حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

آنحضرتؐ نے منافق کی ایک نشانی یہ بتائی ہے کہ وہ جھوٹ بولتا ہے

(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ۴؍فروری۲۰۱۱ء)

اب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث پیش کرنا چاہتا ہوں جس سے پتہ چلتا ہے کہ ایک مومن کا معیار کیا ہونا چاہئے؟ اس حدیث کو پڑھ کر خوف سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓو سے روایت ہے کہ آپؐ فرماتے ہیں کہ چار خصلتیں ہیں جس میں ہوں وہ پورا منافق ہے۔ اور جس میں ان خصلتوں میں سے ایک خصلت ہو اُس میں نفاق کی بھی ایک ہی خصلت ہو گی جب تک وہ اسے نہ چھوڑ دے۔ اُن خصلتوں میں سے پہلی بات یہ ہے کہ اگر اُس کے پاس امانت رکھی جائے تو وہ خیانت کرتا ہے۔ اور دوسری بات یہ کہ جب وہ بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے۔ تیسری بات یہ کہ جب عہد کرتا ہے تو عہد شکنی کرتا ہے۔ اور چوتھی بات یہ کہ جب جھگڑتا ہے تو گالی بکتا ہے۔ (صحیح بخاری، کتاب الایمان، باب علامۃ المنافق)

حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب جنہوں نے جماعت میں صحیح بخاری کی کچھ شرح لکھی تھی۔ وہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ’’ایمان کی بحث میں نفاق کا ذکر لانے سے بھی وہی مقصود ہے جو کفر اور شرک اور ہر قسم کی بد اعتدالی اور نا شائستگی کے ذکر کرنے سے ہے۔ یعنی نفاق بھی ایمان کو ناقص کرنے والا ہے‘‘۔ پھر لکھتے ہیں کہ ’’جیسے جیسے کسی شخص میں ان علامتوں میں سے کوئی علامت پائی جائے گی ویسے ویسے اس میں نفاق زیادہ اور ایمان کم ہوتا جائے گا۔ نفاق کے معنی ہیں باطن کا ظاہر کے ساتھ مطابق نہ ہونا‘‘۔ (یعنی دل میں کچھ اور ہونااور ظاہر میں کچھ ہونا) ’’یا واقعہ کے خلاف ہونا‘‘۔ (کہ حقیقت کچھ اور ہو اور بیان کچھ اور کیا جائے)۔ ’’اور نفاق کی جو علامتیں آپؐ نے بتلائی ہیں وہ اس کی صحیح تفسیر ہیں۔ جھوٹ میں انسان کا قول، وعدہ خلافی میں انسان کا فعل اور خیانت اور غداری میں اس کی نیت یہ سب واقعہ کے خلاف ہوتے ہیں۔ معاہدہ توڑنا اور گالی دینا یہ بھی واقعہ کے خلاف کرنا ہے۔ غرض یہ موٹی موٹی مثالیں ہیں نفاق کی حقیقت بیان کرنے کے لئے۔ دل میں ایمان نہ ہو زبان پر ہو، یہ بھی حقیقتِ حال کے خلاف ہے۔ یا ایمان ہو مگر اقرار نہ ہو یہ بھی واقعہ کے خلاف ہے‘‘۔ (بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بڑا اچھا سمجھتے ہیں، لیکن دنیا کے سامنے اس کا اقرار نہیں کر سکتے تو یہ بھی نفاق ہے) ’’یا ایمان ہو اور عملاً اس کی تصدیق نہ ہو‘‘ (ایمان بھی لاتے ہوں لیکن عمل اس کے خلاف ہوں اس تعلیم کے خلاف ہوں ) ’’یہ بھی نفاق ہے۔ غرض جو بات بھی یہ رنگ رکھے گی وہ نفاق ہو گا‘‘۔ یہ معنی ہیں نفاق کے۔ (ماخوذاز شرح صحیح بخاری۔ مرتبہ حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب۔ جلد اوّل صفحہ۸۱)

