حضرت مصلح موعود ؓ

جلسہ سالانہ قادیان کے حوالے سےحضرت مصلح موعود ؓکی بعض ہدایات

(خطبہ جمعہ فرمودہ 18؍دسمبر 1925ء)

تشہد،تعوذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:

چند ہی دنوں میں ایک اَور نشان ظاہر ہونے والا ہے اور دنیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت کا ایک اور نشان دیکھنے والی ہے اللہ تعالیٰ نےچاہا ہے کہ اس نشان کے ذریعہ بھی لوگوں کی آنکھوں کو کھولے اور یہ نشان ایک ہفتہ تک ان شاء اللہ ظاہر ہوگا۔یہ قادیان کا وہ سالانہ اجتماع ہے جسے جلسہ سالانہ کہا جاتا ہے اور جس کی بنیاد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خود رکھی اور جس کے متعلق آپ کی پیش گوئی ہے کہ یہ ترقی کرے گا اور کثرت سے لوگ اس میں شامل ہوا کریں گے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس اجتماع کے متعلق بطور خبر فرمایا تھا

زمین قادیاں اب محترم ہے

ہجوم خلق سے ارض حرم ہے

پس یہ وہ اجتماع ہےجس سے قادیان کی زمین پر اس کثرت سے لوگ آئیں گے جس کثرت سے مکہ مکرمہ آتے ہیں اور یہ کہ ہر سال کثرت سے لوگ آیا کریں گے۔چنانچہ ہم ہر سال دیکھ رہے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی یہ بتائی ہوئی خبر جو بطور پیش گوئی ہے ہر لحظہ بڑی صفائی سے پوری ہو رہی ہے اور آئندہ بھی پوری ہوتی رہے گی ۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وقت بڑی سے بڑی تعداد جلسے پر آنے والوں کی سات سو (700)ہی رہی تھی۔لیکن اب جس کثرت سے لوگ اس موقع پر آتے ہیں اس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ درحقیقت یہ اس زمانہ کے لیے خبر تھی اور ایک پیش گوئی تھی جسے پورا ہوتے ہوئے ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔

اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام خدا تعالیٰ کی طرف سے نہ ہوتے اور اگر یہ خبر جوحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جلسے کے متعلق دی خدا کی طرف سے نہ ہوتی تو ضرور تھا کہ بانیٔ سلسلہ کے بعد اس میں ضعف پیدا ہو جاتا لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اس میں کوئی ایسی بات پیدا نہیں ہو رہی جو کمی پر دلالت کرے بلکہ اس میں ہر لحظہ ترقی ہو رہی ہے ۔جو بتاتی ہےکہ یہ خبرخداکی طرف سے تھی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی خدا کی طرف سے تھے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے آخری جلسہ میں جس کے بعد آپؑ فوت ہو گئے۔جلسہ پر آنے والوں کی تعداد سات سو تھی لیکن اب خدا کے فضل سے بارہ تیرہ ہزار تک آدمی آتے ہیں ۔بلکہ بعض وقت تو ان کی تعداد چودہ ہزار تک بھی پہنچ جاتی ہے جو اس تعداد سے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وقت میں تھی دس گنا سے بھی زیادہ ہے۔کیا ا س قدر ہجوم کو دیکھ کر جو صرف خدا کی خاطر یہاں آتا ہے۔کوئی کہہ سکتا ہے کہ قادیان میں حرم کی طرح ہجوم کے متعلق جو پیش گوئی ہے وہ پوری نہیں ہو رہی۔ایک شخص واقعات سے منہ پھیر کر اور آنکھیں بند کر کے یہ کہہ دے کہ جلسہ پر آنے والوں کی تعداد میں کوئی اضافہ نہیں ہو رہا تو الگ بات ہے ورنہ یہ واقعات ایسے کھلے کھلے ہیں کہ کوئی ان سے انکار نہیں کر سکتا۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پیش ازوقت اس جلسہ کے متعلق خبر دی کہ اس میں کثرت سے لوگ آیا کریں گے اورسب دیکھتے ہیں کہ ہر سال آنے والوں میں ترقی ہو رہی ہے اس سے ماننا پڑتاہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی یہ پیش گوئی ہر سال ہمارے ایمان کو تازہ کرنے کے لیے پوری ہوتی ہے اور ہر سال اپنی صداقت کا پھل دیتی ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اس پیش گوئی کی مثال جو ہر سال پوری ہو کر پھل دے رہی ہے۔اس شخص کی طرح ہے جو بہت بوڑھاتھا مگر درخت لگا رہا تھا ۔ درخت لگاتے ہوئے اسے ایک بادشاہ نے دیکھا اور اسے کہا درخت تو کئی سال کے بعد پھل لاتا ہے اور تم بوڑھے ہو۔اس کا پھل تو تم نہیں کھا سکو گے پھر اسے کیوں بوتے ہو کم از کم یہ دس پندرہ سال کے بعد پھل لانے کے قابل ہوگا اور اس وقت شائد تم قبر میں ہو گے۔بوڑھے باغبان نے جواب دیا۔بادشاہ سلامت ہمارے بڑوں نے درخت لگائے۔ تو ہم نے پھل کھائے۔ اب ہم لگاتے ہیں تا ہماری اولاد پھل کھائے۔ہمارے باپ دادا اگر یہ خیال کرکے کہ ہم کو پھل کھانا نصیب نہ ہوگا درخت نہ لگاتے۔تو پھر ہم ان کا پھل کس طرح کھا سکتے اسی طرح ہم بھی آنے والی نسل کے لیے لگاتے ہیں۔بادشاہ کو یہ بات بہت پسند آئی۔اس نے کہا۔ ‘‘کیا خوب’’اور اس کا حکم تھا کہ جب وہ کسی بات پر کہے ‘‘کیاخوب’’تو وزیرچار ہزار درہم کی ایک تھیلی اس شخص کو دے جس کی بات پر بادشاہ ایسا کہے۔چنانچہ بوڑھے کی اس بات پر وزیر نے چار ہزار درہم کی تھیلی اس کو دے دی۔اس پر بوڑھے نے پھر کہا۔اے بادشاہ آپ کہتے تھےتمہیں اس درخت کا پھل کھانا نصیب نہیںہوگا مگر دیکھیے لوگوں کو تو درخت لگا کر پھل کے لیے کئی سال انتظار کرنی پڑتی ہے مگر میرے درخت نے لگاتے لگاتے پھل دے دیاہے۔اس پر پھر بادشاہ نے کہا ‘‘کیا خوب’’اور وزیر نے ایک اور تھیلی چار ہزار درہم کی نکال کر اس کو دے دی۔پھر اس نے کہا بادشاہ سلامت اور درخت تو سال میں ایک دفعہ پھل لاتے ہیں مگر میرا درخت لگاتے ساتھ ہی دو دفعہ پھل لایا۔اس پر پھر بادشاہ نے کہا کیا خوب اور وزیر نے ایک اور تھیلی اسے دے دی۔اس پر بادشاہ نے کہا۔کہ چلو۔نہیں تو یہ بوڑھا اپنی باتوں سے ہمیں لوٹ لے گا۔

(مجانی الادب فی حدائق العرب جزو ثانی صفحہ 164)

پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو درخت لگایا اسے بھی اسی قسم کی بلکہ اس سے بڑھ چڑھ کر برکت ملی۔اس کا درخت تو دو یا تین بار پھل لا کر رہ گیا لیکن حضرت مسیح موعودؑ کا لگایا ہوا درخت ہر سال پھل لا رہا ہے اور کثرت سے لا رہا ہے۔ پس جن لوگوں کے دلوں کی آنکھیں اس بادشاہ کی طرح کھلی ہیں۔ وہ جانیں گے کہ اس کی حقیقت کیا ہے ۔ورنہ نادان تو ان باتوں سے آنکھیں بند کر کے چلا جاتا ہے۔

دنیا میں کئی عرس ہوتے ہیں۔بڑے بڑے بزرگوں کی قبروں پر عرس اور میلے لگتے ہیں۔ان میں لوگ کثرت سے جاتے ہیں مگر یہ عرس اور یہ میلے اس قسم کے دینی اجتماع کے برابر نہیں ہو سکتے۔جیسا کہ ہمارا جلسہ ہے۔یہ سچ ہے کہ ان عرسوں اور میلوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے قائم کردہ اجتماع سے کوئی نسبت نہیں کیونکہ ان عرسوں کے متعلق کسی نے پہلے نہیں کہا کہ ان میں اس قسم کی ترقی ہوگی لیکن ہمارے سالانہ جلسہ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پہلے ہی سے بتا دیا تھا کہ دینی اغراض کے لیے قادیان میں اس موقع پر اس کثرت سے لوگ آیا کریںگے کہ ان کے اس ہجوم سے جو صرف دین کی خاطر ہوگا قادیان کی زمین ارض حرم کا نام پائےگی۔

