تقریر برموقع جلسہ سالانہ جرمنی ۲۰۲۴ء: خلافت کی خدائی تائید
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتاہے:کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغۡلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیۡزٌ۔(المجادلہ :۲۲)اللہ نے لکھ رکھا ہے کہ ضرور میں اور میرے رسول ہی غالب آئیں گے۔ یقیناً اللہ بہت طاقتور (اور) کامل غلبہ والا ہے۔
معزز سامعین!خاکسار کی آج کی گزارشات کا موضوع ہے’’ خلافت کی خدائی تائید۔‘‘
قرآن کریم بنی نوع انسان کے لیےاللہ تعالیٰ کا وہ عظیم الشان تحفہ ہے جو آغاز زمانہ سے لے کر قیامت تک ہر ایک معاملے میں ہماری راہنمائی کرتا ہے۔
کوئی بھی دَور ہو۔ کوئی بھی زمانہ ہو۔ کوئی بھی موضوع ہو قرآن کریم اُس امر پرنہ صرف روشنی ڈالتا ہے بلکہ راستوں کی جستجو میں بھٹکتے مسافروں کو اُن کی منزلوں تک پہنچا کر آتا ہے۔ یہاں تک کہ منزل پر پہنچنے کے بعد جب انسان پیچھے مڑ کر دیکھتا ہے تو بے اختیار ہوکر پکار اٹھتا ہے کہ’’ ذٰلِکَ الْکِتَابُ لَا رَیْبَ فِیْہ‘‘۔ یقیناً یہی وہ کامل ترین کتاب ہے جس میں کوئی ریب، کوئی شک، کوئی شبہ بھی موجود نہیں ہے۔
آج کے اِس موضوع پر بات کرنے کے لیے بھی جب قرآن کریم کو کھول کر دیکھا تو یوں معلوم ہوا کہ اِس موضوع کے بارے میں قرآن کریم کا بیان اتنا وسیع اور عظیم الشان ہے کہ شایدہی کسی ایک تقریر میں اُس کا احاطہ کیا جاسکے۔
سامعین !قرآن کریم جو پہلا تاریخی واقعہ ہمارے سامنے رکھتا ہے وہ خلافت کے قیام کا واقعہ ہے۔ اور اللہ تعالیٰ اس واقعے کو اس قدراہمیت دیتا ہے کہ زمین وآسمان کی پیدائش کے ساتھ ملا کر اس تاریخی واقعہ کا ذکر ان الفاظ سے شروع کرتا ہے کہ تم اللہ کا انکار کر ہی کیسےسکتے ہو؟جبکہ تم مردہ تھے اور پھر اس نے تمہیں زندہ کیا۔ اور آئندہ بھی جب تمہیں روحانی زندگی کی ضرورت پڑے گی تو اسی نسخے کو یاد رکھنا کہ ہم انسانوں کو زمین میں اپنے خلفاء کے ذریعہ سے ہی روحانی طور پر زندہ کیا کرتے ہیں۔ جیسا کہ فرمایا:وَاِذۡ قَالَ رَبُّکَ لِلۡمَلٰٓئِکَۃِ اِنِّیۡ جَاعِلٌ فِی الۡاَرۡضِ خَلِیۡفَۃً (البقرۃ: ۳۱)اور (اے انسانو! اس وقت کو یاد کرو) جب تمہارے رب نے ملائکہ سے کہا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔
پھر خواہ لوگ لاکھ اعتراض کریں،دنیا لاکھ برا منائے۔ ملائکہ اپنی نیکیوں کے واسطے دیں،اوردلائل کے انبار لگادیں، اپنی طرف سے ہر ایک ممکن وضاحت دینے کی کوشش کریں اور اس فیصلے کی حکمت کو نہ سمجھ پائیں۔ ابلیس اپنی برتری کے دعوے لے کر تکبر پر اتر آئے…سر جھکانے سے انکار کردے اور سرکشی پر آمادہ ہوکر راندۂ درگاہ ہوجائے، تب بھی یہ اللہ کےخلیفہ ہی ہیں جو دنیا پر غالب آیا کرتے ہیں اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت انہی کے ساتھ ہوا کرتی ہے۔دنیا انہی کے ذریعہ سے زندہ ہوتی ہے اور انہی کے انکار سے روحانی موت کی طرف چلی جاتی ہے۔اور ایک کے بعد ایک خلیفہ جسے خدا کھڑا کرتا ہے ہمیشہ ہر ایک محاذ پر کامیاب و کامران رہتا ہے اور فتح و ظفر اس کے قدم چومتی ہے۔ اور کوئی دشمن قوت اس کا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتی کیونکہ اس کی پشت پر خدا موجود ہوتا ہے۔