وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ۔ آنحضرت ﷺبطور پیغمبر امن و سلامتی
ہمارے آقا و مولا سید الرسل جناب حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ کو خدا تعالیٰ نے رحمۃ للعالمین بنا کر مبعوث فرمایا۔ آپ ﷺ کی رحمت کا دائرہ محض انسانیت تک ہی محدود نہ تھا بلکہ جیسا کہ عربی زبان کے لفظ عَالَمسے ظاہر ہے یہ رحمت وسیع تھی اور ہر قسم کا جاندار، چرند پرند اس دائرہ ٔرحمت میں شامل تھا۔
لیکن افسوس کے وہ نبی جو رحمت بنا کر بھیجا گیااس کی ذاتِ اطہر پر جو اعتراضات کیے جاتے ہیں ان میں سے بار بار دہرایا جانے والا ایک اعتراض یہ ہے کہ آپ ﷺ نے نعوذ باللہ دنیا میں بد امنی، فساد اورقتل و غارت پھیلائی اور مخالفین پر تلوار اٹھائی جس سے خون کی ندیاں بہ نکلیں۔
لیکن اگر ہم قرآن کریم ، احادیث اور تاریخ کا صحیح رنگ میں مطالعہ کریں نیز اُس علم الکلام سے مستفیض ہوں جو اس زمانہ میں آنحضرت ﷺ کے غلام صادق حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں عطا فرمایا تو ہمیں اس کے بر عکس ایک ایسے نبیؐ کی تصویر دیکھنے کو ملتی ہے جو نہ صرف اپنوں بلکہ پہلے اور آئندہ آنے والوں کے لیے بھی سراپا سلامتی و رحمت تھا۔ یہی وجہ ہے کہ عرش کا خدا اور اس کے فرشتے اس پاک نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اورتا قیامت مومنین کو یہ تاکید کی گئی کہ وہ بھی اس رسول مقبولﷺ پر درود بھیجتے رہیں۔
اللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍوَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍکَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَجِیْدٌ۔
اس مضمون کو سمجھنے کے لیے کہ وہ کیا امن و سلامتی تھی جو آپ ﷺ نے پھیلائی ہمیں آج سے 1500سال قبل کے زمانہ میں جانا ہوگا اور اپنی چشم تصور سے عرب کے زمانہ جاہلیت کی سیر کرنا ہوگی۔ چنانچہ جب ہم زمانہ جاہلیت پر نظر ڈالتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ عرب جہالت کی تاریکی میں پھنسا ہوا تھا۔ عورت کی حیثیت صرف اس آلہ کی سی تھی جو مرد کی نفسانی خواہشات کو پورا کرنے والی ہو۔ ماں کے مقدس رشتہ کا پاس نہیں کیا جاتا تھا۔ اگر گھر میں بیٹی کی پیدائش ہو تو ظَلَّ وَجْھُہٗ مُسْوَدًّا کے تحت اسے خاندان کی بے عزتی کا موجب ٹھہرایا جاتا ۔مزدوروں اور غلاموں سے ان کی طاقت سے بڑھ کر کام لیا جا تا اور ان سے پر تشدد اور بہیمانہ سلوک روا رکھا جاتا۔ لین دین کے معاملات میں نا انصافی ہوتی۔تجارت میں دیانت اور امانت داری کی بجائے ظلم اور خود غرضی دکھائی دیتی۔ ایک قبیلہ دوسرے قبیلہ سے معمولی بات پر اعلان جنگ کر دیتا۔ چنانچہ تاریخ میں جنگ بعاث کا ذکر ملتا ہے جو چالیس سال تک جاری رہی۔
الغرض ہم دیکھتے ہیں کہ نہ تو گھریلو سطح پر امن تھا نہ معاشرتی سطح پر ۔ اقتصادی لحاظ سے غریب بے چینی میں مبتلا تھا ۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ شرک اتنا پھیل چکا تھا کہ انفرادی امن کا حصول بھی محال تھا۔
