حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ہمدردیٔ خلق کا دلگداز تذکرہ۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکے بابرکت الفاظ میں
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سوانح اورآپؑ کے شمائل وخصائل کامطالعہ کرنے والاخواہ وہ سطحی جائزہ لے یا گہرائی میں جاکر۔اگر اس کا قلب و ضمیر زندہ اور انصاف پسند ہے تو اس کو قطعی طور پر یہ نتیجہ نکالنے میں دیر نہیں لگے گی کہ آپ ؑ کی زندگی عشق ِ الٰہی اور عشق رسول ﷺسے عبارت تھی۔آپ ؑ کی تحریر ہو یا تقریر، آپ ؑ کا قول ہو یا فعل، آپ ؑ کی کوئی بھی حرکت ہو یا سکون، انہیں دونوں عشقوں کے رنگ سے رنگین اور اسی عشق کی خوشبو سے معطر جس کی مہک آج بھی کم ہونے نہیں پائی۔اور ہوتی بھی کیوں ! کہ اس محبت بھرے دل کی یہ صدا تھی …!!
اِنِّی اَمُوْتُ وَ لَا یَمُوْتُ مَحَبَّتِیْ
یُدْرٰی بِذِکْرِکَ فِی التُرَابِ نِدَائِی
یعنی میں تومَرجاؤں گا لیکن میری محبت کبھی نہیں مرے گا۔قبرکی مٹی میں بھی تیرے ذکرکے ساتھ میری آوازپہچانی جائے گی۔
خدا کے بعد حضرت محمدمصطفیٰ ﷺ کاعشق تھا کہ جوآپ کے روح وقلب کو ہر وقت مخمور کیے رکھتا تھا …لوگ کچھ بھی کہیں بلاخوف لومۃ لائم اس عشق کا اظہار آپ ؑ کا مذہب اولین تھا۔آپ ؑ فرماتے ہیں کہ
بعد از خدا بعشقِ محمدؐ مخمرم
گر کفر ایں بوَد بخدا سخت کافرم
حضرت ڈاکٹرمیرمحمداسماعیل صاحب رضی اللہ عنہ جوکہ آپ کے گھرکے ہی ایک فردتھے ۔جوجلوت وخلوت کے ایک چشم دید گواہ تھے ۔وہ بیان کرتے ہیں :
‘‘آپ کے اخلاق کے اس بیان کے وقت قریباً ہر خلق کے متعلق مَیں نے دیکھا کہ مَیں اسکی مثال بیان کر سکتا ہوں۔یہ نہیں کہ مَیں نے یونہی کہہ دیا ہے۔ مَیں نے آپ کو اس وقت دیکھا۔جب مَیں دو برس کا بچہ تھا۔پھر آپ میری ان آنکھوں سے اس وقت غائب ہوئے جب میں ستائیس سال کا جوان تھا۔مگر مَیں خدا کی قسم کھا کر بیان کرتا ہوں۔کہ مَیں نے آپ سے بہتر، آپ سے زیادہ خلیق، آپ سے زیادہ نیک،آپ سے زیادہ بزرگ ،آپ سے زیادہ اللہ اور رسول کی محبت میں غرق کوئی شخص نہیں دیکھا۔آپ ایک نور تھے جو انسانوں کے لیے دُنیا پر ظاہر ہوا اور ایک رحمت کی بارش تھے جو ایمان کی لمبی خشک سالی کے بعد اس زمین پر برسی اور اسے شاداب کرگئی۔ اگر حضرت عائشہؓ نے آنحضرت ﷺ کی نسبت یہ بات سچی کہی تھی۔کہ ‘‘کان خلقُہُ القرآن’’ تو ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نسبت اسی طرح یہ کہہ سکتے ہیں کہ‘‘کان خلقُہُ حُبَّ محمدٍ وَاِتِّبَاعَہ’’علیہ الصّلٰوۃ والسلام’’
(سیرت المہدی جلد اول روایت975)
ہمدردئ خلق
حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بروح القدس اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 02؍فروری 2006ء میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی سیرت مبارکہ کے درخشاں پہلو ‘ہمدردیٔ خلق’ کے بارہ میں فرماتے ہیں:
‘‘آج مَیں آنحضرتﷺ کے عاشق صادق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت کے چند واقعات بیان کروں گا جن سے آپؑ کے دل میں خداتعالیٰ کی مخلوق کے لیے جو جذبہ رحم تھا اور اس کے لیے بسا اوقات آپؑ اپنے آپ کو تکلیف میں ڈال کر بھی جو اظہار فرمایا کرتے تھے، اس کی کچھ حد تک تصویر کشی ہوتی ہے۔ آپؑ کی زندگی اتنی مصروف تھی کہ جس کی کوئی انتہا نہیں۔ اسلام کے دفاع میں تن تنہا ساری جنگیں لڑ رہے تھے۔ تقریر کے ذریعہ سے، تحریر کے ذریعہ سے، پھر مخالفین کی کارروائیاں بھی آپؑ کے خلاف بے انتہا تھیں ، مقدمات وغیرہ بھی تھے۔
یہ سب چیزیں تھیں لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے لیے اپنوں اور پرایوں کے لیے اس بات پر کمر بستہ تھے کہ اس کی صفت رحمانیت سے حصہ پا کر مَیں سراپا رحمت بنا ر ہوں اور اپنے آقا و مطاع ﷺکے اسوہ کو مکمل طور پر اپنا سکوں ۔ آپ کی سیرت کا یہ پہلو بھی پوری آب و تاب سے چمکا۔ اس لیے کہ آپ اپنے پیدا کرنے والے اور انعاموں اور فضلوں سے نوازنے والے خدا کا شکر گزار بندہ بھی بننا چاہتے تھے، جس نے آپؑ کو الہاماً فرمایا تھا کہ ‘‘ غَرَسْتُ لَکَ بِیَدِیْ رَحْمَتِیْ وَقُدْرَتِیْ تیرے لیے مَیں نے رحمت اور قدرت کو اپنے ہاتھ سے لگایا ہے۔’’(تذکرہ صفحہ72 ایڈیشن چہارم مطبوعہ ربوہ)
پس یہ کس طرح ہو سکتا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ سے جو رحمت کا پودا آپ کے لیے لگایا گیا آپ اس کی شکر گزاری کا اظہار اللہ تعالیٰ کی مخلوق پر رحم کی نظر ڈال کر نہ کرتے جبکہ اللہ تعالیٰ نے الہاماً آپؑ کو یہ بھی فرمایا تھا کہ یَا اَحْمَدُ فَاضَتِ الرَّحْمَۃُ عَلٰی شَفَتَیْکَ اے احمد! تیرے لبوں پر رحمت جاری ہوئی ہے۔ (تذکرہ صفحہ -74 73 ایڈیشن چہارم مطبوعہ ربوہ)
پس اس رحمت میں جہاں روحانی بیماروں کے لیے آپؑ کے دل میں درد پیدا کیا ہوا تھا اور جس کے لیے آپؐ دعا اور تدبیر کے ذریعہ سے ہر وقت کوشاں رہتے تھے وہاں اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی جسمانی اور مادی ضرورتوں کے لیے بھی آپؑ دعا اور تدبیر کے لیے ہمہ وقت اور ہر وقت ہر لمحہ تیار رہتے تھے ۔
ایک ہندوکی عیادت اور علاج کے لیے جدوجہد
اب مَیں وہ واقعات پیش کرتا ہوں کہ کس طرح آپؑ مخلوق کی خدمت کیا کرتے تھے اور آپؑ کے دل میں ان کی روحانی ترقی کے لیے کتنا درد تھا۔