پس اس تاریخی واقعاتی شہادت اور گواہی کے بعد قرآن کریم بار بار نام لے کر ان وجودوں کا ذکر کرتا ہے جنہیں خدا تعالیٰ نے اپنا خلیفہ، اپنا سفیر، اپنا نمائندہ بنا کر دنیا میں بھیجا اور پھر ان کے سامنے تکبر کے ساتھ کھڑے ہونے والے ابلیس کے چیلوں کے حسرت ناک انجام کو بھی بیان کرتا ہے۔ بتاتا ہے کہ کیسے وہ بڑے بڑے نظر آنے والے بت پاش پاش کردیے گئے۔ کیسے ان کے نام و نشان تک مٹا دیے گئے۔کیسے ان خلفاء کی مخالفت کرنے والی عاد اور ثمود اور مدین کی قومیں خاک میں ملا دی گئیں۔اور اگر اُس خاک اور راکھ میں کچھ باقی بچا تو وہ سب زمانوں کے انسان کے نام صرف یہ ابدی پیغام تھا کہ ؎
جو خدا کا ہے اسے للکارنا اچھا نہیں
ہاتھ شیروں پر نہ ڈال اے رو بۂ زار و نزار
قرآن کریم حضرت نوحؑ کا ذکر کرتا ہے تو فرماتاہے کہ (اسی قانون کے مطابق) ہم نے نوح (کی قوم کو اور اس) کے بعد بہت سی نسلوں کو ہلاک کیا۔(بنی اسرائیل: ۱۸)حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ذکر آتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ پھر ہم نے موسیٰ کو اپنے نشان دےکر فرعون اور اس کے سرداروں کے پاس بھیجا،تو انہوں نے ان (نشانوں) سے ظلم کا برتاؤ کیا پس تو دیکھ لےکہ فساد کرنے والوں کا انجام کیا ہوا۔(الاعراف:۱۰۴)
اور یوں نام بہ نام یہ سلسلہ آگے بڑھتا ہے تو نظر آتا ہے کہ ہر ایک دور کے ابلیس اورفرعون اور ہامان، اور قارون اور ابو جہل اور ابو لہب اپنی تمام تر طاقت اور قوت کے استعمال کے باوجود بھی شکست کھاتے چلے جاتے ہیں اور اللہ کے مامور، اللہ کے نبی اور اس کے بنائے ہوئے خلیفہ ہر دور میں دنیا پر غالب آتے ہیں۔یہ داستانیں جو قرآن کریم نے ہمارے لیے محفوظ کی ہیں کوئی فرضی کہانیاں نہیں ہیں،یہ کوئی مبالغانہ افسانے نہیں ہیں یہ کوئی فلسفیانہ بحثیں نہیں ہیں بلکہ یہ سب تاریخ عالم کے جیتے جاگتے کرداروں کے حقیقی واقعات ہیں جو ہمیں یہی حقیقت یاد دلاتے ہیں کہ اللہ نے فیصلہ کر چھوڑا ہے کہ ہمیشہ میں اور میرے فرستادے ہی غالب آئیں گے۔ اور ایسا کیوں نہ ہو کیونکہ کون دنیا میں یہ طاقت رکھتا ہے کہ خدا کے بنائے ہوئے خلیفہ کے سامنے سرکشی کرے،بغاوت کا طریق اپنائے اور پھر وہ سر جھکا نہ دیا جائے یا ہمیشہ کی ذلت اور رسوائی اس کا مقدر نہ کردی جائے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:مبارک وہی ہیں جو اعتراض سے بچتے ہیں کیونکہ نیکوں کو بھی آخر مامور کے حضور رجوع اور سجدہ کرنا ہی پڑتا ہے۔ پس اگر یہ ملک(یعنی فرشتے) کی طرح بھی ہو پھر بھی اعتراض سے بچے کیونکہ خدا تو سجدہ کرائے بغیر نہیں چھوڑے گا۔ ورنہ لعنت کا طوق گلے میں پڑے گا۔( الحکم ۱۷؍جنوری ۱۹۰۳ء)
سامعین! نبیوں کے سردار اور ہمارے آقا و مولا حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺ کی زندگی میں تو اللہ تعالیٰ کی تائیدات کی یہ تجلی ایسے زور سے ظاہر ہوئی کہ انسان حیران رہ جاتا ہے۔کیسے اللہ تعالیٰ نے ایک در یتیم کو اس عظیم الشان مقام کے لیے چنا اور پھر اپنی مدد کے ایسے نمونے دکھائے جو دنیا کے لیے حیرت انگیز تھے۔آپ کے دعوے کے بعد دوست دشمن بن گئے اور دشمن تو خون کے پیاسے ہوگئے۔ آپ کے قتل کی کوششیں کی گئیں۔ جنگیں مسلط کی گئیں۔ بائیکاٹ اور مقاطعہ کیا گیا۔