خلاصہ خطبہ جمعہ

صلح حدیبیہ کےتناظر میں سیرت نبوی ﷺ کا بیان:خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۵؍ نومبر۲۰۲۴ء

٭…حديبيہ ايک کنويں کا نام تھا، جو آغازِ اسلام ميں مسافروں اور حجاج کے کام آتا تھا، ليکن يہاں کوئي آبادي نہيں تھي

٭…غزوہ حدیبیہ میں مسلمانوں کی تعداد کے حوالے سے مختلف روایات ملتی ہیں جن میں یہ تعداد ایک ہزار سے لے کر سترہ سَو تک بیان کی گئی ہے

٭…آپؐ نے برتن ميں اپنا ہاتھ رکھا اور اسي وقت آپؐ کي انگليوں کے درميان ميں سے پاني کے فوّارے پھوٹنے لگے

٭…عزيزم شہريار راکنگ شہیدولد مکرم محمد عبداللہ وہاب صاحب آف بنگلہ ديش اور مکرم عبداللہ اسد عودہ صاحب آف کبابیر کا ذکر خیر اور نمازہ جنازہ غائب

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۵؍ نومبر۲۰۲۴ء بمطابق ۱۵؍نبوت۱۴۰۳ ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ ۱۵؍ نومبر۲۰۲۴ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت مولانا فیروز عالم صاحب کے حصے ميں آئي۔تشہد،تعوذاورسورة الفاتحہ کی تلاوت کےبعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایاکہ

آج صلح حدیبیہ کے حوالے سے ذکر شروع کروں گا۔

صلح حدیبیہ ذی القعدہ ۶؍ہجری بمطابق مارچ ۶۲۸ عیسوی کو ہوئی۔ اسے غزوہ حدیبیہ بھی کہا جاتا ہے۔ غزوہ حدیبیہ کے متعلق اللہ تعالیٰ نے پوری سورت، سورة الفتح نازل فرمائی۔ اس سورت کی ابتدائی آیاتِ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یقیناً ہم نے تجھےکھلی کھلی فتح عطا کی ہے تاکہ اللہ تجھے تیری ہر سابقہ اور ہر آئندہ ہونے والی لغزش کو بخش دے اور تجھ پر اپنی نعمت کو کمال تک پہنچائے، اور تجھے صراطِ مستقیم پر گامزن رکھے۔ اور اللہ تیری وہ نصرت کرے جو عزت اور غلبے والی نصرت ہو۔

حدیبیہ ایک کنویں کا نام تھا، جو آغازِ اسلام میں مسافروں اور حجاج کے کام آتا تھا، لیکن یہاں کوئی آبادی نہیں تھی۔

یہ مقام مکّے سے ایک مرحلے یعنی نَو میل کے فاصلے پر واقع ہے، مدینے سے مکّے کا فاصلہ تقریباً ۲۵۰؍میل ہے، اس طرح مدینے سے حدیبیہ کا فاصلہ ۲۴۱؍میل بنتا ہے۔ حدیبیہ حرمِ مکّہ کی مغربی حد ہے۔

روایات اور تاریخ سے پتا چلتا ہے کہ

آنحضرتﷺ نےایک خواب کی بِنا پر سفرِ حدیبیہ اختیار کیا تھا۔

آپؐ کو خواب میں دکھایا گیا کہ آپؐ اپنے صحابہؓ کے ساتھ امن کی حالت میں، اپنے سروں کو منڈواتے ہوئے اور بالوں کو کترواتے ہوئے مکّے میں داخل ہوئے ہیں اور یہ کہ آپؐ بیت اللہ میں داخل ہوئے ہیں اور اس کی چابی لے لی ہے اور میدانِ عرفات میں وقوف کرنے والوں کے ساتھ وقوف کیا۔ اس خواب کی بنا پر آپؐ نے اہلِ عرب اور ارد گرد کے بادیہ نشین لوگوں کو بلایا تاکہ وہ بھی آپؐ کے ساتھ نکلیں، اس سفر میں مسلمانوں کے پاس سوائے نیاموں میں بند تلواروں کے اور کوئی اسلحہ نہ تھا۔ تلوار اس زمانے میں گھر سے نکلتے ہوئے ہر شخص اپنے پاس رکھا کرتا تھا اور یہ ضروری نہ تھا کہ جس کے پاس تلوار ہے وہ ضرور جنگ کرے گا۔