دیکھو وہ شخص جو شیکسپئر کے کلام کی مقبولیت کو دیکھ کر اسے قرآن کریم کے بالمقابل کھڑا کرنے کی کوشش کرے۔وہ بھی نادان ہوگا بے شک شیکسپئر کو علم کلام میں جو درجہ حاصل ہے۔ وہ کسی کو نہیں۔علم ادب میں وہ اس حد تک ترقی کر گیا تھا کہ اس کی نقل کو بھی اب امر موہوم خیال کرتے ہیں اور اگر کوئی شخص اس کی نقل کی کوشش کرے تو اسے مجنون کہتے ہیں لیکن باوجود اس کے کوئی نہیں کہہ سکتا کہ شیکسپئر کا کلام قرآن کریم کے برابر ہے یا شیکسپئر خود آنحضرتﷺ جیسا درجہ رکھتا ہے جس طرح عرب کے فصحاء اور بلغاء قرآن کریم کی مثل نہیں لا سکتے۔اسی طرح انگریزوں نے بھی مانا ہے کہ شیکسپئر کے کلام کی کوئی مثل نہیں لا سکتا مگر کیا اس سے وہ آنحضرتﷺ کے برابر ہو گیا ہر گز نہیں کیوں؟اس لیے کہ آنحضرت ﷺ نے جب اس کلام کو پیش کیا تو ساتھ ہی کہہ دیا کہ یہ وہ کلام ہے جس کی کوئی نظیر نہیں لا سکے گا۔ اور نہ ہی اس کی کوئی مثل لا سکتا ہے ۔لیکن شیکسپئر نے یہ نہیں کہا۔اسے تو معلوم ہی نہیں تھا کہ اس کے کلام میں اس قسم کی خوبیاں ہیں کہ اس قدر مقبول ہوگا بلکہ اسے توخوف رہتا تھا کہ میرا کلام شاید قبول بھی ہو یا نہ۔پس شیکسپئر کا کمال اتفاقی تھا مگر آنحضرتﷺ کا دعویٰ تحدی کے ساتھ تھا۔شیکسپئر کے کلام کی قدر اس کے بعد ہوئی اور اس کے بعد ہی یہ کہا گیا کہ اس کی نقل کرنا امرموہوم ہےیا جنون۔لیکن آنحضرتﷺ کی زندگی میںہی لوگ باوجود ادیب ہونے اور اس بات کی کوشش کرنے کے کہ اس کی مثل اور نظیر لائیں۔اس کی مثل اور نظیر نہ لا سکے۔اسی طرح ہمارے اس جلسہ کا حال ہے دوسرے عرسوں کے متعلق کسی نے پہلے اس قسم کی کوئی خبر نہیں دی کہ یہ ترقی کریں گے لیکن ہمارے جلسہ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خدا سے خبر پا کر پہلے ہی اطلاع دے دی تھی کہ یہ ہر لحظہ ترقی کرتا چلا جائے گا اور ہر سال اس میں آنے والوں کی تعداد میں زیادتی ہوتی رہے گی۔عرسوں میں اگر کوئی ترقی ہوئی تووہ اتفاقی طور پر ہوئی۔مگر ہمارے جلسہ کو جو ترقی ہو رہی ہے وہ بطور پیش گوئی کے ہے۔پس عرسوں کے ساتھ اس کی کوئی مناسبت نہیں۔

