حضرت مصلح موعودؓ کے معتمد ساتھی اور فدائی خادم سلسلہ سابق ناظر اعلیٰ ثانی محترم میاں غلام محمد اختر صاحب (قسط اول)
حضرت مصلح موعودؓ کے معتمد، ساتھی اور فدائی خادم سلسلہ سابق ناظر اعلیٰ ثانی و ناظر دیوان صدر انجمن احمدیہ میاں غلام محمد اختر صاحب ضلع امرتسر کے گاؤں بلڑوال میں حضرت میاں عمر دین صاحبؓ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاں پیدا ہوئے۔ دفتر وصیت کے ریکارڈ کے مطابق آپ ۱۹۰۲ء میں پیدا ہوئے تاہم خاندانی روایات کے مطابق آپ کی پیدائش یکم جنوری ۱۹۰۰ء یا اس سے بھی پہلے کی ہے۔ یکم دسمبر ۱۹۸۳ء کو آپ نے وفات پائی۔ حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ نے مسجد مبارک ربوہ میں آپ کا جنازہ پڑھایا اور بہشتی مقبرہ میں تدفین عمل میں آئی۔ آپ ریلوے کے اعلیٰ عہدے سے ریٹائر ہو کر جماعتی خدمت میں آئےاور ۱۹۵۵ء سے ۱۹۶۹ء تک مختلف عہدوں ناظر اعلیٰ ثانی، ناظر دیوان اور پھر ناظر صنعت وتجارت کے طور پر خدمات کرتے رہے۔ ریلوے ملازمت کے دوران بھی آپ کو مختلف زاویوں سے جماعتی خدمات کی توفیق ملی اور حضرت مصلح موعودؓ کی قربت،شفقت اور دعاؤں کے مورد بنتے رہے۔
خاندان میں احمدیت
آپ کے خاندان کا تعلق دریائے راوی کے قریب واقع گاؤں بلڑوال اجنالہ ضلع امرتسرسے تھا۔ آپ کے خاندان میں احمدیت آپ کے دادا حضرت میاں عمر دین صاحبؓ کے بھائی حضرت میاں محمد دین صاحبؓ کے ذریعہ آئی جنہوں نےحضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ کے بعد جلد ہی بیعت کرلی۔ وہ حافظ قرآن اور گاؤں کی مسجد کے امام تھے۔ بیعت کے بعد انہوں نے گاؤں کو چھوڑکر قادیان میں مستقل رہائش اختیار کرلی۔ مسجد اقصیٰ قادیان کے قریب ہی آپ کا گھر تھا۔ آپ نے یہاں کریانہ کی دکان شروع کرلی تھی۔ آپ کی بیعت کے بعد آپ کے بڑے بھائی حضرت میاں عمر دین صاحبؓ (والد محترم میاں غلام محمد اختر صاحب) اور چھوٹے بھائیوں حضرت میاں نبی بخش صاحبؓ (مدفون بہشتی مقبرہ ربوہ) اور حضرت میاں احمد دین صاحبؓ نے بھی بیعت کرکے صحابی مسیح موعودؑ ہونے کا اعزاز پایا۔ حضرت میاں محمددین صاحب نظام وصیت میں شامل ہونے والے ابتدائی صحابہ میں سے ہیں۔ آپ کا وصیت نمبر۳۱۲ہے۔ آئینہ کمالات اسلام میں شائع شدہ شرکائے جلسہ سالانہ ۱۸۹۲ء کے اسماء میں ۱۹۲ نمبر پر ’’میاں محمد دین صاحب قادیان‘‘(روحانی خزائن جلد۵ صفحہ۶۲۳) درج ہے۔ آپ ۱۹۱۷ء میں وفات پاگئے اور بہشتی مقبرہ قادیان میں مدفون ہیں۔ قادیان میں آپ کا گھر پورے خاندان کے لیے باعث برکت بن گیا۔ محترم میاں غلام محمد اختر صاحب نے اپنے چچا میاں محمد دین صاحب کے گھر رہ کر قادیان میں تعلیم پائی۔ جناب قمر اجنالوی صاحب معروف صحافی، شاعر اور ناول نگار اختر صاحب کے بھتیجے تھے۔ اسی طرح آپ کے ایک اور بھتیجےمحترم محمد شریف اشرف صاحب ایڈیشنل وکیل المال لندن رہے۔
قادیان میں تعلیم و تربیت