یہاں تک کہ بڑے بڑے جابر بادشاہ آپ کی دشمنی پر کمر بستہ ہوگئے۔حضور نے کسریٰ کو جب دعوت اسلام کا خط ارسال کیا تو اس نے تکبر سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خط کو نہ صرف پھاڑ دیا بلکہ اپنے یمن کے گورنر کو ہدایت بھجوائی کہ یہ شخص جس نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے اسے گرفتار کر کے ہمارے سامنے پیش کیا جائےچنانچہ گورنر نے اپنےچند سپاہی آپ کی گرفتاری کے لیے روانہ کردیے کہ آپ فورا ً، ان لوگوں کے ساتھ کسریٰ کی خدمت میں حاضر ہوں۔ جب یہ لوگ مدینہ پہنچے تو انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ آپ ہمارے ساتھ چلیں ورنہ کسری آپ کے ملک اور قوم کو تباہ کر کے رکھ دے گا۔ آپ ان کی یہ بات سن کر مسکرائے اور فرمایا کہ تم آج رات ٹھہرو میں تمہیں کل جواب دوں گا۔ جب وہ دوسرے دن آپ کے پاس آئے تو آپ نے ان سے مخاطب ہو کربڑے جلال سے فرمایا کہ ’’جاؤ اور جاکر اپنے گورنر کو بتا دو کہ میرے رب تعالیٰ نےاس کے رب یعنی کسریٰ کو آج رات قتل کر دیا ہے۔‘‘
جب یہ سپاہی حیران و پریشان ہو کر واپس پہنچے تو گورنر نے کہا کہ یہ بہت بڑی بات ہےاگر یہ بات سچ نکلی تو پھر آپ واقعی خدا کے نبی ہیں اس لیے کچھ انتظار مناسب معلوم ہوتا ہے۔ چنانچہ ابھی کچھ وقت ہی گزرا تھا کہ گورنر کو خسرو پرویز کے بیٹے کا ایک خط پہنچا جس میں لکھا تھا کہ ’’ میں نے ملکی مفاد کے ماتحت اپنے ظالم باپ کو قتل کر دیا ہے اور مجھے معلوم ہوا ہے کہ میرے باپ نے تمہیں عرب کے ایک شخص کے متعلق ایک حکم بھیجا تھا اسے بھی اب منسوخ سمجھو اور میرے دوسرے حکم کا انتظار کرو۔‘‘(سیرت خاتم النبیین صفحہ ۹۱۵ بحوالہ تاریخ طبری جلد ۳ صفحہ ۵۷۲) یہ واقعہ اتنا عظیم الشان تھا کہ نہ صرف وہ گورنر بلکہ اس علاقے کے دیگر بہت سے لوگ بھی اس کے ساتھ مسلمان ہو گئے۔
ایک زندہ خدا کی موجودگی اور اس کی تائید و نصرت کا یہ واقعہ آج بھی دل کو دہلا کر رکھ دیتا ہے اور یاد دلاتا ہے کہ آج بھی جب ایک بادشاہ نے خدا کے خلیفہ سے ٹکر لی اور بادشاہت کے زعم میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی کوشش کی تو اللہ تعالیٰ نے اسے عبرت کا نشان بنادیا اوراس کے اپنے بھتیجے نے ہی اس کی زندگی کا خاتمہ کردیا۔
سامعین!اس مضمون کی زیادہ لمبی اور گہری تفصیلات میں جائے بغیر یہ یاد رکھنا چاہیے کہ خلیفہ کا لفظ قرآن کریم نے انبیاء کے ساتھ ساتھ ان کی پیروی کرنے والے ان پاک وجودوں اور مامورین کے لیے بھی استعمال کیا ہے جنہیں اللہ تعالیٰ اپنے دین کی تائید کے لیے کھڑا کرتا ہے اور ہمیشہ ان کی پشت پر خود موجود رہتا ہے۔نیز قرآن کریم نے جہاں بھی خلیفہ بنانے کا ذکر کیا ہے تو ہمیشہ اس فعل کو اپنی جانب منسوب کیا ہے اور کبھی ہمیں اگر اس میں انسانوں کی رائے یا تائید نظر بھی آئے تو یاد رکھنا چاہیے کہ یہ رائے بھی اسی وقت معتبر بنتی ہے جب اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت اس کی تائید و توثیق کردیتی ہے ورنہ دنیا کی کروڑوں اربوں کی آبادی مل کر بھی نظام خلافت کو قائم نہیں کرسکتی۔اور ایک ہاتھ پر، ایک نظام خلافت پر اکٹھے نہیں ہوسکتی لیکن بہت ہی بدقسمتی کی بات ہے کہ مسلمانوں نے اس عظیم نعمت کو ماضی کی داستانیں سمجھ کر بھلا دیا ہے کیونکہ ان کے خیال میں چونکہ دین کامل ہوچکا ہے اور نبوت کا دروازہ بند ہوچکا ہے اس لیے اب ایسی کسی نعمت کا تصور محال ہے۔ حالانکہ اس عقیدہ کے ہوتے ہوئے بھی وہ آنحضرت ﷺ کے بعد خلفائے راشدین کی خلافت کی برکات کو جانتے اور مانتے ہیں اور دین کامل ہونے کے بعد ان خلفاء کی ضرورت کے بھی قائل ہیں۔ اور یہی وہ مضمون ہے جسے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اس زمانے میں دنیا کو ایک مرتبہ پھرپوری طرح سے کھول کر سمجھایا اور اس زندہ خدا سے روشناس کروایا جو آج بھی سنتا ہے، بولتا ہے اور اپنے پیاروں کے لیے عجیب عجیب معجزات دکھاتا ہے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ مسلمانوں کو نبوت کے بعد ملنے والی خلافت سے متعلق سمجھاتے ہوئے فرماتے ہیں:دوسری قسم کی خلافت اُنہیں (یعنی مسلمانوں کو) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ملی۔ جبکہ اوّل حضرت ابوبکرؓ اور پھر حضرت عمرؓ اور پھر حضرت عثمانؓ اور پھر حضرت علیؓ یکے بعد دیگرے نعمت خلافت سے متمتع ہوئے اور اُن کی اِس نعمت سے تمام مسلمانوں نے حصہ پایا۔ اگر بعد کے مسلمان اِس نعمت کی قدر کرتے تو وہ صحابہ ؓکی ترقی کی راہ پر گامزن رہتے اور آج اسلام کہیں کا کہیں پہنچا ہوا ہوتا…اورتیسری قسم کی خلافت جو تابع انبیاء کے ذریعہ حاصل ہوئی تھی اس کی طرف سے مسلمان ایسے غافل ہوئے کہ آخری زمانہ میں اس قسم کی نبوت کا سرے ہی سے انکار کر دیا۔نیزفرمایا:…جماعت احمدیہ کا ایمان ہے کہ حضرت مرز اغلام احمد علیہ السلام کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے پھر اِس تابع نبوت کا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے مناسب حال امتی نبوت ہے دروازہ کھولا ہے اور آپ کے ذریعہ سے اُس نے پھر آپ کے ماننے والوں میں خلافت کو بھی زندہ کر دیا ہے جس سے پھر ایک دفعہ ساری دنیا میں ایک طبقہ ایسا پیدا ہو گیا ہے جو ایک ہاتھ پر جمع ہو کر خدمت اسلام کر رہا ہے اور اسلام اور مسلمانوں کو ان کا حق دلانے کے لیے رات دن جد و جہد کر رہا ہے اور وہ دن دور نہیں جب پھر دنیا میں اسلام کا بول بالا ہو گا اور کفر بھاگ جائے گا۔( تفسیر کبیر جلد اول صفحہ ۴۴۶۔ایڈیشن۲۰۲۳ء)
سامعین!حضرت مسیح موعودؑ کے زمانہ میں ایک دفعہ کسی ہندو نے اعتراض کیا کہ حضرت ابراہیم پر آگ کس طرح ٹھنڈی ہو گئی۔ اس اعتراض کا جواب حضرت خلیفہ اولؓ نے یوں لکھا کہ آگ سے جنگ اور عداوت کی آگ مراد ہے۔ انہی ایام میں ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام چھوٹی مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے اور حضرت خلیفہ اولؓ بھی پاس بیٹھے تھے کہ کسی نے حضرت صاحب کو یہ اعتراض اور اس کا جواب جو حضرت خلیفہ اولؓ نے لکھا تھا سنایا۔ حضرت صاحب نے فرمایا اس تکلف کی کیا ضرورت ہے ہم موجود ہیں ہمیں کوئی آگ میں ڈال کر دیکھ لے کہ آگ گلزار ہو جاتی ہے یا نہیں۔ ( سیرت المہدی جلد اول صفحہ ۱۳۶۔۱۳۸۔ روایت نمبر۱۴۷)
یہ مختصر سا جملہ اس پہاڑ جیسے یقین کی عکاسی کرتا ہے جو اللہ کے ان مامورین کو حاصل ہوا کرتا ہے جن کی زندگی کا ہر لمحہ تائید خداوندی کے سائے میں گزرتا ہے۔