حضرت عمرؓ نے ہتھیار ساتھ نہ رکھنے کے متعلق پوچھا تو آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ کیونکہ مَیں عمرے کی نیّت سے جا رہا ہوں اس لیے مَیں نہیں چاہتا کہ ہتھیار اپنے ساتھ رکھوں۔

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ  آنحضرتﷺ کے اس خواب کا ذکر کرکے فرماتے ہیں کہ آپؐ نے اس خواب کے دیکھنے کے بعد اپنے صحابہ ؓکو تحریک فرمائی کہ وہ عمرے کے لیے تیاری کرلیں۔

عمرہ گویا ایک چھوٹی قسم کا حج تھا جسے حج کے بعض مناسک کو ترک کرکے بیت اللہ کے طواف اور قربانی کی جاتی ہے۔ اس عبادت کے لیے سال کا کوئی مخصوص حصّہ مقرر نہیں بلکہ یہ سال میں کسی بھی وقت اور موسم میں کی جاسکتی ہے۔

غزوہ حدیبیہ میں مسلمانوں کی تعداد کے حوالے سے

مختلف روایات ملتی ہیں جن میں یہ تعداد ایک ہزار سے لے کر سترہ سَو تک بیان کی گئی ہے۔

سفرِ حدیبیہ میں آپؐ کی زوجہ حضرت امِ سلمہؓ  آپؐ کے ساتھ تھیں۔ آپؐ ذوالقعدہ کے شروع میں بروز پِیر روانہ ہوئے اور ذوالحلیفہ پہنچ کر وہاں ظہر کی نماز ادا کی، پھر قربانی کے جانور منگوائے جن کی تعداد ستّر تھی، انہیں گانیاں یعنی ہار پہنائے۔ پھر اونٹوں کے کوہانوں پر نشان لگائے۔ باقی جانوروں پر ایک صحابی حضرت ناجیہ ؓنے نشان لگائے۔ اس سفر میں مسلمانوں کے پاس دو سَو گھوڑے تھے۔

نبی کریمﷺ نے قریش کے حالات کا علم حاصل کرنے کے لیےایک خبر رساں کو آگے بھیجا اور مزید احتیاط کے طور پر بیس سواروں کی ایک اور جماعت کو بھی آگے بھیجا۔ روحہ مقام پر پہنچ کر آپ کو اطلاع ملی کہ وہاں مشرکین ہیں اور وہ اچانک حملہ کر سکتے ہیں، اس اطلاع کے ملنےپر آپؐ نے حضرت ابو قتادہ انصاریؓ  کو صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ روانہ کیا۔

اس سفر کے دوران لوگ آنحضرتﷺ کے سامنے جمع ہوگئے جبکہ آپؐ کے سامنے ایک پانی کا برتن تھااور آپ اس سے وضو کر رہے تھے۔ آپؐ نے پوچھا کیا بات ہے؟ صحابہؓ نے عرض کیا کہ آپؐ کے پاس جو اس برتن میں پانی ہے اس کے علاوہ ہم میں سے کسی کے پاس نہ پینے کے لیے پانی ہے اور نہ وضو کرنے کے لیے پانی ہے۔

آپؐ نے یہ سن کر اس برتن میں اپنا ہاتھ رکھا اور اسی وقت آپؐ کی انگلیوں کے درمیان میں سے پانی کے فوّارے پھوٹنے لگے۔

حضرت جابرؓ  کہتے ہیں کہ ہم نے وہ پانی پیا اور وضو کیا اور اگر ہم تعداد میں ایک لاکھ بھی ہوتے تو وہ پانی ہمیں کافی ہوجاتا۔