آپ کی تعلیم و تربیت قادیان کے مقدس ماحول میں ہوئی۔ بچپن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پاکیزہ صحبت ملی اور پھر خلافتِ اولیٰ و ثانیہ کے مقدس ادوار میں آپ نے اپنے چچا حضرت میاں محمد دین صاحب کے ہاں قادیان میں رہتے ہوئے تعلیم حاصل کی۔ یہاں بزرگ صحابہ کے زیر سایہ پروان چڑھے۔
اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْن کہاں گیا ہے؟
اپنے بچپن کا ایک واقعہ جو آپ کے بزرگان صحابہ نے آپ کو بتایا آپ اس کو سیکرٹری بہشتی مقبرہ کے نام اپنے ایک خط محررہ ۱۶؍دسمبر ۱۹۶۴ء میں یوں بیان کرتے ہیں:’’میری پیدائش سے پہلے ہی میرے والدین حضرت مسیح موعودؑ کی غلامی میں بیعت کر کے آ چکے تھے۔ میں پیدائشی احمدی ہوں۔ میں قادیان میں بچہ تھا۔ مجھے یاد نہیں مگر میری آنکھوں نے حضرت مسیح موعودؑ کو دیکھا ہے اور میرےبزرگوں نے بتا دیا(جو صحابی تھے) کہ ایک دفعہ تم قادیان سے اپنی والدہ کے ساتھ باہر آئے ہوئے تھے اور حضرت مسیح موعودؑنے پوچھا مولوی صاحب(میرے چچا حضرت مولوی محمد دین صاحبؓ ) اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنکہاں گیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ حضور! گاؤں گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ فرمایا کرتے تھے کہ تم بچپن میں مسجد میں جب حضور نماز ادا فرمایا کرتے تھے تو اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنکا فقرہ (آیت) بار بار دہرایا کرتے تھے۔‘‘
قادیان میں اپنے چچا کے ہاں جن کی رہائش مسجد اقصیٰ کے مغربی جانب تھی رہائش پذیر رہ کر آپ نے تعلیم حاصل کی۔ آپ کے دوسرے بھائی حضرت میاں دین محمد صاحب (والد قمر اجنالوی) اور میاں فتح محمد صاحب (والد محمد شریف اشرف صاحب) اپنے والدین کے پاس گاؤں میں ہی رہے اس لیے باقاعدہ تعلیم نہ حاصل کر سکے۔اختر صاحب ہاکی کے بہترین کھلاڑی، ذہین طالب علم اور سمارٹ نوجوان تھے۔ آپ کی انگریزی بہت اچھی تھی۔ ۱۹۲۲ء میں آپ نے ریلوے میں ملازمت اختیار کی تو آپ کی تعیناتی پشاور ہو گئی۔ انگریزی اچھی ہونے اور پھر انگریزی کو مزید صیقل کرنے کا موقع آپ کو یوں میسر آگیا کہ انگریز حکام نے آپ کی پوسٹنگ خیبر پاس (درۂ خیبر) کے لیے کر دی۔ انگریز ہندوستان آتے تو وہ خیبر پاس دیکھنے ضرور آتے تھے۔ ان میں وزراء اور رائل فیملی سے تعلق رکھنے والے افراد سمیت ہر طبقہ فکر کے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ بھی شامل ہوتے۔ اسی طرح دہلی سے سرکاری افسران بھی سیر کے لیے آیا کرتے تھے۔ سیر کے لیے آنے والے ان افراد کے استقبال اور دیگر انتظامات کی ذمہ داری اختر صاحب کے سپرد تھی۔ اس طرح آپ کو اعلیٰ سرکاری عہدیداران اور غیر ملکی افراد کے ساتھ میل ملاقات اور گفتگو کا موقع ملتا رہا۔ ۱۹۳۳ء میں آپ کی ٹرانسفر ریلوے ہیڈ کوارٹر لاہور ہو گئی جہاں سے آپ نے ۱۹۵۵ء میں قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی۔ اس وقت آپ سینئر پرسنیل آفیسر کے عہدے پر فائز تھے یعنی ریلوے سٹاف کی ریکروٹمنٹ، تعیناتی اور ٹرانسفر ز وغیرہ کی ذمہ داریاں آپ کے فرائض منصبی میں شامل تھیں۔
