امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مجلس خدام الاحمدیہ امریکہ کے نارتھ ویسٹ ریجن کے ایک وفد کی ملاقات

اگر خلیفۂ وقت اس کے بارے میں ایک فیصلہ دے دے کہ نہیں یہی صحیح ہے اور اس میں کوئی اختلاف نہیں اور یہ ثبوت دے دے کہ یہ میرے argumentsہیں، یہ proof ہیں اور یہ اس کی logic ہے کہ کیوں مَیں اس کو مانتا ہوں تو پھر بہتر یہی ہے کہ اس کو مانا جائے
مورخہ١٦؍ فروری ۲۰۲۵ء کو امام جماعتِ احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مجلس خدام الاحمدیہ امریکہ کے نارتھ ویسٹ ریجن کے چھبیس٢٦ رکنی وفد کو شرفِ ملاقات حاصل ہوا۔ یہ ملاقات اسلام آباد (ٹِلفورڈ) میں منعقد ہوئی۔ مذکورہ وفد نے خصوصی طور پر اس ملاقات میں شرکت کی غرض سے امریکہ سے برطانیہ کا سفر کیا۔
جب حضورِ انور مجلس میں رونق افروز ہوئے تو آپ نےتمام شاملینِ مجلس کو السلام علیکم کا تحفہ عنایت فرمایا۔
سب سے پہلے حضورِ انور نے امیر قافلہ سے مخاطب ہوتے ہوئے اس وفد کی بابت دریافت فرمایا تو نائب صدر صاحب مجلس خدام الاحمدیہ امریکہ نے اس ارشاد کی تعمیل میں حضورِ انور کی خدمتِ اقدس میں اس وفد کا مختصر تعارف پیش کیا۔
بعدازاں حضورِ انور نے ہر خادم سے انفرادی گفتگو فرمائی اور ان سے ان کے تعلیمی و خاندانی پسِ منظر اور پیشہ جات وغیرہ کی بابت بھی دریافت فرمایا۔
یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ چونکہ اس ریجن میں زیادہ تر خدام سیلیکون ویلی (Silicon Valley) کے گردونواح میں مقیم ہیں اس لیے شاملینِ مجلس کی ایک بڑی تعداد ٹیکنالوجی کے شعبے سے وابستہ تھی۔ اسی طرح ان میں ایک نَومبائع خادم بھی شامل تھے۔
یاد رہے کہ سیلیکون ویلی امریکہ کی ریاست کیلیفورنیا کا ایک مشہور علاقہ ہے جو دنیا بھر میں ٹیکنالوجی اور جدید تخلیقاتی کمپنیوں کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔ یہاں متعدد بڑی ٹیکنالوجی کمپنیاں جیسے گوگل، ایپل، فیس بُک اور ٹیسلا کے ہیڈکوارٹرز واقع ہیں۔ اس علاقے کا نام سیلیکون اس کے اندر موجود سیمی کنڈکٹر انڈسٹری سے آیا ہے کیونکہ سیلیکون ویلی میں زیادہ تر کمپنیاں چِپ بنانے والی ٹیکنالوجی پر کام کرتی ہیں۔ یہ علاقہ دنیا کے سب سے اہم تکنیکی اور کاروباری مراکز میں شمار ہوتا ہے۔ سیمی کنڈکٹرز میں عام طور پر سیلیکون (Silicon) اور جرمینیم (Germanium) جیسے مادے شامل ہیں۔ یہ مادے برقی آلات، جیسے ٹرانزسٹرز، چِپس اور مائیکرو پروسیسرز میں استعمال ہوتے ہیں۔
تعارف کے بعد شرکائے مجلس کو حضورِ انور کی خدمتِ اقدس میں متفرق سوالات کرنے اور ان کے جواب کی روشنی میں بیش قیمت اور بصیرت افروز راہنمائی حاصل کرنے کا زرّیں موقع میسر آیا۔