اسی طرح اگر چار پانچ شخص اکٹھے دوڑیں۔تو ان دوڑنے والوں میں سے کوئی نہ کوئی تو آگے نکلے گا ۔بے شک ان دوڑنے والوں میں سے آگے نکل جانے والے کا کمال ہے لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اسے پہلے ہی معلوم تھا کہ میں آگے نکل جاؤںگا اور اس نے پہلے ہی بتادیا تھاکہ ایسا ہوگا۔ہاں اگر کوئی لولا یا لنگڑ ا یہ کہے کہ آؤ میرے ساتھ دوڑو۔تم میں سے کوئی نہیں جو مجھ سے آگے نکل جائے اور فی الواقع اس دوڑ کا نتیجہ یہی ہو کہ اس سے کوئی آگے نہ نکل سکے تو اسے معجزہ قرار دینا پڑے گا اور یہ ماننا پڑےگا کہ یہ ایک نشان ہے ایسا ہی کسی زبان کے مصنفوں میں سے اگر کوئی مصنف سب سے بڑھ جائے تو بے شک یہ اس کا کمال ہوگا لیکن اس کے کمال کے مقابلہ میں کچھ حیثیت نہیں رکھتا۔جو ایک کلام کے متعلق پہلے ہی کہہ دے کہ کوئی شخص اس کی نظیر نہیں لا سکتا اور فی الواقع اگر کوئی اس کی نظیر نہ لا سکے تو وہ معجزہ ہو جائے گا۔یہی حال قرآن کریم کی تحدی کاہے۔قرآن کریم نے پہلے کہہ دیا کہ میری کوئی نظیر نہیں لا سکتا اور آنحضرتﷺ نے جب اسے پیش کیا تو ساتھ ہی فرما دیا کہ اس کلام کی کوئی مثل نہیں لا سکے گا اور ایسا ہی ہوا اور اس وجہ سے یہ ایک معجزہ ہے لیکن شیکسپئر یا کسی اور مصنف کے کلام کو یہ درجہ حاصل نہیں۔ شیکسپئر نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ میرے کلام کی کوئی مثل اور نظیر نہیں لا سکے گا۔بلکہ اسے تو پتہ ہی نہ تھا کہ اس کا کلام مقبول بھی ہوگا یا نہیں۔اسی طرح عام میلے اور عرس جو بعض بزرگوں کی جگہوں پر ہوتے ہیں یا اور جلسے ۔ ان کے متعلق کسی قسم کی کوئی خبر پہلے نہیں دی گئی اور کوئی ایسی پیش گوئی ان کے متعلق کسی کی طرف سے نہیں کی گئی کہ یہ ترقی کریں گے ۔لیکن ہمارے جلسہ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیش گوئیاں ہیں کہ یہ ترقی کرے گا اور اس میں اس کثرت سے لوگ جمع ہوںگے۔جس طرح کہ مکہ مکرمہ میں جمع ہوتے ہیں ۔جس طرح وہاں جمع ہونے والوں کی غرض دین ہوتی ہے۔اسی طرح یہاں آنے والوں کی غرض بھی محض دین ہوتی ہے اس وجہ سے یہ ایک بہت بڑا نشان ہے جس سے ہر سال ایمان تازہ ہوتا ہے۔

یہ اس لیے نشان ہے کہ اس کے ترقی کرنے کے متعلق پہلے ہی سے اطلاع دی گئی تھی ۔ اسی طرح قادیان کی ہر وہ چیز جو سلسلہ احمدیہ کے متعلق ہے نشان ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پہلے بتا دیا تھا کہ قادیان ترقی کرے گا اور بڑھے گا۔پس یہاں کی ہر ایک چیز اور ہر ایک آدمی اک نشان ہے۔قادیان میں جو لوگ مکان بناتے ہیں وہ بھی نشان ہیں کیونکہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیش گوئی کےپورا ہونے میں حصہ لیتے ہیں۔

پس میں ان لوگوں سے جنھیں قادیان میں مکان بنانے کی توفیق خدا تعالیٰ نے دی ہے کہتا ہوں۔کہ انہیں چاہیے کہ وہ اپنے مکانات کو حقیقی نشان بنانے کی کوشش کریں اور وہ اس طرح کہ دینی ضروریات کے لیے جس قدر حصہ دے سکتے ہوں دیں۔ یوں تو قادیان میں ہندو بھی مکان بناتے ہیں سکھ بھی بناتے ہیں غیر احمدی بھی بناتے ہیں مگر ان کے مکان اس پیش گوئی کے مصداق نہیں ہو سکتے۔جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے قادیان کی ترقی کے متعلق فرمائی ہیں۔کیونکہ وہ سلسلہ کے کام نہیں آتے بلکہ ان میں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مخالفت کی جاتی ہے۔پس حقیقی طور پر اس پیش گوئی کے مصداق وہی مکان ہو سکتے ہیں جن میں آپ کی تصدیق ہو اور آپ کے اغراض ومقاصد کے لیے استعمال کیے جا سکیں اور سالانہ جلسہ ایک موقع ہے جس میں مکان بنانے والے اصحاب اچھی طرح اس نشان اور پیش گوئی کے مصداق اپنے مکانوں کو بنا سکتے ہیں۔جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے قادیان کی ترقی کے لیے کی ۔ پس میں تمام ایسے احمدیوں کو جنھیں قادیان میں مکان بنانے کی خدا تعالیٰ نے توفیق دی ہے کہتا ہوں کہ وہ جس قدربھی حصہ اپنے مکانوں سے مہمانوں کے لیے دے سکتے ہوں کارکنان کو دے دیں تاکہ وہ مہمانوں کو ان میں ٹھہرائیں۔ اس طرح وہ اس پیش گوئی کو خود بھی پورا کرنے والے ہوں گے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کی۔پس دوستوں کو چاہیے کہ جس قدر حصہ مکان وہ فارغ کر سکتے ہیںکر دیں اور اس کی اطلاع کارکنان کو جلدسے جلد دے دیں۔

