کیا وحی و الہام کا دروازہ بند ہو چکا ہے؟(حصہ دوم)
یہ لوگ (منکرینِ وحی و الہام۔ناقل)جن مہلکات میں پھنسے ہوئے ہیں۔ وہ بہت خطرناک مرض ہے اس سے بڑھ کر اور کیا مصیبت ہو گی کہ اس اُمت کی نسبت باوجود خیر الامم ہونے کے یہ یقین کر لیا گیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے خاص فضل شرف مکالمہ سے محروم ہے۔ اور خواہ ساری عمر کوئی مجاہدہ کرتا رہے کچھ بھی حاصل نہ ہو گا(نعوذ باللہ)جیسے کہہ دیا جاوے کہ خواہ ہزار ہاتھ تک کھودتے چلو مگر پانی نہیں ملے گا۔ اگر یہ سچ ہے جیسا کہ ہمارے مخالف کہتے ہیںتو مجاہدہ اور دعا کی کیا حاجت ہے؟ کیونکہ انسان کی فطرت میں یہ بات داخل ہے کہ وہ جس کو ممکن الحصول سمجھتا ہے ۔ اسے تلاش کرتا ہے اور اس کے لیے سعی کرتا ہے اور اگر اسے یہ خیال اور یقین نہ ہو تو وہ مجاہدہ اور سعی کا دروازہ بند کر دیتا ہے۔ جیسے ہُما اور عنقا کی کوئی تلاش نہیں کرتا ۔ اس لیے کہ سب جانتے ہیں کہ یہ چیزیں ناممکن الحصول ہیں۔ پس اسی طرح جب یہ یقین کر لیا گیا کہ اللہ تعالیٰ سے مکالمہ کا شرف ملنے کا ہی نہیں اور خوارق اب دیے ہی نہیں جاسکتے۔ تو پھر مجاہدہ اور دعا جو اس کے لیے ضروری ہے ۔ محض بیکار ہوں گے اور اس کے لیے کوئی جرأت نہ کرے گا اور اس امت کے لیے نعوذ باللہ مَنۡ کَانَ فِیۡ ہٰذِہٖۤ اَعۡمٰی فَہُوَ فِی الۡاٰخِرَۃِ اَعۡمٰی(بنی اسرائیل:73)صادق آئے گا اور اس سے خاتمہ کا بھی پتہ لگ جائے گاکہ وہ کیسا ہو گا کیونکہ اس میں تو کوئی شک و شبہ ہی نہیں ہو سکتا کہ یہ جہنمی زندگی ہے ۔ پھر آخرت میں بھی جہنم ہی ہو گااور اسلام ایک جھوٹا مذہب ٹھہرے گااور نعوذباللہ خدا تعالیٰ نے بھی اس امت کو دھوکا دیا کہ خیر الامت بنا کرپھر کچھ بھی نہ دیا۔
اس قسم کا عقیدہ رکھنا ہی کچھ کم بدقسمتی اور اسلام کی ہتک نہ تھی کہ اس پر دوسری مصیبت یہ آئی کہ اس کے لیے وجوہات اور دلائل پیدا کرنے لگے۔ چنانچہ کہتے ہیں کہ یہ دروازہ مکالمات و مخاطبات کا اس وجہ سے بند ہو گیا کہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نےفرمایا ہے مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنۡ رِّجَالِکُمۡ وَ لٰکِنۡ رَّسُوۡلَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ(الاحزاب :41)یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ خاتم النبیین ہیں اس لیے آپ کے بعد یہ فیض اور فضل بند ہو گیا ۔ مگر ان کی عقل اور علم پر افسوس آتا ہے کہ یہ نادان اتنا بھی نہیں سمجھتے کہ اگر ختم نبوت کے ساتھ ہی معرفت اور بصیرت کے دروازے بھی بند ہو گئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (معاذ اللہ )خاتم النبیین تو کجا نبی بھی ثابت نہ ہوں گے۔ کیونکہ نبی کی آمد اور بعثت تو اس غرض کے لیے ہوتی ہے تا کہ اللہ تعالیٰ پر ایک یقین اور بصیرت پیدا ہو اور ایسا ایمان ہو جو لذیذ ہو ۔ اللہ تعالیٰ کے تصرفات اور اس کی قدرتوں اور صفات کی تجلی کو انسان مشاہدہ کرے اور اس کا ذریعہ بھی اس کے مکالمات و مخاطبات اور خوارق عادات ہیں۔ لیکن جب یہ دروازہ ہی بند ہو گیا تو پھر اس بعثت سے فائدہ کیا ہوا؟