ایک شریکِ مجلس نے راہنمائی طلب کی کہ ہم احمدی مسلمان اپنے خاندانوں میں تنازعات کو کس طرح حل کر سکتے ہیں اور ایسے جھگڑوں کے بڑھ جانے سے کیسے بچ سکتے ہیں جو ہمارے تعلقات میں دراڑ ڈال سکتے اور رشتہ داروں کے درمیان دُوری پیدا کر سکتے ہیں؟
اس پر حضورِ انور نے نصیحت فرمائی کہ بطورِ احمدی آپ کو ایک دوسرے سے لڑائی نہیں کرنی چاہیے۔ کوئی جھگڑا نہیں ہونا چاہیے۔ اگر کسی معاملہ میں اختلاف ہے تو اسے دوستانہ طریقے سے حل کرنے کی کوشش کریں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے ایک شعر میں فرماتے ہیں کہ
بد تر بنو ہر ایک سے اپنے خیال میں
شاید اسی سے دخل ہو دارالوصال میں
یعنی اپنے دل اور ذہن میں انکساری پیدا کرنے کی کوشش کرو، شاید یہ تمہارے جنّت میں داخل ہونے یا اللہ کے قریب تر ہونے کے واسطے ممد و معاون ہو۔
حضورِ انور نے توجہ دلائی کہ اللہ کے قریب ہونا یہ ایک حقیقی مومن کا سب سے بڑا مقصد ہونا چاہیے۔ لڑائیاں تو ختم کرنی چاہئیں اور لڑائیاں نہیں ہونی چاہئیں۔ یہ سب چھوٹی چھوٹی غیر اہم باتیں ہوتی ہیں، ایسا کوئی بڑا اختلافی مسئلہ نہیں ہوتا، اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں فرماتا ہے کہ رُحَمَآءُ بَیۡنَھُمۡ یعنی عاجزی اور آپس میں محبّت کا سلوک کرنے اور ایک دوسرے کا خیال رکھنے والے بنو۔ اگر اس کی کوشش کرو گے تو سب ٹھیک رہے گا۔
ایک خادم نے عرض کیا کہ آجکل کے دَور میں جہاں اخراجات بڑھتے چلے جا رہے ہیں اور آمدنی اس شرح سے نہیں بڑھتی، کیا یہ بہتر ہے کہ ہم مہنگے علاقے میں مسجد کے قریب رہیں، لیکن مسجد کو زیادہ وقت نہ دے سکیں یا ہم دُور چلے جائیں اور ہمارے پاس دین کو سیکھنے اور بچوں کی تربیت کرنے کے لیے زیادہ وقت میسر ہو؟
اس پر حضورِ انور نے استفہامیہ انداز میں دریافت فرمایا کہ کتنا دُور چلے جائیں گے، کیا آپ جنگل میں جا کر بیٹھ جائیں گے؟جس پر خادم نے عرض کیا کہ مسجد سے تقریباً ایک گھنٹہ دُور۔
یہ سماعت فرما کر حضورِ انور نے توجہ دلائی کہ وہاں سے اگر آپ مسجد میں آنا afford کر سکتے ہیں، جمعہ والے دن یا ویک اینڈز پر کلاسز ہوتی ہیں یا دیگر پروگرام جو بچوں، خدام یا انصار کے ہوتے ہیں، ان میں آ سکتے ہیں تو تب ٹھیک ہے تو آپ وہاں رہ سکتے ہیں۔
اسی طرح حضورِانور نے مزید توجہ دلائی کہ یہ دیکھ لیں آپ کی جاب کس جگہ پر ہے۔ وہاں سے آپ کا کرایہ کتنا لگتا ہے، ٹرانسپورٹ کا خرچ کتنا ہے، اگر afford کر سکتے ہیں تو دُور رہ لیں، لیکن پھر مسجد سے contact میں رہیں اور اگر نہیں تو پھر قریب رہ کے تو سارا دن آپ پیسے کمانے پر لگے رہیں گے کہ مَیں نے house rent دینا ہے یا mortgage دینی ہے، اس کے لیے مجھے پیسے چاہئیں تو پھر اس کا فائدہ کوئی نہیں ہے۔
