’کلام ِمحمود‘ کے مضامین کا اجمالی تعارف
سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ کی ذاتِ بابرکات سے جہاں دنیا بھر کے عُلوم مستفید ہوئے وہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت کے اِس نشان سے ادبِ عَالم بالخصوص اردو ادب نے بھی خوب روشنی پائی۔ آپؓ کی شاعری کا مجموعہ ‘کلامِ محمود ’حضورؓ کے مسیحی نفس ہونے کی ایک لطیف دلیل ہے۔ جس کے مضامین سے دینِ اسلام کا شرف اور کلام اللہ کامرتبہ ظاہر ہوتا ہےاور جس میں مرقوم براہین سے باطل اپنی تمام نحوستوں کے ساتھ بھاگنے پر مجبور دکھائی دیتا ہے۔‘کلامِ محمود’ کا مطالعہ ایک طرف حضرت مصلح موعودؓ کے علومِ ظاہری و باطنی سے پُر ہونےکی جھلک دکھلاتا ہے تو دوسری جانب اِن نظموں میں خدا کی غیّوری ،کلمۂ تمجید اور جلالِ الٰہی کے نظارے نظر آتے ہیں۔
لجنہ اماء اللہ ضلع کراچی کی جانب سے طبع شدہ ‘کلامِ محمود مع فرہنگ ’میں درج تفصیل کے مطابق ‘کلامِ محمود’پہلی بار 1913ء میں شائع ہوئی۔ ا س کے پہلے مرتب حضرت قاضی محمد ظہورالدین اکملؔ صاحب تھے۔ بعد میں محترم محمد یامین صاحب نے اضافوں کے ساتھ اسے متعدد بار شائع کیا۔
کلامِ محمود کے اس مطالعے کو ہم نے زمانی اعتبار سے تین ادوار میں تقسیم کیا ہے۔
٭…آغازِ شاعری سےمسندِ خلافت پر متمکن ہونےتک۔
٭…آغازِ خلافت سے تقسیمِ ہند یا قادیان سے ہجرت تک۔
٭…تقسیمِ ہند سے آپؓ کی وفات تک۔
اس وقت عام دستیاب ‘کلامِ محمود’میں کُل 211نظمیں اور 29قطعات ہیں۔اشعار کی کُل تعداد لگ بھگ اکتیس سو کے قریب ہے۔
پہلا دور
‘کلامِ محمود’میں درج اوّلین نظم 1903ء کی ہے جب آپؓ نے ‘شاد’تخلص رکھا تھا۔ابتدائی دور کا یہ کلام ایک خوب صورت، وجیہ اور پاک لڑکے، کے خیالات کامجموعہ ہے۔ ا س دور کو مزید دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
٭…حضرت مسیح موعودؑ کی وفات سے پہلے تک۔
٭…حضرت مسیح موعودؑ کی وفات سے آپؓ کے خلیفہ منتخب ہونے تک۔
حصہ اوّل :1903ء تا وفات حضرت اقدس مسیح موعودؑ
اس حصّے میں کُل 18؍نظمیں ہیں۔ جن میں مجموعی طور پر خدا تعالیٰ کی حمد و ثنا اور اس کے شکر کے پاکیزہ جذبات دکھائی دیتے ہیں۔ آمین اور شادی کے موقعے پر کہی گئی دعائیہ نظمیں بھی اس دور میں ملتی ہیں۔حضرت مسیح موعودؑ کی شان میں مرقوم ایک قصیدہ بھی اس زمانے کی یادگار ہے۔ اس قصیدے میں تائیدِ الٰہی کی دلیل کو اہلِ فکر و نظر کے سامنے پیش کیا گیا ہے۔ ؎
وہ قصیدہ مَیں کروں وصفِ مسیحا میں رقم
