جب تک استقامت نہ ہو، بیعت بھی ناتمام ہے
خدا تعالیٰ ثابت قدم رکھے۔ ثابت قدمی خدا تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے حاصل ہو سکتی ہے۔ جب تک استقامت نہ ہو، بیعت بھی ناتمام ہے۔ انسان جب خدا تعالیٰ کی طرف قدم اٹھاتا ہے تو راستہ میں بہت سی بلاؤ ںاور طوفانوں کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ جب تک اُن میں سے انسان گذر نہ لے منزل مقصود کو پہنچ نہیں سکتا۔ امن کی حالت میں استقامت کا پتہ نہیں لگ سکتا کیونکہ امن اور آرام کے وقت تو ہر ایک شخص خوش رہتا ہے اور دوست بننے کو تیار ہے۔ مستقیم وہ ہے کہ سب بلاؤں کو برداشت کرے۔
(ملفوظات جلد ۸صفحہ ۱۹۷تا۱۹۸۔ایڈیشن۱۹۸۴ء)
جزیرہ عرب کے لوگ اول کیا تھے اور پھر اس رسول کی پیروی کے بعد کیا ہوگئے اور کیسی ان کی وحشیانہ حالت اعلیٰ درجہ کی انسانیت تک پہنچ گئی اور کس صدق و صفا سے انہوں نے اپنے ایمان کو اپنے خونوں کے بہانے سے اور اپنی جانوں کے فدا کرنے اور اپنے عزیزوں کو چھوڑنے اور اپنے مالوں اور عزتوں اور آراموں کو خدا تعالیٰ کی راہ میں لگانے سے ثابت کر دکھلایا تو بلاشبہ ان کی ثابت قدمی اور ان کا صدق اپنے پیارے رسول کی راہ میں ان کی جانفشانی ایک اعلیٰ درجہ کی کرامت کے رنگ میں اس کو نظر آئے گی وہ پاک نظر ان کے وجودوں پر کچھ ایسا کام کرگئی کہ وہ اپنے آپ سے کھوئے گئے اور انہوں نے فنا فی اللہ ہو کر صدق اور راست بازی کے وہ کام دکھلائے جس کی نظیر کسی قوم میں ملنا مشکل ہے اور جو کچھ انہوں نے عقائد کے طور پر حاصل کیا تھا وہ یہ تعلیم نہ تھی کہ کسی عاجز انسان کو خدا مانا جائے یا خدا تعالیٰ کو بچوں کا محتاج ٹھہرایا جائے بلکہ انہوں نے حقیقی خدائے ذوالجلال جو ہمیشہ سے غیر متبدّ ل اور حیّ قیّوم اور ابن اور اب ہونے کی حاجات سے منزہ اور موت اور پیدائش سے پاک ہے بذریعہ اپنے رسول کریم کے شناخت کر لیا تھا اور وہ لوگ سچ مچ موت کے گڑھے سے نکل کر پاک حیات کے بلند مینار پر کھڑے ہوگئے تھے اور ہریک نے ایک تازہ زندگی پالی تھی اور اپنے ایمانوں میں ستاروں کی طرح چمک اٹھے تھے۔
(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۲۰۵تا ۲۰۷)