حضرت مصلح موعودؓ کی قبولیت دعا کا نشان
مکرم غلام محمد اختر صاحب حضرت فضل عمرؓ سے غیر معمولی محبت و عقیدت رکھنے والے بزرگ تھے۔ آپ نے سرکاری ملازمت میں رہتے ہوئے جماعتی خدمات کی توفیق پانے کے علاوہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی جماعت کی نمایاں خدمات کی توفیق پائی۔ حضورؓ ان پر بہت اعتماد فرماتے تھے۔ آپ غیرمعمولی حالات میں حضورؓ کی دعا کی برکت سے ملازمت میں ترقی پانے کا ایمان افروز واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’میں نے ۱۹۲۸ء کی فروری سے حضور کی خدمت میں یہ لکھنا شروع کیا کہ حضور دعا فرمائیں اللہ تعالیٰ دین و دنیا میں ترقی دے۔ جولائی ۱۹۲۸ء میں غیر معمولی طور پر مجھے پشاور سے جہاں میں ساٹھ روپیہ کا کلرک تھا اور ترقی کی کوئی راہ قطعاً کھلی نہ تھی بلکہ ذہن میں بھی نہ آسکتی تھی۔ ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ صاحب نے خودبخود ایجنٹ آفس لاہور میں ایک انتخاب میں بھجوا دیا۔ جہاں ۲۷اَور اُمیدوار دو جگہوں کے لیے تھے۔ وہ سب کے سب ۲۵۰ روپے سے اوپر تنخواہ لینے والے تھے۔ وہاں بھی کسی کو یہ امید نہ تھی کہ میں منتخب ہونگا کیونکہ میری تنخواہ صرف ساٹھ روپیہ تھی۔ دیگر امیدوار میرا مذاق اُڑاتے تھے۔ وہ سب کے سب انگریز یا ایک دو پارسی تھے اور میرے انتخاب کو قطعی طور پر غیر ممکن سمجھتے تھے۔ میں نے حضرت (خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ) کی خدمت میں دعا کی درخواست کی اور ۱۴۰ روپیہ ترقی پر یعنی ۲۰۰ روپیہ تنخواہ پر مقرر کیا گیا۔ کچھ عرصہ بعد اچانک وہ آسامی بند کر دی گئی اور حکم آگیا کہ تم کو اپنی سابقہ تنخواہ ۶۰ روپیہ پر جانا ہوگا۔ میں نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ کی خدمتِ عالیہ میں دعا کے لیے لکھا۔ ابھی خط حضور کو ملا بھی نہ ہوگا کہ ایک انگریز انسپکٹر مر گیا افسرانِ متعلقہ نے مجھے اسی تنخواہ پر وہاں لگا کر راولپنڈی تبدیل کر دیا۔ وہاں میں نے صرف ۵ ماہ کام کیا تھا کہ ایجنٹ آفس والوں نے کوشش کر کے میری جگہ ایک سینئر آدمی بھجوا دیا اور مجھے پھر تنزّل کا حکم مل گیا۔ حضور سے دعا کرائی جا رہی تھی کہ اچانک ایک اَور انگریز کی جگہ خالی ہوئی اور وہ موقع مجھ کو دے دیا گیا۔ اس آسامی پر گو تنخواہ کا تو کوئی خسارہ نہ تھا مگر سفر کی وجہ سے مجھے تکلیف تھی اس لیے میں نے رخصت لے لی اور حضور کے پاس جولائی ۱۹۲۹ء میں کشمیرچلا گیا تاکہ دعا کرا سکوں۔ وہاں ایک ماہ رہا کہ اچانک لاہور سے کشمیر اطلاع گئی کہ تم پہلی آسامی پر ۲۰۰ روپیہ پر پھر پشاور چلے جاؤ۔ غرض میری ہر ترقی غیر معمولی طور پر ہوئی۔میں سٹاف وارڈن حضور کی دعاؤں سے نامزد ہوا۔ باقی سب منتخب ہوئے۔ میری موجودہ ترقی بطور لیبر وارڈن بھی غیر معمولی طور پر حضور کی دعاؤں سے ہوئی کیونکہ میں ان منتخب شُدہ امیدواروں کی فہرست میں نہ تھا بلکہ میرے ایک دوسرے غیر احمدی ہم عصر تھے جو اس غیر ممکن بات کے ممکن ہونے پر اب تک خفا ہیں اور احمدیوں سے بھی خفا ہیں کہ ہماری آسامیوں پر چھاپا مار لیتے ہیں۔ (الفضل ۲۸؍دسمبر ۱۹۳۹ء صفحہ ۵۱، سوانح فضل عمر جلد ۵ صفحہ ۸۴، ۸۵)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی شفقت
اخترصاحب حضرت مصلح موعودؓ کی شفقت کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ’’حضرت امامِ جماعت الثانی کو اپنے خدام سے بڑی محبت تھی۔ حضرت صاحب کی محبت کا ایک واقعہ یوں ہے کہ ایک دن آپ سیر کو تشریف لے گئے تھے۔ خاکسار اور مکرم چوہدری اسد اللہ خان صاحب بھی ساتھ تھے۔ سیر سے واپسی پر آپ موٹر سے اُترے اور اپنی اقامت گاہ کی سیڑھیوں تک پہنچے تو چوہدری اسد اللہ خان صاحب نے ایک خاص دوستانہ انداز میں خاکسار سے چُٹکی لی۔ گویا وہ مجھے کوئی خاص بات یاد دلا رہے ہوں۔ بات یہ تھی کہ وہ مجھے کئی بار حضرت صاحب سے عطر لینے کے لیے کہہ چکے تھے اور چاہتے تھے کہ میرے ذریعہ وہ حضرت صاحب تک اپنی یہ خواہش پہنچادیں۔چنانچہ جونہی چوہدری صاحب نے میرے چُٹکی لی تو میں نے دیکھا کہ حضرت صاحب بھی ازراہِ شفقت خدام نوازی پرمائل ہیں۔ چنانچہ میں نے عرض کیا کہ چوہدری اسد اللہ خان صاحب میری چُٹکیاں لے رہے ہیں۔ آپ فرمانے لگے چُٹکیاں تو محبت سے لی جایا کرتی ہیں۔ چوہدری صاحب بھی آپ سے محبت ہی کا اظہار کر رہے ہوں گے۔ میں نے عرض کیا میرے ساتھ محبت کے اظہار میں آپ سے عطر کے لیے درخواست ہو رہی ہے۔ آ پ ؓمتبسم ہوئے اور فرمایا کہ ذرا ٹھہر جائیں۔ مجھے سیدہ اُمِّ ناصر کی خدمت میں کسی کام کے لیے بھجوایا۔ میں واپس آیا تو مکرم چوہدری اسد اللہ خان صاحب کے ہاتھ میں حضرت کی طرف سے عطا کردہ ایک عطر کی شیشی تھی۔ شیشی دیکھتے ہی میں نے کہا میرا حصہ بھی دے دو۔ چوہدری صاحب کہنے لگے کہ نہیں یہ تو حضرت صاحب نے مجھے ہی عنایت فرمائی ہے۔ یہ بات حضرت صاحب نے بھی سن لی تو فرمایا اسی لیے تو میں نے تمہیں دوسری طرف بھجوایا تھا۔ چنانچہ میں دل گرفتہ سا ہو گیااور اسی انداز میں ہم واپس آگئے۔حضرت صاحب نے میرا چہرہ پڑھ لیا تھا گویا اسے اس محرومی کا بہت احساس ہے۔
دوسرے ہی دن انجمن کے کاغذات پیش کرنے کے لیے حسبِ معمول میں آپؓ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ضروری کاغذات دکھائے، ہدایات لیں اور جب واپس آنے لگا تو آپ نے فرمایا۔ ذرا ٹھہر و۔ چنانچہ میں رک گیا۔ حضرت صاحب اندر تشریف لے گئے اور چند ہی لمحوں کے بعد واپس تشریف لے آئے۔ حضرت صاحب کے ہاتھ میں ایک نفیس اور خوبصورت چھڑی تھی جو کہ عرصہ سے آپ کے استعمال میں تھی۔ آپ نے وہ چھڑی میز پر رکھی اور فرمانے لگے لو! یہ چھڑی تمہارے لیے ہے۔