فخر سمجھیں جس کو لکھنا بھی مرے دست و قلم
تاج اقبال کا سرپر ہے مزیّن تیرے
نصرت و فتح کا اُڑتا ہےہوا میں پرچم
اس کے علاوہ قادیان سے محبت و اُنس اور صداقت حضرت مسیح موعودؑ کے لیے ضرورتِ زمانہ کی دلیل بھی بالکل ابتدائی زمانۂ شاعری کے اہم مضامین ہیں۔ ؎
مجھ سے سنو کہ اتنا تغیّر ہے کیوں ہوا
جو بات کل نہاں تھی ہوئی آج کیوں عیاں
یہ وقت، وقتِ حضرتِ عیسیٰ ہے دوستو
جو نائبِ خدا ہیں جو ہیں مہدیٔ زماں
اس ابتدائی دور کی شاعری میں نعتیہ اشعار بھی ہیں۔معروف نظم ‘‘محمؐد پر ہماری جاں فدا ہے’’اسی دور کی یادگار ہے۔ ان نظموں میں حضورؓ کے مشن کی کامیابی پر کامل ایمان اور آنے والے عذابوں سے قوم کو ڈرانے کے مضامین بھی نظر آتے ہیں۔اسی طرح ایک نظم انگریز حکومت کے فلاحی کاموں اور نظامِ عدل کی تعریف پر مشتمل بھی موجود ہے۔
حصّہ دوم (وفات حضرت مسیح موعودؑ تا انتخابِ خلافتِ ثانیہ)
اس حصّے میں 27؍نظمیں ہیں۔سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی وفات کے بعد، پہلے دور کے دوسرے حصّے میں یک دم شاعری کا مزاج بدلتا نظر آتا ہے۔ اس عہد کے اشعار میں تنہائی، خدا کی یاد ، اس کی رحمت پر امّید اور عشقِ الٰہی کی مہ سے مخمور رہنے کے مضامین غالب ہیں۔ جلوۂ طُور کے دوبارہ دکھلانے کی خواہش کا اظہارایک سے زائد مقامات پر ملتاہے۔
کِرمِ خاکی ہوں، نہیں رکھتا کوئی پروا مِری
دشمنوں پر مَیں گِراں ہوں دوستوں پر بار ہوں
دوستی کا دم جو بھرتے تھے وہ سب دشمن ہوئے
اب کسی پر تیرے بِن پڑتی نہیں میری نظر
مجھ کو یہ سمجھیں کہ ہُوں اُلفت میں مرفوع القلم
میرے پیچھے پڑ رہے ہیں سب مرے احباب کیوں
اس دور کی شاعری میں حرکت وعمل کی تلقین اور ناصحانہ انداز بھی خال خال نظرآتا ہے۔ جبکہ دنیا سے بے رغبتی اور جماعت نیز امّتِ محمدیہ کے صراطِ مستقیم سے بھٹک جانے کی فکر کے مضامین جابجا ملتے ہیں؎
غمِ جماعتِ احمدؐ نہیں سہا جاتا
یہ آگ وہ ہے کہ جس نے جلا دیا مجھ کو
وفا داری اور عہد کی پاس داری اسی طرح اولوالعزمی کے بلند پایہ خیالات اس دور کا خاصّہ ہیں۔عہد شکنی نہ کرنے اور اہلِ وفا بننے کی تعلیم بار بار دہرائی گئی ہے۔ان اشعار میں موجود امید و بیم، اور نشاط و فرحت کے ساتھ کچھ کر دکھانے پر اکسانے والے پاکیزہ خیالات ہر زمانے اور علاقے کے لوگوں میں ہمیشہ نئی روح پھونکتے رہیں گے۔
کرلو جو کچھ موت کے آنے سے پہلے ہوسکے
تِیر چُھٹ کر موت کا پھر کیا خطا ہوجائے گا
کرے گا نعرۂ اللہ اکبر کوئے قاتل میں
