لیے ان کی عمراور سمجھ سے باہر مواد کی زد میں آنا آسان ہے۔ اس سے انہیں غلط معلومات اور یہاں تک کہ بنیاد پرستی کا بھی خطرہ ہے۔
امیر صاحب نے بل گیٹس اوراسنیپ چیٹ کے سی ای او ایون اشپیگل کی مثال دی کہ کس طرح انہوں نے اپنے بچوں اور فیملی کے لیے ٹیکنالوجی کو محدود کیا ہوا ہےاور کہا کہ دوسری مثال اس بارے میں بہت کچھ بتاتی ہیں کہ ہمیں سوشل میڈیا کے اپنے روزانہ استعمال کس حد تک پہنچنا چاہیے۔
امیر صاحب نے کہا کہ ہمارے پیارے حضور ایدہ اللہ نے بار بار ہماری راہنمائی کی ہے کہ انٹرنیٹ کے ان منفی اثرات سے کیسے بچا جائے جو ہمیں نقصان پہنچا سکتی ہیں اور کس طرح اس مواد سے فائدہ اٹھایا جائے جو ہمیں فائدہ پہنچا سکتا ہے۔ برطانیہ سے تعلق رکھنے والی واقفاتِ نو کے ساتھ ایک ملاقات کے دوران حضور نے تفصیلی وضاحت فرمائی ہے کہ اگر آپ سوشل میڈیا کے منفی استعمال کو جانتے ہیں تو آپ کو اس طرح کے استعمال سے گریز کرنا چاہیے۔ اس کے بجائے، ان سائٹس پر جائیں جو آپ کے علم میں اضافہ کریں۔ مثال کے طور پر سائنسی یا تعلیمی پروگرام اور دستاویزی فلمیں دیکھیں اور سائنس دانوں اور ماہرین تعلیم کے تبصرے اور مضامین پڑھیں۔
امیر صاحب نے کہا کہ بہت سے والدین کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ اپنے بچوں کے اسکرین ٹائم کو محدود کریں کیونکہ تحقیق اور مطالعہ نے بچوں کی گرومنگ کے واقعات میں اضافے کی تصدیق کی ہے۔ NSPCC کے مطابق، پچھلے پانچ سالوں میں ہر چار میں سے ایک آن لائن گرومنگ جرائم پرائمری اسکول کے بچوں کے خلاف تھے۔ ۷۳؍فیصد جرائم میں Snapchat اور میٹا شامل تھے۔ بہت سے مطالعات سے پتا چلتا ہے کہ بچے آن لائن مجرموں کا شکار ہو رہے ہیں کیونکہ انہیں اکثر گھر میں نظر انداز کیا جاتا ہے۔
امیر صاحب نے کہا کہ میں اس بات کو سراہتا ہوں کہ بہت سے والدین جو کُل وقتی کام کر رہے ہیں، وہ کام اور زندگی میں توازن پیدا کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ تاہم، والدین کو اپنے بچوں کو صحت مند اور خوش رکھنے کو یقینی بنانے کے لیے اپنے وقت کا ایک اچھا حصہ اپنے بچوں کی جسمانی، تعلیمی اور روحانی نشوونما کے لیے وقف کرنا چاہیے۔ برائےکرم اپنے بچوں کو باقاعدگی سے مسجد میں لائیں تاکہ یہ یقینی بنایا جاسکے کہ وہ اچھی صحبت میں ہیں۔ اسکول میں ان کی سرگرمیوں کے بارے میں جاننے کے لیے وقت نکالیں اور ان کے ساتھ دوستی کا رشتہ قائم کریں۔ حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے بچوں کی پرورش پر خصوصی توجہ دی۔ بیماری میں دیکھ بھال، گھنٹوں انہیں تسلی دیتے، انہیں کہانیاں سناتے اور اخلاقی طور پر ان کی پرورش کرتے تھے۔ پھر ان کے لیے پرجوش دعا کرتے تھے۔
امیر صاحب نے حضرت مسیح موعودؑ کے واقعات سنائے اور کہا کہ اس سے ہم یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ نے اپنی ذمہ داریوں اور مصروف زندگی کے باوجود ہمیشہ اپنے بچوں کی پرورش کو ترجیح دی اور انہیں وقت دینے میں کبھی کوتاہی نہیں کی۔ جب بچوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے تو وہ اکثر سماجی اور اخلاقی انحطاط کا شکار ہوجاتے ہیں۔