حضرت یعقوب علی صاحب عرفانی ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک لالہ شرمپت رائے ہوتے تھے۔ قادیان کے رہنے والے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں آپؑ کی بعثت کے ایام سے بھی پہلے آیا کرتے تھے۔ اور آپؑ کے بہت سے نشانات کے وہ گواہ تھے… ایک مرتبہ وہ بیمار ہوئے (تو عرفانی صاحب ؓکہتے ہیں کہ) مجھے اس وقت قادیان ہجرت کرکے آجانے کی سعادت حاصل ہو چکی تھی۔ان کے پیٹ پر ایک پھوڑا نکلا تھا اور اس دُنبل نے، بہت گہرا پھوڑا تھا،اس نے خطرناک شکل اختیار کر لی تھی۔ حضرت اقدس ؑ کو اطلاع ہوئی۔ آپؑ خود لالہ شرمپت رائے کے مکان پر تشریف لے گئے جو نہایت تنگ اور تاریک سا چھوٹا سا مکان تھا۔ اکثر دوست بھی آپؑ کے ساتھ تھے، عرفانی صاحب کہتے ہیں کہ مَیں بھی ساتھ تھا، جب آپ نے لالہ شرمپت رائے کو جا کے دیکھا تو وہ نہایت گھبرائے ہوئے تھے اور ان کو یقین تھا کہ میری موت آنے والی ہے۔بڑی بے قراری سے باتیں کر رہے تھے، جیسے انسان موت کے قریب کرتا ہے۔ تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان کو بڑی تسلی دی کہ گھبراؤ نہیں اور ایک ڈاکٹر عبداللہ صاحب ہوا کرتے تھے، فرمایا کہ مَیں ان کو مقرر کرتا ہوں وہ اچھی طرح علاج کریں گے۔ چنانچہ دوسرے دن حضرت اقدس ؑ ڈاکٹر صاحب کو ساتھ لے گئے اور ان کو خصوصیت کے ساتھ لالہ شرمپت رائے کے علاج پر مامور کیا۔اور اس علاج کا بار یا خرچ لالہ صاحب پر نہیں ڈالا۔ اور روزانہ بلاناغہ آپؑ ان کی عیادت کو جاتے تھے اورجب زخم مندمل ہونے لگے اور ان کی وہ نازک حالت بہتر حالت میں تبدیل ہو گئی۔ توپھر آپؑ نے وقفہ سے جانا شروع کیا۔ اور اُس وقت تک عیادت کا یہ سلسلہ جاری رکھا جب تک وہ بالکل اچھے نہیں ہو گئے۔(ماخوذ از سیرت حضرت مسیح موعودؑ از حضرت یعقوب علی صاحب عرفانیؓ صفحہ170-169)
ایک غریب اورمسکین کے گھرعیادت کے لیے جانا
پھر عرفانی ؓصاحب بیان کرتے ہیں کہ مہرحامد قادیان کے ارائیوں میں پہلا تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سلسلہ بیعت میں داخل ہوا اور اب تک اس کا خاندان خداتعالیٰ کے فضل سے مخلص ہے۔ (اب بھی ہوں گے ۔انشاء اللہ) مہر حامد علی صاحب نہایت غریب مزاج تھے اور ان کا مکان فصیل قادیان سے باہر اس جگہ واقع تھا جہاں گاؤں کا کوڑا کرکٹ اور روڑیاں جمع ہوتی ہیں ۔ سخت بدبو اور تعفن اس جگہ پہ ہوتا تھا۔ اور خود بھی زمینداروں کے گھر ایسے ہی ہوتے ہیں ، تو کہتے ہیں کہ مکان کی صفائی کا التزام نہ تھا، مویشیوں کا گوبر اور اس قسم کی دوسری چیزیں پڑی رہتی تھیں ،جس کو وہ کھاد کے طور پر استعمال کرتے ہیں ۔بہرحال اسی جگہ وہ رہتے تھے، وہ بیمارہوئے اور وہی بیماری ان کی موت کا موجب بنی۔
تو حضرت اقدسؑ متعدد مرتبہ اپنی جماعت مقیم قادیان کو لے کر اس کی عیادت کے لیے تشریف لے جاتے تھے اور جب جاتے تھے تو قدرتی طور پر بعض لوگوں کو اس تعفن اور بدبو سے سخت تکلیف ہوتی تھی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام خود بھی تکلیف محسوس کرتے تھے اور بہت کرتے تھے۔ عرفانیؓ صاحب لکھتے ہیں ا س لیے کہ فطرتی طورپر یہ وجود نظافت اور نفاست پسند واقع ہوا تھا۔ مگر اشارۃً یا کنایۃً نہ تو اس کا اظہار کیا اور نہ اس تکلیف نے آپؑ کو ان کی عیادت اور خبر گیری کے لیے تشریف لانے سے کبھی روکا۔ آپؑ جب جاتے تو اس سے بہت محبت اور دلجوئی کی باتیں کرتے۔ اور اس کی مرض اور اس کی تکلیف وغیرہ کے لیے بہت دیر تک دریافت فرماتے اور تسلی دیتے اور ادویات وغیرہ بھی بتاتے، توجہ الی اللہ کی بھی ہدایت فرماتے۔ کہتے ہیں کہ وہ اپنی حیثیت کے لحاظ سے ایک معمولی زمیندار تھا اور یہ کہنا بالکل درست ہے کہ آپؑ کے زمینداروں میں ہونے کی وجہ سے وہ گویا رعایا کا ایک فردتھا۔ لیکن آپؑ نے کبھی تفاخر اور تفوّق کو پسند نہ فرمایا۔ اس کے پاس جاتے تھے تو اپنا ایک عزیز بھائی سمجھ کر جاتے تھے اور اس طرح پر باتیں کرتے تھے اور اس کے علاج کے متعلق دلچسپی لیتے تھے اور صاف طور پر کہتے تھے، دوسرے دیکھنے والے بھی کہتے تھے کہ کوئی عزیزوں کی خبر گیری بھی اس طرح نہیں کرتا جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے تھے۔(سیرت حضرت مسیح موعودؑ از حضرت یعقوب علی صاحب عرفانیؓ صفحہ173-172)
اپنے دوستوں کے لیے بے قراردل کے ساتھ خط کے ذریعہ بیمارپرسی
پھر حضرت یعقوب علی صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ صاحب لکھتے ہیں کہ عیادت کے لیے باوجودیکہ آپ ؑ تشریف لے جاتے تھے لیکن یہ بھی ایک صحیح واقعہ ہے کہ خداتعالیٰ نے آپ کے قلب کو مخلوق کی ہمدردی اور غمگساری کے لیے جہاں استقلال سے مضبوط کیا ہوا تھا وہاں محبت اور احساس کے لیے اتنا رقیق تھا ( اتنا نرم کیا ہوا تھا) کہ آپؑ اپنے مخلص احباب کی تکالیف کو اپنی آنکھ سے نہ دیکھ سکتے تھے اور اندیشہ ہوتا تھا کہ اگر آپؑ اس موقعہ تکلیف پر پہنچ جاویں تو طبیعت بگڑ نہ جاوے۔ اس لیے بعض اوقات عیادت کے لیے خود نہ جاتے اور دوسرے ذریعہ سے عیادت کرلیتے یعنی ڈاکٹر وغیرہ کے ذریعہ سے حالات دریافت کر لیتے اور مریض کے عزیزوں رشتہ داروں کے ذریعہ سے تسلّی دیتے اور ایسا ہوا کہ اپنی اس رِقّت قلبی کا اظہار بھی بعض اوقات فرمایا۔
(سیرت حضرت مسیح موعودؑ از حضرت یعقوب علی صاحب عرفانیؓ صفحہ186 )
تو دیکھیں باوجودبے انتہا معمور الاوقات ہونے کے کسی کی عیادت یا ہمدردی کے لیے جانے پر اس لیے انکار نہیں فرما رہے کہ وقت نہیں ہے، مصروفیت ہے، بلکہ اس لیے کہ مخلوق کی ہمدردی اور اس کی تکلیف کا خیال کرکے آپؑ کی اپنی طبیعت خراب ہو جایا کرتی تھی۔ اور یہ سراسر رحمت تھی جس سے آپؑ کا دل بھرا ہوا تھا۔