ابھی تک کچھ نہ کچھ باقی ہے دم اس مرغِ بسمل میں
مصیبت راہِ اُلفت کی کٹے گی کس طرح یارب
مرے پاؤں تو بالکل رہ گئے ہیں پہلی منزل میں
بے وفائی کا لگاتے ہیں وہ کس پر الزام
مَیں تو وہ ہوں کہ مجھے لفظِ دغا یاد نہیں
اس عہد کے اشعار ایک جانب ناصحانہ انداز میں کِبر، غیبت،بغض جیسی بدیوں سے بچتے ہوئے انکساری کی تحریک کرتے اور حصولِ تقویٰ کی تحریص دلاتے ہیں تو دوسری جانب حرکت و عمل کی تلقین کرتےہوئے اپنے پیاروں کو مسیح ِپاکؑ کا پیغام دنیاکے کناروں تک پہنچانے کا سبق دیتے ہیں۔ ؎
وہ کہیں ہم کہ گداگر کو سلیماں کردیں
وہ کریں کام کہ شیطاں کو مسلماں کردیں
پھر آزماؤ اپنے ارادوں کی پختگی
پھر تم دلوں کی طاقتوں کا امتحاں کرو
دل پھر مخالفانِ محمد کے توڑ دو
پھر دشمنانِ دین کو تم بے زباں کرو
اس دور کا سب سے دل گداز موضوع حضرت ا قدس مسیح موعودؑ سے بچھڑ جانے کا غم اور آپؑ کی یاد ہے۔ کوہِ وقار اور عزم و ہمت کی چٹان سیّدنا حضرت فضلِ عمرؓ کے ان اشعار میں حضورؑ سے بچھڑنے کے مضمون کو ،تنہائی کی چادر میں جس پُر جمال اہتمام کے ساتھ رقم کیا گیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ غزلیہ ا نداز میں برتا گیا یہ موضوع آپؓ کی بیشتر شاعری میں اپنی چمک دکھلاتاہے۔؎
وہ خواب میں ہی گر نظر آتے تو خوب تھا
مرتے ہوئے کو آکے جِلاتے تو خوب تھا
وہاں ہم جا نہیں سکتے یہاں وہ آ نہیں سکتے
ہمارے درد کا کوئی بھی درماں ہو نہیں سکتا
اے مسیحاؑ ہم سے گر تُو چھٹ گیا
دل سے پر اُلفت تری چھڑوائے کون
1911ء میں حضرت صاحبزادی امة الحفیظ بیگم صاحبہ کی آمین پر کہی گئی معروف نظم ‘‘خدا نے ہم کو دی ہے کامرانی ’’بھی اسی عہد کی نظم ہے۔
دوسرا دور: (آغاز خلافتِ ثانیہ تا تقسیمِ ہند)
اس حصّے میں کم و بیش 78؍نظمیں شامل ہیں۔ نظم نمبر 45، اگست 1913ء کی ہے۔جس کے بعد نظم نمبر 46، جنوری 1918ء میں شائع ہوئی۔ نظموں کی اشاعت میں یہ وقفہ دیگر تمام وقفوں کی نسبت طویل ترین ہے۔ نامساعد حالات میں عنانِ خلافت سنبھالنے کے بعد بے پناہ امور کی نگرانی اورعملی اقدامات ہی اغلباً اس فترت کا سبب ہیں۔
اس عہد کے عمومی موضوعات میں اسلام کی فتح کا یقین اور اُس کے لیے دعا و مناجات شامل ہیں۔احمدیت کو خدا کا جلوہ قرار دے کر پوری تحدّی کے ساتھ اس کے کامیاب و کامران ٹھہرنے کا اعلان نظر آتا ہے۔؎
فضل سے تیرے جماعت تو ہوئی ہے تیار
حزبِ شیطان کہیں رخنہ نہ ڈالے پیارے
جلوۂ یار ہے کچھ کھیل نہیں ہے لوگو!