عطر سے محرومی کا احساس تو مجھے تھا لیکن حضرت صاحب نے اس طور پر مجھے چھڑی کا تحفہ دے کر نوازا کہ میں مسرور بھی تھا اور ایک روز قبل کے جذبات پر نادم سا بھی۔وہ چھڑی اب بھی میرے پاس بطور تبرک محفوظ ہے اور محرومیوں کے کئی احساسات کو سکون واطمینان کی لہروں میں چھپا لیتی ہے۔‘‘(الفضل ۱۲؍نومبر ۱۹۹۵ء صفحہ ۳، سوانح فضل عمر جلد ۵ صفحہ۴۲۹، ۴۳۰)
جماعتی خدمات
ریلوے میں ملازمت کے دوران آپ جہاں بھی متعین رہے آپ کو کسی نہ کسی رنگ میں جماعتی خدمت کی توفیق ملتی رہی اور آپ جماعت کے مرکزی مہمانوں کے میزبان ہوتے۔ حضرت مصلح موعودؓ کے ملکی اسفار بالعموم ریلوے کے ذریعہ ہوتے تھے۔ ان مواقع پر آپ کو سفری سہولیات کا انتظام کرنے کی توفیق ملتی رہی جس کا تذکرہ الفضل اخبار کی رپورٹنگز میں محفوظ اور تاریخ احمدیت کا حصہ ہے۔ مثال کے طور پر فروری ۱۹۴۸ء کے سفر سندھ کے لیے لاہور سے حضرت مصلح موعودؓ کے قافلہ کی روانگی کی رپورٹ کرتے ہوئے مولانا محمد یعقوب طاہر صاحب رقمطراز ہیں:’’یہ قافلہ جو ۳۷ افراد پر مشتمل تھا ہفتہ کے روز کراچی میل کے ذریعہ روانہ ہوا۔ حضرت امیر المؤمنین خلیفة المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اور حضور کے اہل بیت کے لیے سیکنڈ کلاس کے دو کمپارٹمنٹ ریزرو کروا لیے گئے تھے۔ میاں غلام محمد اختر صاحب ڈویژنل پرسنیل آفیسر نے اس سلسلہ میں قافلہ کی سہولت اور اس کو آرام پہنچانے کے لیے جو خدمات سر انجام دیں وہ نہایت ہی قابل تعریف ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر عطا فرمائے۔‘‘(روزنامہ الفضل ۲۷؍ فروری ۱۹۴۸ء صفحہ ۴)
جیسا کہ اس سے قبل ذکر گزر چکا ہے کہ ۱۹۳۳ء میں آپ کی ٹرانسفر لاہور ہو گئی تھی۔ لاہور قیام کے زمانے میں آپ کو مختلف النوع جماعتی خدمات کا موقع ملا۔ حضرت مصلح موعودؓ کئی قسم کے کام آپ کے سپرد فرماتےجو آپ سر انجام دیتے۔ لاہورمیں آپ کا گھر جماعتی عہدے داران کی ضیافت گاہ تھا اور سالہا سال آپ یہ خدمت بجا لاتے رہے۔ آپ کا وجود جماعت احمدیہ لاہور کے لیے بہت مفید اور کارآمد ثابت ہوا۔ جب جنگ عظیم دوم شروع ہوئی تو ریلوے ورکشاپ، لوکوشیڈ لاہور کی اہمیت بڑھ گئی۔ یہاں کئی جنگی پرزہ جات بھی بنتے تھے۔آپ کو لاہور ورکشاپ کا انچارج بنادیا گیا۔ شروع میں وہاں صرف سات آٹھ احمدی ملازم تھے لیکن جب ضرورت بڑھی تو چونکہ آپ ریکروٹمنٹ کے نگران تھے آپ نے دیگر ملازمین کے ساتھ سینکڑوں احمدیوں کو وہاں ملازم کروایا جس سے جماعت اور بھی مضبوط ہو گئی۔ چندہ جات میں بھی اضافہ ہو گیا۔ یہ بہت بڑی جماعتی خدمت تھی جو آپ کے حصہ میں آئی۔ آپ کے بیٹے حمید اختر صاحب مرحوم آف جرمنی نے مجھے بتایا کہ محترم شیخ بشیر احمد صاحب سابق امیر جماعت احمدیہ لاہور نے ان سے بیان کیا کہ ایک وقت تھا جب ہمارے پاس جماعتی کاموں کے لیے سائیکل خریدنے کے پیسے نہ تھے اور پھر جب اختر صاحب نے احمدیوں کو ریلوے میں ملازم کروایا تو اتنے چندہ دینے والے ہو گئے کہ ہم نے کار بھی رکھ لی جس سے جماعتی کام بسہولت انجام پذیر ہونے لگے۔