اس کا اظہار ایک خط کے ذریعہ سے بھی ہوتا ہے جو آپؑ نے اپنے ایک مرید کی بیماری کے دوران لکھا۔ اس کے متعلق عرفانی صاحب لکھتے ہیں کہ مرحوم ایوب صادق صاحب ایک نہایت مخلص اور پرجوش احمدی تھے۔ (مرزا ایوب بیگ صاحب) ۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے اس کو عاشقانہ ارادت تھی۔ وہ بیمار ہوگئے اور اس بیماری میں آخر وہ مولیٰ کریم کے حضور جا پہنچے اپنی زندگی کے آخری ایام میں وہ اپنے بھائی ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب کے پاس بمقام فاضلکا تھے اور حضرت اقدس کی محبت کا غلبہ ہوا تو انہوں نے خواہش کی کہ حضرت کو دیکھیں ۔ خود ان کا آنا نہایت مشکل تھا کیونکہ سفر کے قابل نہ تھے اور جوش کو دبا بھی نہ سکتے تھے۔ انہوں نے حضرت اقدسؑ کو خط لکھا کہ حضور اس جگہ فاضلکا میں آن کر مل جاویں ۔(حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو لکھا کہ آپ آ کر مجھے یہاں مل جائیں )۔ میرا دل بہت چاہتا ہے کہ مَیں حضور کی زیارت کروں ۔ پھر اسی مضمون کا ایک تار بھی دیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کے جواب میں جو خط لکھا اس سے اس فطرت کا جو آپ میں رقت قلبی کی تھی اظہار نمایاں طورپر ہو جاتا ہے۔آپؑ مرزا ایوب بیگ صاحب کو خط میں لکھتے ہیں کہ
محبی، عزیزی مرزا ایوب بیگ صاحب،و محبی عزیز مرزا یعقوب بیگ صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
اس وقت جو مَیں درد سر اور موسمی تپ سے یکدفعہ سخت بیمار ہو گیا ہوں ، مجھ کو تار ملی۔ جس قدر میں عزیزی مرزا ایوب بیگ کے لیے دعا میں مشغول ہوں اس کا علم تو خداتعالیٰ کو ہے۔ خداتعالیٰ کی رحمت سے ہرگز ناامید نہ ہونا چاہئے ۔مَیں تو سخت بیماری میں بھی آنے سے فرق نہ کرتا لیکن مَیں تکلیف کی حالت میں ایسے عزیز کو دیکھ نہیں سکتا۔ میرا دِل جلد صدمہ قبول کرتا ہے۔ یہی چاہتا ہوں کہ تندرستی اور صحت میں دیکھوں ۔ جہاں تک انسانی طاقت ہے اب مَیں ا س سے زیادہ کوشش کروں گا مجھے پاس اور نزدیک سمجھیں ،نہ دُور۔ میرے پاس وہ الفاظ نہیں جن سے مَیں اس درد کو بیان کروں ۔ خدا کی رحمت سے ہرگز ناامید مت ہو۔ خدا بڑے کرم اور فضل کا مالک ہے۔ اس کی قدرت اور فضل اور رحمت سے کیا دُور ہے کہ عزیزی ایوب بیگ کو تندرست جلد تر دیکھوں ۔اس علالت کے وقت جو تار مجھ کو ملی میں ایسا سراسیمہ ہوں کہ قلم ہاتھ سے چلی جاتی ہے (یعنی اتنی پریشانی کی حالت ہو گئی ہے کہ قلم بھی نہیں پکڑی جا رہی) میرے گھر میں بھی ایوب بیگ کے لیے سخت بے قرار ہیں ۔ (حضرت اماں جان ؓ کے بارے میں لکھا) اس وقت مَیں ان کو بھی اس تار کی خبر نہیں دے سکتا کیونکہ کل سے وہ بھی تپ میں مبتلا ہیں اور ایک عارضہ حلق میں ہو گیا ہے۔ مشکل سے اندر کچھ جاتا ہے۔ اس کے جوش سے تپ بھی ہو گیا ہے وہ نیچے پڑے ہوئے ہیں اور مَیں اوپر کے دالان میں ہوں ۔ میری حالت تحریر کے لائق نہ تھی لیکن تار کے درد انگیز اثر نے مجھے اس وقت اٹھا کر بٹھا دیا۔ آپ کا اس میں کیا حرج ہے کہ اس کی ہر روز مجھ کو اطلاع دیں ۔ معلوم نہیں کہ جو مَیں نے ابھی ایک بوتل میں دوا روانہ کی تھی وہ پہنچی یا نہیں ، ریل کی معرفت روانہ کی گئی تھی۔ اور مالش معلوم نہیں ہر روز ہوتی ہے یا نہیں ’’۔ (تو یہ ساری تسلی دی)آپ ذرہ ذرہ حال سے مجھے اطلاع دیں اور خدا بہت قادر ہے۔ تسلی دیتے رہیں ۔ چوزہ کا شوربا یعنی بچہ خورد کا ہر روز دیا کریں ۔معلوم ہوتا ہے کہ دستوں کی وجہ یہ ہے کہ کمزوری نہایت درجہ تک پہنچ گئی ہے۔
والسلام خاکسار
مرزا غلام احمد
(سیرت حضرت مسیح موعودؑ از حضرت یعقوب علی صاحب عرفانیؓ صفحہ188-187)
تو بیماری کی وجہ سے خود جا نہیں سکتے تھے۔ بیماری میں انسان ویسے بھی زیادہ رقیق القلب ہو جاتا ہے۔ اپنی اس حالت میں کسی کو بیمار دیکھنا اور بیمار بھی وہ جو آپؑ کو بہت عزیز تھا، آپؑ کو برداشت نہ ہو سکتا تھا۔ لیکن اس حالت میں بھی اپنے عزیز مریض کے لیے دعا کی انتہا کر دی۔ اور فرمایا کہ مجھے روزانہ اس کی صحت کی اطلاع بھی دیا کرو۔
بن مانگے عطاکرنا
حضرت یعقوب علی صاحب عرفانیؓ لکھتے ہیں کہ جہاں آپؑ کی عادت میں یہ تھا کہ آپ سائل کو کبھی رد ّ نہ کرتے تھے۔ یہ امر بھی آپؑ کے معمولات میں تھا کہ بعض لوگوں کی ضرورتوں کا احساس کرکے قبل اس کے کہ وہ کوئی سوال کریں، ان کی مدد کیا کرتے تھے ۔چنانچہ 28؍ اکتوبر 1904ء کی صبح کو قبل نماز فجر آپؑ نے کچھ روپیہ جس کی تعداد آٹھ یا دس ہو گی ایک مخلص مہاجر کو یہ کہہ کر دئیے کہ‘‘موسم سرما ہے آپ کو کپڑوں کی ضرورت ہو گی’’۔ اس مہاجر کی طرف سے کوئی سوال نہ تھا۔ خود حضورؑ نے اس کی ضرورت محسوس کرکے یہ رقم عطا کی۔ لکھتے ہیں کہ یہ ایک واقعہ نہیں متعدد مرتبہ ایسا ہوتا اور مخفی طور پر آپ عموماً حاجتمند لوگوں سے سلوک کرتے رہتے۔ اور اس میں کسی دوست، دشمن، ہندو یا مسلمان کا امتیاز نہ تھا۔
(سیرت حضرت مسیح موعودؑ از حضرت یعقوب علی صاحب عرفانیؓ صفحہ299-298)
تو یہ ہے اس رحمٰن خدا کی صفت جو اِس زمانے میں آنحضرت ﷺکے عاشق صادق نے اس رحمۃ للعالمین کی اتباع میں اپنے پر جاری فرمائی اور نمونے دکھائے کہ بن مانگے بھی دیتے ہیں ۔
پھر اسی طرح ایک اور واقعہ ہے عرفانی صاحبؓ ہی لکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃو السلام کی عادت میں یہ امر بھی داخل تھا کہ بعض اوقات وہ کسی کی حاجت یا ضرورت کا احساس کرکے اس کے سوال یا اظہار کے منتظر نہ رہتے تھے بلکہ خود بخود ہی پیش کر دیا کرتے تھے۔ لکھتے ہیں کہ مکرمی شیخ فتح محمد صاحب پنشنر انسپکٹر ریاست کشمیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرصہ دراز سے آنے والے ہیں ۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ مَیں جب کبھی حضرت کی خدمت میں آتا تو ہمیشہ میرا کرایہ ادا کرنے کے لیے تیار ہوتے تھے۔ مگر مجھے چونکہ ضرورت نہ ہوتی تھی مَیں نے کبھی نہیں لیا۔ ملنے آتے تھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کرایہ دیا کرتے تھے لیکن کہتے ہیں کہ مَیں لیتا تو نہیں تھا۔ لیکن حضرت کی روح سخاوت اس قدر عظیم الشان تھی کہ آپ بغیر استفسار ہمیشہ پیش کر دیتے اور یہ میرے ساتھ معاملہ نہ تھا بلکہ اکثروں کو دیتے رہتے تھے۔ شام اور عرب سے بھی بعض لوگ آتے اور آپؑ ان کو بعض اوقات بیش قرار رقوم زادراہ کے طور پر دیتے۔ کیونکہ حضورؑ جانتے تھے کہ وہ دور دراز سے آئے ہیں۔