احمدیت کا بھلا نقش مِٹا دیکھو تو
عمومی طور پر جماعت کو نصائح پر مبنی اشعار بھی اس عہد میں ملتے ہیں۔ ؎
حلال کھا کہ ہے رزقِ حلال میں برکت
زکوٰة دے کہ بڑھے تیرے مال میں برکت
نیکی اور خدا سے تعلق پیدا کرنےکی تلقین کے ساتھ خود کو نیک گمان کرنے سے بچنے کی نصیحت کو کئی مواقع پر مختلف انداز اور مثالوں سے پیش فرمایا گیاہے۔نفس کی غلامی سے بچنے اوراسے اپنے ارادوں کے تابع کرنے کا بیان بھی بعض اشعار میں ملتا ہے۔ اسی مزاج کی ایک لاجواب نظم ‘‘ مَیں اپنے پیاروں کی نسبت’’ اسی عہد کی دل کش ترین نظموں میں سے ایک ہے۔ اس نظم کو اخلاقی ترقی کا منشور اور لائحہ عمل کہنابےجا نہ ہوگا۔
عمومی موضوعات میں حرکت و عمل کی نصیحت اس دور میں بھی بار بار نظر آتی ہے۔ فرق یہ ہے کہ اس طرح کے اشعار میں اپنائیت اورسوز و درد زیادہ محسوس ہوتا ہے۔احبابِ جماعت کو نہایت فکر کے ساتھ اُن کے فرائض کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ ؎
احمدی اٹھ کہ وقتِ خدمت ہے
یاد کرتا ہے تجھ کو ربِّ عباد
شکر کر شکر یاد کرتا ہے
گُد گُداتی تھی دل کو جس کی یاد
خدمتِ دیں ہوئی ہے تیرے سُپرد
دُور کرنا ہے تُونے شرّو فساد
خدا تعالیٰ کی جانب سے تفویض کردہ اس الٰہی مشن کی کامیابی کے لیے انصار کی دست یابی کی دعا بھی اس عہدکے اشعار میں دکھائی دیتی ہے۔ عمل میں کامیابی کی نوید سنانے کے ساتھ ایسے ایمان کو بے وقعت قرار دیا گیا ہے جس کے ساتھ قوتِ عمل نہ ہو۔ اسی طرح صبر، اولوالعزمی،قرآنی تعلیمات کے اعجاز کا بیان اور حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی یاد جیسے عناوین بھی اس عہد کے عمومی موضوعات ہیں۔
اس دور کی نظموں میں حضورؓ کا بیان فرمودہ فلسفۂ عشق ایک ایسا موضوع ہے جس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ عشق کا ایسا منفرد رنگ ہے جس میں تصوّف کی سی وارفتگی بھی ہے اور سعئ پیہم کی تعلیم بھی۔ اہلِ فلسفہ رہروِ طریقت کے اثمار کی شناخت سے محروم ہیں، یہ عشق ایسا اکسیر ہے جو خادم و مخدوم کو یک جان کردیتا ہے۔ شاہ راہِ عشقِ حقیقی کا مسافر اپنے حال سے بے نیاز ہوتا ہے۔ یہ عشق تن ومن کو جلا ڈالتا ہے۔ لیکن اس سوز میں ہی عاشق کو قرار ملتا ہے۔
علاجِ عاشقِ مضطر نہیں ہے کوئی دنیا میں
اُسے ہوگی اگر راحت میّسر تو فنا ہوکر