ان حالات کے ہوتے ہوئے جب ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ کی صورت پیدا ہوتی ہے اور ہر طرف مایوسی چھا جاتی ہے۔ کیا اہل کتاب اور کیا غیر تمام کے تمام اندھیروں کے جالوں میں پھنسے ہوئے ہوتے ہیں، تب خدا تعالیٰ اپنی رحمتِ خاص سے ایک نور نازل کرتا ہے۔
چنانچہ ایسا ہی ہوا اور خدا تعالیٰ نے عرب کی سر زمین پر ایک ایساعدیم المثال نور نازل کیا جس کی مثال تاریخ عالم میں نہیں ملتی۔ایک نورنازل ہوا اوراس کو لا نے والا خودبھی اپنی ذات میں ایک نورتھا ۔ گویا نورٌ علیٰ نورٌکی عملی تصویر دکھائی دی۔ اس مضمون کو بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
نور لائے آسماں سے خود بھی وہ اک نور تھے
قوم وحشی میں اگر پیدا ہوئے کیا جائے عار
آنحضور ﷺ ایک ایسے دین کے ساتھ مبعوث ہوئے جس کا نام اللہ تعالیٰ نے اسلام رکھا ۔یعنی اس مذہب کے نام میں ہی امن و سلامتی کا مفہوم پایا جاتا ہے ۔ اس حوالے سے یہ کہنا بجا ہو گا کہ آنحضرت ﷺ کی آمد کا ایک عظیم مقصد امن کا قیام تھا۔ یہ امن کا دائرہ انفرادی سطح سے لے کر، گھریلو، معاشرتی، اقتصادی اور بین الاقوامی سطح تک جاتا ہے۔
زندگی کے ہر دَور میں قیام امن کی کوشش
آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کو خدا تعالیٰ نےقرآن کریم میں اسوۂ حسنہ قرار دیاہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ آپؐ پر زندگی میں ہر قسم کے حالات آئے۔ یہ بدلتے ہوئے حالات آپ کے مختلف اخلاق کو ظاہر کرتے رہے۔ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے نمونہ سے دنیاکو یہ دکھادیا کہ ہر قسم کے حالت میں کس طرح خدا تعالیٰ کی رضا کو مقدم رکھنا ہے اور کونسا عمل ہےجو صالح کہلانےکا مستحق ہے۔اس مضمون کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ‘‘اسلامی اصول کی فلاسفی’’میں اس طرح بیان فرمایا:
‘‘خدا تعالیٰ نے ہمارےنبی صلی اللہ علیہ وسلم کےسوانح کو دوحصوں پرمنقسم کر دیا۔
ایک حصہ دکھوں اور مصیبتوں اورتکلیفوں کا دوسرا حصہ فتحیابی کا۔تا مصیبتوں کےوقت میں وہ خلق ظاہرہوں جو مصیبتوں کےوقت ظاہرہواکرتےہیں اورفتح اور اقتدار کے وقت میں وہ خلق ثابت ہوں جو بغیراقتدار کے ثابت نہیں ہو تے۔سو ایسا ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں قسم کے اخلاق دونوں زمانوں اور دونوں حالتوں کے وارد ہونے سے کمال وضاحت سے ثابت ہوگئے۔’’
(اسلامی اصول کی فلاسفی،روحانی خزائن جلد 10صفحہ447)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر ایک طائرانہ نظر ڈالنے سے ہمیں آپﷺ کے زندگی کے دونوں ادوار، یعنی مکی اور مدنی ،ہر دو میں امن کے قیام کی کوشش اور اس کی طرف دنیا کو دعوت دینا دکھائی دیتا ہے۔