(سیرت حضرت مسیح موعودؑ از حضرت یعقوب علی صاحب عرفانیؓ صفحہ319)
صرف قریب سے آنے والوں کے لیے نہیں ۔
عطاکرنے کاایک اور دلفریب انداز
پھر عرفانی ؓصاحب لکھتے ہیں ۔ آپؑ کی عام عادت تھی کہ جو کچھ کسی کو دیتے تھے وہ کسی نمائش کے لیے نہ ہوتا تھا بلکہ محض خداتعالیٰ کی رضا کے لیے اور شفقت علی خلق اللہ کے نکتہ خیال سے اور اس لیے آپ عام طور پر نہایت مخفی طریقوں سے عطا فرماتے تھے اور کبھی دوسروں کو تحریک کرنے کے لیے اور عملی سبق دینے کے واسطے اعلانیہ بھی کرتے تھے، خداتعالیٰ کا حکم دونوں طرح ہے۔ تو مخفی طور پر عطا کرنے میں آپؑ کا ایک یہ بھی طریق تھاکہ بعض اوقات ایسے طور پر دیتے تھے کہ خود لینے والے کو بھی بمشکل علم ہوتا تھا۔
کہتے ہیں اس واقعہ کے سلسلہ میں ایک واقعہ بیان کرتا ہوں ۔ منشی محمد نصیب صاحب ایک یتیم کی حیثیت سے قادیان آئے تھے۔ حضرت اقدس کے رحم و کرم سے انہوں نے قادیان میں رہ کر تعلیم پائی۔ ان کے اخراجات اور ضروریات کا سارا بار سلسلہ پر تھا۔ جب وہ جوان ہو گئے اور انہوں نے شادی کر لی۔ وہ لاہور کے ایک اخبار کے دفتر میں محرر ہوئے۔ پھر دفتر بدر قادیان میں آ کر 12 روپے ماہوار پر ملازم ہوئے۔ تو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کو جب اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلا بیٹا نصیر احمد عطا فرمایا (جو کچھ عرصے بعد فوت ہو گئے تھے) تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مرحوم نصیر احمد کے لیے ایک اَنّاکی ضرورت پیش آئی (ایسی عورت جو دائی کے طور پر رکھی جاتی تھی) تو کہتے ہیں کہ مَیں نے شیخ محمد نصیب صاحب کو تحریک کی کہ ایسے موقع پر تم اپنی بیوی کی خدمات پیش کر دو۔ ہم خرماو ہم ثواب کا موقع ہے۔ (یعنی کھانا پینا اکٹھا ہو جائے گا اور ایک ہی گھر میں رہوگے۔ )تو میرے مشور ے کو شیخ صاحب نے قدر و عزت کی نظر سے دیکھا۔ اور ان کو یہ موقع مل گیا اور ان کی بیوی صاحبزادہ نصیراحمد صاحب کو دُودھ پلانے پر مامور ہو گئیں ۔تو اس سلسلے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے باتوں باتوں میں ہی دریافت فرمایا کہ شیخ محمد نصیب کو کیا تنخواہ ملتی ہے؟ جب آپؑ کو معلوم ہوا کہ صرف 12روپے ملتے ہیں تو آپؑ نے محسوس فرمایا کہ اس قدر قلیل تنخواہ میں شاید گزارانہ ہوتا ہو۔ حالانکہ اس زمانے میں وہ بہت تھی۔ لکھتے ہیں کہ ارزانی کے ایام تھے بڑا سستا زمانہ تھا۔ لیکن حضرت اقدسؑ کو یہ احساس ہوا اور آپؑ نے ایک روز گزرتے گزرتے ان کے کمرے میں 20-25روپے کی ایک پوٹلی پھینک دی۔ شیخ صاحب کو خیال گزرا کہ معلوم نہیں یہ روپیہ کہاں سے آیا ہے، کیسا ہے؟ آخر انہوں نے بڑی کوشش کی، تحقیق کی تو پتہ لگا کہ حضرت اقدسؑ نے ان کی تنگی کا احساس کرکے اس طرح وہاں رکھ دیا تھا تاکہ تکلیف نہ ہو اور آرام سے گزارا کر لیں ۔ تو عرفانی صاحب لکھتے ہیں کہ ان کو تو ضرورت نہیں تھی اس روپیہ سے شاید بیوی نے زیور بنا لیا۔ کیونکہ کھانے پینے کی جو ضروریات تھیں وہ تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دستر خوان سے ہی دودھ پلانے کی وجہ سے پوری ہو جاتی تھیں ۔
(سیرت حضرت مسیح موعودؑ از حضرت یعقوب علی صاحب عرفانیؓ صفحہ306-304)
ایک دشمن سائل کوعطافرمانا
پھر عرفانی صاحب لکھتے ہیں قادیان میں نہال سنگھ نامی ایک بانگرو جٹ رہتا تھا۔ اپنے ایام جوانی میں وہ کسی فوج میں ملازم تھا اور پنشن پاتا تھا۔ اس کا گھر جناب خان بہادر مرزا سلطان احمدصاحب کے دیوان خانے سے دیوار بدیوار تھا، ساتھ جڑا ہوا تھا۔ یہ سلسلے کا بہت بڑا دشمن تھاا ور جماعت کا دشمن بھی تھا اور اس کی تحریک سے حضرت حکیم الامّت اور بعض دوسرے احمدیوں پر بہت خطرناک جھوٹا مقدمہ دائر ہوا تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ اور بعض دوسرے لوگوں پر بھی اس نے جھوٹا مقدمہ درج کرایا ہوا تھا۔ اور ہمیشہ وہ دوسرے لوگوں کے ساتھ مل کر احمدیوں کو تنگ کیا کرتا تھا۔ا ور گالیاں دیتے رہنا تو اس کا معمول تھا تو عین ان ایّام میں جبکہ مقدمات دائر تھے اس کے بھتیجے سنتا سنگھ کی بیوی کے لیے مُشک کی ضرورت پڑی۔ وہ بیمار ہو گئی اور کسی دوسری جگہ سے یہ ملتی نہیں تھی بلکہ یہ بہت قیمتی چیز تھی۔ مشک ویسے ہی بہت قیمتی ہوتی ہے اور مل بھی نہیں رہی تھی۔ اور وہ اس حالت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دروازے پر گیا اور مشک کا سوال کیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس کے پکارنے پر فوراً ہی تشریف لے آئے اور اسے ذرا بھی انتظار میں نہ رکھا۔اس کا سوال سنتے ہی فوراً اندر تشریف لے گئے اور کہہ گئے ٹھہرو ابھی لاتا ہوں ۔ چنانچہ آپؑ نے کوئی نصف تولہ کے قریب جتنی دوائی کے لیے ضرورت تھی مشک لا کر اس کے حوالے کر دی۔
(سیرت حضرت مسیح موعودؑ از حضرت یعقوب علی صاحب عرفانیؓ صفحہ306)
تو یہاں دیکھیں قطع نظر اس کے کہ جس کو ضرورت ہے وہ کون ہے۔ دشمنی کرتا ہے یا نہیں کرتا۔ یہ اس کا اپنا فعل ہے۔ ایک مریضہ کی جان بچانے کے لیے ایک دوائی کی ضرورت ہے تو فوراً جذبہ رحم کے تحت دوائی لا کر اس کو دے دی۔ یہاں بدلے لینے کا یا مقدمے ختم کرانے کا سوال نہیں اٹھایا۔
