حضرت مصلح موعود ؓ

لَمۡ نَجۡعَلۡ لَّہٗ مِنۡ قَبۡلُ سَمِیًّا کے معنے (خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرموده ۸؍ جون ۱۹۱۷ء) (قسط اوّل)

جون ۱۹۱۷ء میں حضرت مصلح موعودؓ نے ایک خطبہ ارشاد فرمایاجس میں آپؓ نے سورۃ مریم کی آیت نمبر ۸ کی لطیف تشریح بیان فرمائی ہے۔قارئین کے استفادے کے لیے یہ خطبہ شائع کیا جاتا ہے۔(ادارہ)

حضورؓ نے تشہداور تعوذ کے بعد حسبِ ذیل آیت کی تلاوت فرمائی۔ یٰزَکَرِیَّاۤ اِنَّا نُبَشِّرُکَ بِغُلٰمِۣاسۡمُہٗ یَحۡیٰی لَمۡ نَجۡعَلۡ لَّہٗ مِنۡ قَبۡلُ سَمِیًّا۔(مریم رکوع اول)

اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ ہر ایک عظیم تغیر جو دنیا میں کرتا ہے اس سے پہلے اس کا ایک نمونہ پیدا کرتا ہے جیسا کہ اس کی حکمت کاملہ چاہتی ہے تا کہ وہ نمونہ مثال کے طور پر کام آئے اور اس کو دیکھ کر لوگ آئندہ حق کے قبول کرنے کے لئے تیار ہو جاویں۔

جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے اور

خداتعالیٰ کی صفات چاہتی ہیں درحقیقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کامل نبی گزرے ہیں کیونکہ جو ربّ العالمین کی طرف سے کامل نبی ہو ضرور ہے کہ وہ ساری دنیا کی طرف ہو۔

لیکن لوگوں کو نبوت و رسالت سے آگاہ کرنے کے لئے گاؤں بہ گاؤں نبی بھیجے گئے۔ وہ انبیاء ایک نمونہ تھے۔ لوگوں نے ان پر اعتراض کئے، بحث مباحثے کئے، ان کے مقابلے کئے، اس پر ان کی سچائی کے نشان ظاہر ہوئے اور ان کی تعلیم معلوم ہوئی کہ کیسی ہوتی ہے اور یہ بھی پتہ لگا کہ اس تعلیم کو سمجھنے کے لئے کن کن مسائل کا جاننا اور سمجھنا ضروری ہے۔جب سب قومیں اِن باتوں کو جان چکیں تب وہ نبیؐ آیا جو رب العالمین کی طرف سے تمام جہان کے لئے تھا۔

اسی طرح وہ کتاب بھی ایسی لایا جو تمام دنیا کے لئے ایک ہی ہے اور اَبدالآباد تک قائم رہنے والی ہے۔ جس طرح اس خدا کی خدائی کو کوئی نہیں بدل سکتا اِسی طرح آنحضرت ﷺ کو جو خدا کی طرف سے کتاب دی گئی ہے اس کو بھی کوئی نہیں بدل سکتا۔

اور اِسی طرح اس کی نبوت بھی قیامت تک ختم نہیں ہوسکتی بلکہ آپؐ کے ذریعہ نبوت کا دروازہ کھلا ہے اور ایک ایسا شخص جو خدا کے علم میں اس کا کامل متبع ہو اس کو بھی اس کی اتباع سے نبوت مل سکتی ہے۔

اِن مثالوں کے بیان کرنے یعنی پہلے انبیاء کے بھیجنے میں خداوند کریم کی ایک بہت بڑی حکمت یہ تھی کہ

تمام دنیا کے لئے ایک ایسا موعود بھیجا جائے جس کو پہلے انبیاء کے نام دیئے جائیں اور ان سے پہلے انبیاء کے ماننے والوں کو اس کے قبول کرنے میں آسانی ہو

کیونکہ انسان کے دل میں جن لوگوں کی عزت ہوتی ہے اگر وہی لوگ آئیں تو بہت خوشی ہوتی ہے۔ لیکن ان کی بجائے خواہ ان سے بڑا بھی آ جائے تب بھی چنداں التفات نہیں کرتے۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو مقام حاصل ہے وہ کسی دوسرے نبی کو حاصل نہیں۔

اگر مسیح موعود علیہ السلام کو یہ درجہ حاصل ہوا تو صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی سے ہی حاصل ہوا ہے۔

مگر چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گزشتہ انبیاء کے نام نہیں دیئے گئے تھے اس لئے لوگ مسیح وغیرہ کے تو منتظر رہے اور اب بھی ہیں مگر آپؐ کے منتظر نہیں حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سب انبیاء کے موعود ہیں جیسا کہ گزشتہ مذہبی کتب سے ظاہر ہے۔ مگر ہندوؤں میں جس طرح حضرت کرشنؑ کی دوبارہ آمد کا انتظار کیا جاتا ہے اس طرح اس عظیم الشان نبی کا نہیں کیا گیا۔ پھر عیسائی صاحبان جس طرح مسیح کی آمد ثانی کے منتظر ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نہیں تھے۔ تو باوجود اِس کے کہ

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم درجہ اور شان کے لحاظ سے تمام انبیاء کے سردار ہیں