میں بڑے افسوس سے کہتا ہوں کہ ان لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہرگز ہرگز قدر نہیں کی اور آپ کی شان عالی کو بالکل نہیں سمجھا ورنہ اس قسم کے بیہودہ خیالات یہ نہ تراشتے اس آیت کے اگر یہ معنی جو یہ پیش کرتے ہیں تسلیم کر لیے جاویں تو پھر گویا آپ کو نعوذ باللہ ابتر ماننا ہو گا۔ کیونکہ جسمانی اولاد کی نفی تو قرآن شریف کرتا ہےاور روحانی کی یہ نفی کرتے ہیں تو پھر باقی کیا رہا؟
اصل بات یہ ہے کہ اس آیت سے اللہ تعالیٰ ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عظیم الشان کمال اور آپ کی قوت قدسیہ کا زبردست اثر بیان کرتا ہے کہ آپ کی روحانی اولاد اور روحانی تاثیرات کا سلسلہ کبھی ختم نہیں ہو گا ۔ آئندہ اگر کوئی فیض اور برکت کسی کو مل سکتی ہے تو اسی وقت اور حالت میں مل سکتی ہے جب وہ آنحضرت ﷺ کی کامل اتباع میں کھویا جاوے اور فنا فی الرسول کا درجہ حاصل کر لے ۔ بدوں اس کے نہیں اور اگر اس کے سوا کوئی شخص ادعائے نبوت کرے تو وہ کذاب ہو گا۔ اس لیے نبوت مستقلہ کا دروازہ بند ہو گیا اور کوئی ایسا نبی جو بجز آنحضرت ﷺ کی اتباع اور ورزش شریعت اور فنا فی الرسول ہونے کے مستقل نبی صاحب شریعت نہیں ہو سکتا۔ ہاں فنا فی الرسول اور آپ کے امتی اور کامل متبعین کے لیے یہ دروازہ بند نہیں کیا گیا ۔ اسی لیے براہین میں یہ الہام درج ہے۔ کُلُّ بَرَکَۃٍ مِّنْ مُّحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ فَتَبَارَکَ مَنْ عَلَّمَ وَ تَعَلَّمَ۔
یعنی یہ مخاطبات اور مکالمات کا شرف جو مجھے دیا گیا ہے یہ محض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کا طفیل ہے اور اس لیے یہ آپ ہی سے ظہور میں آرہے ہیں ۔ جس قدر تاثیرات اور برکات و انوار ہیں وہ آپ ہی کے ہیں۔
اب حضرت عیسیٰ کے لیے تم خود فتویٰ دو کہ اس کے متعلق تم کیا سمجھتے ہو اور یقین کرتے ہو۔ کیا یہ مانتے ہو کہ اس کو جو کچھ دیا جائے گا وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک امتی ہونے اور آپ کی کامل اتباع کی وجہ سے نصیب ہو گا یا پہلے سے انہیں دیا گیا ہے؟
یہ مانتے ہیں کہ وہ توریت اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کا متبع تھا ۔ پھر یہ تو توریت کا فخر ہوا نہ کہ قرآن مجید کا۔ پھر کیسی بیہودگی ہے کہ ایسا عقیدہ رکھا جاوے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن مجید کی ہتک ِشان کا موجب ہو۔ اس لیے یہ ضرور ہے کہ آنے والا مسیح اسی امت سے ہو اور وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے برکت اور تعلیم پائے اور آپ ہی کے فیض اور ہدایت سے روشنی حاصل کرے۔
(ملفوظات جلد8 صفحہ 90تا93۔ ایڈیشن 1984ء )
٭…٭…٭