تھوڑادیناجانتے ہی نہ تھے۔۔۔
پھر حضرت یعقوب علی صاحب عرفانی ؓ بیان کرتے ہیں کہ حافظ نوراحمد صاحب سوداگرؓ پشمینہ لودھیانہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پرانے اور مخلص خدام میں سے ہیں ۔ ان کو اپنے تجارتی کاروبار میں ایک بار سخت خسارہ ہو گیا اور کاروبار تقریباً بند ہی ہو گیا۔ انہوں نے چاہا کہ وہ کسی طرح کسی دوسری جگہ چلے جاویں اور کوئی اور کاروبار کریں تاکہ اپنی مالی حالت کی اصلاح کے قابل ہو سکیں ۔ وہ اس وقت کے گئے ہوئے گویا اب واپس آ سکے ہیں ۔ جس زمانے میں گئے تھے جب یہ لکھ رہے ہیں کہتے ہیں اب آئے ہیں بڑے سالوں بعد۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی میں برابر خط و کتابت رکھتے تھے اور سلسلے کی مالی خدمت اپنی طاقت اور توفیق سے بڑھ کر کرتے رہے۔ جب عرفانی صاحبؓ نے یہ لکھا ان دنوں قادیان میں مقیم تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی داد ودرش اور جودوسخا کے متعلق میں توایک ہی بات کہتا ہوں کہ آپؑ تھوڑا دینا جانتے ہی نہ تھے۔ اپنا ذاتی واقعہ بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مَیں نے جب اس سفر کا ارادہ کیا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کچھ روپیہ مانگا۔ حضور ایک صندوقچی جس میں روپیہ رکھا کرتے تھے اٹھا کر لے آئے اور میرے سامنے صندوقچی رکھ دی کہ جتنا چاہو لے لو اور حضور کو اس بات سے بہت خوشی تھی۔مَیں نے اپنی ضرورت کے موافق لے لیا۔ جتنی ضرورت تھی اس صندوق میں سے نکال کے اتنا لے لیا گوکہ حضور یہی فرماتے رہے کہ سارا ہی لے لو۔
(سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام از حضرت یعقوب علی عرفانی ؓ صفحہ 315-316)
بیماروں اور ضرورت مندوں کے لیے ایک مستعد ہمدرد دل
حضرت مولوی عبدالکریم ؓصاحب لکھتے ہیں کہ بعض وقت دوائیاں لینے کے لیے گنوار عورتیں زور زور سے دروازے پر دستک دیتی تھیں ۔ اور سادہ اور گنواری زبان میں کہتی تھیں کہ مِرجا جی ذرا بُوا کھولو۔ حضور اس طرح اٹھتے جس طرح مطاعِ ذیشان کا حکم آیا ہے، یعنی بڑا کوئی حاکم باہر کھڑا ہے اور اس کی اطاعت کرتے ہیں ۔ فوراً اٹھ کر دروازہ کھولتے اور بڑی کشادہ پیشانی سے بڑی خوشدلی سے باتیں کرتے اور دوائی بتاتے۔ تو مولوی عبدالکریم صاحب لکھتے ہیں کہ ہمارے ملک میں وقت کی قدر پڑھی ہوئی جماعت کو بھی نہیں تو پھر گنوار تو اور بھی وقت کے ضائع کرنے والے ہوتے ہیں ۔ ویسے ابھی تک یہ حال ہے۔ ایک عورت بے معنی بات چیت کرنے لگ گئی ہے اور اپنے گھر کا رونا اور ساس نند کا گلہ شروع کر دیا ہے۔ گھنٹہ بھر اسی میں ضائع کر دیا ہے۔ آئی دوائی لینے اور ساتھ قصے شروع کر دیئے اور آپؑ وقار اور تحمل سے بیٹھے سن رہے ہیں ۔ زبان سے یا اشارے سے اس کو کہتے نہیں کہ بس جاؤ دوا پوچھ لی اب کیا کام ہے ہمارا وقت ضائع ہوتا ہے۔ وہ خود ہی گھبرا کر اٹھ کھڑی ہوتی اور مکان کو اپنی ہوا سے پاک کرتی۔
ایک دفعہ بہت سی گنوار عورتیں اپنے بچوں کو دکھانے لے کر آئیں ، اتنے میں اندر سے بھی چند خدمتگار عورتیں شربت شیرہ کے لیے برتن ہاتھوں میں لیے آنکلیں اور آپؑ کو دینی ضرورت کے لیے بڑا اہم مضمون لکھنا تھا اور جلد لکھنا تھا۔ مَیں بھی اتفاقاً جا نکلا۔ کیا دیکھتاہوں کہ حضرت کمر بستہ اور مستعد کھڑے ہیں جیسے یورپین اپنی دنیاوی ڈیوٹی پر چست اور ہوشیار کھڑا ہوتا ہے اور پانچ چھ صندوق کھول رکھے ہیں اور چھوٹی چھوٹی شیشیوں اور بوتلوں میں سے کسی کو کچھ اور کسی کو کوئی عرق دے رہے ہیں ۔ کوئی تین گھنٹے تک یہی بازار لگا رہا۔ اور ہسپتال جاری رہا۔ فراغت کے بعد مَیں نے عرض کیا کہ حضور یہ تو بڑی زحمت کا کام ہے اور اس طرح بہت سا قیمتی وقت ضائع ہو جاتا ہے۔ اللہ اللہ کس نشاط اور طمانیت سے مجھے جواب دیتے ہیں کہ یہ بھی تو ویسا ہی دینی کام ہے۔ یہ مسکین لوگ ہیں کوئی ہسپتال نہیں،میں ان لوگوں کی خاطر ہر طرح کی انگریزی اور یونانی دوائیں منگوا رکھا کرتا ہوں جو وقت پر کام آ جاتی ہیں اور فرمایا یہ بڑا ثواب کا کام ہے ۔ اب تین گھنٹے ان عورتوں کے لیے ضائع ہو گئے اور اس وقت ایک کتاب لکھ رہے تھے اور بڑی جلدی لکھنی تھی۔ اس کے باوجود اس کام کو چھوڑ دیا اور ان کی خدمت میں لگے رہے ۔ فرماتے ہیں یہ بڑے ثواب کا کام ہے۔ مومن کو ان کاموں میں سست اور بے پرواہ نہ ہونا چاہئے۔ مَیں نے بچوں کا ذکر کیا ہے۔عام خدمتگار عورتوں کی نسبت بھی آپؑ کا یہی رویہ ہے۔ کئی کئی دفعہ ایک آتی ہے اور مطلوبہ چیز مانگتی ہے اور پھر اس چیز کو مانگتی ہے۔ ایک دفعہ بھی آپ نہیں فرماتے کہ کمبخت کیوں دِق کرتی ہے جو کچھ لینا ہے ایک ہی دفعہ کیوں نہیں لے لیتی ۔ بار ہا مَیں نے دیکھا کہ اپنے اور دوسرے بچے آپ کی چارپائی پر بیٹھے ہیں اور آپ کو مضطرکرکے پائنتی پر بٹھا دیا ہے اور آپ بچپنے کی بولی میں مینڈک کوّے اور چڑیا کی کہانیاں سنا رہے ہیں اور گھنٹوں سنائے جا رہے ہیں اور حضرت ہیں کہ بڑے مزے سے سنے جا رہے ہیں ۔ گویا بچے کہانیاں اپنی اپنی زبان میں سنا ر ہے ہیں اور حضرت سن رہے ہیں ۔ گویا کہ مثنوی مُلّائے روم کوئی سنا رہاہے۔ حضرت بچوں کو مارنے اور ڈانٹنے کے سخت مخالف ہیں۔ بچے کیسے ہی بسوریں ، شوخی کریں ، سوال میں تنگ کریں، بے جا سوال کریں اور ایک موہوم اور غیر موجود شے کے لیے حد سے زیادہ اصرار کریں آپؑ نہ تو کبھی مارتے ہیں ، نہ جھڑکتے ہیں اور نہ کوئی خفگی کانشان ظاہر کرتے ہیں ۔