دوسری نصیحت میں یہ کرنی چاہتا ہوں کہ ایسے موقع پر صرف مکان دے دینے سے کام نہیں چل سکتا۔جب تک ایسے آدمی نہ ہوں جو کارکنوں کے ساتھ بطور مددگار کام نہ کریں۔پس جو دوست اپنے کام سے فارغ ہو سکتے ہیں سوائے دکان داروں کے ان کو چاہیےکہ وہ اپنی خدمات اس موقع پر پیش کر دیں۔پھر مختلف صیغوں میں کام کرنے والوں کو بھی چاہیے کہ سوائے اس صیغہ کے آدمیوں کے جنھیں ان دنوں ضروری طور پر اپنے کام پر رہنا پڑتا ہے۔باقی سب مہمان نوازی میں حصہ لیں۔میں پیشہ وروں کو بھی ان میں شامل سمجھتا ہوں اور ان سے بھی یہ کہتا ہوں کہ وہ بھی اس کام کے لیے اپنے آپ کو پیش کریں اور کارکنوں کی مدد کریں۔
دکان دار اور پیشہ وروں میں فرق ہے۔پیشہ ور نے تو ان دنوں میں بھی وہی معمولی تین چار روپے کمانے ہوتے ہیں جو عام طور پر کمایا کرتا ہے۔لیکن دکان دار نے ان دنوں اپنے سال کی کمائی کرنی ہوتی ہے۔پس پیشہ وروں کو چاہیے کہ کچھ وقت شمولیت جلسہ میں دیں اور کچھ وقت جلسہ کے کام میں لگائیں۔ کچھ وقت خداتعالیٰ کے لیے بھی وقف کرنا چاہیے۔کام تو ہر روز کرتے ہی ہیں مگر سال کے بعد یہ تین چار دن ایسے آتے ہیںجن میں اگر خدا ان کو توفیق دے تو اپنے کام کے سوا دوسرا کام کرنا پڑتا ہے۔ پس انہیں چاہیےکہ اس ثواب سے محروم نہ رہیں۔آخر باہر سے تاجر بھی آتے ہیں۔زمیندار بھی آتے ہیں۔ پیشہ ور بھی آتے ہیں۔وہ اپنے کام چھوڑ کر ہی آتے ہیں۔پھر کیا وجہ ہے کہ قادیان یا اس کے ارد گرد کے زمیندار اپنے کام کو ان کے لیے نہ چھوڑیں اور قادیان کے پیشہ ور مہمان کی خدمت کرنے کے لیے اپنا وقت صرف نہ کریں۔ میں سوائے تاجروں کے سب سے کہتا ہوں کہ وہ اپنے آپ کو اس کام کے لیے پیش کریں۔