عشق کا یہ مضمون ایک اور ذیلی موضوع یعنی ‘وصل’کا سبب بنتا ہے۔ اردو شاعری کے لیے ‘وصل’کوئی نیا موضوع نہیں۔ لیکن کلامِ محمود کی نظموں میں ‘وصل’کا بیان ایک اچھوتے انداز سے ملتا ہے۔اس کی وجہ بہت سادہ سی ہے اور وہ یہ کہ ان اشعار میں جس محبوب کی راہوں کی طرف اہلِ دل کواشارے کیے جارہے ہیں وہ سب وفاداروں سے بڑھ کر باوفا ہے۔‘ساغرِ حسن تو پُر ہے کوئی مئے خوار بھی ہو’۔ وصل کی لذت اس میں ہے کہ محبوب کی قربت میں بھی ہوش سلامت رہیں۔ یہ ایسا لطیف فلسفۂ عشق ہے جس میں ایک جانب فنا کی تعلیم ہے تو دوسری جانب الفتِ ظاہر کی خواہش بھی پنپ رہی ہے۔ اخفا و اظہار کو بیک وقت برتناہی راہِ عشق میں کامیابی کا واحد راستہ ہے۔جس طرح اضداد کا باہم کرنا کارِ سہل نہیں اسی طرح اُس یار کی محبت پانے کے لیے ہر ایک راہ اختیار کرنا اور ہر رُوپ دھارنا اور ہر دروازے پر دستک دینا ضروری ہے کہ نامعلوم کس دروازے سے وہ یار اپنے عاشق کو بلالے۔
عشق کی راہ میں دیکھے گا وہی رُوئے فلاح
جو کہ دیوانہ بھی ہوعاقل و ہشیار بھی ہو
اس عہد کی نظموں کا ایک اور غور طلب موضوع آپؓ کے حمدیہ اشعار ہیں۔ ان اشعارمیں حمد کے پہلو کے ساتھ جا بجا وفا کے موضوع کو جوڑا گیا ہے۔ دنیا میں رہتے ہوئے یادِ الٰہی میں گم رہنا اور اس کی راہ میں خود کو فنا کرلینا ہی بقا کا راستہ ہے۔ اس بقا کا متلاشی اپنے ربّ کا کیسا وفا شعار عبد ہوگا جس کے نزدیک اپنی حیثیت خاکساراور نابکار کی ہو لیکن اس کو یہ یقینِ کامل حاصل ہے کہ وہ بہرحال اپنے محبوب کے دربار میں باوفاؤں میں شمار ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اس در کو چھوڑ کر کہیں نہیں جاسکتا۔ حضورؓ اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جوش دلانے کے لیےکس تیقّن کے ساتھ عاجزی سے فرماتے ہیں:؎
یقیں دلاتے رہے ہیں دُنیا کو تیری الفت کا مدتوں سے
جو آج تُونے نہ کی رفاقت کسی کو کیامنہ دکھائیں گے ہم
عقل اور عشق یوں تو ہر زمانے میں ہی متصادم اور برسرِ پیکار رہے ہیں لیکن جدیدیت کی فضا نے عقل کو ایک گنجلک فلسفے کا رُوپ دے کر اس بحث کو پیچیدہ تر بنا ڈالا تھا۔ مغرب نے صنعتی انقلاب ، اور کچھ مارکس کے فلسفے کے زیرِ اثر دین اور مذہب کی ضرورت اور اِس کے آغاز کو بھی موضوع بنایا۔ حضرت مصلح موعودؓ کی شاعری میں عقل کی تنگ دامنی اور تحدید کا بار بار ذکر ملتا ہے۔ الہامی نور سے منوّر ٹھہرے بنا عقل نابینا محض ہے۔ حضورؓ اپنے اشعار میں عقلیت پسندوں بلکہ عقلیت پرستوں کو اُس یارِ حقیقی کے الطاف و کرم کے مشاہدے کی دعوت دیتے ہیں۔ عقل کے ساتھ نفس کی غلامی کو بھی ایک بلا قرار دیا گیا ہے اور اس قید سے رستگاری کی کوشش کی بھی ان اشعار میں تحریک ملتی ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے ذریعے تجدیدِ دین کا ایک احسان یہ بھی ہے کہ آپؑ نے انسان کو اِن جھوٹے فلسفوں سے آزادی دلائی ہے۔؎
پھر مٹے جاتے ہیں ہر قسم کے دنیا سے فساد
عقل پھر تابع ِالہام ہوئی جاتی ہے