(سیرت حضرت مسیح موعودؑ مصنفہ حضرت مولانا عبد الکریم سیالکوٹی صاحبؓ صفحہ35-34 )
مَیں پہلے بھی ایک دفعہ کہہ چکا ہوں ۔ دوائیوں کا جہاں ذکر آیا تھا کہ ہمارے ڈاکٹروں کو یہ اسوہ اپنے سامنے رکھنا چاہئے۔ ان کا تو کام ہی مریضوں کو دیکھنا ہے، اور تو کوئی کام ہی نہیں ہے کہ وہ کام چھوڑ کر یہ کام کر رہے ہوں ۔ ان کو ہمیشہ مریضوں کے جذبات کا خیال رکھنا چاہئے اور خوش اخلاقی سے پیش آنا ایک ڈاکٹر کے لیے بہت ضروری ہے اور خاص طور پر واقفین زندگی ڈاکٹروں کے لیے کیونکہ آدھی بیماری مریض کی،مریض سے آرام سے بات کرنے سے دور ہو جاتی ہے۔ تو اس طرف بہت توجہ کی ضرورت ہے ۔
نازبردار سخی
بعض لوگ آپ کی ہمدردی اور رحمت کے جذبے سے فائدہ بھی بہت اٹھاتے تھے۔ حضرت یعقوب علی صاحب عرفانیؓ ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک منشی غلام محمد امرتسری اچھے کاتب تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ابتداء میں منشی امام الدین صاحب امرتسری سے کام لیا کرتے تھے۔ چنانچہ براہین احمدیہ کی پہلی تین جلدیں ، شحنہ حق اور سرمہ چشم آریہ وغیرہ اسی کی لکھی ہوئی ہیں ۔ اور آئینہ کمالات اسلام کا ایک بڑا حصہ بھی اسی نے لکھا ہے۔ مگر پھر آپ منشی غلام محمد صاحب سے کام لینے لگے۔ کہتے ہیں منشی غلام محمد صاحب بھی عجیب نخرے کیا کرتے تھے۔ مختلف طریقوں سے اپنی مقررہ تنخواہ سے زیادہ وصول کیا کرتے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ان باتوں کو سمجھتے تھے مگر ہنس کر خاموش رہتے تھے۔ کہتے ہیں کہ ایک روز مسجد میں ظہر کی نماز کے لیے تشریف لائے اور حضرت مسیح موعودؑ نماز کے بعدبیٹھ گئے آپؑ کا معمول یہی تھا کہ عام طور پر فرض پڑھ کر تشریف لے جاتے تھے مگر کبھی بیٹھ بھی جایا کرتے تھے۔ آپ نے ہنس اور خوب ہنس کر فرمایا کہ آج عجیب واقعہ ہوا ہے۔ مَیں لکھ رہا تھا تو منشی غلام محمد صاحب کابیٹا روتا اور چلّاتا ہوا بھاگا آیا اور پیچھے پیچھے منشی صاحب بھی جوتا ہاتھ میں لیے شور مچاتے ہوئے آئے کہ باہر نکلو مَیں تمہیں مار ڈالوں گا اور جان سے مار دوں گا اور یہ کر دوں گا۔ حضرت اقدسؑ یہ شور سن کر باہر نکلے، منشی صاحب سے پوچھا کہ کیا ہوا؟ منشی صاحب یہی کہتے جاتے تھے کہ نہیں آج مَیں نے اس کو مار دینا ہے۔ آخر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پوچھا بتاؤ تو سہی بات کیا ہو ئی ہے۔ تو اس نے کہا مَیں نے اس کو نیا جوتا لے کے دیا تھا وہ اس نے گم کر دیا ہے۔ تو حضور ؑنے ہنس کے فرمایا منشی صاحب اس پہ اتنا شور مچانے کی کیا ضرورت ہے جوتا مَیں خرید دوں گا۔اصل میں تو پتہ نہیں نیا جوتا لیا تھا کہ نہیں لیکن بچے کو نیا جوتا دلوانا تھا اس لیے اتنا شور مچایا تھا۔
لکھتے ہیں کہ ان کا بھی عجیب حال تھا تنخواہ کے علاوہ بھی خوراک وغیرہ کا خرچ بھی آپ دیتے، کھانا بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے گھر سے ہی کھاتے۔ پھر کپڑے اور سردی کے موسم میں بستر اور گرم کوٹ وغیرہ سب کچھ لیتے تھے۔ اس کے باوجود باتوں باتوں میں اس طرح کی باتیں کرکے زائد بھی لے لیا کرتے تھے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کبھی ناراض نہیں ہوتے تھے۔اور نہ اس کو علیحدہ کیا بلکہ ناز برداریاں ان کی برداشت کرتے رہے اور کام دیتے رہے۔
(سیرت حضرت مسیح موعودؑ از حضرت یعقوب علی صاحب عرفانیؓ صفحہ354-353)
غریبوں کے لیے رحم
حضرت مرزا بشیر ؓاحمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ ایک صاحب فقیر محمد صاحب بڑھئی تھے، انہوں نے بذریعہ تحریر مجھے بیان دیا کہ ہمارا زمینداری کا کام تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زمینوں پہ مزارع تھے۔ ایک دفعہ بارش بہت کم ہوئی، فصل خراب ہو گئی۔ دانے کھانے کے واسطے بھی بہت کم تھے۔ ادھر حضرت صاحب کے مختار حامد علی صاحب معاملہ لینے کے لیے آ گئے۔ سب آدمیوں نے مل کر عرض کی کہ دانے بہت کم ہیں معاملے کے واسطے اگر بیچ دئیے جائیں تو ہمارا کیا حال ہو گا۔ حامد علی صاحب نے جا کر، حضرت صاحب کی خدمت میں جا کر اسی طرح کہہ دیا۔ آپؑ نے فرمایا ‘‘اچھا اگلے سال معاملہ لے لینا اس وقت رحم کرو۔’’چنانچہ اگلے سال اس قدر فصل ہوئی کہ دونوں معاملے ادا ہو گئے۔ آپ غرباء پر بہت رحم فرمایا کرتے تھے۔
(سیرت المہدی جلد چہارم غیر مطبوعہ روایت نمبر 1311)
پس احمدی زمینداروں کو یہ یاد رکھنا چاہئے جس طرح کہ مَیں نے وقف جدید کے نئے سال کا جب اعلان کیا تو سندھ کے زمینداروں کو خاص طور پر خطبے میں کہا تھا کہ تھر کے جو غریب لوگ آتے ہیں ان کے لیے جذبہ رحم دل میں پیدا کریں ۔ ایک تو ان کو مزدوری پوری دیا کریں اور جس حد تک بہتر سلوک ان سے ہو سکتا ہے کرنا چاہیے۔ یہ بھی اس علاقے میں تبلیغ کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔
جانوروں پررحم
پھر صرف انسان ہی نہیں باقی مخلوق کے لیے بھی جذبہ رحم تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت پر عمل کرتے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی سب صفات کو اختیار کرنے کا سب سے بہترین نمونہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد قائم ہوا وہ آپؑ میں تھا۔
حضرت میاں بشیر احمد صاحب لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ میاں (یعنی حضرت خلیفۃ المسیح الثانی) دالان کے دروازے بند کرکے چڑیاں پکڑ رہے تھے کہ حضرت صاحب نے جمعہ کی نماز کے لیے باہر جاتے ہوئے ان کو دیکھ لیا اور فرمایا میاں گھر کی چڑیاں نہیں پکڑا کرتے۔ جس میں رحم نہیں اس میں ایمان نہیں ۔