۱۹۴۷ء میں تقسیمِ ہند کے بعد جلسہ سالانہ رتن باغ لاہور میں منعقد ہوا۔ اس جلسہ سالانہ کی انتظامیہ میں اختر صاحب شامل تھے اور آپ کے پاس نظامت استقبال اور انکوائری آفس کی خدمت تھی۔ اسی طرح ۲۸؍مارچ ۱۹۴۸ء کو تتمہ جلسہ سالانہ کا انعقاد میدان متصل جودھا مل بلڈنگ لاہور میں ہوا۔ اس جلسہ کے موقع پر ناظم استقبال و انکوائری کے ساتھ ساتھ حفاظت خاص کی ذمہ داری بھی آپ کے پاس تھی۔
جیسا کہ ذکر گزر چکا ہے ۱۹۵۵ء میں آپ نے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے کر اپنی خدمات جماعت کے سپرد کر دیں۔ حضرت مصلح موعودؓ نے آپ کا تقرر ناظر اعلیٰ ثانی و ناظر دیوان کے طور پر فرمایا۔ آپ ۱۹۵۵ء تا ۱۹۶۲ء بطور ناظر اعلیٰ ثانی، ۱۹۵۵ء تا ۱۹۶۷ء بطور ناظر دیوان اور ۱۹۶۰ء تا ۱۹۶۹ء بطور ناظر صنعت و تجارت خدمات سرانجام دیتے رہے۔اسی دوران آپ کچھ عرصہ ناظر زراعت بھی رہے۔
مسجد مبارک کی تقریبِ سنگ بنیادمیں شرکت اور مالی قربانی
۳؍اکتوبر ۱۹۴۹ء بروز دوشنبہ حضرت مصلح موعودؓ نے مسجد مبارک ربوہ کا سنگ بنیاد رکھا۔ بیرون جات سے شرکت کرنے والوں میں محترم میاں غلام محمد اختر صاحب پرسنیل آفیسر ریلوے لاہور بھی شامل تھے۔ حضرت مصلح موعودؓ کی ہدایت پر سنگِ بنیاد رکھنے والوں کی تین صفیں تشکیل دی گئیں۔
۱)صحابہ حضرت مسیح موعود ؑکی ایک صف
۲)دوسری صف خاندان مسیح موعودؑ کے نرینہ افراد
۳)تیسری صف واقفینِ زندگی
پھر آپؓ کی ہدایت پر دو مزید صفیں تشکیل دی گئیں۔
۴)امرائے جماعت اور ناظرانِ سلسلہ
۵)مہاجرینِ قادیان کی صف
بعد ازاں حضورؓ نے خواتین کی دو صفیں شامل کرنے کے لیےبھی ہدایت دی:(۱) خواتین مبارکہ خاندان حضرت اقدس مسیح موعودؑ(۲) صحابیات ومہاجرات قادیان کی صف
محترم اختر صاحب صحابہ کی صف میں شامل تھے۔ سنگِ بنیاد کے بعد حضورؓ نے اس مسجد کے لیے اپنی، اپنے خاندان اور دیگر جماعتوں کی جانب سے وعدہ جات بھی بیان فرمائے۔
ان میں میاں غلام محمد اختر صاحب پرسنیل آفیسر ریلوے مع اہل و عیال= ۱۰۱ روپیہ
کیپٹن مبارک احمد صاحب و امة الحبیب بنت اختر صاحب= ۲۱ روپیہ کا وعدہ بھی شامل تھا۔
اس تقریب میں ۶۹؍صحابہ حضرت مسیح موعودؑ نے شمولیت فرمائی جن کے اسماء تاریخ احمدیت جلد ۱۴ میں فصل سوم زیر عنوان ’’مسجد مبارک ربوہ کے سنگ بنیاد کی مقدس تقریب‘‘میں درج ہیں۔ نمبر ۴۳ پر مکرم میاں غلام محمد اختر صاحب پی۔او کا نام شامل فہرست ہے۔(تاریخ احمدیت جلد ۱۴ صفحہ ۲۹)
حضرت مصلح موعودؓ کی زبان مبارک سے آپ کا ذکر خیر
حضرت مصلح موعودؓ کی زبان مبارک سے کئی بار اپنے فدائی خادم اختر صاحب کا ذکر خیر ہوا جو کتب مصلح موعودؓ میں محفوظ ہے۔ تحدیث نعمت کے طور پر چند تذکرے پیش ہیں:
تراجم قرآن کی اشاعت کے خرچ اٹھانے کی تحریک پر لبیک:
حضرت مصلح موعودؓ نے خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۰؍اکتوبر ۱۹۴۴ء میں دنیا کی آٹھ بڑی بڑی زبانوں میں تراجم قرآن کریم شائع کرنے کی سکیم پیش کرتے ہوئے اس کے اخراجات میں حصہ لینے کی تحریک فرمائی۔ اگلے خطبہ فرمودہ ۲۷؍اکتوبر ۱۹۴۴ء میں حضور نے جماعت اور احباب جماعت نے اس تحریک پر جو لبیک کہا ان کا ذکر خیر کرتے ہوئے فرمایا:’’یاد رکھنا چاہیے کہ تراجم کے کرنے کا وعدہ سات جماعتوں یا افراد کی طرف سے آچکا ہے (۱) میری طرف سے (۲، ۳)لجنہ اماء اللہ کی طرف سے (۴، ۵) قادیان و کارکنان صدر انجمن کی طرف سے (۶) سر محمد ظفر اللہ خان صاحب اور ان کے دوستوں کی طرف سے (۷) میاں غلام محمد اختر صاحب اور ان کے دوستوں کی طرف سے….‘‘(خطبات محمود جلد ۲۵ صفحہ ۶۱۱)
خطبہ جمعہ ۳؍نومبر ۱۹۴۴ء میں حضور نے اس تحریک پر لبیک کہنے والوں کی درخواستوں کا ان الفاظ میں مکرر تذکرہ فرمایا:’’چوہدری ظفراللہ خان صاحب اور ان کے بعض دوستوں کی طرف سے، میاں غلام محمد اختر صاحب اور ان کے دوستوں کی طرف سے، لاہور کی جماعت کی طرف سے، کلکتہ کی جماعت کی طرف سے اور میاں محمد صدیق صاحب اور محمد یوسف صاحبان تاجران کلکتہ کی طرف سے، ملک عبدالرحمان صاحب مل اونر قصور کی طرف سے اور سیٹھ عبداللہ بھائی سکندر آباد کی طرف سے…‘‘( خطبات محمود جلد ۲۵ صفحہ ۶۲۲)
وعدہ تحریک جدید میں مسابقت کا ذکر
۵؍دسمبر ۱۹۴۷ء کے خطبہ جمعہ بمقام لاہور حضرت مصلح موعودؓ نے احباب جماعت کو وعدہ جات تحریک جدید جلد بھجوانے کی طرف توجہ دلائی اور جو وعدے آئے ان کا ذکر خیر کرتے ہوئے فرمایا:’’اِس وقت تک سب سے زیادہ جوش قادیان کے مہاجرین نے ہی دکھایا ہے۔ چنانچہ جتنی موعودہ رقم آئی ہے اُس کا نوے فیصدی قادیان کے وعدوں پر ہی مشتمل ہے۔ اور جہاں تک میرا علم ہے یا میری یاد کام دیتی ہے لاہور کی جماعت کا غالباً اِس وقت تک ایک کے سوا کوئی وعدہ نہیں آیا۔ وہ وعدہ اختر صاحب کا ہے۔ اُنہوں نے اُسی دن اپنا وعدہ لکھ کر مجھے دے دیا تھا۔ اُن کے علاوہ لاہور کی جماعت میں سے اور کسی نے اب تک وعدہ نہیں کیا…‘‘(خطبات محمود جلد ۲۸ صفحہ ۴۳۵)
بیٹی کی وفات پر ذکر اور نماز جنازہ
خطبہ جمعہ ۲۴؍دسمبر ۱۹۴۸ء بمقام لاہور حضورؓ نے فرمایا: ’’میں دوستوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ ہمارے اختر صاحب کی لڑکی فوت ہو گئی ہے۔ نماز جمعہ کے بعد میں اُس کا جنازہ پڑھاؤں گا۔ اختر صاحب کے لیے یہ دوسرا واقعہ ہے۔ اُن کی ایک لڑکی پہلے بھی بچہ پیدا ہونے کی وجہ سے فوت ہو گئی ہے اوراب یہ لڑکی بھی بچہ پیدا ہونے کی وجہ سے فوت ہوئی ہے۔ اس کی جسمانی وجوہات بھی ہو سکتی ہیں اور یونانی اطباء اسے بیماری تسلیم کرتے ہیں لیکن اس کی روحانی وجوہات بھی ہو سکتی ہیں۔ بسااوقات صرف جسمانی وجوہ ہی ہوتی ہیں لیکن مومن کو چاہیے کہ وہ ہر حالت میں اپنی اصلاح کی طرف توجہ رکھے…‘‘(خطبات محمود جلد ۲۹ صفحہ ۴۴۵)
ناظر دیوان کے طور پر تقرر اور ذمہ داری