دنیا کے ان بے نور فلسفوں سے بیزاری کا مضمون ‘کلامِ محمود ’کے اشعار میں اشارتاً کئی جگہ ملتا ہے۔ مفکرین بالخصوص مغربی فلسفیوں نے انبیا سے اخذ کردہ باتوں کو گورکھ دھندہ بنا کر انسان کو ذاتی تجربے اور خود شناسی کے عمل سے دور کردیا۔ شان دار جملوں اور بلند آہنگ گفتگو کے رعب نے بیشتر دنیا سے غور وفکر کو چھین لیا۔ دریافت اور تلاش کو نئی دنیا نے محض چند دماغوں کی میراث گمان کر رکھا ہے۔ حضورؓ کے اشعار میں دعوتِ فکر ملتی ہے۔ علم کی نئی اور پرانی راہوں پر سفر کی تحریک ملتی ہے۔
عرفان کی راہوں سے جاہل تسلیم کی راہوں سے غافل
جو آپ بھٹکتے پھرتے ہیں آئے ہیں مرے سمجھانے کو
اس موضوع پر تیسرے دور کا ایک شعر جو 1954ء کاہے یہاں درج کیا جاتا ہے۔؎
فرائڈ کا ہے ذکر ہر اِک زباں پر
ہیں بھولے ہوئے بخاری و نسائی
حیات اور مقصدِ زندگی کو بھی اِس دور کی بعد کی شاعری میں موضوع بنایا گیا ہے۔ 1934ء کے خطرناک حالات کے بعد احراریوں کی ناکامی پر کہی گئی غزلیہ شاعری میں یہ موضوع بھی نظر آتا ہے۔؎
ہے حیاتِ شمع کا سب ماحصل سوز و گداز
اک دلِ پُر خون ہے یہ اکتسابِ زندگی
انسان کا اس دنیا میں رہنا اور بامقصد زندگی گزارنا ،اصلاحِ خلق کے لیے کوشاں رہنا یہ ایسی قابلِ رشک زندگی ہے جس کی خواہش کی جانی چاہیے۔ اس مثالی زندگی میں محبوبِ حقیقی کے عشق میں مخمور ہوکر بنی نوع کے لیے مثلِ مئے خانہ بننے کی تمنّا دکھائی دیتی ہے۔
جو ختم نہ ہو ایسا دکھا جلوۂ تاباں
جو مَر نہ سکے مُجھ کو وہ پروانہ بنا دے
گلشنِ عالَم کی رونق ہے فقط انسان سے
گُل بنانے ہوں اگر تُونے تو کر گِل کی تلاش
اس دور کی شاعری میں دو عربی نظمیں بھی شامل ہیں۔ اسی طرح سفرِ یورپ 1924ء کے دوران قادیان کی یاد میں کہی گئی نظم ‘‘ہے رضائے ذاتِ باری اب رضائے قادیاں’’ اپنے مزاج کے لحاظ سے ایک خوب صورت نظم ہے۔ اسی طرح آمین، رخصتانے اور وفات پر کہی گئی چند نظمیں بھی اس عہدکی یادگار ہیں۔
تیسرا دور: (تقسیمِ ہند تا وفات حضرت مصلح موعودؓ)
اس حصّے میں تقریباً 88؍نظمیں موجود ہیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد جماعت اورحضوؓرقادیان سے ہجرت کرکے انتہائی ناگفتہ بہ حالات میں پہلے لاہور اور پھر نو آباد مرکزِ احمدیت، ربوہ آئے۔ ہنگاموں سے بھرپور اس دور نے حضرت مصلح موعودؓ کی شاعری کے موضوعات پر بھی اپنا اثر ڈالا۔
چند مضامین جو دورِ اوّلین سے مستقلاً حضورؓ کی شاعری کا حصّہ چلے آرہے تھے اس آخری دور میں بھی موجود رہے۔ اِن موضوعات میں حرکت و عمل کی ترغیب و تحریص اور ناصحانہ اندازِ تخاطب سرِفہرست ہے۔ آگے سے آگے قدم بڑھاتے جانے، مشکلوں سے نہ گھبرانے اور عاجزی انکساری کے ساتھ چلنے کی بار بار تاکید کی گئی ہے۔ ؎
خود کام کو چوپٹ کرکے تم اللہ کے سر منڈھ دیتے ہو