یہ برائیاں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں کھول کر بیان فرمائیں اس زمانے میں ہمیں بہت زیادہ نظر آتی ہیں۔ اور معاشرے کے زیرِ اثر یقیناً ہم میں سے بھی بعض ان میں سے کسی نہ کسی کا شکار ہیں یا ہو رہے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ان میں سے کسی ایک کا بھی ہونا دل کے ایک حصہ کو نفاق میں مبتلا کر دیتا ہے۔ شایدانہی برائیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ’’آنحضرتؐ کے زمانے میں جو منافق تھے اگر وہ اس زمانے میں ہوتے تو بڑے بزرگ اور مومن سمجھے جاتے کیونکہ شر جب بہت بڑھ جاتا ہے تو اس وقت تھوڑی سی نیکی کی بھی بڑی قدر ہوتی ہے۔ وہ لوگ جن کو منافق کہا گیا ہے اصل میں وہ بڑے بڑے صحابہ کے مقابل پر منافق تھے‘‘۔ لیکن ہمیں یادرکھنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مان کر ہمارے معیار عام مسلمان سے اونچے ہونے چاہئیں۔ ہمارے لئے اس زمانے کے کمزور ایمان والے یا بعض باتوں میں کمزوریاں دکھانے والے اسوہ نہیں ہیں بلکہ وہ صحابہ اسوہ ہیں جو اعلیٰ معیار پر پہنچے ہوئے تھے۔ جن کو اللہ تعالیٰ نے جنت کی اور اپنی رضا کی خوشخبریاں دی ہیں۔ پس ہم نے وہ اعلیٰ معیار حاصل کرنے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند ہیں۔ ہماری امانت کے معیار بہت اعلیٰ ہونے چاہئیں۔ قومی امانتیں ہوں، جماعتی امانتیں ہوں یا ذاتی امانتیں ہوں ہم نے ہر ایک کا حق ادا کرنا ہے۔ ہم کسی سرکاری دفتر میں کام کر رہے ہیں تو قطع نظر اس کے کہ ساتھ کا عملہ کیا عمل دکھا رہا ہے ہمارا اپنا امانت کا معیار ہونا چاہئے جو دوسروں سے ممتاز کرنے والا ہو۔ پرائیویٹ کمپنیوں میں کام کر رہے ہیں تو وہاں ایک احمدی کا نمونہ ہو جو دوسروں سے ممتاز کر رہا ہو۔ آج ہم بڑے فخر سے غیروں کو بتاتے ہیں کہ احمدی کا امانت کا معیار دوسروں سے بہتر ہے۔ لیکن صرف یہ بہتر ہونا کوئی فخر کی بات نہیں ہے بلکہ فخر کی بات یہ ہے کہ اعلیٰ ترین معیار ہو۔ تیسری دنیا کے ملکوں میں جہاں ترقی کی رفتار نہ ہونے کے برابر ہے بلکہ بعض جگہ تو منفی رفتار ہے، وہاں یہی وجہ ہے کہ ہر شعبے میں اور ہر جگہ پر اور ہر سطح پر امانت میں خیانت کی جا رہی ہے مثلاً پاکستان کو یہ تو بڑا فخر ہے کہ ہم مسلمان ملک ہیں لیکن اب جو نئے اعداد و شمار آئے ہیں، کرپشن کرنے والے ممالک میں اس کا نمبر پہلے سے بڑھ گیا ہے۔ اسی طرح بعض اور مسلمان ممالک ہیں یا بعض ممالک کے مسلمان ہیں جن کے ہاتھ میں اختیارات ہیں لیکن خیانت میں بڑھے ہوئے ہیں اور بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ تو کیا صرف مسلمان ہونے سے خیرِ امت بن جائیں گے؟ کیا صرف اسلامی قوانین نافذ کرنے کا اعلان کرنے سے خیرِ امت بن جائیں گے؟ ان لوگوں میں ایک دو برائیوں کا سوال نہیں ہے بلکہ تمام برائیاں ہیں لیکن پھر بھی مومن ہیں۔ اور جو حقیقی مومن ہیں وہ ان کی نظر میں کافر ہیں۔ آج کل کے ایسے ہی نام نہاد مومنوں کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ فرمایا ہے کہ آنحضرتؐ کے زمانے کے منافقین ان نام نہاد مومنوں سے بہتر تھے۔