مگر لوگ آپؐ کے اس اضطرار سے منتظر نہیں تھے جس طرح ان کو خیال ہے کہ مسیح آئے۔ کیوں؟ اِس لئے کہ مسیحیوں کو حضرت مسیح کے نام سے اور ہندوؤں کو کرشن کے نام سے اور بدھ ازم والوں کو بدھ کے نام سے جو محبت اور اُنس ہے وہ آپؐ سے نہیں۔ کیونکہ مسیحی لوگ حضرت مسیح پر جان دینے کو تیار ہیں، بدھ لوگ بدھ کے نام پر مر مٹنے پر آمادہ ہیں مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو ان سب کی صف میں سب سے آگے ہیں آپؐ کا ان لوگوں کو خیال تک نہیں۔ اگرچہ اِن لوگوں کی کتب میں آپ کی پیشگوئی مستقل طور پر پائی جاتی ہے مگر چونکہ ان کے مانے ہوئے انبیاء کے نام سے نہیں اس لئے ان کو آپؐ کا خیال نہیں۔

اب یہ تو ہو نہیں سکتا کہ وہ سب لوگ آئیں جن کے ہر ایک مذہب والے منتظر ہیں

اِس لئے خداتعالیٰ نے اپنی مصلحت اور حکمت کے ماتحت ایک ہی شخص کو اِن تمام موعود انبیاء کے نام دے دیئے ہیں تا ہرمذہب والے کو اس کے ماننے اور قبول کرنے میں آسانی ہو۔

موعود انبیاء کے نام ایک ہی کو دینے میں یہ حکمت ہے کہ اگر ان لوگوں کو غیر شخص فیصلہ کے لئے دیا جاتا تو وہ اس کوقبول کرنے کو تیار نہ ہوتے لیکن

اگر وہی شخص ان کو حکم بنا کر دیا جائے جس کو وہ پہلے سے جانتے پہچانتے ہیں اور جس کے نام سے ان کو خاص محبت ہے تو وہ ضرور اس کی طرف توجہ کریں گے۔

پس اگر دیگر مذاہب کے لوگوں کو کہا جائے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آ گئے تو وہ توجہ نہیں کریں گے لیکن اگر ہندوؤں کو کہا جائے کہ کرشن آ گئے تو کرشن کے نام کے ساتھ محبت رکھنے والے ہندو فوراً پوچھیں گے کہ کہاں آئے ہیں؟ اسی طرح عیسائی صاحبان کو جب کہا جائے کہ حضرت مسیح آ گئے تو وہ بڑی خوشی سے اس خبر کو سنیں گے اور اس کی تصدیق کی طرف متوجہ ہوں گے۔ کیوں؟ اس لئے کہ انہیں ایک آنے والے کی اِس نام سے خبر دی گئی ہے جس کی غرض یہ تھی کہ آنے والے کے نام سے یہ لوگ فائدہ اُٹھائیں اور حق قبول کریں۔

پس جب دنیا میں ایک عظیم الشان شخص کو پہلے انبیاء کے ناموں کے ساتھ بھیجنا تھا تو ضروری تھا کہ اس کاکوئی نمونہ بھی پیش کیا جاتا تا کہ لوگ اس سے فائدہ اُٹھاتے اور وقت پر لوگ ٹھوکر نہ کھاتے۔

اب چونکہ خداوند کریم ایک ہی شخص کو گزشتہ تمام انبیاء کے نام دے کر اور حَکَم بنا کر بھیجنا چاہتا تھا اِس لئے اللہ تعالیٰ نے اِس کا ایک نمونہ پہلے سے رکھ دیا۔

چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے: یٰزَکَرِیَّاۤ اِنَّا نُبَشِّرُکَ بِغُلٰمِ ۣاسۡمُہٗ یَحۡیٰی لَمۡ نَجۡعَلۡ لَّہٗ مِنۡ قَبۡلُ سَمِیًّا اے زکریا! ہم تجھے ایک لڑکے کی خوشخبری دیتے ہیں وہ لڑکا بچپن میں فوت نہیں ہو جائے گا بلکہ زندہ رہے گا اور ہم تجھے ایک اَور خوشخبری بھی دیتے ہیں کہ اس لڑکے میں ایک ایسی بات ہوگی جس میں یہ منفرد ہوگا اور اِس سے قبل کوئی اس بات میں اس کا شریک نہیں ہوگا، وہ یہ کہ وہ ایک نبی کا مثیل ہوگا اور اس سے پہلے اس کی کوئی نظیر نہیں ہے۔ انبیاء مَاسَبَقَ مستقل طور پر نبی تھے کسی نبی کے وہ مثیل نہیں تھے لیکن

حضرت یحیٰؑ جس کو یوحنا بھی کہا جاتا ہے ایک نبی کے مثیل قرار دیئے گئے یعنی حضرت الیاسؑ جس کو ایلیاء بھی کہتے ہیں ان کے آپ مثیل تھے۔

حضرت مسیحؑ کے آنے کے متعلق بائبل میں پیشگوئی موجود تھی اور اب بھی ہے کہ وہ نہیں آسکتا جب تک ایلیاء آسمان سے نازل نہ ہو۔ (ملاکی باب۵آیت۴)۔ لیکن ایلیاء نے آسمان سے کیا آنا تھا ایک اور شخص کو خداتعالیٰ نے انہی صفات کے ساتھ جن سے ایلیاء متصف تھے حضرت مسیحؑ سے پہلے مبعوث فرما دیا۔

تو

حضرت یحییٰؑ میں ایک ایسی بات رکھی گئی جو آپ سے پہلے کسی نبی میں نہ تھی اور اس سے حضرت یحییٰ ؑکا نام زندہ جاوید ہو گیا۔

کیوں؟ اس لئے کہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے ایک دلیل کے طور پر ہوگئے۔ جب مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت پیش کی جائے گی تو ضرور حضرت یحییٰ کو نظیر کے طور پر پیش کیا جائے گا اور جب کسی عیسائی کے سامنے یہی یوحنا اور ایلیاء کا واقعہ رکھیں گے تو پھر اُس میں تاب نہ رہے گی کہ کچھ بول سکے۔(باقی آئندہ جمعرات کو انشاء اللہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button