الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم ودلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصہ میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
‘‘جنگ مقدّس’’
آنحضرت ﷺ نے اپنے مسیح و مہدی کا ایک کام کسرصلیب یعنی صلیب کو توڑنے کا بیان فرمایا تھا۔ باالفاظ دیگر دجالی طاقتوں کا مقابلہ کرکے ان پر اسلام کی حقانیت کو ثابت کرنا۔یہ کام جس طرح سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سرانجام دیا وہ بذات خود آپؑ کے دعویٔ مسیحیت و مہدویت کی صداقت کا ثبوت بن گیا۔ ہفت روزہ ‘‘بدر’’قادیان 15؍مارچ 2012ء(مسیح موعودؑ نمبر)کی خصوصی اشاعت میں ‘‘جنگ مقدس’’ کے بارے میں مکرم آصف محمود باسط صاحب کا ایک تحقیقی مضمون شامل اشاعت ہے۔ اس مضمون کا پہلا حصہ گزشتہ الفضل ڈائجسٹ میں پیش کیا گیا تھا۔ دوسرا اور آخری حصہ ذیل میں ہدیۂ قارئین ہے:
(گزشتہ سے پیوستہ)
پادری ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک اس مباحثے کا منتظم اعلیٰ تھا۔ اُس نے ہی مسلمانوں کو چیلنج دیا تھا اور پھر عبداللہ آتھم کو عیسائیت کی نمائندگی کے لیے بھی چنا تھا۔ جس کی بظاہر تین وجوہات تھیں:
1۔ آتھم مقامی ہندوستانی تھا اور اس کا عیسائی ہو جانا مقامی لوگوں کو عیسائیت کی طرف مائل کرسکتا تھا۔
2۔ آتھم مسلمان رہ چکا تھا۔ اس کا نام آثم تھا۔ اسلام کے عقائد اور عیسائیت سے بھی خوب واقف تھا۔
3۔ اعلیٰ عہدے (ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر) پر فائز رہا تھا جس سے مقامی لوگ مرعوب ہوسکتے تھے۔
ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک چرچ مشن سوسائٹی کے تحت بطورمیڈیکل مشنری امرتسر میں تعینات تھا۔ وہ ایک افغان گھرانے میں پیدا ہوا۔ قریباً اڑھائی برس کی عمر میں عیسائی مناد رابرٹ کلارک اور اس کی اہلیہ نے یتیمی کی حالت میں اُسے سرحدی صوبے سے گود لیا، پرورش کی اور اعلیٰ تعلیم دلوائی۔ سکاٹ لینڈ کے شہر ایڈنبرا سے ہنری مارٹن کلارک نے MDکی سند حاصل کی اور مشنری کی ٹریننگ لینے کے بعد ہندوستان میں وارد ہوا۔ اس کی کارکردگی کی رپورٹس چرچ مشن سوسائٹی کے رسالہ میں شائع ہوتی رہیں جو سوسائٹی کے Archivesمیں محفوظ ہیں۔ ان آرکائیوز میں ہنری مارٹن کلارک کا ایک ذاتی خط بھی شامل ہے جو اُس نے 4؍ستمبر1894ء کو اپنے والد رابرٹ کلارک کے نام تحریر کیا۔ یہ وہ تاریخ ہے جب پیشگوئی انجام آتھم کی میعاد پوری ہوتی تھی۔ اس خط میں فیروزپور جاکر آتھم سے ملنے اور اس کی صحت کے بظاہر بہتر نظر آنے اور اس کے ذہنی بحران کا ذکر ہے۔