(سیرت المہدی جلد اوّل روایت نمبر 178صفحہ176 جدید ایڈیشن )
تو جہاں آپؑ نے اس چڑیا پر رحم فرما یا وہاں بچوں کو بھی نصیحت فرما دی کہ اگر اپنے ایمانوں کو قائم رکھنا ہے تو دل میں جذبہ رحم بھی پیدا کرو۔
پھر حضرت میاں بشیر احمد صاحبؓ ہی بیان کرتے ہیں کہ ایک خواجہ عبدالرحمٰن صاحب کشمیر کے رہنے والے تھے۔ انہوں نے ان کو خط میں لکھا کہ ایک دفعہ بہت موٹا کتا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے گھر میں گھس آیا۔ اور ہم بچوں نے اسے دروازہ بند کرکے مارنا چاہا۔ لیکن جب کتّے نے شور مچایا تو حضرت صاحب کو بھی پتہ لگ گیا اور آپؑ ہم پر ناراض ہوئے چنانچہ ہم نے دروازہ کھول کر کتے کو چھوڑ دیا۔(سیرت المہدی جلد اوّل صفحہ 313 روایت نمبر 342 جدید ایڈیشن)کسی جانور پر بھی ظلم برداشت نہیں کر سکتے تھے ۔
ایک پردیسی کی بخشش کے لیے مقبول دعا
یہ ایک عجیب واقعہ ہے دیکھیں ایک غریب کے لیے جذبہ رحم اور ہمدردی کے تحت اللہ تعالیٰ کے حضوربخشش اور رحم کے لیے دعا کرنا۔
حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانیؓ بیان کرتے ہیں کہ اٹھارہ بیس برس کا ایک شخص نوجوان تھا۔ وہ بیمار ہوا اور اس کو آپ کے حضور کسی گاؤں سے اس کے رشتہ دار لے آئے اور وہ قادیان میں آپ کی خدمت میں آیا چند روز بیمار رہ کر وفات پا گیا صرف اس کی ضعیفہ والدہ ساتھ تھیں ۔ حضرت اقدسؑ نے حسب عادت شریفہ اس مرحوم کی نماز جنازہ پڑھائی۔ بعض کو بباعث لمبی لمبی دعاؤں کے نماز میں دیر لگنے کے چکر بھی آ گیا اور بعض گھبرا اٹھے ۔اتنی لمبی نماز جنازہ اس کی پڑھائی کہ جو پیچھے نماز پڑھ رہے تھے ان کو چکر آنے لگ گئے۔ بعد سلام کے فرمایا (سلام جب پھر گیا جنا زہ جب ختم ہوا) کہ وہ شخص جس کے جنازہ کی ہم نے اس وقت نماز پڑھی اس کے لیے ہم نے اتنی دعائیں کی ہیں اور ہم نے دعاؤں میں بس نہیں کی جب تک اس کو بہشت میں داخل کرا کے چلتا پھرتا نہ دیکھ لیا۔ تو یہ شخص بخشاگیا اور اس کو دفن کر دیا۔ رات کو اس لڑکے کی والدہ جو بہت بوڑھی تھیں۔ انہوں نے خواب میں دیکھا کہ وہ بہشت میں بڑے آرام سے ٹہل رہا ہے۔ اور اس نے کہا کہ حضرت کی دعا سے مجھے بخش دیا اور مجھ پر رحم فرمایا اور جنت میرا ٹھکانہ کیا۔
(تذکرۃ المہدی از پیر سراج الحق صاحب نعمانی ؓ حصہ اوّل صفحہ80)
لوگوں کوعذاب سے بچانے کے لیے بے چین دل
لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے قریب لانے اور حق کو پہچاننے اور ان کو عذاب سے بچانے کے لیے آپ کا جذبہ ہمدردی اور رحم بھی سب کچھ بڑھا ہوا تھا۔ اس بارے میں یہاں ایک مثال سے واضح ہوتا ہے۔
حضرت یعقوب علی صاحب عرفانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت مخدوم الملت مولانا مولوی عبدالکریم صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک مرتبہ بیان کیا کہ بیت الدعا کے اوپر میرا حجرہ تھا۔ اور مَیں اس کو بطرزبیت الدعا استعمال کیا کرتا تھا۔ اس میں سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حالت دعا میں گریہ وزاری کو سنتا تھا۔ اس کے ساتھ ہی حجرہ تھا۔ کہتے ہیں کہ جب حضور وہاں دعا کیا کرتے تھے نماز پڑھا کرتے تھے تو مَیں حضور کی گریہ و زاری کو سنتا تھا۔ آپ کی آواز میں اس قدر درد اور سوزش تھی کہ سننے والے کا پتہ پانی ہوتا تھا اور آپ اس طرح آستانہ الٰہی پر گریہ و زاری کرتے تھے جیسے کوئی عورت دردِ زہ سے بے قرار ہو۔ وہ فرماتے تھے کہ مَیں نے غور سے سنا تو آپ مخلوق الٰہی کے لیے طاعون کے عذاب سے بچنے کے لیے دعا کرتے تھے۔ (ان دنوں میں طاعون کے دن تھے) مخلوق الٰہی کے لیے طاعون کے عذاب سے بچنے کے لیے دعا کرتے تھے کہ الٰہی اگر یہ لوگ طاعون کے عذاب سے ہلاک ہو جائیں گے تو پھر تیری عبادت کون کرے گا۔
یہ خلاصہ اور مضمون حضرت مخدوم الملت کی روایت کا ہے۔ اس سے پایا جاتا ہے کہ باوجودیکہ طاعون کا عذاب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تکذیب اور انکار ہی کے باعث آیا۔ مگر آپ مخلوق کی ہدایت اور ہمدردی کے لیے اس قدر حریص تھے کہ اس عذاب کے اٹھائے جانے کے لیے باوجودیکہ دشمنوں اور مخالفوں کی ایک جماعت موجود تھی رات کی سنسان اور تاریک گہرائیوں میں رو رو کر دعائیں کرتے تھے ایسے وقت جبکہ مخلوق اپنے آرام میں سوتی تھی یہ جاگتے تھے او ر روتے تھے، القصہ آپ کی ہمدردی اور شفقت علی خلق اللہ اپنے ر نگ میں بے نظیر تھی۔
(سیرت حضرت مسیح موعودؑ از حضرت یعقوب علی صاحب عرفانیؓ صفحہ429-428)
تو یہ ہے ہمدردی مخلوق اور اس کے لیے رحم کی حالت طاری کرنا۔ اللہ تعالیٰ نشان دکھا رہا ہے تاکہ آپ کی سچائی کو ثابت کرے اور آپؑ فرما رہے ہیں کہ ان کو عذاب سے بچا لے اور سچائی کی پہچان ان کے دلوں میں ڈال دے۔ تو یہ ہے اپنے آقا کے نمونے پر عمل، جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگوں نے زخمی کیا، تو پہاڑ کے فرشتوں نے جب کہا ہم پہاڑ گرا دیں تو آپ نے فرمایا نہیں ، انہی میں سے عبادت گزار لوگ پیدا ہوں گے۔ آپؐ نے ان کے لیے دعا بھی کی۔
اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی روحانی حالت سدھارنے کے لیے کس قدررحم ا ور ہمدردی کا جذبہ آپ میں تھا، اس کا اظہار آپ کے اس اقتباس سے بھی ہوتا ہے۔