سامعین!۱۹۵۳ء میں جب پنجاب میں احمدیوں کے خلاف فسادات رونما ہوئے تو اس قسم کی اطلاعات بھی سننے میں آئیں کہ شاید حضرت خلیفۃ المسیح کو بھی گرفتار کر لیا جائے گا۔ ان باتوں سے گھبرا کر ایک شہر کےبعض عہدے داران آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ آپ وہاں چلے چلیں۔ آپ نے ان دوستوں کا ہمدردانہ مشورہ سنا اور دعا کے بعد ان دوستوں سے کہا کہ میں ہرگز جانے کے لیے تیار نہیں جو خدا وہاں ہے وہی خدا یہاں بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ میری یہیں حفاظت کرے گا اور جو مجھ پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کرے گا وہ خدا تعالیٰ کے عذاب اور گرفت میں آجائے گا۔ چنانچہ چند ہی دن میں ملک میں ایک ایسا انقلاب آگیا جس نے سب کچھ الٹ پلٹ کر رکھ دیا۔(سوانح فضل عمر جلد پنجم صفحه ۶۰)
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ جب آپ کو ظالمانہ طور پرقید میں ڈالا گیا تو گرمیوں کے دن تھے حضور کہتے ہیں کہ میں نے اس وقت دعا کی کہ اے میرے رب ! میں اس جگہ اس لیے بھیجا گیا ہوں میں تیرے نام کی سربلندی کے لیے کوشاں ہوں۔ میرے رب ! مجھے کوئی شکوہ نہیں ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ میں اس گھٹن اور گرمی میں سو نہیں سکوں گا۔ آپ فرماتے ہیں کہ میں یہ دعا کر رہا تھا اور میری آنکھیں بند تھیں۔ اچانک مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میرے نزدیک ایئر کنڈیشنر لگا ہوا ہے اور اس سے نہایت ٹھنڈی ہوا نکل رہی ہے اور میں اس تنگ اور گھٹن زدہ کوٹھڑی میں آرام کے ساتھ سو گیا۔(ماخوذ از حیات ناصر از محمود مجیب اصغر صفحہ ۱۷۳)
کیا یہ واقعات اسی خدائی تائید کے گواہ نہیں ہیں جس کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بڑی شوکت کے ساتھ فرمایا تھا کہ ؎
خدا کے پاک لوگوں کو خدا سے نصرت آتی ہے
جب آتی ہے تو پھر عالم کو اک عالم دکھاتی ہے
وہ بنتی ہے ہوا، اور ہر خسِ راہ کو اڑاتی ہے
وہ ہو جاتی ہے آگ اور ہر مخالف کو جلاتی ہے
اور سچ تو یہ ہے کہ ہم نے اس دور آخرین میں خلافت کے مقابل پر کھڑے ہونے والےبڑے بڑے طاقتور مالکانِ اقتدار کوتختہ دار پر جھولتے یا خاک اور راکھ کی شکل میں بکھرتے ہوئے دیکھا ہے۔ ہم نے انہیں احمدیت کے خلاف بھڑکائی جانے والی آگ میں جلتے ہوئے دیکھا ہے۔ احمدیوں کے خلاف آرڈنینس پاس کرکےان کی مذہبی آزادیوں کو چھیننے والوں کو ملنے والی عبرتناک سزا کے تو ہم میں سے اکثرگواہ ابھی تک زندہ موجود ہیں۔ اور یہ اگست کا مہینہ تو خود بھی گواہ ہے کہ آج سے ٹھیک ۳۶ سال پہلے اسی مہینے کی ایک تپتی دوپہر میں بہاولپور سے چھ میل دور دریا کے کنارے کھیتوں میں کام کر تے ہوئے کسانوں نے ایک ہوائی جہاز کو ہوا میں ڈگمگاتے ہوئے دیکھا تھا جو کئی قلا بازیاں کھانے کے بعد سیدھا زمین پرگر کر ایک دھما کے کے ساتھ شعلوں کی لپیٹ میں آگیا تھا۔ اور سب لوگ جو اس طیارے میں سفر کر رہے تھے آن کی آن میں لقمۂ اجل بن گئے تھے اورحضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ نے دوسرے دن اپنے خطبہ جمعہ میں فرمایا تھا کہ خدا تعالیٰ نے فیصلہ فرمادیااورکیا خداتعالیٰ کا یہ فیصلہ اس امر کا زندہ ثبوت نہیں تھا کہ خلافت کی تائید میں اس کی پشت پر خود خدا موجود ہوا کرتا ہے۔اور اس کا ہر ایک فیصلہ ہمیشہ اپنے سچے خلیفہ کی تائید میں ہوا کرتا ہے۔