عبداللہ آتھم پیرانہ سالی کے ایام امرتسر میں گزار رہا تھا۔ مناظرے کے بعدوہ اس پیشگوئی کے رُعب میں سراسیمگی کا شکار ہوکر حواس باختہ رہنے لگا۔ شدید ذہنی دباؤ میںاسے ایسے بہت سے واہمے ہونے لگے کہ وہ ڈر کر کبھی کہیں بھاگتا، کبھی کہیں سر چھپاتا پھرتا۔ اس پیشگوئی کے نتیجے میں خدائے واحد و لاشریک سے وہ اس قدر مرعوب ہوا کہ پیشگوئی کی میعاد ختم ہونے تک لَوٹ کر امرتسر نہ گیا اور اُس نے عیسائی اخبار ‘‘نورافشاں’’ میں اقرار کیا کہ میں اثناء ایام پیشگوئی میں ضرور خونی فرشتوں سے ڈرتا رہا۔
آتھم کی نقل مکانی کا جواز معترضین نے یہ دیا ہے کہ اُس پر قاتلانہ حملے ہوئے جن کے بارے میں اُس کو یقین تھا کہ یہ حملے معاذاللہ حضرت مرزا صاحبؑ کی طرف سے کروائے جاتے ہیں تاکہ پیشگوئی پورا ہونے کا سامان ہو۔ اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ
‘‘تب ان کو سمجھ آیا کہ یہ میں نے اچھا نہیں کیا کہ اسلامی پیشگوئی کے خیال سے اس قدر بےقراری ظاہر کی۔ تب زہر خورانی کے اقدام کا منصوبہ اور تین حملوں کا بہانہ بنایا گیا۔ کیونکہ جس قدر خوف اُن کی سراسیمگی سے ظاہر ہو چکا تھا، وہ چاہتا تھا کہ اگر اس کا سبب الہامی پیشگوئی نہیں تو ایسا سبب ضرور ہونا چاہیے جو نہایت ہی قوی اور عظیم الشان ہو، جس سے یقینی طور پر موت کا اندیشہ دل میں جم سکے۔ سو جھوٹ کی بندشوں سے کام لے کر یہ اسباب تراشے گئے۔ ………کون نہیں سمجھ سکتا کہ ان کے جھوٹے اور بے ثبوت بہتانوں سے ان کا منہ کالا ہو گیا تھا۔ اور اس کلنک کو دور کرنے کے لیے بجز اس کے اَور کوئی تدبیر نہ تھی کہ یا تو عدالت فوجداری میں نالش کر کے ان بہتانوں کو ثابت کراتے اور یا چند گواہوں کے پیش کرنے سے ان کو ثبوت دیتے اور یا جلسہ عام میں قسم کھالیتے۔ مگر آتھم صاحب نے ان طریقوں میں سے کسی طریق کو اختیار نہیں کیا’’۔ (انجام آتھم)
یہ تجاویز حضورؑ نے آتھم کی زندگی میں ہی شائع فرمادیں۔مگر نہ اس نے نالش کی نہ اعلانیہ قسم کھائی۔
اس پر معترضین یہ کہتے ہیں کہ آتھم نے پیشگوئی کی میعاد ختم ہونے کی خوشی میں امرتسر میں نکالے جانے والے جلوس سے خطاب کرتے ہوئے عیسائیت سے اپنی وابستگی ظاہر کی اور اسلام کے خلاف روایتی بدزبانی کی۔ گویا اس نے رجوع الی الحق نہیں کیا اور اس طرح حضرت مسیح موعودؑ کی پیشگوئی مشروط بہ رجوع پوری نہیں ہوئی۔
یاد رکھنا چاہیے کہ رجوع کا تعلق دل کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس تمام عرصے میں اُس کا سراسیمہ ہو کر قریہ قریہ بھٹکتے پھرنا، اَن دیکھے اسباب سے خوفزدہ ہو کر مختلف مقامات پر پناہ ڈھونڈنا،قاتلانہ حملوں کا الزام لگا نا مگر ان پر قانونی چارہ جوئی نہ کرنا، نیز پیشگوئی کی میعاد کے آغاز کے دن سے انجام کے دن تک اس کا اسلام کی مخالفت میں منہ کھولنا نہ قلم اٹھانا، بانیٔ اسلام ﷺ کے خلاف کسی قسم کی دریدہ دہنی نہ کرنا، اس قلبی حالت کے حلفیہ اعلان سے اعراض کرنا، یہ سب آتھم کے رجوع الی الحق کے ثبوت نہیں ہیں تو اَور کیا ہے؟