حضورِ انور نے آخر میں تجویز فرمایا کہ سو بہتر ہے کہ پرے چلے جاؤ۔ تو یہ تو خود decide کریں۔ نیز اس بات کی اہمیت پر زور دیا کہ اصل مقصد یہ ہونا چاہیے کہ ہم نے خود بھی اور اپنے بچوں کو بھی سینٹر، مرکز اور مسجد سے in touch رکھنا ہے۔
حضورِ انور کی خدمتِ اقدس میں ایک سوال یہ پیش کیا گیا کہ مختلف خلفاء بعض اوقات کچھ تاریخی یا فروعی امور پر اختلاف رائے رکھتے ہیں اور بعض اوقات جماعت کے علماء یا دیگر احمدی بھی اختلافی آرا رکھتے ہیں ۔ کیا خلیفۂ وقت کی کسی رائے سے اختلافِ رائے رکھنا نافرمانی کے زمرے میں آتا ہے؟
حضورِ انور نے اس سوال کا تفصیلی جواب عطا فرماتے ہوئے سمجھایا کہ دیکھو! تاریخی باتوں کے مختلف ریفرنس ہیں، کسی نے ایک کتاب پڑھی تو وہ کہے گا کہ میرا یہ point of view ہے، جس نے دوسری تاریخ کی کتاب پڑھی تو وہ کہے گا کہ میرا یہ point of view ہے۔ اس لیے تاریخی باتوں پر یا بعض نظریات میں اختلاف ہو سکتے ہیں۔ لیکن اگر خلیفۂ وقت اس کے بارے میں ایک فیصلہ دے دے کہ نہیں یہی صحیح ہے اور اس میں کوئی اختلاف نہیں اور یہ ثبوت دے دے کہ یہ میرے argumentsہیں، یہ proof ہیں اور یہ اس کی logic ہے کہ کیوں مَیں اس کو مانتا ہوں تو پھر بہتر یہی ہے کہ اس کو مانا جائے۔
حضورِ انور نے مثال کے ذریعے مزید سمجھایا کہ اب کل ہی مَیں نے خطبہ میں مختلف بیان پیش کیے تھے ۔ مَیں نے ایک point of view بیان کر دیا اور پھر اس کے متعلق مَیں نے کہا کہ یہ ایک point of view ہے جس کو اتنی تاریخ کی کتابوں نے لکھا ہوا ہے لیکن اس کو دماغ ماننے کو تیار نہیں ہوتا کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ expectنہیں کیا جا سکتا کہ وہ ایسے behave کریں گے۔ اس لیے اس کا یہ اصل analysis ہے تو اگر اس کا کسی کے پاس proof ہے تو دے۔
حضورِانور نے سوال کے نفسِ مضمون کی روشنی میں اس امر کی جانب بھی توجہ مبذول کرائی کہ اگر کسی کے پاس رائے ہے تو وہ خلیفۂ وقت کو لکھ کے دے بجائے اس کو جماعت میں پھیلانے کے کہ میری یہ رائے ہے اور خلیفۂ وقت نے غلط کہا ہے۔ اس سے فتنہ پیدا ہوتا ہے۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ اگر کسی کے پاس کوئی رائے ہو تو وہ خلیفۂ وقت کو لکھے کہ یہ میری رائے ہے اور یہ میرے ثبوت ہیں، اگر وہ (یعنی خلیفۂ وقت ) کہے کہ ہاں! تمہاری رائے ٹھیک ہے اور یہ بھی point of view ہو سکتا ہے۔ پھر تو اچھا اور بہتر ہے۔ اگر خلیفۂ وقت کہے کہ نہیں! تم نے غلط کہا ہے اور اس کی یہ یہ دلیل میرے پاس ہے تو پھر خاموشی سے اس کو مان لو۔