تیسری بات جو مَیںکہنی چاہتا ہوں وہ اخراجات کے متعلق ہے جلسہ کے موقع پر ہر ایک شخص کو کوشش کرنی چاہیے کہ وہ اسی طرح کام کرے۔جس سے اخراجات بے جا نہ ہوں۔دس بیس مہمان جہاں آ جائیں وہاں لوگ گھبرا جاتے ہیں تو جس جگہ تیرہ چودہ ہزار آ جائیں۔وہاں گھبرا جا نا کوئی بڑی بات نہیں۔لیکن اگر ایک انتظام کے ماتحت کام کیا جائے تو تیرہ چودہ ہزار کیا اس سےدو چند بھی آدمی اگر آ جائیںتو بھی کسی قسم کی گھبراہٹ پیدا نہیںہو سکتی۔بڑی بات جو اس موقع پر مد نظر رکھنی چاہیےوہ اقتصاد ہے۔ عام انتظام کے علاوہ اقتصادی پہلو کو بڑی احتیاط سے مد نظر رکھنا چاہیے کیونکہ بعض اوقات انسان زیادہ کام کی گھبراہٹ میں اقتصادی پہلو کو خاطر خواہ طورپر مد نظر نہیں رکھ سکتا اور بعض دفعہ تو حالا ت ہی کچھ ایسے پیدا ہو جاتے ہیں کہ اسے اقتصادی پہلو کو مد نظر رکھ کر کام کرنا مشکل ہو جاتا ہے اس لیے میں یہ کہنا چاہتاہوں کہ خاص طور پر کوشش کی جائے کہ اقتصادی پہلو ہاتھ سے نہ نکلے۔اس وقت مالی تنگی بڑھی ہوئی ہےیہاں تک کہ کارکنوں کو تین تین چار چار ماہ کی تنخواہیں نہیں ملیں اور بعض کو تو عملاً فاقے آ رہے ہیں۔اب اگر اقتصادی پہلو کو مد نظر نہ رکھا گیا اور اخراجات کے متعلق احتیاط نہ کی گئی تو یہ تنگی اور بھی بڑھ جائے گی۔ چونکہ جلسہ کے اخراجات ناگہانی طور پر پڑتے ہیں اور ان دنوں مالی تنگی اور بھی بڑھ جاتی ہے اس لیے اگر اخراجات میں کفایت اور اشیاء کی احتیاط کی طرف توجہ نہ کی جائے۔تو اخراجات بڑھنے کے ساتھ مالی تنگی اور بھی بڑھ جاتی ہے۔پس جلسہ میں کام کرنے والوں کو خصوصاً اور دوسرے لوگوں کو عمومًا کہتا ہوں کہ وہ اس بات کو مد نظر رکھیں کہ چیزیں ضائع نہ ہوں۔

پھر جن دوستوں کے گھروں پر بعض لوگ ٹھہریں۔ ان کا یہ اہم فرض ہے کہ وہ اس بات کو پورے غورکے ساتھ مد نظررکھیں اور جتنے آدمی ہوں اتنے آدمیوں کا ہی کھانا لیں۔تا ایسا نہ ہو وہ ضرورت سے زیادہ کھانا لے لیں جو ضائع ہو۔اس بات کو پہلے ہی خوب غور سے دیکھ لو کہ کتنے آدمی ہیں اور کتنا کھانا ان کے لیے ضروری ہے۔پس جتنے کی ضرورت ہواتنا ہی لیا جائے۔

پھر ایک اور طریق بھی ہے جس سے کھانا ضائع ہونے سے بچ جاتا ہے اور وہ یہ کہ اگر پچاس آدمی ہوں اور ان کو الگ الگ کھانا کھلایا جائے تو اس طرح بہت ضائع ہو جاتا ہے اور خود ان کوبھی پورا نہیں ہوتا لیکن اگر ان کو اکٹھا کھانے کے لیے بٹھا دیا جائے۔تو تیس آدمی کا کھانا بھی پچاس آدمیوں کو کفایت کر سکتا ہے۔ الگ کھلانے سے بہت نقصان ہو سکتا ہے اسی طرح اگر سارے جلسے میں یہ انتظام قائم رکھا جائے کہ سب کو اکٹھا کھانا کھلایا جائے تو بہت سی بچت ہو سکتی ہے۔اگر الگ الگ ہی کھلایا جائے تو چار پانچ ہزار روپیہ کا نقصان ہو سکتا ہے۔

بعض دفعہ کھانا کھلانے والے اس خیال سے کہ ہمیں تکلیف نہ ہو اس بات کا خیال نہیںکرتے بلکہ وہ دیکھتے ہیں کہ ہمیں تکلیف کس طرح کم ہوتی ہے۔حالانکہ دیکھنا یہ چاہیےکہ نقصان کس طرح کم ہوسکتا ہے۔پس ان کو چاہیے کہ وہ ایسے موقعوں پر تکلیف تو برداشت کر لیں بلکہ اگر کوئی ہتک آمیز سلوک بھی ہو تو بھی سہ لیں لیکن کوئی ایسی بات نہ کریں جن سے نقصان ہو اور پریشانی پھیلے۔پس میں امید کرتا ہوں کہ وہ ہر طریق سے اس بات کی کوشش کریں گے کہ کوئی ایسی بات نہ ہو جس سے نقصان ہو اور مالی تنگی اور بھی بڑھے۔
پھر میں یہ بھی امید کرتا ہوں کہ علاوہ ان باتوں کے وہ آنے والوں کے ساتھ اخلاق اور محبت سے پیش آئیںگے۔کیونکہ میزبانی خدا کی نعمتوں اور رحمتوں کو بڑھانے کا ذریعہ ہے۔خدا کی محبت پیدا کرنے کا ذریعہ ہے۔ایمان کے بڑھانے کا ذریعہ ہے۔صوفیاء لکھتے ہیں ہر انسان خدا کا مہمان ہے اور بعض نے تو اس بات میں اتنا غلو کیا ہے کہ جو اس مقام پر پہنچ جائے کہ اسے یہ نظر آ جائے کہ خدا میزبان ہے اور ہم اس کے مہمان ۔تو وہ کسب معیشت کو ترک کر دے۔