اگرچہ رجوع کے لیے زبانی اقرار ضروری نہیں ہے۔مگر ایک صاحبِ ایمان کے لیے یہ ضروری ہے کہ جب اس سے رجوع کی بابت دریافت کیا جائے تو وہ اس کا اقرار کرنے میں تامل نہ کرے، جو آتھم صاحب نے ایک مرتبہ نہیں کئی مرتبہ کیا اور اپنے رجوع پر قسم نہ کھائی۔
پس آتھم کے عارضی رجوع سے اگرچہ عذاب وقتی طور پر اسی طرح ٹل گیا جس طرح قرآن کریم میں فرعون کے درباریوں کا احوال یوں بیان ہوا ہے کہ ہم نے انہیں عذاب کے ذریعہ پکڑا تاکہ وہ رجوع کریں۔ اور انہوں نے کہا: اے جادوگر، ہمارے لیے اپنے ربّ سے وہ مانگ جس کا اس نے تجھ سے عہد کررکھا ہے۔ یقیناً ہم ہدایت پانے والے ہو جائیں گے۔ پس جب ہم نے ان سے عذاب کو دور کردیا تو معاً وہ بدعہدی کرنے لگے۔ (الزخرف:49 تا 51)
گویا اللہ تعالیٰ عارضی رجوع پر بھی عذاب کو ٹال دیتا ہے۔ چنانچہ فرعونیوںنے آٹھ مرتبہ رجوع کیا اور آٹھ مرتبہ ان سے موعود عذاب ٹالا گیا۔
پھر عذابِ دخان آنے پر کفار کا رجوع اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یوں بیان فرمایا ہے: اے ہمارے ربّ! ہم سے یہ عذاب دور کردے، یقینا ًہم ایمان لے آئیں گے۔ (الدُّخان:13) اور اس عارضی رجوع پر اللہ تعالیٰ اپنی سنت کو یوں بیان فرماتا ہے: ہم عذاب تو ضرور کچھ عرصہ کے لیے ٹال دیں گے، مگر یہ غلط ہے کہ تم مومن بن جاؤ گے۔ بلکہ تم دوبارہ انہی شرارتوں کا اعادہ کرو گے۔ (الدُّخان:16)
پس ثابت ہوا کہ عارضی رجوع پر عذاب کو عارضی طور پر ٹال دیناسنت اللہ ہے اور پیشگوئی انجام آتھم اپنے آغاز سے انجام تک عین سنت اللہ کے مطابق ہے۔
جہاں تک اُس اعلان عام کا تعلق ہے جو عبداللہ آتھم نے پیشگوئی کی میعاد پوری ہونے پر امرتسر میں ہونے والے جلسہ عام میں پڑھا۔ تو ہنری مارٹن کلارک کے مذکورہ بالا خط سے یہ انکشاف ہوتا ہے کہ آتھم کا یہ ذاتی بیان نہ تھا بلکہ مارٹن کلارک نے اُسے لکھ کر دیا تھا۔
اس کے بعد حضورؑ نے اُسے چیلنج دیا کہ وہ حلفیہ اعلان کردے کہ اس نے رجوع نہیں کیا تھا اور اس پر پیشگوئی کے پورا ہونے کا خوف طاری نہ ہوا تھا ۔ نیز یہ بھی کہ قاتلانہ حملوںکے من گھڑت الزام میں قانون کا دروازہ کھٹکھٹانے سے اعراض کرنا اُس کی شکست اور حضرت اقدس علیہ السلام (یعنی نمائندۂ اسلام) کی فتح کا اعلانِ عام ہے۔