حضرت مصلح موعودؓ نے جلسہ سالانہ ۱۹۵۴ء کے موقع پر مورخہ ۲۸؍دسمبر کو اپنی تقریر کے دوران محترم میاں غلام محمد اختر صاحب کے تقرر اور ان کی ذمہ داری کے حوالہ سے فرمایا:’’ابھی میں نے اختر صاحب کو رکھا ہے۔ ایک نیا نام ان کے لیے تجویز کیا گیا ہے۔ دیکھئے وہ بیل منڈھے چڑھتی ہے کہ نہیں۔ ناظر الدیوان ان کا عہدہ مقرر کیا گیا ہے یعنی وہ ناظروں کے کام کو چیک کریں گے۔ ان کو میں نے کہا ذرا معائنہ کرو اور دیکھو کہ نظارت امور عامہ کیوں بنائی گئی تھی؟ اور آیا جس غرض کے لیے امور عامہ کی نظارت بنائی گئی تھی اس کا کوئی کام انہوں نے کیا؟ نظارت اعلیٰ کیوں بنائی گئی تھی؟‘‘ (انوارالعلوم جلد ۲۵ صفحہ ۲۰)
جلسہ سالانہ پر تاریں پڑھ کر سنانا
جلسہ سالانہ ۱۹۵۵ء کی افتتاحی تقریر کے بعد حضرت مصلح موعودؓ نے دعا سے پہلے فرمایا:’’اب میں دعا کروں گا مگر اس سے پہلے مختلف مقامات سے دوستوں کی جو تاریں دعا کے لیے آئی ہوں وہ اختر صاحب پڑھ کر سنا دیں گے۔‘‘چنانچہ حضور کے ارشاد کی تعمیل میں محترم میاں غلام محمد اختر صاحب نے تاریں پڑھ کر سنائیں۔(انوارالعلوم جلد ۲۵ صفحہ ۱۸۹-۱۹۰)
آپ کے وقف اور کارکردگی پر اظہار خوشنودی
جلسہ سالانہ ۱۹۵۵ء کے موقع پر ۲۷؍دسمبر کو حضرت مصلح موعودؓ نے احباب کو وقف کی طرف توجہ دلائی اور اختر صاحب کے وقف کا ذکر خیر ان الفاظ میں فرمایا: ’’دوستوں کو وقف کی طرف توجہ کرنی چاہئے۔ اب کام اتنا بڑھ چکا ہے کہ بغیر اِس کے سر انجام نہیں دیا جا سکتا۔ میری بیماری میں بڑا خطرہ تھا مگر اللہ تعالیٰ نے فضل کیا۔ اُس نے ناصر احمد میرے لڑکے کو توفیق دے دی اور اختر صاحب کو وقف کی توفیق دی کہ وہ نوکری سے فارغ ہو کر آ گئے اور ان لوگوں نے میرے پیچھے کام سنبھال لیا۔ اب خدا کے فضل سے انجمن کا کام بڑی خوش اسلوبی سے چل رہا ہے۔ دوسرے نوجوانوں کو بھی اس طرف توجہ کرنی چاہئے۔ ‘‘(انوارالعلوم جلد ۲۵ صفحہ ۲۲۵-۲۲۶)
خطبہ جمعہ فرمودہ ۹؍مارچ ۱۹۵۶ء میں فرمایا:’’صدرانجمن احمدیہ میں اخترصاحب آئے۔ انہیں سرکاری ملازمت کا تجربہ تھا۔ انہوں نے چند نوجوانوں سے مل کر عملہ میں کانٹ چھانٹ شروع کی اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بہت سے اخراجات کم ہو گئے۔ پس اگر نوجوان اپنے اندر انتظامی قابلیت پیدا کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ ان کا جماعت میں اعزاز نہ ہو اور انہیں مرکز میں اہم عُہدوں پر نہ لگایا جائے۔‘‘(خطبات محمود جلد ۳۷ صفحہ ۱۲۵)
مالی قربانی
اختر صاحب مالی قربانی میں دل کھول کر حصہ لیا کرتے تھے۔ آپ نے ۱۹۲۸ء میں وصیت کر لی تھی۔ ابتدا میں ۱۰/۱ حصہ کی وصیت تھی لیکن آپ نے ۱۹۳۶ء میں ۸/۱ کی وصیت کر دی۔ دربار خلافت سے اٹھنے والی مالی تحریکات پر والہانہ لبیک کہتے تھے۔ مالی قربانی کی بعض جھلکیاں اس مضمون میں مختلف مقامات پر قارئین کرام ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ آپ کی مالی قربانی کا تذکرہ خود حضرت مصلح موعودؓ نے بھی فرمایا ہے۔
ایں سعادت بزور بازو نیست
(باقی آئندہ)