مکرم منیر عودہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کو اللہ تعالیٰ نے منصب خلافت پر سرفراز فرمایا تو حضور انور نے فرمایا کہ میرے عہد میں عربوں میں تبلیغ کے لیے راہ کھلے گی اور عربوں میں احمدیت کا نفوذ ہوگا… چنانچہ حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے عہد مبارک کے دوران عربوں میں تبلیغ کے حوالے سے خدا تعالیٰ کی تقدیر کے موافق جونمایاں ترقیات ہو رہی ہیں وہ صاف بتا رہی ہیں کہ حضور انور کے یہ الفاظ…خدا تعالیٰ کی طرف سےتائیدی بشارت تھی جس کے پورا ہونے کے ہم گواہ ہیں۔ (مصالح العرب جلد دوم صفحه ۳۴۹ تا ۳۵۱)
لیکن اس موقع پر اس گواہی کی تائید میں خاکسار اپنی بھی گواہی شامل کرنا نہایت ضروری سمجھتا ہے کہ حضرت امیرالمومنین کے اس بابرکت دور خلافت میں جب جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل کا قیام ہوا تو ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایک دن اس ادارے میں دنیا کے دیگر ملکوں کے ساتھ ساتھ عرب ممالک کے نوجوان بھی تعلیم حاصل کرنے کے لیے آئیں گے لیکن ہماری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی جب ۲۰۱۴ء میں پہلا اور ۲۰۱۶ء میں دوسرا عرب نوجوان اس دور افتادہ مقام پر عرب یونیورسٹیوں کو چھوڑ کر خلافت احمدیہ کےعجمی غلاموں سے علم سیکھنے کے لیے جامعہ پہنچ گئے اورکامیابی کے ساتھ اپنے سات سالہ کورس کو مکمل کرنے کے بعد یہ مخلصین اردو میں جامعہ کا یہ ترانہ پڑھتے ہوئے فارغ التحصیل بھی ہو گئے کہ
کریں گے نئی داستانیں رقم
سنبھالے رہیں گے وفا کے عَلم
نہ ہاریں گے ہمت نہ ٹوٹے گا دم
خلافت کے ادنیٰ سپاہی ہیں ہم
اور اب تو یہ سلسلہ ایک تیز ہوا کی طرح جاری ہوچکا ہے اور ان پہلے دو عرب نوجوانوں کے مبلغ اورخلافت کے دست و بازو بننے کے بعد اس وقت جامعہ میں مختلف عرب ممالک کے کئی مزید نوجوان زیر تعلیم ہیں اور دیگربہت سے امیدوار جامعہ پہنچنے کے لیے بے تابی سے حضور کی خدمت میں منظوری کے لیے خط لکھ رہے ہیں جبکہ ان میں سے بعض اجازت ملنے کے بعد اپنے ویزوں کی کارروائی مکمل کر رہے ہیں۔ چند سال پہلے تک کس نے یہ سوچا ہوگا کہ عرب ممالک کے مقامی بچے اس کثرت کے ساتھ وقف کرکے خود کو خلافت احمدیہ کی خدمت میں پیش کریں گے؟ لیکن یہ ہمارے اس قادر و قیوم خدا کی پیش خبری تھی جو اس نے اپنے سچے خلیفہ کو دی اور پھر اسے پورا بھی کرکے دکھا دیا۔اگر یہ خدائی تائید اور مدد نہیں تو پھر اسے اور کیا نام دیا جاسکتا ہے؟
سنہ ۲۰۰۴ء میں جب حضرت امیر المومنین دورہ افریقہ کے دوران بینن مشن ہاؤس پہنچے تو عصر کا وقت تھا۔ شدید موسلا دھار بارش ہو رہی تھی۔نماز کے لیے صحن میں مار کی لگائی گئی تھی اور بارش کی وجہ سے وہاں کھڑا ہونا بھی مشکل تھا۔ حضورتشریف لائے توعرض کیا گیا کہ نماز کے لیے باہر مار کی لگائی ہوئی ہے لیکن بارش کی وجہ سے مشکل ہو رہی ہے۔ حضور انور نے آسمان کی طرف نظر اٹھائی اور فرمایا ’’ دس منٹ بعد نماز پڑھیں گے‘‘ اور ابھی دو تین منٹ ہی گزرے تھے کہ ایک دم بارش تھم گئی۔ آسمان صاف ہو گیا اور اُسی مارکی کے نیچے نماز کا انتظام ہو گیا۔کیا یہ واقعہ زمین و آسمان کے مالک خدا کی طرف سے غیبی مدد کا ایک نمونہ نہیں ہے؟