حضورِ انور نے اس تناظر میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمد صاحب رضی اللہ عنہ کے مقام و مرتبہ اور خلیفۂ وقت کی رائے کے سامنے اپنی رائے کو ترک کرنے کے حوالے سے بیان فرمایا کہ آپؓ بڑے اچھے historian اور عالم نیز حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے بیٹے بھی تھے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ بہت ساری باتوں میں میرا ایک نظریہ ہوتا تھا اور مَیں حضرت خلیفةالمسیح الثانی رضی اللہ عنہ سے اختلاف کرتا تھا اور مَیں اپنی رائے ان کو لکھ کر بھیجتا تھا تو وہ کہتے تھے کہ نہیں! اس کی یہ دلیل ہے تو پھر مَیں اس کے ردّ میں دوبارہ لکھ دیتا تھا، تیسری دفعہ جب وہ لکھتے تھے کہ نہیں، یہ میری رائے ہے اور تمہاری کوئی رائے ماننے کے قابل نہیں، تو آپ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مَیں اس کے بعد اپنے دماغ سے اپنی رائے کو بالکل نکال دیتا تھا اور مَیں کہتا تھا کہ جو خلیفة المسیح کی رائے ہے وہی رائے میری ہے اور اس کے بعد مَیں سکون میں آ جاتا تھا۔ تو پھر مَیں نے کبھی اعتراض بھی نہیں کیا یا میرے دل میں خیال بھی نہیں آیا کہ میری اپنی رائے کیا ہے؟ تب وہی point of view ہے جو خلیفہ وقت کا ہے۔
آخر میں حضورِ انور نے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ کے اس پاکیزہ اور قابلِ تقلید نمونے اور طرزِ فکر کو اپنانے کی بابت تلقین کرتے ہوئے تاکید فرمائی، تو یہ سوچ ہونی چاہیے اور اسی سے پھر جماعت کی اکائی بھی قائم رہتی ہے۔
[قارئین کی معلومات کے لیے تحریر کیا جاتا ہے کہ اس سوال کے جواب میں حضورِ انور نے اپنے جس خطبہ کے تناظر میں ایک واقعہ کی بابت مختلف نقطہ ہائے نظر بیان کرنے کا تذکر فرمایا ہے، وہ خطبہ جمعہ ارشاد فرمودہ مورخہ ١٤؍ فرورى٢٠٢٥ء ہے، جس میں حضور انور نے غزوۂ خیبر میں حاصل ہونے والی فتوحات کا ذکر کرتے ہوئے دو یہودیوں کنانہ اور ربیع کے قتل کے حوالے سے تاریخی روایات کا بصیرت افروز محاکمہ فرمایا تھا۔
اس کی مختصر تفصیل یہ تھی کہ تاریخ و سیرت کی کُتب میں مذکور ہے کہ خیبر کی فتح کے بعد جب مسلمانوں اور یہود میں معاہدہ ہوگیا تو لوگ کنانہ اور اس کے بھائی ربیع کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے کر آئے۔ کنانہ پورے خیبر کا رئیس تھا اور حضرت صفیہؓ کا خاوند تھا اور ربیع اس کا چچا زاد بھائی تھا۔ کنانہ کے پاس یہودی قبیلہ بنو نظیر کے سردار حیّ بن اخطب کا خزانہ تھا جس میں سونے چاندی کے زیورات وغیرہ تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں سے اُس خزانے کے متعلق استفسار فرمایا، ان دونوں نے انکار کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم دونوں نے مجھ سے کچھ چھپایا اور وہ بعد میں ظاہر ہوگیا تو تم پر اللہ اور اس کے رسول کا کوئی ذمہ نہ ہوگا۔