مکی زندگی میں جب آپؐ اور آپ کے ساتھیوں پر طرح طرح کے مظالم وارد کیے گئے توآپ نے معاشرہ کے امن کو قائم رکھنا ضروری سمجھا اور ہر قسم کی بغاوت سے منع فرمایا۔ اِنَّمَا اَشْکُوْا بَثِّی وَ حُزْنِیْ اِلٰی اللّٰہِ کہ مَیں اپنے رنج و الم کی صرف اللہ کے حضور فریاد کرتا ہوں کی عملی تصویر کھینچی اور اپنے متبعین کو ہر حال میں خدائے رحمان و رحیم کی طرف توجہ مبذول رکھنے کی تا کید کی۔
اسی قسم کا ایک واقعہ تاریخ میں ہمیں یوں ملتا ہے جب آپ ﷺ کا ایک مخلص خاندان کے تین افراد(حضرت یاسر، حضرت سمیّہ اور حضرت عماررضوان اللّٰہ علیھم اجمعین)کے پاس سے اس وقت گزرہوا جب کفارنےان پر ظلموں کی انتہا کی ہوئی تھی ۔ تب آپ ؐنےان الفاظ میں نصیحت اور بشارت دی کہ
صَبْرًا آلَ یَاسِرٍ فَاِنَّ مَوْعِدَکُمْ الْجَنَّۃُ
‘‘اے آل یاسر صبر کا دامن نہ چھوڑنا کہ خدا نے تمہاری انہی تکلیفوں کے بدلے میں تمہارے لیے جنت تیار کر رکھی ہے۔’’
ایک روایت میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ آنحضرت ﷺ خانہ کعبہ کے پاس ٹیک لگائے بیٹھے ہوئے تھے کہ حضرت خباب بن الارتؓ بعض دیگر صحابہ ؓکے ساتھ آپؐ کے ہاں تشریف لائے اور عرض کی:‘‘یا رسول اللہ!مسلمانوں کو قریش کےہاتھ سے اتنی تکالیف پہنچ رہی ہیں آپؐ ان کے لیے بد دعا کیوں نہیں کرتے؟’’آپؐ یہ الفاظ سنتے ہی اُٹھ کر بیٹھ گئے اور آپؐ کا چہرہ سُرخ ہو گیا اور آپؐ نے فرمایا:
‘‘دیکھو تم سے پہلے وہ لوگ گزرے ہیں جن کا گوشت لوہے کے کانٹوں سے نوچ نوچ کر ہڈیوں تک صاف کر دیاگیا مگروہ اپنے دین سے متزلزل نہیں ہوئے او ر وہ لوگ بھی گزرے ہیں جن کے سروں پر آرے چلا کر ان کو دو ٹکڑے کردیاگیا مگر ان کےقدموں میں لغزش نہیں آئی۔ دیکھو خدا اس کام کوضرورپورا کرے گا۔ حتیٰ کہ ایک شُتر سوار صنعا (شام)سے لے کر حضرموت تک کا سفر کرے گا۔ اور اس کوسوائے خدا کے اور کسی کا ڈر نہ ہوگا۔ مگر تم تو جلدی کرتے ہو۔’’
(بخاری کتاب علامات نبوت و باب ما لقی النبیؐ و اصحابہ من المشرکین)
اسی طرح ذکر ملتا ہے کہ حضرت عبد الرحمٰن بن عوفؓ آنحضرت ﷺ کےپاس آئے اور عرض کی کہ یا رسولؐ اللہ! جب ہم مشرک تھےتو ہم معزز تھےاور کوئی ہماری طرف آنکھ تک نہیں اٹھا سکتا تھا لیکن جب سے مسلمان ہوئے ہیں کمزور اور نا تواں ہو گئے ہیں اور ہم کو ذلیل ہو کر کفار کے مظالم سہنے پڑتے ہیں۔ پس یا رسول اللہؐ!آپ ہم کو اجازت دیں کہ ہم ان کفار کا مقابلہ کریں۔ آپؐ نے فرمایا:
‘‘انِّی اُمِرْتُ بِالْعَفْوِ۔ فَلَا تُقَاتِلُوْا۔’’
‘‘مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے عفو کاحکم ہے۔پس میں تم کو لڑنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔’’
(نسائی بحوالہ تخلیص الصحاحجلد 1صفحہ152)
مکی زندگی میں قیام امن کی ایک مثال ہجرت حبشہ ہے۔یعنی جب دین کی خاطر تکالیف اور دکھ برداشت کرنے کا سلسلہ لمبا ہوا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کو بجائے معاشرے میں فساد کرنے اور اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے جنگ و جدال کرنے کے اس ملک اور قوم کو چھوڑ کر ہجرت کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ خود بھی آنحضرت ﷺنے اس حوالے سے اپنی سنّت قائم فرمائی اور مکہ سے مدینہ ہجرت کر کے تشریف لے گئے۔