حضرت اقدس مسیح موعودؑ  معجزات کے حوالے سے فرماتے ہیںکہ

درجہ لقاء میں بعض اوقات انسان سے ایسے امور صادر ہوتے ہیں جو بشریت کی طاقتوں سے بڑھے ہوئے معلوم ہوتے ہیں اور الٰہی طاقتوں کا رنگ اپنے اندر رکھتے ہیں۔ بہت سے معجزات ہیں جو صرف ذاتی اقتدار کے طور پر آنحضرتﷺ نے دکھلائے، جن کے ساتھ کوئی دعا نہ تھی۔

قریش نے اس بات کا علم ہوتے ہوئے کہ مسلمان جنگ کی نیّت سے نہیں بلکہ بیت اللہ کی زیارت کے ارادے سے مکّے آرہے ہیں پھر بھی مسلمانوں کو مکّے سے روکنے کا ارادہ کیا۔ آنحضورﷺ کو اطلاع ملی کہ قریش نے جنگ کے لیے بہت بڑا لشکر تیار کیا ہے،اور وہ آنحضورﷺ کو بیت اللہ سے روکنے والے ہیں۔ یہ سن کر آپؐ نے لوگوں سے مشورہ کیا، اور بیت اللہ کی جانب سفر جاری رکھا۔

آنحضرتﷺ جب حدیبیہ کی گھاٹی میں پہنچے تو آپؐ کی اونٹنی قصویٰ بیٹھ گئی اور باوجود کوشش کےنہ چلی۔ لوگوں نے کہا کہ قصویٰ اڑ گئی ہے آنحضورﷺ نے فرمایا کہ

قصویٰ اڑی نہیں اور نہ یہ اس کی عادت ہے بلکہ ہاتھیوں کو روکنے والی پاک  ذات یعنی اللہ تعالیٰ نے اس کو روک دیا ہے۔

اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! قریش جو بات بھی مانگیں گے، جس میں وہ اللہ کی حرمتوں کی تعظیم چاہتے ہوں، مَیں اُن کو وہ ضرور دوں گا۔ اس کے بعد آپؐ نے اونٹنی کو ڈانٹا تو وہ کھڑی ہوگئی۔

مسلمانوں نےحدیبیہ کے مقام پر جس تھوڑے پانی والے حوض پر پڑاؤ کیا تھا لوگ اس حوض سے پانی لینے لگ گئے، یہاں تک کہ وہ تھوڑی ہی دیر میں خشک ہوگیا۔ حضرت ناجیہؓ بیان کرتے ہیں کہ پانی کی قلّت کی شکایت پر آنحضرتﷺ نے مجھے بلایا اور اپنے ترکش میں سے ایک تِیر نکال کر مجھے دیا، پھر چشمے کاپانی ایک ڈول میں منگوایا۔ آپؐ نے وضو فرمایا اور کلّی کرکے ڈول میں انڈیل دیا اور فرمایا کہ اسے چشمے میں انڈیل دو جس کا پانی خشک ہوگیا ہے، اور اس کے پانی میں تیر گاڑھ دو، چنانچہ مَیں نے ایسا ہی کیا۔ پس قسم ہے اس ذات کی جس نے آپؐ کوحق کے ساتھ بھیجا ہے! مَیں بڑی مشکل کے ساتھ اس حوض میں سے نکلا، مجھے پانی نے ہر طرف سے گھیر لیا تھا، اور پانی ایسے اُبل رہا تھا جیسے دیگچی ابلتی ہے، یہاں تک کہ پانی بلند ہوا اور کناروں تک برابر ہوگیا۔

لوگ اس کے کناروں سے پانی بھرتے تھے یہاں تک کہ اُن میں سے آخری شخص نے بھی پیاس بجھا لی۔