تاریخ و سیرت کی کُتب کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بعد ایک صحابی کو کچھ نشانیاں بتا کر بھیجا اور وہ صحابی یہ خزانہ لے آئے، جس کی قیمت دس ہزار دینار لگائی گئی اور ان دونوں کنانہ اور ربیع کو قتل کردیا گیا۔ بعض روایات میں کنانہ کو چقماق کے پتھروں سے آگ دیے جانے کا بھی ذکر ہے۔
حضورِانور نے اس واقعے کی مختلف روایات کو بیان کرنے کے بعد ان پر مجموعی تبصرہ کرتے ہوئےاس واقعے کو خلافِ حقیقت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت سے بعید قرار دیا۔
نیز فرمایا کہ یہاں بھی اعتراض کرنے والوں نے اسلام اور آنحضرت ؐکی ذاتِ مبارک پر اعتراض کیے ہیں گویا آپؐ کو مال و دولت کی حرص تھی۔ پھر یہ بھی ظاہر کرنا چاہا ہے کہ آپؐ نعوذ باللہ! کس کس طرح کے ظلم رَوا رکھنے سے بھی گریز نہ کرتے تھے۔آپؐ کی زندگی تو کھلی کتاب کی طرح ہے۔ آپؐ تو جنگ سے پہلے یہ ہدایت دیتے تھے کہ کسی بچے کسی عورت کو قتل نہ کرنا حتیٰ کہ کسی درخت کو بھی بےسبب نہ کاٹا جائے۔ جو جانوروں کو بھی تکلیف میں نہیں دیکھ سکتے وہ انسانوں پر کیسے ظلم کر سکتے ہیں؟
اسی طرح مالِ غنیمت کے لیے جنگ کرنا بھی آپؐ پر ایک بے سر وپا اعتراض ہے۔خیبر تو وہ جنگ تھی جس پر روانہ ہونے سے پہلے ہی آپؐ نے یہ اعلان فرمادیا تھا کہ جو مال و دولت کی طمع کی وجہ سے جنگ پر جانا چاہے وہ ہمارے ساتھ نہ آئے۔
جس نبی ؐکا اُسوہ یہ ہو اُس کے متعلق اگر ایسی کوئی روایت سامنے آئے تو انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ اسے بغور دیکھا جائے، اس کی تطبیق اور توجیہ کی کوشش کی جائے۔ آپؐ جو عدل و انصاف کے پیکر اور علم بردار تھے آپؐ سے اس طرح کا فعل منسوب کرنا کسی طرح قرینِِ انصاف نہیں۔(روزنامہ الفضل انٹرنیشنل ١٧؍فروری ٢٠٢٥)]
پھر ایک خادم نے دریافت کیا کہ نئے شادی شدہ جوڑے کو بچے پیدا کرنے میں کتنا انتظار کرنا چاہیے؟
حضورِ انور نے اس کا جواب دیتے ہوئے واضح فرمایا کہ مَیں اس نظریہ کے خلاف ہوں کہ بچے پیدا کرنے کے لیے آپ کو انتظار کرنا چاہیے۔ جونہی آپ کی شادی ہو فیملی بنانے کی کوشش کرنی چاہیے تا کہ آپ کو اپنی ذمہ داریوں کا علم ہوسکے۔ جب آپ باپ بنو گے تو آپ کو سمجھ آئے گی کہ اب مَیں باپ بن گیا ہوں اور یہ میری ذمہ داریاں ہیں اور مَیں نے ان کو پورا کرنا ہے۔
آخر میں حضورِ انور نے اسلامی تعلیم کو یاد دلاتے ہوئے اس بات کی اہمیت پر زور دیا کہ اور اسلام کی تعلیم بھی یہی ہے کہ شادی کرائی ہے تو فیملی بناؤ اور اپنی نسل کو آگے بڑھاتے ہوئے اچھے احمدی بناؤ!