کوئی کہہ سکتا ہے کہ دوسروں پر ظلم ہوتا دیکھ کر صبر کی تلقین کرنا آسان ہے۔ مگر ہمارے آقا تو وہ ہیں جنہیں خود بھی ان تکالیف میں سے گزرنا پڑا۔ جنہیں دشمن صرف اس وجہ سے کہ وہ رَبُّنَا اللّٰہُ کا اعلان کرتے تھے کہ ہمارا ربّ اللہ ہے شدید قسم کے دکھ اور تکالیف سہنی پڑیں۔
چنانچہ آنحضرتﷺ کےمکان میں ایک مرتبہ کسی نے ایک نہایت گندی اور متعفن چیز پھینک دی جس کو آنحضورﷺ نے خود اپنے ہاتھ سے اٹھایا۔ اسی طرح ان تکالیف میں سےایک بہت بڑی تکلیف وہ تھی جو آپؐ کو شعب ابی طالب میں بنو ہاشم اوربنو مطلب کے ساتھ محصوری کے دوران سہنا پڑی۔ اس عرصہ کے دوران آپ کا تمام قبائل نےبائیکاٹ کیا۔ قریش کی تمدنی زندگی سے آپ ؐبالکل الگ ہوکر رہ گئے یہاں تک کے خوراک کےمسائل بھی در پیش آئے۔حالت یہاں تک پہنچی کہ پتوں پرگزارا کرنا پڑا۔ مگر یہ اڑھائی تین سالہ دَور آنحضرتﷺ نے صبر اور تحمل سے گزارا اور کسی بھی قسم کے فساد اور اشتعال کی تحریک نہ کی بلکہ اپنی تمام تر امیدیں خداتعالیٰ سے وابستہ کیں۔
اس کے بعدآپؐ کی زندگی میں وہ دَور بھی آیا جب اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو اقتدار بخشا اور حکومت آپؐ کے ہاتھ میں آئی۔ ایسے موقعے پر بھی آپﷺ کی کوشش تھی کہ حتی الوسع معاشرہ کو بد امنی سے پاک کیا جائے اور امن اور بھائی چارہ کی فضا قائم ہو۔ اس کے لیے عملی طور پر آپ نے مدینہ تشریف لا تے ہی ایک معاہدہ یہود قبائل کے ساتھ کیا جس کی غرض یہی تھی کہ آپس میں صلح صفائی کے ساتھ رہا جائے۔
مدنی دَور میں تاریخ میں ایسے واقعات ملتے ہیں کہ آنحضورﷺ نےیہودیوں کے جذبات کا خاص خیال رکھا اور جہاں تک ممکن ہوتا ان سے نرمی اور شفقت کا سلوک فرماتے۔
اسلامی جنگوں کی تعلیم
اگر ہم آنحضور ﷺ کی لائی ہوئی تعلیم کو دیکھیں تو آپ ﷺکی تعلیم کے جس حصہ پربڑھ چڑھ کر تشدد کا الزام لگایا جا تا ہے وہ اسلام کی جنگوں کے حوالے سے تعلیم ہے۔ لیکن اگر کوئی منصف مزاج اس کا حقیقی رنگ میں جائزہ لے اور اس پر غور کرے تو لازماً وہ اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ یہ تعلیم دراصل معاشرہ میں بد امنی کو روکنے اور امن کے قیام کے لیے انتہائی موثرہے۔
اس سلسلہ میں پہلی بات جو قابل ذکر ہے وہ یہ کہ اسلامی جنگ دفاعی ہوتی ہے جیسا کہ
وَ ھُمْ بَدَءُوْکُمْ اَوَّلَ مَرَّۃٍ (التوبہ:13)
کے الفاظ سے ظاہر ہے کہ اس کی ابتدا کفار کی طرف سے ہوئی۔ پھر آنحضور ﷺ نے جنگ کے حوالے سے یہ مستقل ہدایت بھی جاری فرمائی کہ جنگ کے دوران کسی عمر رسیدہ بوڑھےکو، کم سن بچے کو اور عورت کو قتل نہ کیا جائے۔