اسی طرح جب کیلگری مسجد کا سنگ بنیاد رکھا جانا تھا تو ایک روز قبل انتظامیہ نے حضور انور کی خدمت میں عرض کیا کہ حضور کل افتتاح ہے، مہمان بھی آرہے ہیں لیکن موسمی پیشگوئی کے مطابق کل یہاں کا موسم شدید خراب ہےاوربڑی شدید بارش اور طوفانی ہواؤں کا امکان ہے۔ اس پر حضرت امیر المومنین نے کچھ دیر توقف کیا اور پھر فرمایا جس مسجد کا سنگ بنیاد ہم رکھنے جا رہے ہیں وہ بھی خدا کا ہی گھر ہے اور موسم بھی خدا کےہاتھ میں ہے۔ اس لیے اس معاملے کو خدا پر چھوڑ دیں۔ اللہ فضل فرمائے گا۔ چنانچہ اگلے روز صبح بارش کا کوئی نام و نشان بھی نہیں تھا۔ دو گھنٹے تک سنگ بنیاد کی یہ تقریب چلتی رہی اور تقریب سے فارغ ہو کر حضور انور واپسی کے لیے جب اپنی کار میں بیٹھے تو کار کا دروازہ بند ہوتے ہی اچانک شدید بارش شروع ہوگئی جو مسلسل تین چار گھنٹے جاری رہی۔ اگر یہ ایک زندہ خدا کی طرف سے تائید کے نمونےنہیں ہیں تو پھر اور کیا ہیں؟(بحوالہ الفضل انٹرنیشنل ۲۵؍ستمبر ۲۰۱۵ء تا یکم اکتوبر۲۰۱۵ء، صفحہ ۱۴)
ابھی چند سال پہلے کا واقعہ ہے کہ ایک عرب ملک میں ایک نہایت مخلص نومبائع احمدی دوست کو پولیس نے محض اس جرم میں قید کر لیا کہ اس نے احمدیت قبول کی ہے۔ انہیں بار بار کہا گیا کہ احمدیت سے دستبردار ہو جاؤ تو رہا کر دیے جاؤ گے۔ لیکن ان کا جواب تھا کہ میں جان دے دوں گا لیکن احمدیت نہیں چھوڑوں گا۔ اس پر انہیں وزنی بیڑیاں ڈال کر جیل میں پھینک دیا گیا اور ضمانت منسوخ کر دی گئی۔ اس عرب دوست نے جیل سے حضرت امیر المومنین کی خدمت میں لکھا کہ میرے علاقہ میں نو پہاڑ ہیں اور اس علاقہ کا دسواں پہاڑ میں ہوں۔ کوئی دھمکی اور کوئی لالچ میرے ایمان کو متزلزل نہیں کر سکتا۔ حضور ان کی رہائی کے لیے مسلسل دعائیں کر رہے تھےکہ ایک دن حضور نے فرمایا: ’’انشاء اللہ یہ رہا ہو جائیں گے۔‘‘ حضور انور کی قبولیت دعا اور تائید الٰہی کا نشان اس طرح ظاہر ہوا کہ وہاں کے بادشاہ نے ایک تقریب کے موقع پر بعض قیدیوں کی رہائی کا اعلان کیا تو ان رہا ہونے والے قیدیوں میں پہلا نام ہمارےاُسی نو مبائع احمدی اسیر کا تھا۔اور یہ کیسے ہوا؟ کوئی نہیں جانتا تھا۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ اس کے پیچھے اس خدا کی تائیدو مدد اور نصرت تھی جس کے خلیفہ نے یہ بتایا تھا کہ یہ ان شاء اللہ رہا ہو جائیں گے۔
حضرت امیر المومنین جب ۲۰۰۴ء میں گھانا تشریف لے گئے تو ایک موقع پر سفر کے دوران حضور نے اہلِ گھانا کو یہ بشارت دی کہ گھانا کی زمین سے تیل نکلے گا۔چنانچہ جب صرف چار سال کے بعد۲۰۰۸ء میں حضور خلافت جو بلی کے موقع پر دوبارہ گھانا تشریف لے گئے تو صدر مملکت نے ملاقات کے دوران حضور کو بتایا کہ آپ نے اپنے گذشتہ دورہ کے دوران فرمایا تھا کہ یہاں کی زمین سے تیل نکلے گا اور آپ کی یہ بات بڑی شان سے پوری ہوگئی ہے اور یہاں سے تیل نکل آیا ہے۔ چنانچہ اس حوالے سے گھانا کے مشہور اخبار ڈیلی گرافک نے ۱۷؍اپریل ۲۰۰۸ء کو اپنے پہلے صفحہ پر حضور انور اور صدر گھانا کی ملاقات کی رپورٹ شائع کرتے ہوئے لکھا کہ خلیفۃالمسیح نے اپنے دورہ گھانا ۲۰۰۴ء کے دوران گھانا میں تیل کی دریافت کے متعلق بڑے پرزور طریق سے اپنے یقین کا اظہار کیا تھا اور یہی یقین حقیقت میں بدل چکا ہے۔ اور گھانا کی سرزمین سے تیل نکل آیا ہے۔ (بحوالہ الفضل انٹر نیشنل ۲۵؍ستمبر ۲۰۱۵ء تایکم اکتوبر ۲۰۱۵ء صفحہ ۱۷)