ایک سائل نے حضورِ انور کی خدمتِ اقدس میں عرض کی کہ سائنسی ترقی کے ساتھ مصنوعی اعضا اور کمپیوٹر تیار کیے جارہے ہیں تا کہ معذور افراد اپنے خیالات کے ذریعے آلات کو کنٹرول کر سکیں جن کو مستقبل میں انسانی ذہانت کو بڑھانے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے، نیز راہنمائی کی درخواست کی کہ اسلامی نقطۂ نظر سے کیا مصنوعی ذہانت (AI) کے ذریعہ انسانی ذہن کو بہتر بنانا جائز ہو گا یا یہ اسلامی تعلیمات کے خلاف سمجھا جائے گا؟
اس پر حضورِ انور نے ہدایت فرمائی کہ اگر مصنوعی ذہانت (AI) آپ کے کاموں میں مدد کر رہی ہے تو ٹھیک ہے لیکن اگر یہ آپ کو اپنی بنیادی تعلیم سے پرے ہٹا رہی ہے تو پھر اس کو استعمال نہ کریں۔ حضورِ انور نے واضح فرمایا کہ بصورتِ دیگر اگر آپ کا کوئی ایسا ذہن ہے جیسا کہ بعض کے ذہن اتنے اچھے نہیں ہوتے کہ ہر مسئلے کو solveکر لیں تو اے آئی آپ کی اسی طرح مدد کر رہا ہے جس طرح آپ نے کسی کام کے لیے کسی اور سے مدد لے لی ہو۔
اے آئی تو وہی چیز ہے کہ جو اس میں فیڈ کیا گیا ہے۔ بعض دفعہ اے آئی کے ایکسپرٹ لوگ بھی یہی کہتے ہیں کہ اس میں آپ ایک چیز کے لیے سوال کرتے ہیں تو یہ اس کا آپ کو جواب دیتی ہے حالانکہ جواب صحیح نہ بھی ہو لیکن آپ اس کو مان لیتے ہیں کہ اے آئی نے بتایا ہے۔
حضورِ انور نے آخر میں اپنی اوّل الذکر فرمودہ نصیحت کا اعادہ فرمایا کہ اگر اے آئی آپ کو دین سے پَرے لے کر جا رہی ہے تو اس کو ماننے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ہاں! اگر بہتری اور انسان کی مدد کے لیے ضرورت ہے تو اسے استعمال کر سکتے ہیں اور اس سے مدد لینے میں کوئی ہرج نہیں۔
ایک سائل نے عرض کیا آجکل کے نوجوان لڑکے باڈی بلڈنگ کرتے ہیں اور اس کے ساتھ پروٹین اور steroidsوغیرہ جیسی چیزیں لیتے ہیں، نیز اس کے بارے میں حضورِ انور کی رائے جاننے کی درخواست کی۔
حضورِ انور نے اس پر فرمایا کہ illegal سٹیرائڈز تو ویسے ہی نہیں لینے چاہئیں، وہ تو ویسے ہی منع ہیں۔ آپ جب اولمپکس یا کہیں اور competition میں جاتے ہیں تو وہاں وہ پہلے ہی چیک کرتے ہیں کہ جنہوں نے یہ لیے ہوئے ہیں، انہیں وہ کہتے ہیں کہ باہر نکال دو اور پھر ان پر کیس بھی ہو جاتے ہیں۔ اور اگر کسی کا نہ پتا لگے اور وہ competition میں کسی پوزیشن پر آ جائے اور پرائز لے لے تو اس کا وہ پرائز بعد میں واپس لے لیا جاتا ہے اور اس کا سارا رزلٹ بدل دیا جاتا ہے بلکہ سب کچھ ہی revertہو جاتا ہے۔
حضورِ انور نے اس بات پر زور دیا کہ جس چیز کو دنیا بھی illegalکہتی ہے وہ تو illegalہے۔
نیز حضورِ انور نے توجہ دلائی کہ جو اپنی طاقت ہے اس کے مطابق سب کچھ کرنا چاہیے۔ باڈی بلڈنگ کر کے تو آپ نے جسم کو طاقت ور بنانا ہے کہ جسم صحت مند ہو، یہ steroids وغیرہ لے کے تو آپ اپنے جسم کو کمزور کر رہے ہوتے ہیں اور ایک سٹیج پر جا کے ایک مخصوص عمر کے بعد اس کے منفی اثرات مرتب ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور اس کے side effects شروع ہو جاتے ہیں۔ پھر وہ بھی body کے اوپر منفی اثر ڈالتے ہیں۔ اس لیے steroids استعمال نہیں ہونے چاہئیں۔