امیر صاحب نے پورنوگرافی کی لت سے متعلق کہا کہ یہ ایک اہم مسئلہ ہے جو ہمارے معاشرے کی بنیاد یعنی خاندانی نظام کو متاثر کر رہا ہے۔ اس addiction یعنی لَت کے اتنے عام ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس مواد تک رسائی آسان ہے۔ ٹائم میگزین کے ایک مضمون کے مطابق، دس سے سترہ سال کی عمر کے چالیس فیصد سے زیادہ بچے آن لائن پورنوگرافی کا شکار ہوئے ہیں، جن میں سے بہت سے حادثاتی طور پر ہیں۔ مضمون میں اس بات پر تبادلہ خیال کیا گیا کہ یہ تصاویر کس طرح مردوں اور عورتوں کو جسمانی اشیاء سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتیں۔ مطالعے سے یہ بھی پتا چلا ہے کہ اس طرح کے مواد کو بار بار دیکھنے سے انسان اپنے ساتھی کے ساتھ قربت پر اسے ترجیح دے سکتا ہے اور تعلقات میں مسائل پیدا کرسکتا ہے اور تناؤ کا باعث بن سکتا ہے۔ اس طرح کے مواد کی نمائش بچے کی معصومیت کو دُور کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی قدرتی اور روحانی نشوونما میں رکاوٹ پیدا کرتی ہے۔ لہٰذا، وہ اپنی زندگی میں توازن حاصل نہیں کرتے ہیں جو مستحکم ازدواجی اور گھریلو زندگی کے لیے ضروری ہے۔
امیر صاحب نے کہا کہ آپ کو صرف قرآن کریم کی طرف دیکھنے کی ضرورت ہے، یہ جاننے کے لیے کہ ہمارا مذہب ہمیں سکھاتا ہے زندگی میں ہر رشتہ احترام اور وقار کا متقاضی ہے۔ اسلام میں شادی صرف شوہر اور بیوی کے درمیان تعلق تک محدود نہیں ہے اور نہ ہی یہ صرف حصول اولاد کے لیے ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب کوئی شخص شادی کر لیتا ہے تو اس نے اپنا آدھا دین پورا کر لیا ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شادی کا مطلب فکری، جذباتی اور روحانی تکمیل کا بندھن ہے۔
امیر صاحب نے کہا کہ ایک جماعت کے طور پر ہمیں اس معاملے میں بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ مجھ سے بہت سے والدین اپنے بچوں کے لیے مناسب رشتوں کی تلاش میں رابطہ کرتے ہیں۔ جب میں ان سے پوچھتا ہوں کہ وہ کیا تلاش کر رہے ہیں تو وہ اکثر سطحی عناصر پر توجہ مرکوز کرتے ہیں، ’’اسے اتنا کمانا چاہیے… وہ نیلی آنکھوں کے ساتھ خوبصورت ہونا چاہیے… اسے کھانا پکانا وغیرہ کا طریقہ معلوم ہونا چاہیے۔‘‘ یہ ان کے سوشل میڈیا کے سامنے آنے کا نتیجہ ہے، جو حقیقت سے دور ایک غیر فطری ماحول اور توقعات پیدا کرتا ہے۔ بعض اوقات شخصیت اور دین کے متعلق ایک لفظ بھی نہیں کہا جاتا ہے۔والدین اکثر مجھ سے کہتے ہیں کہ ہم کیا کر سکتے ہیں امیر صاحب، ہمارا بچہ یہی چاہتا ہے۔
