متفرق شعراء

’’آیا مسیح وقت کہ تھی جس کی انتظار‘‘

اتمام نور کا ہمیں منظر دکھا بھی دے صدق و صفا کا پورا وہ سورج چڑھا بھی دے
’’آیا مسیح وقت کہ تھی جس کی انتظار‘‘ قریہ بہ قریہ کو بہ کو سب کو سمجھا بھی دے
ہیں بے دلیل سچ کے وہ دشمن بنے ہوئے یا رب تُو ان دلوں میں بصیرت جگا بھی دے
بیعت کرد کہ رحمت و برکت ملے تمہیں ہر کوئی اُس کی راہ میں آنکھیں بچھا بھی دے
وہ دُور ہے کہاں وہ میرے دل کے پاس ہے مولا اگر ہیں فاصلے سارے مٹا بھی دے
اس کہکشاں کا پانچواں تارا یہی تو ہے ہر سُو مسرتوں کا تو ڈنکا بجا بھی دے
شہرہ ترے حبیب کا پہنچا گلی گلی محروم اس عطا سے جو اس کو دکھا بھی دے
اب دیر ہو چلی ہے چلا آتو دفعتاً پھر امن و آشتی کا تو مژدہ سنا بھی دے
اُترے گی قلب و روح پر تسکین کی پھوار رُودِ چناب چاند کا چہرہ دکھا بھی دے
حاؔفظ دعائے نیم شبی ہوگی پُر اثر اب قلب و نظر سے نفس کے پردے اُٹھا بھی دے

(ابن کریم)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button