آخر میں حضورِ انور نے دوبارہ اس امر کی جانب توجہ مبذول کروائی کہ جتنی طاقت ہے اتنا اس کا استعمال کرو۔ اگر باقاعدہ exercise اور باڈی بلڈنگ کر رہے ہیں اور آہستہ آہستہ وزن ایک کلو سے دس کلو تک اُٹھاتے چلے جائیں گے تو ٹھیک ہے، body اس کو اپنے آپ اس کے مطابق ایڈجسٹ کر رہی ہو گی۔ لیکن یہ کہنا کہ مجھے محسوس نہ ہو اور مَیں دوائیاں لے کے وزن اُٹھا لوں تو پھر اس کا فائدہ کیا ہے؟
آخر پر حضورِ انور نے مسکراتے ہوئے تبصرہ فرمایا کہ اولمپک میں تو آپ نے جیتنا کوئی نہیں، وہاں تو پرائز ملنا کوئی نہیں، صرف یہ کہنا کہ اپنے ساتھی پر رعب ڈالنے کے لیے ایسا کرنا ہے تو ایک عمر کے بعد آ کے اپنی صحت خود خراب کرو گے تو اس کا کیا فائدہ ہے؟
[قارئین کی معلومات کے لیے تحریر کیا جاتا ہے کہ سٹیرائڈز خاص قسم کے کیمیائی مرکبات ہوتے ہیں جو جسم میں ہارمونز پر اثرانداز ہوتے ہیں اور کچھ سٹیرائیڈز دواؤں میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔
قابلِ توجہ امر یہ ہے کہ اگرچہ سٹیرائڈز کے طبّی فوائد ہیں، لیکن ان کا غیر ضروری استعمال سنگین ترین نقصانات سے دوچار کر سکتا ہے اور انسان کو جگر کی خرابی، ہائی بلڈ پریشر اور ہارمونل عدم توازن اور مختلف قسم کے نفسیاتی مسائل جیسے کہ مزاج میں غیر معمولی تبدیلی اور غیر ضروری غصّے وغیرہ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔]
ایک شریکِ مجلس نے استفسار کیا کہ روبوٹکس (robotics) اور اے آئی (AI)جیسی ٹیکنالوجیز اور معاشرے پر ان کے اثرات پر حضورِ انور کا نقطۂ نظر کیا ہے اور آپ کے خیال میں ان میں سے کون سی ٹیکنالوجیز ہمارے لیے بہترین ہیں اور جن پر کام کرنا معاشرے پر سب سے زیادہ مثبت اثر ڈال سکتا ہے؟
اس پر حضورِ انور نے فرمایا کہ کوئی بھی ٹیکنالوجی جو انسانوں کے لیے فائدہ مند اور اچھی ہو چاہے وہ اے آئی ہو یا روبوٹکس ہو۔
اسی طرح روبوٹکس کی بابت واضح فرمایا کہ روبوٹکس کیا ہے؟ اس سے آپ کو مدد ملتی ہے اور اب تو بہت سے ایسے ڈاکٹر ہیں جو روبوٹ کی مدد سے آپریشن کر رہے ہیں۔
اسی طرح حضورِ انور نے سوال کے نفسِ مضمون کی روشنی میں اس امر کو بھی باور کرایا کہ اور مَیں سمجھتا ہوں کہ اگرچہ یہ اے آئی اور روبوٹ آپ کی مدد کر رہے ہیں لیکن یہ آپ کے دماغ کی ذہنی صلاحیت کو بھی کم کر سکتے ہیں اور ذہانت کا معیار گر سکتا ہے کیونکہ آپ اے آئی پر بھروسا کر رہے ہیں۔ اس لیے آپ اے آئی اور روبوٹ سے مدد تو لے سکتے ہیں مگر ان پر مکمل طور پر اعتبار نہ کریں۔مَیں تو یہی کہتا ہوں۔
[یاد رہے کہ روبوٹکس (robotics) ایک ایسا شعبہ ہے جس میں ایسی خودکار مشینیں (روبوٹس) بنائی جاتی ہیں جو کہ انسانی کام آسان بنا سکیں۔ یہ روبوٹس فیکٹریوں، گھروں، ہسپتالوں اور دیگر جگہوں پر مختلف کام انجام دینے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ روبوٹکس میں کمپیوٹر، الیکٹرانکس اور میکینکل ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جاتا ہے تاکہ مشینیں خود سے یا دیے گئے احکامات پر عمل کرتے ہوئے کام کر سکیں۔]