گو کہ عام طور پر پیشگوئی انجام آتھم کو5؍ جون1893ء سے شروع کرکے پندرہ مہینے تک یعنی6؍ ستمبر 1894ء تک خیال کیا جاتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس پیشگوئی کا آغاز تو اگرچہ 5؍جون 1893ء ہی سے ہوتا ہے مگر پندرہ مہینے بعد صرف ایک موڑ آتا ہے، منزل نہیں۔ اس دوران وہ رجوع کرتا ہے مگر حضور علیہ السلام کے چیلنج یعنی اعلانیہ حلف اٹھانے سے اعراض کرتا ہے۔اسی پس وپیش میں ایک سال گزرجاتا ہے۔ اس پر اُسے اللہ کے اذن سے مزید بارہ مہینے کی میعاد دی جاتی ہے جس میں وہ یقیناً ہلاک ہو جائے گا۔چنانچہ اس پیشگوئی کو ابھی سات ماہ کا عرصہ بھی نہ گزرا تھا کہ عبداللہ آتھم27؍جولائی1896ء کو ہلاک ہو گیا۔یوں اس پیشگوئی کی اصل مدت 5؍ جون1893ء سے شروع ہو کر 30؍ستمبر 1896ء تک تھی اور عبداللہ آتھم عین پیشگوئی کے مطابق اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقررہ میعادمیں ہلاک ہوگیا۔
آتھم کی موت پر چرچ کے شمارے میں پانچ سطری خبر شائع ہوئی لیکن اس میں حضورؑ کی پیشگوئی کا ذکر نہیں کیا گیا۔ اگر اس کی وفات اس معروف اور معرکہ آرا پیشگوئی کے مطابق نہیں ہوئی تھی تو یہ تو بہت قابل ذکر بات ہونی چاہیے تھی۔ کیونکہ جس مباحثہ کو حق و باطل کا معرکہ قرار دیا گیا ہو، جس میں فیصلہ کی واحد صورت آتھم کا انجام رہ گیا ہو، وہاں آتھم کی وفات کو اس قدر غیر اہم طریق پر ذکر کر کے کیوں چھوڑ دیا گیا؟ اس کے بعد پیشگوئی انجام آتھم کے پورا ہونے میں کیا شک ہو سکتا ہے؟
لیکن دوسری طرف حضرت اقدس علیہ السلام کی وفات کی خبر چرچ مشن سوسائٹی کے Church Missioary Review میں ڈیڑھ صفحہ پر شائع ہوئی ۔ جنگ مقدس کا تفصیل سے ذکر کیا گیا اور پیشگوئی آتھم کی ناکامی کا دعویٰ کرتے ہوئے یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ 1901ء کی مردم شماری میں حضرت مسیح موعودؑ کے پیر و کاروں کا اندراج بطور احمدی کیے جانے سے ہوتا ہے لیکن یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ آئندہ کتنی مردم شماریوں میں قادیانی رہنما کا ذکر ملتا ہے، اور کب تک!؟
پس یہ خدا کا خاص فضل تھا کہ خود اُن کے منہ سے ایک معیار طے کروایا اور پھر اس معیار پر اپنے موعود مسیح کی جماعت کو سرخرو فرمایا۔ چنانچہ ہندوستان کی تاریخ کی ممتاز سکالر Avril Ann Powellکاتجزیہ ملاحظہ ہو۔ وہ کہتی ہیں: 1890ء کی دہائی میں، امرتسر کے مباحثے کے زمانے میں، ان دو اقلیتوں (جماعت احمدیہ اور عیسائیت) سے تعلق رکھنے والوں کی تعداد ہزاروں میں تھی۔ احمدیوں نے اس کے بعد ایک بہت کامیاب عالمگیر تبلیغی تحریک کا آغاز کیاجس کے نتیجہ میں 1940ء کی دہائی میں ان کی تعداد پانچ لاکھ تک پہنچ گئی۔ اگرچہ پنجاب احمدیت کا تاسیسی وطن رہا مگر ہجرتوں اور بیعتوں کے نتیجے میں دنیا بھر کے مختلف علاقوں تک ان کا پیغام پہنچا، بالخصوص افریقہ اور انڈونیشیابلکہ برطانیہ اور امریکہ میں بھی۔