امیر صاحب نے کہا کہ آج اس پلیٹ فارم سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں بچوں اور نوجوان بالغوں کو براہ راست مخاطب کرنا چاہوں گا کہ آپ کو دولت اور خوبصورتی جیسے سطحی عناصر کی بنیاد پر زندگی کے ساتھی کا انتخاب نہیں کرنا چاہیے کیونکہ یہ دو عناصر ہمیشہ سے تبدیل ہو رہے ہیں۔ آج جو خوبصورت ہے وہ عمر کے ساتھ بوڑھا ہو جائے گا اور دولت ایک سیکنڈ میں ضائع ہو سکتی ہے۔حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاکہ مرد کی عورت سے شادی کرنے کی چار وجوہات ہیں۔ اس کی دولت، اس کا خاندانی پس منظر، اس کی خوبصورتی، یا اس کی دینداری۔ لیکن آپ کو ایک دیندار عورت کو ترجیح دینی چاہیے۔ اللہ آپ کو نیک بیوی عطا فرمائے۔
امیر صاحب نے کہا کہ آج مسلم نوجوانوں کے لیے ایک اور بڑا چیلنج ان کی ذہنیت پر مغربی میڈیا کا اثر و رسوخ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ نام نہاد ’’جدید زندگی‘‘ کے لیے اسلام کی مناسبت کو چیلنج کرتا ہے۔ اسلام کو بدنام کرنے کے لیے مغربی میڈیا اسے قرون وسطیٰ کے جارحانہ مذہب کے طور پر پیش کرتا ہے کہ یہ دونوں صنفوں کو مساوی حقوق نہیں دیتا۔ اور بدقسمتی سے ہمارے بچے اپنے عقیدے کی تفہیم نہ ہونے کی وجہ سے اسلام کا دفاع کرنے کے بجائے اس بیانیے کا شکار ہو جاتے ہیں۔ لہٰذا سکون حاصل کرنے کے لیے وہ خود کو نام نہاد مغربی ثقافتی اقدارسے جوڑ تے ہیں جو انہیں اخلاقیات، روحانیت اور ان کی روح کی نشوونما سے دُور لے جاتی ہیں۔ جزوی طور پر قصور ان والدین کا ہے جو اپنی زندگی میں بہت زیادہ مصروف ہیں۔
امیر صاحب نے کہا کہ حال ہی میں برطانیہ میں ہم نے دیکھا کہ نہ صرف ہمارے نوجوانوں کو مغربی اقدار سے چیلنج کیا جا رہا ہے بلکہ احمدیوں کے خلاف بیانیے کو فروغ دینے والے نام نہاد مسلم اسکالرز کی جانب سے بھی انہیں گمراہ کیا جا رہا ہے۔ اپنے عقیدے کی تفہیم نہ ہونے کی وجہ سے وہ جو کچھ سنتے تھے اس سے پریشان ہو رہے تھے۔ چنانچہ حضور انور کی ہدایت پر علماء جماعت نے نوجوانوں کی جانب سے اٹھائے گئے مسائل کو حل کرنا شروع کیا تاکہ نوجوانوں کو یقین دلایا جا سکے کہ انہیں غلط معلومات فراہم کی گئی ہیں۔
امیر صاحب نے کہا کہ ایک اور منصوبہ جو ہم اپنے نوجوان ممبروں کے خدشات اور خوف کو دور کرنے کے لیے شروع کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ نوجوانوں کے خدشات کا جواب ایک اوپن فورم پر دیا جائے جس میں موضوع کے بارے میں کوئی پابندی نہ ہو۔ اس کے نتیجے میں انہیں شفافیت اور ایمانداری کا اعتماد ملے گا۔ ہمارے سامنے ایک اور بڑا چیلنج یہ ہے کہ نئی نسلیں محسوس کرتی ہیں کہ ان کے پاس مکمل علم ہے اور وہ گوگل سرچ سے فوری جوابات حاصل کرسکتے ہیں۔ وہ یہ سمجھنے میں ناکام رہتے ہیں کہ گوگل پر موجود ہر چیز لازمی طور پر مستند اور حقائق پر مبنی نہیں ہے۔ہم جانتے ہیں کہ گوگل جس طرح کام کرتا ہے وہ الگورتھم کے ذریعے ہوتا ہے، لہٰذا ایک بار جب ہماری سرچ میں کوئی خاص نقطہ نظر اختیار کیا جاتا ہے تو گوگل متوازن نقطہ نظر دینے کے بجائے اس بیانیے کو تقویت دیتا ہے۔ اس کے نتیجے میں یہ صارفین کو زیر بحث موضوع کے بارے میں متوازن بیانیہ یا دلیل کے لیے کمزور راہ دکھاتا ہے۔