الغرض دشمن کے حملے سے مجبور ہو کر اپنےدفاع کے لیے رسول کریم ﷺ کو جب تلوار اٹھانا پڑی تو جنگ کی حالت میں جہاں دنیا سب کچھ جائز سمجھتی ہے ، آپ ﷺ نے پہلی مرتبہ دنیا کو جنگ کے آداب سے روشناس کرایا۔ اس ضابطہ اخلاق کے ساتھ جب آپؐ جنگ کے لیے نکلتے تو پھر آپﷺ کا تمام تر توکل اور بھروسہ خدا کی ذات پر ہی ہوتا تھا۔ چنانچہ حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ جب کسی غزوہ کے لیے نکلتے تو یہ دعا کرتے
اللّٰھُمَّ اَنْتَ عَضُدِیْ وَ اَنْتَ نَصِیْرِیْ وَ بِکَ اُقَاتِلُ
کہ اے اللہ !تو ہی میرا سہارا، تو ہی میرا مدد گار ہے ۔ اور تیرے بھروسہ پر ہی میں لڑتا ہوں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسلامی جنگوں کے حوالے سے فرماتے ہیں:
‘‘اسلام کی لڑائیاں تین قسم سےباہر نہیں۔(۱)دفاعی طورپر یعنی بہ طریق حفاظت خودمختیاری، (۲)بطور سزایعنی خون کے عوض میں خون، (۳)بطور آزادی قائم کرنے کے یعنی بغرض مزاحموں کی قوت توڑنےکے جو مسلمان ہونے پر قتل کرتے تھے۔’’(مسیح ہندوستان میں، روحانی خزائن جلد 15صفحہ12)
بے شک ہمارے آقا و مولا ﷺ نے جنگ کے ہمیں ایسے اصول سکھائے جن سے دنیا اس سے قبل نا آشنا تھی تا ہم حضورؐ کی دلی تمنا اور آپ کی خواہش یہی تھی کہ جنگ و جدل کا سلسلہ نہ ہی ہو اور امن کا ماحول میسر ہو تا اشاعت اسلام کے زریں مواقع پیدا ہو سکیں۔اسی کی طرف آپ کے اس قول میں اشارہ مضمر ہے کہ لَا تَتَمَنَّوْا لِقَاءَ العَدُوِّ وَاسْئَلُ اللّٰہَ العَافِیَۃَ۔کہ دشمن سے کبھی مقابلہ کی امید نہ کیا کرو اور اللہ تعالیٰ سے عافیت طلب کرو ۔ کیونکہ سب سے بڑھ کے آپ اس حقیقت سےآگاہ تھے کہ اسلام کی اشاعت اور اس کا پنپنا ایک پر امن ماحول کو چاہتا ہے نہ کہ جنگ و جدل کو۔
چنانچہ آپ نے صلح حدیبیہ کے موقعہ پر جذبات کی عظیم قربانی دے کر امن اور صلح کو ترجیح دی تا کہ اس اعلیٰ مقصد کی طرف توجہ کی جا سکے۔ یہ وہ گہری حکمت تھی جو بعض صحابہ بھی اس وقت نہ سمجھ سکے جس کی بنا پر انہوں نے اپنی قربانیوں کے جانور وں کو ذبح کرنے میں کچھ توقف کیا۔ لیکن جونہی محمد عربی ﷺ نے اس میدان میں قدم مارا صحابہ بھی دیوانہ وار اس میدان میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے نظر آئے۔
ہم ہوئے خیر امم تجھ سے ہی اے خیر رسلؐ
تیرے بڑھنے سے قدم آگے بڑھایا ہم نے
فتح مکہ
امن و آشتی کے حوالے سے ہمارے نبی ﷺ کا بے نظیر نمونہ اور آپؐ کی حیاتِ مبارکہ میں اس کا معراج فتح مکہ کے موقعہ پر ظاہر ہوا۔ یہ وہ مبارک گھڑی تھی جب آپؐ ایک طرف تو الٰہی پیش خبریوں کی روشنی میں ایک عظیم فاتح کی حیثیت سے مکہ میں داخل ہو رہے تھے لیکن ساتھ ہی آپ نے امن و آشتی کا ایک نیا باب رقم فرمایا۔ یہ آپؐ کی زندگی کا وہ لمحہ تھا جب آپؐ ساری عمر کےسہے ہوئے مظالم کا بجا طور پر بدلہ لے سکتے تھے ۔بدلہ تو آپؐ نے لیا مگر ایک عجیب شان کے ساتھ۔ایک طرف سیدنا بلالؓ جیسے باوفا صحابی کے جذبات کا بھی خیال رکھا اور دوسری طرف افضل الرسلؐ اور خیر الناس ہونے کا عملی ثبوت بھی دیا۔ درحقیقت فتح مکہ نے آپؐ کا امن کا شہزادہ ہونا روزِ روشن کی طرح ثابت کر دیا۔ جس کا اعتراف اپنوں اور بیگانوں دونوں نے کیا ہے۔