حضورِ انور کی خدمتِ اقدس میں پیش کیا جانے والا آخری سوال یہ تھا کہ ایک شخص کس طرح اللہ پر توکّل اور بھرپور کوششیں جاری رکھنے کے درمیان توازن قائم کر سکتا ہے؟
اس پر حضورِ انور نے راہنمائی فرمائی کہ اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ جو بھی تمہارے پاس وسائل ہیں، جو تمہاری انسانی صلاحیتیں اور ذرائع ہیں، انہیں بہترین طریقے سے استعمال کرو اور جب تم اپنی پوری کوشش کر چکو، تو پھر معاملہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دو۔
حضورِ انور نے ایک طالبعلم کی عمومی مثال دیتے ہوئے سمجھایا کہ ایک سٹوڈنٹ ہے، اس کو سٹڈی کرنی چاہیے اور اچھی طرح محنت کرے، پڑھے، سمجھے اور جو اس کی صلاحیتیں ہیں، ان کو پوری طرح استعمال کرے، پھر اللہ پر معاملہ چھوڑ دے۔ یہ نہیں ہے کہ اس نے کورس پڑھا تو آدھا ہے، جس کا پچاس فیصد بھی اس نے coverنہیں کیا اور کہہ دے کہ مَیں اللہ میاں پربھروسا کرتا ہوں، معاملہ چھوڑتا ہوں اور توکّل کرتا ہوں تو یہ اللہ میاں پر توکّل نہیں ہے۔
حضورِ انور نے سیرت النبیؐ کی روشنی میں حقیقی توکّل کے مضمون پر روشنی ڈالتے ہوئے بیان فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی ملنے آیا۔ وہ ایک اونٹ پر بیٹھ کے آیا تھا اور اونٹ کو باہر چھوڑ کے مسجد نبوی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر بیٹھ گیا اور باتیں وغیرہ کرنے لگا۔ پھر واپس گیا تو دیکھا کہ اونٹ غائب تھا تو کہنے لگا کہ میرا اونٹ وہاں سے غائب یا چوری ہو گیا ہے یا کوئی لے گیا ہے، آخر میرا اونٹ کہاں گیا ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے اس کو باندھا تھا؟ اس نے کہا کہ نہیں! مَیں باندھ کے تو نہیں آیا تھا بلکہ مَیں تو کھلا ہی چھوڑ کے آ گیا تھا، کیونکہ مَیں نے اللہ پر توکّل کیا تھا۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ توکّل نہیں ہے بلکہ اصل توکّل تو یہ ہے کہ پہلے تم اس کو باندھتے اور پھر یہ کہتے کہ جو ظاہری علاج ہو سکتا تھا یا جو سبب بن سکتا تھا، وہ مَیں نے کر لیا اور اب مَیں اللہ پر چھوڑتا ہوں تو پھر یہ توکّل ہے۔
آخر میں حضورِانور نے ایک مرتبہ پھر اس بات پر زور دیا کہ توکّل یہ ہے کہ جتنی عقل، potential، صلاحیتیں اور سہولیات آپ کے پاس ہیں، ان کو پوری طرح استعمال کرو، تو پھر معاملہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دو۔ یہ نہیں ہے کہ آدھے میں کام چھوڑ دو اور کہہ دو کہ سب اللہ میاں کرے گا۔ اللہ کہتا ہے کہ پہلے خود تدبیر کرو اور پھر معاملہ مجھ پر چھوڑ دو۔
آخر پر تمام حاضرینِ مجلس کو از راہِ شفقت حضورِ انور کے ہمراہ گروپ تصویر بنوانے کی سعادت بھی حاصل ہوئی۔ اور یوں یہ ملاقات بفضلہ تعالیٰ بخیر و خوبی انجام پذیر ہوئی۔
٭…٭…٭