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اس موقعے پر ایک بارش کا بھی ذکر فرمایا ہے۔ فرماتے ہیں کہ اسی رات بارش بھی ہوگئی۔چنانچہ جب فجر کی نماز کے لیے آنحضرتﷺ تشریف لائے تو میدان پانی سے تربتر تھا۔ آنحضرتﷺ نے صحابہؓ سے مسکراتے ہوئے فرمایا کیا تم جانتے ہو اس بارش کے موقعے پر تمہارے خدا نے کیا ارشاد فرمایا ہے؟ صحابہؓ نے حسبِ عادت عرض کیا کہ خدا اور اس کا رسولؐ ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندوں میں سے بعض نے تو یہ صبح حقیقی ایمان کی حالت میں کی ہے جبکہ بعض کفر کی حالت میں پڑ کر ڈگمگا گئے۔ کیونکہ جس نے تو یہ کہا کہ ہم پر خداکے فضل اور رحم کی وجہ سے بارش ہوئی ہے وہ تو ایمان پر قائم رہا اور جس نے کہا کہ یہ بارش فلاں فلاں ستارے کے اثر کے ماتحت ہوئی ہے تو وہ بےشک چاند، سورج کا تو مومن ہوگیا مگر خدا کا اس نے کفر کیا۔ اس ارشاد سے جو تو حید کی دولت سے معمورہے آپؐ نے صحابہ کو یہ سبق دیا کہ بےشک سلسلہ اسباب و علل کے ماتحت خدا نے اس کارخانہ عالم کو چلانے کے لیے مختلف قسم کے اسباب مقرر فرما رکھے ہیں اور بارشوں وغیرہ کے معاملے میں اجرامِ سماوی کے اثر سے انکار نہیں۔ مگر

حقیقی توحید یہ ہے کہ باوجود درمیانی اسباب کے، انسان کی نظر اس وراء الوراء ہستی کی طرف سے غافل نہ ہو جواس کارخانہ عالم کی علت العلل ہے اور جس کے بغیر یہ ظاہری اسباب ایک مردہ کیڑے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔

صلح حدیبیہ کے حالات آئندہ بیان کرنے کا ارشاد فرمانے کے بعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے درج ذیل

مرحومین کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب

پڑھانے کا ارشاد فرمایا:

۱۔عزیزم شہریار راکنگ شہید ولد محمد عبداللہ وہاب صاحب آف بنگلہ دیش۔ ۵؍اگست کو حکومت کے معزول ہونے کے بعد ملک میں انتشار پھیل گیا تو مخالفینِ احمدیت نے اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے احمد نگر جماعت پر حملہ کردیا۔ مخالفین احمدیوں کے گھر جلاتے ہوئے جامعہ احمدیہ اور جلسہ گاہ کی طرف آئے۔ وہ اگرچہ جامعہ احمدیہ میں داخل ہونے میں کامیاب نہ ہوسکے، مگر جلسہ گاہ کی پچھلی جانب ڈیوٹی پر موجود خدام کو گھیر لیا اور ان پر وار کرتے رہے۔

اسی دوران عزیزم شہریار کے سر پر شدید چوٹ آئی، اور تین ماہ کے علاج کے بعد آخر ۸؍نومبر کو محض سولہ سال کی عمر میں عزیزم شہید ہوگئے۔

انا للہ و انا الیہ راجعون۔عزیزم وقفِ نو کی تحریک میں شامل تھے۔ پسماندگان میں والدین کے علاوہ دادا، دادی اور ایک بہن اور دو بھائی شامل ہیں۔

۲۔مکرم عبداللہ اسد عودہ صاحب آف کبابیر۔ مرحوم گذشتہ دنوں ۹۴؍سال کی عمر میں وفات پاگئے۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔مرحوم کبابیر کے ابتدائی موصیان میں شامل تھے۔ مرحوم کو بطور جنرل سیکرٹری اور سیکرٹری تعلیم و تربیت، امور خارجیہ کے علاوہ صدر مجلس انصار اللہ، سیکرٹری صد سالہ جوبلی کے عہدوں پر خدمت کی توفیق ملتی رہی۔ مرحوم بلند پایہ مؤلف تھے، سورة الکہف کی تفسیر کا انگریزی سے عربی میں ترجمہ کیا۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے علمی کارنامے انجام دیے۔ مرحوم بہت مخلص، غیّور، احمدیت اور جماعت سے متعلق ہر بات پر فخر کرنے والے، جماعت کے سچّے خادم تھے۔ پسماندگان میں تین بیٹے اور تین بیٹیاں اور چودہ پوتے پوتیاں شامل ہیں۔حضورِانور نے مرحومین کی مغفرت اور بلندیٔ درجات کے لیے دعا کی۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button