محی الدین ابن عربی ؒکے ایک استاد تھے وہ کسب معیشت نہیں کیا کرتے تھے ۔ایک دن ایک شخص نے کہا کہ حضرت آپ اتنے بزرگ ہیں لیکن کسب معیشت نہیں کرتےحالانکہ معیشت کے سامان مہیا کرنا فرض ہے۔فرمانے لگے ہم خدا کے مہمان ہیں اور یہ اس کی ہتک ہے کہ ہم اس کے مہمان ہو کر خود کھانے پینے کا انتظام کریں۔اس شخص نے کہا ۔حدیث میں آیا ہے کہ مہمان تین دن کے لیے ہوتا ہے۔اس پر انہوں نے فرمایا۔بے شک یہ دن اگر ہوتے ۔تو ہماری مہمانی ختم ہو جاتی لیکن خدا کے ہاں دس ہزار سال بلکہ پچاس ہزارسال کا دن ہے۔جب میری عمر ڈیڑھ لاکھ برس کی ہو جائے گی تو اعتراض کرنا۔

میرا مطلب اس سے یہ ہے کہ انہوں نے خدا کی حیثیت میزبان کی اور انسان کی حیثیت مہمان کی قرار دی ہے۔ پس میزبانی معمولی چیز نہیں۔بلکہ بہت اعلیٰ شے ہے اور اس لیے اعلیٰ ہے کہ اس میں خدا کی صفت کی جھلک ہے کیونکہ خدا بھی میزبان ہے۔اللہ تعالیٰ جب دیکھتا ہے کہ میرے بندے نے جب اپنے محدود سامانوں سے میزبانی کی ہے تو میں جو کہ غیر محدود سامانوں والا ہوں۔میں کیوں نہ اس کی میزبانی کروں۔پس یہ ایک نہایت اعلیٰ اور عمدہ شے ہے۔جس سے خدا مہربان ہوتا ہے اور اس کی رحمت جوش میں آتی ہے۔اس لیے میں قادیان والوں کو اورخاص کر جلسہ میں کام کرنے والوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ پورے طور پر میزبان بنیں اور خدمت اور تواضع کے علاوہ محبت اور اخلاق سے آنے والوں کے ساتھ پیش آئیں۔

پس یہ ایک نہایت ہی بابرکت کام ہے یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کی بھی ایک حیثیت مہمان نوازی کی ہے۔یہی وجہ ہے کہ نبوت کے کمالات میں سے مہمان کی خاطر بھی رکھی گئی ہے۔آنحضرتﷺ پر جب پہلے پہل کلام اترا اور آپؐ کو سخت اضطراب اور گھبراہٹ پیدا ہوئی۔تو حضرت خدیجہ رضی اللّٰہ عنھا نے کہا۔آپ مہمانو ں کی خدمت کرنے والے ہیں کس طرح ہو سکتا ہے کہ خدا آپ کو ضائع کرے پس چونکہ مہمان نوازی کمالات نبوت کا ایک حصہ ہےبلکہ خدا کی شانوں میں سے ایک شان ہے اس لیے اگر اس کو ادا کرتے ہوئے کوئی تکلیف بھی ہو یا بظاہر کوئی ہتک بھی ہو توبھی اس میں کمی نہیں کرنی چاہیے۔کیونکہ یہاں آنے والے صرف مہمان ہی نہیں۔بلکہ شعائر اللہ بھی ہیں اور

وَمَنْ یُّعَظِّمْ شَعَائِرَ اللّٰہِ فَاِنَّھَا مِنْ تَقْوَی القُلُوْبُ (الحج:33)