اور دوسری طرف عیسائیوں کی حالت یوں بیان کی ہے: 1920ء کی دہائی تک پنجابی عیسائیوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔ تاہم اگلی دو دہائیوں میں ان میں بہت کم اضافہ ہوا۔
اور پھر Powell نے مردم شماری کی رپورٹ کا ایک نہایت خوبصورت تجزیہ دیتے ہوئے لکھاہے: 1941ء کی مردم شماری میں پنجاب میں مقامی عیسائیوں کی تعداد پانچ لاکھ ریکارڈ ہوئی جو اُس وقت احمدیوں کی عالمگیر تعداد تھی، جس میں سے قریباً نصف پنجاب کے رہائشی تھے۔
پس یہ کیسا عظیم نشان ہے کسر صلیب کا!۔
1941ء کی مردم شماری غیرمنقسم ہندوستان کی آخری مردم شماری تھی۔ تقسیم ہند کے بعدہندوستان اور پاکستان دونوںہی کی مردم شماریوں میں جماعت احمدیہ کا ایک بڑھتی ہوئی جماعت کے طور پر ذکر ملتا ہے۔ بلکہ دنیا کے ہر ملک میں جہاں احمدی آباد ہیں وہاں کی مردم شماری میں جماعت احمدیہ مسلمہ سے وابستہ افراد کاذکراسلام اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی نسبت سے ملتا ہے۔
جنگ مقدّس کے واقعے کے قریباً سواسوسال بعد مضمون نگار کو برطانیہ میں موجود آرکائیوز پر تحقیق کے دوران ہنری مارٹن کلارک کے گھر، اُن کی قبراور اُن کی اولاد کو بھی تلاش کرنے کی توفیق ملی۔ اُن کے ایک پڑپوتے Mr Jolyn Martyn Clark کے پاس وہ الوداعی ایڈریس بزبان اردو فریم شدہ موجود ہے جو پادری ڈاکٹرہنری مارٹن کلارک کو ہندوستان سے رخصت ہوتے وقت پیش کیا گیا تھا۔ اس میں درج اُن کے کارناموں میں سے ایک یہ ہے کہ موصوف نے ‘جنگ مقدس’کے ایام میں تمام مصائب اور مشکلات کا نہایت استقلال سے مقابلہ کیا۔
مسٹر جولین مارٹن کلارک نہایت شریف النفس آدمی ہیں اور تدریس کے شعبہ سے وابستہ ہیں۔ اُن کی احمدیت میں دلچسپی پیدا ہوتی گئی تو لندن آنے کی دعوت انہوں نے بخوشی قبول کرلی۔ جب انہیں بتایا گیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جانشینی خلافت کی شکل میں بے مثال کامیابی کے ساتھ آج بھی چل رہی ہے، تو انہیں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ وہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سے شرفِ ملاقات حاصل کریں۔ اُن کی یہ خواہش حضور انور نے ازراہ شفقت منظور فرمائی۔ یوں موصوف 3؍دسمبر2011ء کو لندن آئے۔ مخزن تصاویر کی جماعتی تاریخ کی نمائش دیکھ کر انہوں نے کہا کہ ہنری مارٹن کلارک اور باقی مشنریوں کا تو کوئی نام بھی نہیں جانتا اور احمدیہ جماعت کے بانی (علیہ السلام)کا شروع کیا ہوا کام جس کی سب مخالفت کرتے تھے، کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہے!