تم اپنے کاموں کو دیکھو اور اس کی قضا کو رہنے دو
کامیابی کی تمنّا ہے تو کر کوہ کنی
یہ پری شیشے میں اُتری ہے کہیں باتوں سے
کھڑکی جمالِ یار کی ہیں‘‘عجز و انکسار’’
سب سے برا حجاب سرِ پُر غرور ہے
اسلام کی فتح کا یقین اور اس کے لیے دعا کے مضامین پہلے دونوں ادوار کی نسبت اس دور میں زیادہ نظر آتے ہیں۔ مخالفین جو اپنی کثرت پر گھمنڈ کرتے ہیں اُن کے مقابلے میں دعا کی گئی ہے کہ اللہ ہمیں بھی تعداد میں بڑھا دے۔ اس عظیم مقصد یعنی غلبۂ اسلام کی خاطر ہر قربانی کے لیے تیار رہنے کا عزم اس عہد میں بھی جوان نظر آتا ہے۔ ؎
مِٹ جائے میرا نام تو اس میں حرج نہیں
قائم جہاں میں عزت و شوکت رہے تری
آدمِ اوّل سے لے کر وہ ہے زندہ آج تک
ایسی طاقت دے کچل ڈالوں مَیں اب شیطاں کا سر
اس مضمون کے ہم راہ اس دور کی شاعری میں خدا تعالیٰ کے ساتھ پیار و محبت کی باتیں بھی کثرت سے دکھائی دیتی ہیں۔اپنے حی و قیّوم خدا کی قدرتوں کا بار بار رشک کے ساتھ تذکرہ کیا گیا ہے اور اس کے سامنے معبودانِ باطلہ کی بے وقعتی کو موضوع بنایا گیا ہے۔؎
راتوں کو آکے دیتا ہے مجھ کو تسلیاں
مردہ خدا کو کیا کروں میرا خدا یہ ہے
کیا دامِ عشق سے کبھی نکلا ہے صید بھی
کیا بات تھی کہ آپ نے عہدِ وفا لیا
جفا کشی، بہادری او ر مشکلوں کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کی تلقین اس عہد کی شاعری میں کئی دفعہ موضوع کی گئی ہے۔ مسلمانوں کو اُن کی افسوس ناک حالت پر شرمندہ کیا گیا ہے اور اپنی حالت میں سُدھار لانے پر ابھارا گیا ہے۔ ؎
ملک و بِلاد سونپ دیے دشمنوں کو سب
بیٹھے ہو گھر میں خصلتِ مردانہ چھوڑ کر
چھوڑ کر چل دیے میدان کو وہ ماتوں سے
مرد بھی چھوڑتے ہیں دل کبھی اِن باتوں سے
دشمنانِ اسلام و احمدیت کی ناکامی کی امید اور حق کی آخری فتح کے یقین پر مبنی موضوعات بھی اس عہد کی شاعری کا اہم حصّہ ہیں۔ خصوصاً طبقۂ مولویاں کو نام لے کر بے نقاب کیا گیا ہے کہ جو اپنے سفلی مقاصد کے حصول کے لیے مذہب جیسی مقدس چیز کو بھی بدنام کر ڈالتے ہیں۔ لاہور کے قیام کے عرصے میں کہی گئی نظموں میں عدو کی دشنام دہی کا ایک سے زائد مقامات پر تذکرہ ملتا ہے۔ اسلام کے نام پر کشت و خون کو روا رکھنے کے نظریے نے امن و سلامتی کے اس مذہب کے پُر نور چہرے کو داغ دار کرنے کی مذموم کوشش کی ہے۔ حضورؓ کی شاعری میں اسلام کے حقیقی چہرے کو دکھلانے اور اس باطل نظریے کے غیر منطقی ہونےکا ذکر ملتا ہے۔اجرائے نبوت کے منکرمولوی حضرات کس بنا پر حضورﷺ کے وارث ہو سکتے ہیں؟اور آنحضورﷺ کی امّت کی نگرانی حضرت مسیحؑ کیسے کر سکتے ہیں؟غرض اس نوعیت کے علمی مضامین بھی ہمیں خال خال نظر آتے ہیں۔؎
طعنِ پاکاں شغلِ صبح و شام ہے
مولوی صاحب کی لسّانی تو دیکھ