پس امانت کے معیار قائم کرنے کے لئے اور اس امانت کی حفاظت کرنے کے لئے جس کے امین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تھے ایک احمدی ہی ہے جو صحیح حق اداکر سکتا ہے اور حق ادا کرنا چاہئے تا کہ خیرِ اُمّت میں شمار ہوں۔ اس بگڑے ہوئے معاشرے میں یہ حق اپنے نمونے قائم کر کے اور ماحول کو نصیحت کر کے ادا ہو گا۔ آنحضرتؐ جس امانت کو لے کر آئے تھے اور جو دنیا کو خدا تعالیٰ کا توحید کا پیغام پہنچانا تھا، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی تھی تو یہ امانت ہے جو ایک احمدی کے ذمہ لگائی گئی ہے۔ پس آج احمدی اس امانت کا بھی سب سے بڑھ کر امین ہونا چاہئے۔ اور اس مقصد کے لئے سب سے پہلے اپنے نفس کی اصلاح سے اس امانت کے حق ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کر کے اس امانت کا حق ادا ہو گا۔ اپنے بچوں کی تربیت کر کے اس امانت کا حق ادا ہو گا تا کہ ان حقوق کی ادائیگی کی روح اگلی نسلوں میں بھی منتقل ہوتی چلی جائے۔ پھر آنحضرتؐ نے منافق کی ایک نشانی یہ بتائی ہے کہ وہ جھوٹ بولتا ہے۔ جو بات کرے گا اس میں جھوٹ کی ملونی ہو گی۔ جھوٹ بولنے والے کے لئے کتنی خطر ناک تنبیہ ہے اور اگر دیکھیں تو یہ قول و فعل کا تضاد ہے اور یہ تضاد ہی منافقت ہے۔ ایک طرف اللہ تعالیٰ پر ایمان کا دعویٰ ہے دوسری طرف جھوٹ ہے۔ گویا جھوٹ کو خدا تعالیٰ کے مقابلے پر لا کھڑا کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی وجہ سے جھوٹ اور بُت پرستی کو ایک جگہ بیان فرمایا یعنی جھوٹ اور شرک کو اکٹھا فرمایا۔ یہ دو باتیں جس میں جمع ہو جائیں یا صرف جھوٹ ہی بولنے والا ہو تووہ مشرک ہے۔ اور اگر اللہ تعالیٰ پر ایمان کے دعوے کے ساتھ جھوٹ ہے تو ہر ایک جانتا ہے کہ یہ غلط بیانی ہے اور بڑا واضح نفاق ہے۔ یعنی اس طرح انسان جھوٹ بول کر اللہ تعالیٰ پر ایمان کے بجائے شرک کے زیادہ قریب ہو رہا ہوتا ہے۔ منہ سے بیشک یہ دعویٰ ہے کہ میں مومن ہوں لیکن عمل اس کی نفی کر رہا ہوتا ہے۔ کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ آج مسلمانوں کی اکثریت جھوٹ اور سچ کے اس فرق کو بھول بیٹھی ہے۔ پس آج اگر احمدیوں نے اس کے خلاف جہادنہ کیا، اپنے نفس اور اپنے ماحول کو اس سے پاک کرنے کی کوشش نہ کی تو ایک ایسا داغ دل میں لگانے والے بن جائیں گے جس کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت سے اور اسلام سے کوئی بھی تعلق نہیں ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تو اصلاح کے لئے آئے تھے، شریعت کے قیام کے لئے آئے تھے، اللہ تعالیٰ کا رنگ چڑھانے کے لئے آئے تھے۔ اپنے آقا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل پیروی کرتے ہوئے آپ کی اتباع میں آئے تھے۔ اگر ہم میں بھی جو آپ کو ماننے کا دعویٰ کرتے ہیں جھوٹ قائم رہے گا تو شریعت کا قیام کس طرح ہو گا؟ یہ جتنے دعوے ہم کر رہے ہیں یہ کس طرح پورے ہوں گے؟ پس ہمیں اپنے جائزے لینے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ بجائے اس کے کہ ہم دوسروں کو دیکھیں ہم میں سے ہر ایک کو اپنے پر نظر ڈالنی چاہئے کہ کس حد تک ہماری اصلاح ہو رہی ہے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button