آج گھانا کی سر زمین پر ہمارے جامعہ کے نزدیک ہی وہ مقامات موجود ہیں جہاں فضا میں لہراتےہوئے ایک سے زیادہ شعلے رات دن حضرت امیر المومنین کی اس پیشگوئی کی گواہی دیتے ہوئے نظر آتے ہیں اور زبان حال سے یہ بتاتےہیں کہ خدا نے ابتدا سے ہی لکھ چھوڑا ہے اوراِسے اپنا قانون اور اپنی سنت قرار دے دیا ہے کہ وہ اور اُس کے مامور ہی ہمیشہ غالب آیا کرتے ہیں اور اللہ ان کی تائید و نصرت کے لیے ایسے ایسے نشان دکھاتا ہے جو انسانی استطاعت سے بالا اور بلند ہوا کرتے ہیں۔ان کی سچائی کی گواہی ہر دور میں زمین بھی دیتی ہے اور آسمان بھی۔ مشرق بھی ان کی گواہی میں کھڑا ہوجاتا ہے اور مغرب بھی۔ ہوائیں اور فضائیں بھی ان کی تائید کے لیے مستعد ہوجاتی ہیں اور ستارے اور سیارے بھی ان کی سچائی کی گواہی دینے کے لیے نکل آتے ہیں۔پس کیا یہ سب امور لمبی تاریخ انسانی کے دوران ہونے والے یہ مسلسل واقعات محض ایک اتفاق ہو سکتے ہیں؟ نہیں نہیں اور ہرگز نہیں!یہ ایک تقدیر اٹل ہے جو کبھی تبدیل نہیں ہوسکتی کہ خدا کے مامورین اور خلفاء کے ساتھ ہمیشہ اللہ کی تائید اور نصرت موجود رہتی ہے۔ اور ان کی مخالفت میں کھڑے ہونے والے ہر ایک وجود کو ریزہ ریزہ اور پارہ پارہ کردیا جاتا ہے۔
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں: اے عزیز و ! جبکہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دو قدرتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلا دے۔ سواب ممکن نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کردیوے اس لیے تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں کیونکہ تمہارے لیے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لیے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا اور وہ دوسری قدرت آنہیں سکتی جب تک میں نہ جاؤں۔ لیکن میں جب جاؤں گا تو پھر خدا اس دوسری قدرت کو تمہارے لیے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی جیسا کہ خدا کا براہین احمدیہ میں وعدہ ہے۔ اور وہ وعدہ میری ذات کی نسبت نہیں ہے بلکہ تمہاری نسبت وعدہ ہے جیسا کہ خدا فرماتا ہے کہ میں اس جماعت کو جو تیرے پیرو ہیں قیامت تک دوسروں پر غلبہ دوں گا۔ سو ضرور ہے کہ تم پر میری جدائی کا دن آوے تا بعد اس کے وہ دن آوے جو دائمی وعدہ کا دن ہے۔ وہ ہمارا خدا وعدوں کا سچا اور وفادار اور صادق خدا ہے۔ وہ سب کچھ تمہیں دکھلائے گا جس کا اس نے وعدہ فرمایا ہے۔ اگر چہ یہ دن دنیا کے آخری دن ہیں اور بہت بلائیں ہیں جن کے نزول کا وقت ہے پر ضرور ہے کہ یہ دنیا قائم رہے جب تک وہ تمام باتیں پوری نہ ہو جا ئیں جن کی خدا نے خبر دی۔ میں خدا کی طرف سے ایک قدرت کے رنگ میں ظاہر ہوا اور میں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں اور میرے بعد بعض اور وجود ہوں گے جو دوسری قدرت کا مظہر ہوں گے۔ (رسالہ الوصیت روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۳۰۵ ،۳۰۶)
اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ اس قدرت ثانیہ یعنی خلافت احمدیہ کے فرمانبرداروں اور جاںنثاروں میں شامل فرمائے رکھے۔