امیر صاحب نے چند اور مسائل پر روشنی ڈالی جن میں ڈیجیٹل فٹ پرنٹ، اشتہارات کی طاقت، اور گیمز کےنشے کی لت تھے۔ امیر صاحب نے کہا کہ اکثر کھیل جارحیت کے ساتھ ساتھ قتل اور تباہی کی عکاسی کرتے ہیں جو بچوں کو اس طرح کے تشدد کے بارے میں غیر حساس بناتے ہیں اور ہمدردی اورسمجھ میں کمی کا باعث بنتے ہیں۔اس کے علاوہ حالیہ تحقیق یہ ہے کہ میڈیا اور سکرین ٹائمنگ کے سامنے زیادہ آنے سے توجہ کا دورانیہ کم ہوتا ہے۔ یہ اب قومی حکام کے لیے تشویش کا باعث بنتا جا رہا ہے اور چین میں حکومت نے اس بات پر پابندی عائد کر دی ہے کہ بچے اسکرین کے سامنے کتنا وقت گزار سکتے ہیں۔ بی بی سی کی جانب سے شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق انگلینڈ کے اسکولوں کو نئی ہدایات دی گئی ہیں جن کا مقصد اسکول کے دن کے دوران موبائل فون کا استعمال بند کرنا ہے۔ اس کارروائی کی وجہ رکاوٹ کو کم سے کم کرنا اور کلاس رومز میں طرز عمل کو بہتر بنانا تھا۔
امیر صاحب نے کہا کہ نوجوان شادی شدہ جوڑوں میں حد سے زیادہ فون کے استعمال کے اثرات کے سبب کم توجہ اور صبر کی کمی جیسے بڑے مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ ایک نوجوان شادی شدہ جوڑا ایک کمرے میں ایک ساتھ بیٹھا ہوا تھا اور ایک دوسرے سے براہ راست بات کرنے کے بجائے ٹیکسٹ میسجز کے ذریعے بات چیت کر رہا تھا۔ پہلی چیز یہ ہے کہ والدین اپنی اصلاح کریں اور اپنے بچوں کے لیے رول ماڈل بنیں۔ آئیے اچھی اخلاقی اقدار پر عمل کرنے اور اپنی پانچ نمازیں باقاعدگی سے پڑھنے سے شروع کریں۔ سوشل میڈیا پر کم وقت گزاریں اور اپنے بچوں کے ساتھ پڑھنے، کھیلنے اور مشغول ہونے اور ان کے ساتھ مضبوط تعلق کو فروغ دینے کے لیے زیادہ وقت دیں۔ سوشل میڈیا اور عام طور پر مادیت پرستی پر حد سے زیادہ انحصار اور استعمال کی وجہ سے پیدا ہونے والا ایک اور مسئلہ والدین اور بچوں کے درمیان کمزور رشتہ ہے، خاص طور پر جب والدین بڑھاپے تک پہنچ جاتے ہیں۔ آج افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ معاشرہ والدین کو بوجھ سمجھتا ہے۔ امریکہ میں یہ ایک عام رجحان بن گیا ہے اور اسے ایک عنوان بھی دیا گیا ہے: granny dumping۔ ایک اندازے کے مطابق ہر سال تقریباً ایک لاکھ عمر رسیدہ امریکیوں کو ان رشتہ داروں کی طرف سے چھوڑ دیا جاتا ہے جو ان کی دیکھ بھال یا ان کی دیکھ بھال کے اخراجات ادا کرنے سے قاصر یا تیار نہیں ہیں۔
آخر پر امیر صاحب نے کہا کہ میں نے اپنی تقریر میں کئی منفی رجحانات کے بارے میں بات کی ہے۔ ان کا حل اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق قائم کرنے اور مخلوق سے رحم دلی کرنے میں ہے۔حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت اس وقت پر ہوئی جب دنیا کو سب سے زیادہ اس کی ضرورت تھی۔ہم بہت خوش قسمت ہیں کہ ہم نے اسلام احمدیت کو قبول کیا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ حضور انور کو صحت والی لمبی زندگی عطا کرے۔