حضور انور ایدہ اللہ سے ملاقات کے دوران حضورانور کے دریافت فرمانے پر انہوں نے کہا کہ میں نے تو جنگ مقدّس کے بارے میں حال ہی میں تحقیق کی ہے مگر آج مجھے اندازہ ہوا ہے کہ ہنری مارٹن کلارک کہیں ماضی میں کھو گیا ہے جبکہ ان کے مدّمقابل جو شخص تھا وہ دنیا بھر میں کامیاب ہے۔ خود مجھے کچھ سال پہلے تک علم نہ تھا کہ میرے پڑدادا کون تھے۔کچھ سال قبل اتفاق سے میں اپنے اجداد کی تلاش کر رہا تھا تو مجھے معلوم ہوا ہے کہ ہنری مارٹن کلارک میرے پڑداداہیں۔
حضور انور سے ان کی ملاقات نصف گھنٹے کے قریب جاری رہی۔ آخر پر اُن کی درخواست پر حضور انور نے ازراہ شفقت اُن کے ساتھ تصویر کھنچوائی۔ ملاقات کے بعد وہ نہایت جذباتی ہوکر کہنے لگے کہ حضور بہت ہی خاص آدمی ہیں۔ میں نے ان جیسا شخص اپنی زندگی میں نہیں دیکھا۔ عمر کے جس حصے میں مَیں ہوں، اس عمر میں کسی بات سے متأثر ہوجانابہت مشکل ہوتا ہے کیونکہ انسان سمجھتا ہے اس نے زندگی کو بہت قریب سے دیکھ لیا ہے۔ مگر میں حضور سے مل کر بہت متأثر ہوا ہوں۔ حضور اس قدر محبت کرنے والے ہیں کہ بیان کرنا مشکل ہے۔ وہ اتنے خاص ہیں کہ انہوں نے مجھے بھی خاص ہونے کا احساس دلایا ہے۔
پھر کہنے لگے کہ یہ اس قدر محبت کرنے والے ہیںکہ مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ جن کے یہ خلیفہ ہیں وہ کسی کو مرنے کی بددعا کس طرح دے سکتے ہیں (ان کا اشارہ پیشگوئی انجامِ آتھم کی طرف تھا)۔ اس پر اُن کو بتایا گیا کہ وہ ایک مباحثہ تھا جس میں عیسائیوں کو شکست واضح طور پر نظر آگئی تھی۔ لیکن وہ مُصر تھے کہ وہ جیت گئے ہیں اور اسلام کی شکست ہوئی ہے۔ اس پر بانیٔ جماعت احمدیہ نے اعلان فرمایا کہ ایسا ہے تو پھر خدا خود کوئی نشان دکھائے گا۔ یہ سن کرکہنے لگے: خدانے آج بھی نشان دکھایا ہے کہ میں جب سے ان سے ملا ہوں، میری حالت یہ ہے کہ میری زبان میرا ساتھ نہیں دے رہی۔
اللہ تعالیٰ کی ہزاروں لاکھوں کروڑوں برکتیں نازل ہوں اُس کاسرصلیب پر جس نے اس قرآنی حکم کی تعمیل کی کہ وَّیُنذِرَ الَّذِینَ قَالُوااتَّخَذَاللّٰہُ وَلَدًا (الکہف:5) یعنی وہ ان لوگوں کو ڈرائے جنہوں نے کہا اللہ نے بیٹا بنا لیا ہے۔
………٭………٭………٭………
روزنامہ ‘‘الفضل’’ ربوہ 21؍مارچ 2013ء میں مکرم عبدالصمد قریشی صاحب کی درج ذیل نظم شامل اشاعت ہے:
یہ چاہتوں کے صحیفے اُتارتا ہے وہی
دلوں میں نقشِ محبت ابھارتا ہے وہی
اُسی کے نُور سے ہے زندگی میں حُسن و جمال
ہماری زیست کی راہیں اُجالتا ہے وہی
وہ اپنے فضلوں سے کرتا ہے باثمر ہم کو
ہماری سوچ کے دھارے سنوارتا ہے وہی
وہی تو دیتا ہے قلب و نظر کو فکر و شعور
خیال و خواب کی دنیا نکھارتا ہے وہی
ہر امتحان میں کرتا ہے سرفراز ہمیں
مصیبتوں میں دکھوں سے نکالتا ہے وہی
کچھ ایسے کرتا ہے اپنوں کے درد کا درماں
غموں کے دَور میں اُن کو سنبھالتا ہے وہی
وہ بخشتا ہے دلوں کو عجیب لطف و سرور
نگاہِ لطف و کرم سے نوازتا ہے وہی