عورتوں کا دین سے واقف ہونا ضروری ہے (قسط اول)
از: حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ
(حضرت خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے 6؍ اکتوبر 1917ء کو شملہ کے مقام پر خواتین سے خطاب فرمایا جس میں حضور نے اس بات پر زور دیا کہ عورتوں کو محض اپنے خاوندوں کی پیروی میں کسی دین کا پیروکار بننے کی بجائے خود دین سے واقفیت حاصل کرنی چاہیے۔ حضورؓ نے قرآنِ کریم اور تاریخِ اسلام میں مذکور بعض عظیم الشان خواتین کا ذکر بھی فرمایا اور عورتوں کو مردوں کے شانہ بشانہ خدمتِ دین کرنے کی نصیحت فرمائی۔
حضورؓ کا یہ مختصر خطاب قارئین الفضل انٹرنیشنل کے استفادے کے لیے قسط وار شائع کیا جا رہا ہے۔ مدیر)
حضورؓ نے سورۃ فاتحہ پڑھ کر فرمایا:
عورتوں کو ضروری نصیحت
عورتوں کے متعلق سب سے پہلی اور سب سے بڑی نصیحت جو انہیں کرنے کی ضرورت ہےوہ انہیں اس زمانہ میں اس بات کی طرف متوجہ کرنا ہے کہ دین کے معاملہ میں وہ اسی طرح شریعت کے قانون کی پابند ہیں اور اسی طرح شریعت کے قانون پر عمل کریں کہ جس طرح مرد کرتے ہیں۔ یہ ایک بڑی مشکل ہے جو اس زمانہ میں ہمیں پیش آئی ہے کہ عورتوں کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ وہ دینی معاملات میں حصہ لینے کے قابل نہیں ہیں۔ بہت سی عورتیں ہیں جو یہ سمجھتی ہیں کہ دین کے معاملات میں حصہ لینا ان کے خاوندوں کا کام ہے۔
اسی وجہ سے اس زمانہ میں عورتو ں کا مذہب کوئی مستقل مذہب نہیں رہا۔ سو(100)میں سے پچانوے (95)عورتیں بلکہ اس سے بھی زیادہ ایسی ملیں گی جنہوں نے کسی مذہب کو اس کے سچے ہونے کہ وجہ سے قبول نہیں کیا بلکہ خاوندوں کی وجہ سے قبول کیا ہے۔ مرد اگر آج شیعہ ہے تو عورت بھی شیعہ ہے ۔ مرد اگر سنی ہے تو عورت بھی سنی ہے ۔ کل کو اگر مرد شیعہ سے سنی ہوگیا تو عورت بھی سنی ہوجاتی ہے اور جس طرح اس کے خاوند کے مذہب میں تبدیلی ہوتی ہے اسی طرح اس کا اپنا مذہب بھی بدلتا رہتا ہے۔ لیکن اس جہالت اور خام خیالی کی وجہ سے عورتوں میں مذہب نہیں رہا۔ دیکھو اگر شیر کی تصویر ہو تو انسان اس سے ڈرتا نہیں کیونکہ وہ جانتا ہے کہ وہ اسے کچھ نقصان نہیں پہنچاسکتی ۔ اسی طرح سے آگ تب ہی کھانا پکائے گی جب حقیقی آگ ہو۔اگر اس کی تصویر ہو تو کچھ نہیں کر سکتی۔ تو چونکہ عورتوں کا مذہب نقلی ہوتا ہے اور جس طرح نقلی آگ کچھ نقصان نہیں دے سکتی اسی طرح ان کا نقلی مذہب بھی فائدہ نہیں دے سکتا۔
مذہب کو حقیقی طور پر ماننا چاہیے
ہاں جس طرح حقیقی آگ کھانا پکا سکتی ہے۔ اسی طرح حقیقی مذہب مفید ہوسکتا ہے۔ مذہب کو صرف اس لیے ماننا کہ ہمارا خاوند یوں کہتا ہے اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ ہمارے ملک میں اسے رکابی یا بینگنی مذہب کہتے ہیں۔کسی راجہ نے اپنے دربار میں بینگن کی بہت تعریف کی۔ اس کا ایک خوشامدی درباری بھی تعریف کرنے لگا کہ اس کا بدن ایسا معلوم ہوتا ہے جیسا کسی صوفی نے چوغا پہنا ہو۔ اس کی سبز ڈنڈی ایسی معلوم ہوتی ہے جیسے سبز پگڑی سر پر باندھی ہو۔ سبز پتوں میں ایسا دکھائی دیتا ہے جیسے کوئی عابد عبادت کرتا ہو۔ لیکن کچھ دن کے بعد جب راجہ کو اس کی وجہ سے تکلیف ہوئی تو اس نے دربار میں ذکر کیا کہ بینگن بڑی خراب چیز ہے۔ یہ سن کر وہی درباری کہنے لگا کہ حضور بینگن بھی کوئی سبزی ہے۔ اسے تو سبزیوں میں شمار کرنا حماقت ہے۔ بڑی خراب اور نقصان رساں چیز ہے۔ کسی نے اس سے پوچھا کہ ابھی چند دن ہوئے تم اس کی تعریف کرتے تھے اور اب مذمت کر رہے ہو یہ کیا بات ہے۔ اس نے جواب دیا کہ میں راجہ کا نوکر ہوں بینگن کا نوکر نہیں۔ جب انہوں نے تعریف کی تو میں نے بھی کر دی اب جب انہوں نے مذمت کی تو میں نے بھی مذمت کرنی شروع کردی۔ تو عورتوں کا مذہب بینگنی مذہب ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سی عورتیں ایسی پائی جاتی ہیں کہ جو اپنے خاوندوں کے مذہب کو اسی طرح مانتی ہیں۔ الا ماشاء اللہ۔
عورتوں کو مذہب کی ضرورت
مذہب کا فائدہ تو اخلاص اور حقیقت کے جاننےسے ہوتا ہے۔ یہی قرآن کریم کی تعلیم ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ عورتوں کو صرف مردوں کی خوشی اور آرام کے لیے پیدا کیا گیا ہے لیکن اسلام ایسانہیں کہتا بلکہ سمجھاتا ہے کہ عورتوں پر بھی شریعت ایسی ہی عائد ہوتی ہے جیسے مردوں پر ہے اور جس طرح مردوں کے لیے احکام شریعت کی بجا آوری ضروری ہے اسی طرح عورتوں کے لیے بھی ضروری ہے۔ یہ نہیں کہ جس طرح بھیڑ بکری انسان کے آرام کے لیے ہیں اور ان کی کوئی مستقل غرض پیدائش کی نہیں اسی طرح عورتیں ہیں۔ پس قرآن کریم جیسے مردوں کے لیے ہے ویسے ہی عورتوں کے لیے بھی ہے اور نیک عورت جو اس کے حکموں کو مانتی ہے اس کے لیے جنت کا وعدہ ہے اور جو اس کے خلاف کرتی ہے وہ دوزخ کی سزا پائے گی۔ اس لیے سب سے پہلی ضرورت یہ ہے کہ عورتوں کے ذہن میں یہ بات ڈالی جائے کہ عورتوں کو بھی مذہب کی ویسی ہی ضرورت ہے جیسی مردوں کو۔ تاوہ سمجھیں کہ اسلام کیا ہے کیونکہ جب کسی کو کسی چیز کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ اس کے حاصل کرنے کے طریق سیکھتا ہے اور جب اس کی حقیقت سمجھتا ہے تو اس کے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ پس جیسے مردوں کا حق ہے کہ وہ دین کو حاصل کریں ویسے ہی عورتوں کا بھی حق ہےکیونکہ مذہب کے احکام کا توڑنا جیسے مردوں کو نقصان دیتا ہے ویسے ہی عورتوں کو بھی دیتا ہے پھر کیا وجہ ہے کہ عورتیں مردوں کی طرح دین نہ سیکھیں۔
دیکھو اگر کسی کو یہ معلوم ہو کہ مذہب کا فائدہ ہے تو وہ خدا کو مانے گا اور اس کے احکام کی پابندی کرے گا لیکن اگر اس کو پتہ ہی نہ ہو تو پھر اسے کیاضرورت ہے کہ خدا کو مانے۔ اس سے تو بہتر ہے کہ نہ مانے۔ پھر جب تک اسے یہ معلوم نہ ہو کہ رسولوں کے ماننے نہ ماننے میں کیا فائدہ یا نقصان ہے تو وہ کیوں مانے گا۔ پس ان باتوں کے فائدہ اور حقیقت سے آگاہ ہونا ضروری ہے اور جس طرح مرد دین کی تعلیم حاصل کرتے ہیں اسی طرح عورتوں کو کرنی چاہیے۔
متقی عورتوں کا ذکر قرآن میں
قرآن کریم میں دو پارسا عورتوں کا ذکر آتا ہے۔ جن میں سے ایک فرعون کی بیوی ہے۔ فرعون کو تو توفیق نہ ملی لیکن اس کی عورت نے تقویٰ اختیار کیا اور اس نے مذہب کی ضرورت کو سمجھا اور موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لائی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر قرآن کریم میں بطور مثال کے کیا ہے اور اس سے بڑھ کر اور فضیلت کیا ہوسکتی ہےکہ اس کتاب میں جو ہمیشہ کے لیےہے اس کا ذکر آیا جس کی وجہ یہی ہے کہ چونکہ اس نے سمجھ لیا تھا کہ جو فرائض مذہب کے متعلق مردوں کے ہیں وہی عورتوں کے بھی ہیں۔ دوسری مثال مریم کی ہے۔ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ تھیں اس زمانہ میں گمراہی انتہا کو پہنچی ہوئی تھی انہوں نے ایسی پرہیز گاری دکھائی کہ ان کے بیٹے نے نبوت حاصل کر لی۔ دنیا پر حضرت مسیح علیہ السلام کا بڑا احسان ہے لیکن حضرت مریم علیہ السلام کا بھی بڑا احسان ہے کیونکہ ان کی تربیت سے ایک ایسا انسان بنا جس نے دنیا پر بڑا احسان کیا۔ قرآن کریم فرماتا ہے کہ وہ بڑی متقی اور پرہیز گار عورت تھیں۔ ان کے بچے نے ان سے تقویٰ سیکھا۔ سو دیکھو قرآن کریم میں جہاں حضرت مسیح علیہ السلام کا ذکر ہے ساتھ ہی حضرت مریم علیہ السلام کا ذکر بھی موجود ہے۔
اسلام میں عورتوں کی خدمات
پھر ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جب ظلمت کمال کو پہنچی ہوئی تھی عورتوں نے دین کی بڑی خدمت کی کیونکہ انہوں نے سمجھ لیا تھا کہ جس طرح مرد خدمت دین کرتے ہیں ہم بھی کر سکتی ہیں۔
شاید یہ بات بعض کو معلوم نہ ہو کہ سب سے پہلے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پرا یمان لائی وہ ایک عورت تھی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم غار حرامیں عبادت کیا کرتے تھے۔ وہاں آپؐ پر جبرئیل نازل ہوا اور آپؐ کو خدا کا کلام سنایا آپؐ کے لیے چونکہ یہ بات بالکل نئی تھی اس لیے آپؐ سمجھ نہ سکے اور خیال کیا کہ شاید نفس کا دھوکا ہوگا۔ ایسا نہ ہو کہ یہ غلطی ہو۔ آپ خائف ہوئے اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ مجھے بیماری ہوگئی ہے۔ آپؐ نے اس حالت کا نام بیماری رکھا لیکن خدیجہ رضی اللہ عنہا سمجھ دار تھیں۔ گواس زمانہ میں وحی نہ ہوتی تھی لیکن آپؓ سمجھ گئیں کہ یہ وحیٔ الٰہی ہے۔ آج تو تمام لوگ سمجھتے ہیں کہ اللہ کی طرف سے کلام آیا کرتا ہے پھر بھی دعویدار کو جھوٹا کہہ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پاگل ہوگیا۔ لیکن باوجود اس کے کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اس قوم سے تھیں جس کو خدا پر ایمان نہ تھا۔ کوئی الہامی کتاب اس کے پاس نہ تھی۔ الہام کی وہ قائل نہ تھی پھر بھی آپؓ نے ہی کہا کہ آپؐ کو الہام الٰہی ہوا ہے اور یہ ہرگز بیماری نہیں ہے۔ کَلَّا وَاللّٰہِ لَا یُخْزِیْکَ اللّٰہُ اَبَدًا حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے کہا آپؐ کو بیماری نہیں بلکہ یقینی طور پر کلام الٰہی ہے۔ آپؐ لوگوں سےنیک سلوک کرتے ہیں۔ صلہ رحمی کرتے ہیں۔ مشکلات میں ان کی مدد کرتے ہیں۔ پس خدا ا ٓپ کو ہرگز ذلیل نہ کرے گا۔
(بخاری کتاب بدء الوحی باب کیف کان بدء الوحی الیٰ رسول اللہﷺ)
یہ ایک عورت تھی جواس طرح ایمان لائی کہ مردوں میں بھی اس کی مثال نہیں پائی جاتی۔ پھر اعمال کو دیکھتے ہیں تو حضرت خدیجہؓ کوئی معمولی ایمان نہ لائیں۔ ایسا ایمان لائیں کہ جب دشمنوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر حملے کرنے شروع کیے تو انہوں نے اپنا سارا مال آپؐ کے سپرد کردیا کہ دین کے راستہ میں خرچ کر دیں۔ شاید کوئی سمجھے کہ یہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی تھیں اس لیے انہوں نے جو کچھ کیا اپنے خاوند کی عزت کے لیے کیا مگر نہیں آپ ہی اسلام میں ایک عورت نہیں گزریں بلکہ اور بھی کئی ایک ایسی تھیں جنہوں نے اخلاص اور محبت کا ایسا نمونہ دکھلایا کہ جس کی نظیر نہیں ملتی۔
………………باقی آئندہ
٭…٭…٭