حضرت مسیح موعود ؑ فتح مکہ کے عظیم الشان معجزہ کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
‘‘ہمارےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھو کہ جب مکہ والوں نے آپ کو نکالا اورتیرہ برس تک ہر قسم کی تکلیفیں آپ کو پہنچاتے رہے۔ آپ کےصحابہ کوسخت سخت تکلیفیں دیں جن کے تصور سے بھی دل کانپ جاتا ہے اس وقت جیسے صبرو برداشت سے آپ نے کام لیا وہ ظاہربات ہے لیکن جب خداتعالیٰ کے حکم سے آپ نے ہجرت کی اور پھرفتح مکہ کا موقع ملا تو اس وقت ان تکالیف اورمصائب اور سختیوں کاخیال کر کے جومکہ والوں نے تیرہ سال تک آپ پر اور آپ کی جماعت پر کی تھیں آپ کو حق پہنچتا تھاکہ قتل عام کرکے مکہ والوں کوتباہ کر دیتے اور اس قتل میں کوئی مخالف بھی آپ پر اعتراض نہیں کر سکتا تھا کیونکہ ان تکالیف کےلیےوہ واجب القتل ہو چکے تھے۔ مگر آپ نے کیا کیا؟آپ نے ان سب کوچھوڑ دیا اور کہا لَا تَثْرِيبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ۔ یہ چھوٹی سی بات نہیں ہے مکہ کی مصائب اورتکالیف کے نظارہ کو دیکھو کہ قوت و طاقت کے ہوتے ہوئے کس طرح پر اپنےجانستان دشمنوں کومعاف کیا جاتا ہے یہ ہے نمونہ آپ کے اخلاق فاضلہ کا جس کی نظیردنیا میں پائی نہیں جاتی…مکہ والے بھی اپنی شرارتوں اورمجرمانہ حرکات کے باعث اس قابل تھے کہ ان کو سخت سزائیں دی جاتیں اوران کےوجود سے اس ارض مقدس اور اس کےگرد و نواح کو صاف کر دیا جاتا مگر یہ رَحْمَۃً لِلْعٰلَمِیْنَ اور اِنَّکَ لَعَلیٰ خُلُقٍ عَظِیْمٍ کا مصداق اپنے واجب القتل دشمنوں کو بھی پوری قوت اور مقدرت کے ہوتے ہوئے کہتا ہے:
لَاتَثْرِیْبَ عَلَیْکُمْ الْیَوْمَ۔’’
(الحکم جلدنمبر 6مورخہ10؍اپریل1902ءصفحہ4)
لیا ظلم کا عفو سے انتقام
عَلَیْکَ الصَّلوٰۃ عَلَیْکَ السَّلَام
امن و آشتی کی تعلیم
آنحضرت ﷺ کا امن و آشتی کا پیغمبر ہونا صرف آپ کی سیرت کے ان واقعات سے ہی ثابت نہیں بلکہ آپ نے اپنی اُمّت کو زندگی کے مختلف پہلوؤں کے حوالے سے ایسے زرّیں اصول اور ایسی پر حکمت تعلیم دی جس سے درحقیقت آپؐ کا پیغمبر امن و آشتی ہونا ثابت ہوتا ہے۔
آپؐ نےمعاشرہ میں سلامتی کو فروغ دینے کے لیے اَفْشُوا السَّلَامَ بَیْنَکُمْ کی تعلیم دی جو بلا تخصیص قوم و ملت تھی۔ اس پر عمل کرتے ہوئے خود آپؐ نے مدینہ میں ایک گروہ کے پاس سے گزرتے ہوئے جن میں یہودی اور مشرک بھی تھے کو السلام علیکم کیا۔
آپ ﷺ نے باہمی محبت اور بھائی چارے کو بڑھانے کے لیے ایک دوسرے کو تحائف دینے اور دعوت کو قبول کرنے کا ارشاد بھی فرمایا۔ چنانچہ آنحضور ﷺ نہ صرف مسلمانوں بلکہ غیر مسلموں کی دعوت کو بھی قبول فرماتے اور ان کے دیے ہوئے تحائف کو بھی قبول فرماتے۔