آپ فرماتے ہیں :‘‘ اللّٰہ جلّشانہٗ خوب جانتا ہے کہ مَیں اپنے دعویٰ میں صادق ہوں ، نہ مفتری ہوں ، نہ دجّال، نہ کذّاب۔ اس زمانہ میں کذّاب اور دجّال اور مفتری پہلے اِس سے کچھ تھوڑے نہیں تھے تا خداتعالیٰ صدی کے سر پر بھی بجائے ایک مجدّد کے جو اس کی طرف سے مبعوث ہو ایک دجّال کو قائم کرکے اور بھی فتنہ اور فساد ڈال دیتا۔ مگر جو لوگ سچائی کو نہ سمجھیں اور حقیقت کو دریافت نہ کریں اور تکفیر کی طرف دوڑیں مَیں ان کا کیا علاج کروں ۔ مَیں اس بیمار دار کی طرح جو اپنے عزیز بیمار کے غم میں مبتلا ہوتا ہے ’’ایسا تیمار دار مریض کی تیمارداری کرنے والا جو اپنے عزیز بیمار کے غم میں مبتلا ہوتا ہے ‘‘اس ناشناس قوم کے لیے سخت اندوہ گین ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اے قادر ذوالجلال خدا، اے ہادی اور رہنما اِن لوگوں کی آنکھیں کھول اور آپ ان کو بصیرت بخش اور آپ ان کے دلوں کو سچّائی اور راستی کا الہام بخش اور یقین رکھتا ہوں کہ میری دعائیں خطا نہیں جائیں گی۔ کیونکہ مَیں اُس کی طرف سے ہوں اور اُس کی طرف بلاتا ہوں ۔ یہ سچ ہے کہ اگر مَیں اُس کی طرف سے نہیں ہوں اور ایک مفتری ہوں تو وہ بڑے عذاب سے مجھ کو ہلاک کرے گا کیونکہ وہ مفتری کو کبھی وہ عزت نہیں دیتا کہ جو صادق کو دی جاتی ہے’’۔
(آئینہ کمالات اسلام ،روحانی خزائن جلد نمبر 5صفحہ 324 )
اپنے شعر میں ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
گالیاں سن کے دعا دیتا ہوں ان لوگوں کو
رحم ہے جوش میں اور غیظ گھٹایا ہم نے
(آئینہ کمالات اسلام ،روحانی خزائن جلد نمبر 5 صفحہ 225 مطبوعہ ربوہ)
پھر ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو راہ راست پرلانے اور عذاب سے بچانے کے لیے آپؑ فرماتے ہیں کہ: ‘‘اکثر دلوں پر حُبّ دنیا کا گرد بیٹھا ہوا ہے۔ خدا اس گرد کو اٹھاوے، خدا اس ظلمت کو دور کرے، دنیا بہت ہی بے وفا اور انسان بہت ہی بے بنیاد ہے۔ مگر غفلت کی سخت تاریکیوں نے اکثر لوگوں کو اصلیت کے سمجھنے سے محروم رکھا ہے …… خداوند کریم سے یہی تمنا ہے کہ اپنے عاجز بندوں کی کامل طور پر دستگیری کرے اور جیسے انہوں نے اپنے گزشتہ زمانہ میں طرح طرح کے زخم اٹھائے ہیں ویسا ہی ان کو مرہم عطا فرماوے اور ان کو ذلیل و رسوا کرے جنہوں نے نور کو تاریکی اور تاریکی کو نور سمجھ لیا ہے اور جن کی شوخی حد سے زیادہ بڑھ گئی اور نیز ان لوگوں کو بھی نادم اور منفعل کرے ( شرمندہ کرے) جنہوں نے حضرت احدیت کی توجہ کو جو عین اپنے وقت پر ہوئی غنیمت نہیں سمجھا۔ (یعنی حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کا آنا)اور اس کا شکر ادا نہیں کیا بلکہ جاہلوں کی طرح شک میں پڑے ۔ سو اگر اس عاجز کی فریادیں رب العرش تک پہنچ گئی ہیں تو وہ زمانہ کچھ دور نہیں جو نور محمدیؐ اس زمانہ کے اندھوں پر ظاہر ہو اور الٰہی طاقتیں عجائبات دکھلاویں ۔’’
(مکتوبات احمد جلد اوّل صفحہ 512-513 مکتوب نمبر 5 بنام میر عباس علی صاحب محررہ 9؍فروری1883ء جدید ایڈیشن)
عام مخلوق کے لیے آپؑ کا جذبہ ہمدردی انتہائی بڑھا ہوا تھا لیکن جو لوگ آنکھیں رکھتے ہوئے اندھے ہوں ، جو لو گ روشنی دیکھ کر اسے تاریکی کہیں ،جو علم رکھتے ہوئے جاہلوں کی طرح ضد کریں اور عوام الناس کو بھی اندھیروں میں لے جا رہے ہوں ، ان کے لیے تو دعا نہیں نکلتی۔ اعلیٰ کے لیے ادنیٰ کو قربان کرنا پڑتا ہے۔ تو یہ بھی جذبہ رحم اور ہمدری کی وجہ سے تھا کہ جو آپ نے ان کے لیے بددعا کی۔ بے شک آپ نے یہ بددعا تو کی لیکن یہ حد سے بڑھے ہوؤں کے لیے بددعا تھی۔ اور یہ دعا مخلوق کی اکثریت سے ہمدردی کے جذبے کی وجہ سے تھی، ان پر رحم کھاتے ہوئے تھی۔ اللہ تعالیٰ نے یقیناً آپؑ کی دعاؤں کو قبولیت کا درجہ دیا ہے۔سعید روحیں روز ہم دیکھتے ہیں سلسلے میں داخل ہوتی ہیں ، جن پر اللہ تعالیٰ اپنا فضل فرماتا ہے اور نور محمدیؐ دنیا میں پھیل رہا ہے۔ آج ہم مسیح محمدیؐ کے غلاموں کا بھی کام ہے کہ آپ کی دعاؤں کو اپنی دعاؤں میں شامل کریں اور آپؑ کی دعاؤں سے بھی حصہ لیں ۔ آپؑ کی تعلیم کو اپنے عملوں پر لاگو کرتے ہوئے مخلوق خدا سے جذبہ ہمدردی کے تحت اس پیغام کو بھی لوگوں تک پہنچائیں اور اپنی دعاؤں کو اپنی استعدادوں کے مطابق زیادہ سے زیادہ کریں تاکہ جس نور محمد ؐکو پھیلانے کے لیے اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مبعوث ہوئے تھے، اس میں ہم بھی نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰہِ کا نعرہ لگاتے ہوئے شامل ہو جائیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔’’
(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل لندن مورخہ 23 فروری تا یکم مارچ 2007ء ص 5تا 8)،(خطبات مسرور جلد 5 سال 2007صفحہ: 43تا 56)
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
‘‘اس زمانےمیںآنحضرت ؐکے غلام صادق نے ہمارے سامنے اعلیٰ خُلق کے کیا نمونے پیش فرمائے ان میں سے چند ایک کا مَیں ذکر کرتا ہوں ۔ سب سے پہلے تویہ کہ گھر کے سکون کے لیے اس صفت کے اظہار کی آپؑ نے کس طرح تلقین فرمائی۔ عورتوں کے ساتھ حسن معاشرت کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ:
‘‘فحشاء کے سوا باقی تمام کج خلقیاں اور تلخیاں عورتوں کی برداشت کرنی چاہئیں ۔’’
اور فرمایا کہ:‘‘ ہمیں تو کمال بے شرمی معلوم ہوتی ہے کہ مرد ہو کر عورت سے جنگ کریں ۔ ہم کو خدا نے مرد بنایا ہے اور درحقیقت یہ ہم پر اتمام نعمت ہے۔ اس کاشکر یہ ہے کہ ہم عورتوں سے لطف اور نرمی کا برتاؤ کریں ۔’’
ایک د فعہ ایک دوست کی درشت مزاجی اور بدزبانی کا ذکر ہوا اور شکایت ہوئی کہ وہ اپنی بیوی سے سختی سے پیش آتا ہے۔ حضور ؑاس بات پر بہت رنجیدہ خاطر ہوئے اور فرمایا کہ:
‘‘ہمارے احباب کو ایسا نہ ہونا چاہئے۔’’ اور پھر بہت دیر تک آپؑ نے عورتوں کے ساتھ سلوک پر نصیحتیں فرمائیں ۔
( ملفوظات جلد اول ۔صفحہ307 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
٭…٭…٭