ابرِ رحمت بھی فلک پر چارسو چھانے لگے
(قادیان میں پہلے قافلے کے ورود کے موقع پردلی جذبات کا اظہار)
قافلہ در قافلہ جب قادیاں جانے لگے
عشق والے منزلیں در منزلیں پانے لگے
ہیں قفس والے وہاں کی یاد میں گریہ کناں
جاں بہ جاں اور دِل بہ دِل اک لطف سا پانے لگے
سب دلوں کو ہے طلب بس تیرے ہی دیدار کی
تیرے وہ پُر نور بندے دِل کو ہیں بھانے لگے
اے خُدائے اکبر و برتر سبھی کی خیر ہو
ذکر کی اُن مجلسوں میں لذتیں پانے لگے
دور دیسوں کے مسافر گرتے پڑتے آگئے
اُس زمیں پر معجزوں کے وہ ثمر پانے لگے
تھا پچہتر عاشقوں کا قافلہ آغاز میں
اب تو سارے ملک جیسے اُس کے گُن گانے لگے
وادیٔ بطحا کے صدقے برکتوں پر برکتیں
ابرِ رحمت بھی فلک پر چارسو چھانے لگے
تھی صدی جب چودھویں اِک نور اُترا تھا وہاں
مولوی تھے ہر جگہ پھر جھوٹ بر لانے لگے
جو بھی ٹیڑھی سوچ لے کر سامنے اُس کے ہوا
ایسے ویسے سارے ہی دیکھو سزا پانے لگے
حافظِؔ بے مایہ بھی اس کارواں میں ہے شریک
بادشاہ بھی جُو بجُو ہیں برکتیں پانے لگے