آپ ﷺ معاشرے میں امن کی فضا قائم کرنے کے لیے بلا امتیاز رنگ و نسل اور مذہب و ملت خدمت خلق کرتے۔ آپؐ کا ایک غیر مسلم بوڑھی عورت کا بوجھ اٹھانے والا واقعہ سیرت رسول ﷺ کے معروف واقعات میں سے ہے۔
اسی طرح آپ ﷺ نےباہمی الفت و محبت کو بڑھانے کے لیے بیمار کی عیادت کا حکم دیا ۔ اس کو آپ ﷺ نےان پانچ بنیادی حقوق میں بھی شامل کیا جو ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر ہیں۔ ان تمام باتوں کا واحد مقصد یہی تھا کہ معاشرے میں امن و آشتی کی فضا قائم ہو اور لوگ آپس میں پیار و محبت کےماحول میں رہیں۔
الغرض آپ ﷺ نے ایک وحشی معاشرےکی اصلاح کی اوراس میں بسنے والے افراد کو امن و آشتی کی طرف لاتے ہوئے آہستہ آہستہ با اخلاق اور با خدا وجود بنایا جو آسمان پر تاروں کی طرح چمکتے ہیں۔
اس عظیم تغیر کا ذکر کرتے ہوئے سیدنا حضر ت اقدس مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں:
‘‘دنیا میں ایک رسول آیا تا کہ ان بہروں کو کان بخشے کہ جو نہ صرف آج سے بلکہ صدہا سال سے بہرے ہیں۔ کون اندھا ہے اور کون بہرا ہے؟ وہی جس نےتوحید کو قبول نہیں کیا اور نہ اس رسول کو جس نے نئے سرے سے زمین پر توحید کو قائم کیا۔ وہی رسول جس نے وحشیوں کو انسان بنایا اور انسان سے با اخلاق انسان یعنی سچے اور واقعی اخلاق کے مرکز اعتدال پر قائم کیا۔ اور پھر با اخلاق انسان سے با خدا ہونے کے الٰہی رنگ سے رنگین کیا۔ وہی رسول ہاں وہی آفتاب صداقت جس کے قدموں پر ہزاروں مردے شرک اور دہریت اور فسق اور فجور کے جی اٹھے اور عملی طور پر قیامت کا نمونہ دکھایا۔’’
(تبلیغ رسالت جلد ششم صفحہ 9۔ بحوالہ مرزا غلام احمد اپنی تحریروں کی رو سے صفحہ407)
آج اسی آفتاب صداقت کی نورانی شعاعوں اور اس پُرامن پیغام کو اکناف عالم میں پہنچانے کا بیڑا اللہ تعالیٰ کے اذن سے جماعت احمدیہ نے اٹھایا ہوا ہے۔ اور اس کے سالار اعظم سید نا حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ہیں۔ آپ کی قیادت اور رہ نمائی میں آج یہ پیغام قریہ قریہ، بستی بستی سے لے کر دنیا کے بڑے بڑے ایوانوں اور عالمی شہرت یافتہ تنظیموں تک پہنچ رہا ہے۔
پس ہمارا فرض بنتا ہے کہ اس کاروان کومزید آگے بڑھانے کے لیے خلافت راشدہ احمدیہ کی رہ نمائی میں اپنا کردار ادا کرتے چلے جائیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی تو فیق و سعادت عطا فرمائے۔ آمین۔
اللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍوَّعَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍکَمَا صَلَّیْتَ عَلیٰ اِبْرَاھِیْمَ وَعَلیٰ اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَجِیْدٌ
اللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلیٰ مُحَمَّدٍوَّعَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلیٰ اِبْرَاھِیْمَ وَ عَلیٰ اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَجِیْدٌ
٭…٭…٭