کے ماتحت شعائر اللہ کا اعزاز و اکرام کرنا اس بات کے ہم معنی ہے کہ ہمارے دلوں میں تقویٰ ہے ۔پس ایک مہمان ایک میزبان کے تقویٰ کے اظہار اور امتحان کا ذریعہ ہوتا ہے ۔اس لیے میں امید کرتا ہوں کہ آنے والوں کی ہر طرح خدمت کی جائے گی۔

دیکھو کیا یہاں کوئی سیر کی جگہ ہے جس کی خاطر لوگ یہاں آتے ہیں یا یہاں کوئی قابل دید مقامات ہیں جن کو دیکھنے کے لیے لوگ آتے ہیں ۔کیا یہاں کوئی منڈی ہے کہ خریدو فروخت کے لیے یہاں آتے ہیں۔کیا یہاں کوئی بادشاہ ہے کہ لوگ اس لیے آتے ہیں کہ اگر اس کی نظر میں جچ گئے تو اچھی اچھی نوکریاں مل جائیں گی۔کیا یہاں کوئی اور دنیاوی چیز ہے جس کی خاطر لوگ یہاں چلے آتے ہیں کو ن سی دنیاوی کشش ہے جو لوگوں کو یہاں کھینچ رہی ہے ایک بھی نہیں۔پھرلوگ کیوں یہاں آتے ہیں۔ان کے آنے کی ایک ہی و جہ ہے اور وہ کوئی دنیاوی نہیں بلکہ دینی غرض ہے اور وہ یہ کہ خدا کے نبی نے کہا کہ یہاں تم آؤ تا تمہیں روحانی غذا ملے اور خدا نے اسے کہا کہ تم دن مقرر کرو کہ لوگ سفروں کو طے کر کے یہاں جمع ہوں۔پس قادیان میں لوگ صرف اسی ایک غرض کے لیے آتے ہیں۔اور صرف اسی روحانی غذا کی خواہش ان کو یہاں لاتی ہے۔
پس ہمارا جلسہ شعائر اللہ ہے بلکہ ہر آنےو الا شعائر اللہ ہے اور

وَمَنْ یُّعَظِّمْ شَعَائِرَ اللّٰہِ فَاِنَّھَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْب

کے مطابق جو اللہ تعالیٰ کے نشانوں کی عظمت کرتا ہے۔وہ اپنے تقویٰ کا ثبوت دیتا ہے۔ شعائر اللہ کی عزت اور قدر نہایت ضروری ہے اور سالانہ جلسہ کا موقع ہم میں سے ہر ایک کےتقویٰ کے امتحان کا وقت ہے۔پس ہمیں چاہیے کہ ہم اس امتحان میں پورے اتریں۔ہم میں سے ہر ایک کے دل میں مہمانوں کی عزت کے لیے وسعت پیدا ہونی چاہیے اور اگر بر خلاف اس کےانقباض پیدا ہوتا ہے تو سمجھ لو کہ تقویٰ کی کمی ہے۔ ہاں اگر ایسے موقع پر بشاشت پیدا ہو تو سمجھ لو کہ تقویٰ ہے۔پس میں امید کرتا ہوں کہ ہمارے قادیان کے دوست صرف ان باتوں کو سنیں گے ہی نہیں بلکہ ان پر عمل بھی کریں گے ۔ جو لوگ قادیان ہی میں رہتے ہیں۔ان کو بچوں سے جدا نہیں ہونا پڑتا۔بیویوں سے علیحدگی اختیار نہیں کرنی پڑتی ۔ سفر کی تکلیف برداشت نہیں کرنی ہوتی۔وہ یہیں رہتے ہیں اور انہیں ان باتوں میں سے کوئی بھی برداشت نہیں کرنی پڑتی۔جوباہر سے آنے والوں کو یہاں آنے کے لیے کرنی پڑتی ہیں۔وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ بال بچوں کو چھوڑ کر نہیں آ سکے ۔وہ یہ عذر نہیں کر سکتے کہ وہ اپنے کاروبار سے علیحدگی اختیار کر کے قادیان آنے سے مجبور ہیں کیونکہ وہ یہیں رہتے ہیں۔ پس ان کو چاہیے کہ اس ثواب کے موقع کو ضائع نہ جانے دیں۔وہ مہمانوں کی خدمت کر کے اسی طرح ثواب کے مستحق ہو سکتے ہیں جس طرح باہر سے آنے والے خدا کے فضل سے اس کے مستحق ہو گئے ہیں۔

(الفضل 25؍ دسمبر 1925ء)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button