اپنوں سے جدائی کا غم اور فلسفۂ ہجرت اس عہد کا ایک اہم موضوع ہے۔ حضور ؓ فرماتے ہیں کہ نبی کے لیے ہجرت ایک امرِ ضروری ہے۔ آنحضورﷺ کہ جو مکّے میں پیدا ہوئے،مکّے سے دور ہونے پر مجبور کیے گئے۔مہاجرت کا مرحلہ انسان کی ہستی کو ہلا کر رکھ دیتا ہے خصوصاً ایک مذہبی جماعت کو کسی نئی جگہ آباد کرنا ایک تناور درخت کو نئی جگہ لگانے کےمترادف ہے۔ لیکن الٰہی جماعتوں کے لیے یہ بھی ایک صداقت کی دلیل بن جاتی ہے۔یہ خدا تعالیٰ کی خاص تائید اور حضرت مصلح موعودؓ کی اولوالعزمی ہی تھی کہ جس نے نیا مرکز بسانے جیسے بظاہر ناممکن کام کو جماعت میں جوش و جذبہ بھر کرسہل کر ڈالا۔
جس شان سے آپ آئے تھے مکّہ میں مری جاں
اک بار اسی شان سے ربوہ میں بھی آئیں
ہجرت کے ساتھ اپنی زمین اور اپنے لوگوں سے جدائی کا مضمون بھی اس دور کی شاعری کا اہم حصّہ ہے۔ تمام تر پریشانیوں اور مسائل کا سامنا کرنےکے باوجود بھی حضورؓ یہی فرماتے ہیں کہ
نکالا مجھےجس نے میرے چمن سے
مَیں اس کا بھی دل سے بھلا چاہتا ہوں
ہجرت کے بعد کے حالات میں جہاں حضرت مصلح موعودؓ نے دونوں نومولود ممالک کی قیادت کی اپنی تقاریر اور مضامین کے ذریعےراہ نمائی فرمائی وہیں سرحد کے دونوں اطراف آباد لوگوں کو نئے حالات کا سامنا کرنے کے طریقے بھی سمجھائے۔اس مقصد کے لیےآپؓ نے شاعری کا میڈیم بھی استعمال فرمایا۔ غداری اور بزدلی سے بچتے ہوئے دین کی تعلیمات پر کمر بستہ رہنے کی تلقین فرمائی۔ اپنوں سے جدائی کے ذیل میں ڈلہوزی اور شملے کا ذکر اور خواہشِ کشمیر بھی اپنا جلوہ دکھاتی ہے۔
ڈلہوزی و شملہ کی تو یاد ہوئی محو
ہے خواہشِ کشمیر جو مٹتے نہیں مٹتی
تُو ہندوستان میں روتا ہے مَیں پاکستان میں کُڑھتا ہوں
ہے میرا دل بھی زار فقط تیرا ہی حالِ زار نہیں
اس عہد کی شاعری میں فلسفیانہ طرزِ ادا اور غور و فکر کی دعوت دیتے اشعار جابجا ملتے ہیں۔ مختلف موضوعات کو منفرد انداز میں پیش کرکے تدبر پر اکسایا گیا ہے۔ پیدائشِ عالَم کی غرض و غایت ہو یا تخلیقِ آدم کی کنہ،امید و ناامیدی کے معرکے کا سر کرنا ہو یا عالَمِ کون کے اسرار کا بیان، خِلقتِ آدم میں موجود اخلاق کے اظہار کا ذکر ہو یا انسانی فطرت میں برسرِپیکار اضداد کا تذکرہ،سائنسی مضامین ہوں یا سماج میں موجود عدم توازن غرض ہر ایک موضوع پر باریکی اور گہرائی میں جاکر انسانی سوچ کے دریچوں کو لاشعوری طور پر دستک دیتے یہ اشعار عجیب حسن لیے ہوئے ہیں۔
پیدائشِ جہاں کی غرض بس یہی تو ہے
بگڑا کرے کوئی تو بنایا کرے کوئی
وہی خاک جس سے بنا میرا پُتلا
مَیں اُس خاک کو دیکھنا چاہتا ہوں
مٹی پانی کا ایک پُتلا تھا
بھر گئی کیسے پھر بشر میں آگ
٭…٭…٭
Mashallah very well written.